حالیہ مہینوں میں امریکی پالیسی سازوں نے چین کے ساتھ امریکی تعلقات کے حوالے تبدیل ہوتی ہوئی حکمت عملی کیلئے’’ذمہ دارانہ مسابقت ‘‘یا’’ذمہ دارانہ مقابلے بازی‘‘کی اصطلاح استعمال کی ہے۔16نومبرکوہونے والے ورچوئل سمٹ کے دوران،امریکی صدر اور چینی صدرنے ذمہ داری کے ساتھ مسابقت کرنے پرزوردیا۔بائیڈن نے اس بات پربھی زوردیاکہ ہمیں تزویراتی مفادات کوبھی احسن طریقے سے ہینڈل کرنا ہوگااورمعاملات کواس طرح سے آگے لیکر بڑھنا ہوگاکہ مسابقت تنازع کی شکل اختیارنہ کرے اورآپس میں رابطے ہرصورت میں برقراررہیں۔
چین کے عروج سے نمٹنےکیلئےبھارت کو بھی نئی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔گزشتہ ایک دہائی سے یہ بات کی جارہی ہے کہ بھارت کواپنی ہچکچاہٹ ختم کرکے چین کے خلاف بننے والے سکیورٹی اتحادکاحصہ بنناچاہیے اوراس میں فعال کرداراداکرنا چاہیے۔ ایسانہ ہوسکاہے اور نہ ہی مستقبل میں ہوسکے گا،اس کی دو وجوہات ہیں۔پہلی وجہ تویہ کہ بھارت کواپنے ہاتھ کی بوئی فصل کاٹنی پڑے گی جس کے سبب چین سے جوخطرات درپیش ہیں وہ اتحادمیں موجودبقیہ ممالک سے بالکل مختلف ہیں۔مختلف جغرافیائی پوزیشن اورجیواسٹریٹجک ترجیحات میں تضادات کی وجہ سے اتحادایک جیسے اہداف رکھنے سے قاصرہے۔چین کے خلاف نیٹو جیسے اتحاد بناناتقریباًناممکن ہے کیوںکہ اس میں شامل ممالک کی سلامتی کی ترجیحات میں ہمیشہ اختلافات رہیں گے اور بین الاقوامی بحران کی صورت میں ہم آہنگی بھی نہ ہوسکے گی،اس کمزوری سے بھارت کے پڑوسی بخوبی واقف ہیں۔
مزید برآں کسی بھی اتحادی یانیم اتحادی فریم ورک کامطلب ہے کہ بھارت اپنی آزاد جغرافیائی سیاسی شناخت اورمستقبل میں ایک عظیم طاقت ہونے کا دعویٰ ترک کردے۔اگرچہ ہم یہ سنتے رہتے ہیں کہ بھارت بدل گیاہے لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ بھارت کیلئےمحض اپنی بنیادی شناخت کوتَرک کرناکتناآسان یافائدہ مندہوگا،جوکہ ناگزیرہے کیونکہ مودی سرکارنے ہنوتوا،آرایس ایس کے جن کوبوتل سے نکال کرخودکیلئے بڑاخطرہ مول لے رکھاہے۔اگربھارت امریکی قیادت والے اتحادکوقبول کرتاہے تواس بارے میں حتمی طورپرنہیں کہاجا سکتاکہ آیابھارت کثیرقطبی دنیامیں مکاری یاذہانت کے ساتھ اپنی شناخت برقراررکھ سکے گایانہیں یاموجودہ دنیامیں ایک مستحکم اور خوشحال خطے میں،ایک ایسے عالمی نظام کے ساتھ ملناجوبہت سے لوگوں کیلئےکام کرتاہے نہ کہ مخصوص طاقتوں کیلئے ۔تاریخ یہ بتاتی ہے کہ گزشتہ100برسوں میں بلاک پرمبنی اتحاداستحکام لانے کی بجائے تنازعات کاباعث بنے ہیں،جبکہ گلوبل دنیامیں اتحادایک مختلف صورت حال سامنے لارہے ہیں۔
آج، حریف طاقتوں کے درمیان صرف تزویراتی استحکام ہی باہمی مفادنہیں ہے بلکہ ایک پائیدارعالمگیرمعیشت کاازسرنوحصول، انسانی ترقی اورانسانی سلامتی کوفروغ دینا،موسمیاتی تبدیلی اورماحولیاتی تحفظ کاانتظام کرنا،اورمہلک وبائی امراض جیسے بین الاقوامی مسائل سے نمٹنابھی ملکی سلامتی کی تعریف میں آتاہے۔ یہ تمام مسائل حالیہ برسوں میں عالمی چیلنجوں میں سرفہرست رہے ہیں،اورعظیم طاقتوں کی مسابقت اکثردنیاکودرپیش گہرے مسائل کیلئےایک غیرمعمولی خلفشارکا باعث بن رہی ہے۔بلاشبہ یہ تمام مسائل اس بات کے متقاضی ہیں کہ عالمی نظام کی درستگی کیلئےتمام عالمی طاقتیں اپنی دشمنیوں کومحدودکرکے عالمی سطح پرباہمی تعاون کامظاہرہ کریں۔یہی وہ بنیادی نکتہ ہے لیکن بدقسمتی سے مودی سرکارنے اپنے اقتدارکیلئے ہندوتوایعنی ہندوبرتری کاکارڈکھیل کراپنے ہاں کی تمام اقلیتوں پرجوظلم وستم کاسلسلہ شروع کررکھاہے،اس کے خلاف اب دنیابھرمیں آوازیں اتھناشروع ہوگئی ہیں بلکہ خود امریکی میڈیابھی چلااٹھاہے اوراس سلسلے میں انسانی حقوق تنظیموں کااپنی اپنی حکومتوں پردباؤبڑھناشروع ہوگیاہے جومستقبل میں مزیدبڑھنے کے ساتھ ساتھ پالیسی سازاداروں کواس سے نمٹنا اتنا آسان نہ ہوگا۔
پہلی سردجنگ نے یہ ثابت کیاکہ کس طرح،مسابقت کے حصول میں،جمہوریتیں اپنے آپ کوایک جنون میں مبتلاکرلیتی ہیں،غیرلبرل پالیسیوں میں مشغول ہو جاتی ہیں، دفاع کیلئےکسی بھی معقول ضرورت سے ہٹ کرسیکورٹی اداروں کوملٹرائز‘‘کرسکتی ہیں، متوازن اقتصادی ترقی کے مشن کوبھول جاتی ہیں،اور’’ عالمی نظام کے خصوصی تصورات کاپرچارکرتی ہیں۔ہوناتویہ چاہیے کہ مودی سرکاراپنے ہاں جاری مذہبی تعصب،ہندازم کی برتری اوراپنے ہاں بسنے والی تمام اقلیتوں پرزندگی تنگ کرنے والی تاریخ کودہرانے کاموقع نہ دے،خاص طورایک ایسے وقت پرجبکہ اسے اپنی تہذیب،معیشت اورمعاشرے کی بحالی کیلئےابھی بہت طویل سفرطے کرنا ہےمودی سرکارکویہ بھی ذہن نشین کرناہوگاکہ آج اقتدارکے نشے میں ہونے والی تمام غلطیاں کل کلاں اس کے خلاف ایک مضبوط ایف آئی آردرج ہورہی ہے۔دورجانے کی ضرورت نہیں ،اپنے آقاکی تاریخ پرنظردوڑائے تواپنے مفادات کی تکمیل پراس کی اپنے دوستوں کوبے رحمی سے قربان کرنے کی روایات اس کی اپنی تاریخ کےاوراق سے بھری پڑی ہے۔
بڑی طاقتوں کے درمیان کچھ حدتک جغرافیائی سیاسی مسابقت ناگزیرہے،اوراس کے امکان تب بڑھ جاتے ہیں اگردونوں طاقتیں پڑوسی بھی ہوں لیکن اس مسابقت اورمقابلے بازی کی شدت ہمیشہ فریقین ہی طے کرتے ہیں۔انیسویں صدی میں اینگلو-روسی دشمنی،بیسویں صدی کے پہلے نصف میں برطانیہ جرمنی دشمنی،امریکاسوویت جدوجہد،اوراثرورسوخ اورطاقت کے حصول کیلئےمتعدددیگر علاقائی رقابتوں میں مختلف قسم کے مقابلوں کامشاہدہ کیاجاسکتاہے۔کچھ شدیدطورپرمتشددتھے،کچھ زیادہ پیچیدہ اورلڑائی سے اپنے آپ کوروکے ہوئے تھے۔بھارت اورچین کی دشمنی کچھ وجوہات کی وجہ سے ان کے خون میں شامل ہے۔دونوں اپنی پرانی تہذیبوں کوقابل فخرجان کراس کی فوقیت کے قائل ہیں،پیچیدہ جغرافیائی سیاست کی تاریخ کے ساتھ پڑوسی بھی ہیں،خاص طورپرہمالیہ کے سرحدی علاقوں میں دونوں کے ذیلی علاقہ جات میں مستقل مسائل بڑھتے جارہے ہیں۔اس کے علاوہ دونوں طاقتیں اپنے آپ کو خطے کے ’’پولیس مین‘‘ کے طورپربھی دیکھتی ہیں جبکہ پاکستان کی جغرافیائی حیثیت کاسب کوشدت سے احساس ہے اورمودی سرکاراپنے آقا امریکااورمغرب کویہ باورکرانے کی کوشش کررہاہے کہ چین کوکمزورکرنے کیلئے پاکستان کوسبق سکھاناضروری ہے لیکن اب یہ کسی کے بس میں نہیں رہاکہ طاقت کے زورپرایساکرسکے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کومعاشی لحاظ سے دباؤمیں رکھ کراپنے مقاصد پورے کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔
تاہم ان سب کاہرگزیہ مطلب نہیں کہ اورخطے کی تینوں طاقتیں تصادم کی طرف بڑھنے سے گریزاں ہیں لیکن مودی سرکارچین کی آڑ میں امریکااورمغرب کواپنی غلامی کایقین دلاکرتمام فوائدسمیٹ رہاہے۔اس میں شک نہیں کہ متنازع سرحدیں یقیناً ایک ایسا مسئلہ ہیں، جس پراعلیٰ سطح کی سیاسی اورفوجی توجہ اور فریقین کوانتہائی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔لداخ میں جاری تعطل نے بہت سے بھارتی مفروضوں کوہلاکررکھ دیاہے،جس پرچین اوربھارت نوّے کی دہائی سے امن برقراررکھنےکیلئےانحصارکرتے تھے۔پاکستان کےساتھ پہلے جیسی سرحدی چھیڑچھاڑبھی بندہے لیکن بلوچستان میں بدستوربھارتی دہشتگردی جاری ہے۔امن و سکون کی بحالی کیلئےتمام فریقین کوچاہیے کہ اپنی سلامتی کے بنیادی مفادات کوخطرے میں ڈالے بغیرامن وسلامتی کے حصول کیلئے متنازعہ مسائل کوکسی بیرونی دباؤکے بغیران کے حل کیلئے کوشاں رہیں جس میں سرفہرست مسئلہ کشمیرہے۔ہندوسرکارجس قدرجلداس مسئلے کوحل کرنے کی کوشش کرے گی،اسی قدراپنی مزیدمعاشی بربادی سے محفوظ ہونے کے ساتھ ساتھ اس خطے کی ترقی کے دروازے کھلتے جائیں گے تاہم اس توازن کوحاصل کرنےکیلئے مودی سرکارسے کوئی توقع رکھناعبث ہوگا۔
بھارتی پالیسی سازوں کویہ بھی یادرکھناچاہیے کہ چین کااصل مخالف اورمحاذہمیشہ اس کی مشرقی سمندری سرحدوں پررہے گا۔اپنے تمام داخلی مسائل کے باوجود ،امریکاایک بڑی طاقت ہے۔اس نے گزشتہ صدی میں چین کے مشرقی پڑوسیوں کوبحرالکاہل میں سلامتی کی ضمانت دیتے ہوئے بحرالکاہل کی سکیورٹی کے حوالے سے اپنی شناخت ضروربنائی ہے لیکن اب افغانستان سے انکلاء کے بعد اس کی کارجہ پالیسیوں میں جوہری تبدیلیوں کے اشارے بھی مل رہے ہیں ۔ امریکااورچین کے تعلقات مستقبل میں بھی پیچیدہ ہی رہیں گے،اسی لئے بھارت ان تمام حالات سے فوائدسمیٹنے کیلئے خودکوقربانی کابکرابنانے کیلئے پیش کررہا ہے لیکن لداخ میں بری طرح پسپائی سے مغرب اورامریکاکوبھی سمجھ آگئی ہے کہ قربانی کے بزدل بکرے کی پرورش کرنے کے باوجوداس سے خاطرخواہ نتائج نہیں مل سکتے جس کیلئے وہ کوئی درمیانی راستہ تلاش کرنے کی تگ ودوکررہے ہیں اوردوسری طرف ان کویہ بھی احساس ہوگیاہے کہ مودی تنازعات سے فائدہ اٹھارہاہے اورخود اس کاحصہ بننے سے گریزاں ہےخاص طورپرایشیاان تنازعات کاشاید آنے والے دنوں میں بھی مرکزہی رہے گا،اس لیے بھارت ان حالات کابھرپورفائدہ اٹھانے کی حکمت عملی پرعمل پیراہے۔
مغرب میں کچھ لوگ چین سے ٹکراؤکیلئےبھارت کااستعمال کرناچاہتے ہیں۔اگرچہ چین کے خلاف ان ممالک کی اپنی پالیسی تضادات سے بھری ہوئی ہے اور وقتاً فوقتاًتبدیل ہوتی رہتی ہے۔بھارت کے پالیسی سازچین سےٹکراؤکے یورپی ایجنڈےکیلئےبھارتی کندھا استعما ل کرنے کی دعوت تودے رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ اوراسے عالمی طاقت بننے سے روکنے کی ذمے داری امریکاومغرب پرعائدکرکے اپنی جان بچانے کی پالیسی بھی اپنائے ہوئے ہے۔بھارت کی جغرافیائی وسیاسی ترجیحات،اس کی سرحدی سلامتی،برصغیراورمغرب کے بعد کے کثیرقطبی عالمی نظام کی تشکیل کے مقابلے میں بہت محدودہیں اوربھارت کے پالیسی سازاس بات سے بھی کوفزدہ ہیں کہ آئندہ چین کے ساتھ تصادم کی صورت میں پاکستان ایوب خان کے زمانے والی غلطی نہیں دہرائے گا۔
بھارت میں یہ سوچ بھی زورپکڑرہی ہے کہ بھارت کواس بات پربھی غورکرناچاہیے کہ امریکااورچین کی تزویراتی مسابقت غیرمتوقع رخ بھی اختیارکرسکتی ہے، مثلاً ضروری نہیں کہ یہ مسابقت اوررقابت کسی تنازع کی صورت ہی اختیارکرے بلکہ ایسابھی ہوسکتاہے کہ کسی وقت یہ دونوں طاقتیں اپنی اس مسابقت کو معاونت میں بدل دیں اوراپنااپنااثرورسوخ قائم رکھنےکیلئےچندمشترکہ مفادات اور ترجیحات پرمتفق ہوجائیں۔ایسی صورت میں بھارت کہاں کھڑاہوگا؟ اس لیے کسی دوسرے ملک کے مفادات کیلئےکسی سے بھی غیر ضروری دشمنی مول لیناکہاں کی عقل مندی ہے جبکہ پاکستان کی سرحدپرایک ایساہمسایہ بھی موجودہ ے جوکسی بھی وقت خطے میں تبدیلیوں کوحیران کن اندازکی سمت موڑسکتاہے۔
مزید یہ کہ کئی دہائیوں کے باہمی انحصارکوآسانی سے ختم نہیں کیاجاسکتا۔کانگریس میں موجود سرمایہ داراورکاروباری افرادچین کے ساتھ700/ارب ڈالرکے تجارتی تعلقات کواتنی آسانی سے ختم نہیں ہونے دیں گے۔اس تجارت میں33فیصد کی شرح سے اضافہ ہواہے۔ اوردوسرابھارت کے تمام ہمسایوں کے ساتھ بڑی تیزی کے ساتھ چین کے بڑھتے ہوئے تجارتی تعلقات کے بعدان ملکوں کوبھی بھارت کی اجارہ داری سے جہاں رہائی نصیب ہورہی ہے وہاں اپنی سلامتی کیلئے چین پربڑھتاہوااعتمادان کوبھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات کرنے کی ہمت بھی عطاکرچکاہے۔یہی وجہ ہے کہ پہلی مرتبہ نیپال نے بھارت کواپنے ہاں جانے والی سڑک اورجیل پر بھارتی قبضے پرنہ صرف سخت احتجاج کیابلکہ بھارت کواپناقبضہ بھی چھوڑناپڑا۔بھارت کواب اس بات سے بھی شدیدتجارتی خطرہ لاحق ہوگیاہے کہ چین نے نیپال کی بھارتی سرحدپراپنی تجارتی منڈی کوفروغ دینے کیلئے سرمایہ کاری پرتوجہ دیناشروع کردی ہے جس سے آئندہ بھارت میں چینی مال کی اسمگلنگ سے بھارتی کارخانوں اورفیکٹریوں کے مال کوسخت مقابلہ درپیش ہوگاجس کافی الحال وہ مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ اس کے نتیجے میں بھارتی کارخانے بندہونے کابھی شدیدخطرہ ہے/اس کے ساتھ ساتھ نہ ہی دنیا کی بڑی بڑی سپلائی چین کمپنیاں چاہیں گی کہ بھارت کی خواہش پرچین کے ساتھ تعلقات کومکمل طورپرختم کردیاجائے۔
بھارتی سرمایہ داریہ سوچنے پرمجبور ہیں کہ اکیسویں صدی کی یہ دہائی ایک ایسی دہائی ہے،جہاں بھارت کو چاہیے کہ وہ اپنی پالیسیوں پرنظرثانی کرے،بھارت نہ صرف چین بلکہ دیگرچھوٹی ترقی پذیرمعیشتیں جنہوں نے معیاری حکمرانی اورملک میں سماجی و اقتصادی استحکام فراہم کیاہے ان کے ساتھ مل کرکام کرنے کو ترجیح دے۔اپنے علاقائی مفادات کو سامنے رکھ کرچین اورپاکستان سے تعلقات کو آگے بڑھائے،جن شعبوں میں چین اورپاکستان کے ساتھ باہمی تعاون سے آگے بڑھاجاسکتاہے وہاں کسی داخلی سیاست یا دیگرممالک کے مفادات کوسامنے رکھ کر پیچھے نہیں ہٹناچاہیے اورجہاں باہمی مسائل ہوں وہاں بھی ان کی شدت کواتنارکھاجاناچاہیے کہ واپسی کاراستہ کھلارہے۔اس کیلئے انتہائی اہم ہے کہ باہمی تنازعات کوحل کرنے کیلئے سنجیدگی اختیارکی جائے۔بھارت کے تمام اہم سرمایہ کارپہلے ہی کشمیرتنازعہ پرجاری بھاری اخراجات سے جان چھڑانے کامشورہ دے رہیں ہیں لیکن بھارتی فوجی جنتااپنی اہمیت کوجتانے کیلئے مودی سرکار کویہ کہہ کرخوفزدہ کررہی ہے کہ اگرکشمیرہاتھ سے نکل گیاتوبھارت مزیدکئی حصوں میں تبدیل ہوجائے گالیکن یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ روس جیسی مضبوط اورایٹمی طاقت افغانستان کے ساتھ جنگی اخراجات کی بناء پرہی اس کے بطن سے مزیدچھ ریاستیں وجودمیں آگئیں اب بھلامودی سرکارکب تک یہ بوجھ برداشت کرپائے گی۔یہی وجہ ہے کہ بھارت کوچین کے مقابلے میں خودکوکیش کروانے میں جہاں جلدی ہے وہاں اس کی تباہی کاراستہ بھی کھل جانے کا امکان ہے۔