The Fragrance Of Devotion

ایثارووفاکی خوشبو

:Share

لفظ بھی بچوں کی طرح ہوتے ہیں،معصوم اوربھولے بھالے بچوں کی طرح ،بہت محبت کرنے والے،لاڈوپیارکرنے والے،نازوادا والے،تنگ کرنے والے، روٹھ جانے والے اورپھربہت مشکل سے ماننے والے یاہمیشہ کیلئےمنہ موڑلینے والے۔کبھی تومعصوم بچوں کی طرح آپ کی گودمیں بیٹھ جائیں گے پھرآپ ان کے بالوں سے کھیلیں،ان کے گال تھپتھپائیں تووہ کلکاریاں مارتے ہیں، انہیں چومیں چاٹیں بہت خوش ہوتے ہیں وہ۔ آپ ان سے کسی کام کاکہیں تووہ آمادہ ہوجاتے ہیں۔محبت فاتح عالم جوہے۔کبھی تنگ کرنے پرآجائیں توان کارنگ انوکھاہوجاتاہے۔آپ ان کے پیچھے دوڑدوڑکرتھک جاتے ہیں لیکن وہ ہاتھ نہیں آتے۔کہیں دم سادھے چھپ کربیٹھ جاتے ہیں اورآپ انہیں تلاش کرتے رہتے ہیں۔آپ ہلکان ہوں توہوجائیں وہ آپ کو تنگ کرنے پراترے ہوتے ہیں اور جب آپ کی ہمت جواب دے جاتی ہے تووہ دیکھومیں آگیاکہہ کرآپ کے سامنے کھڑے مسکرانے لگتے ہیں۔

بچوں کی طرح لفظوں کے بھی بہت نازنخرے اٹھانے پڑتے ہیں اوراگراللہ نہ کرے وہ روٹھ جائیں اورآپ انہیں منانے کی کوشش بھی نہ کریں تب تو قیامت آجاتی ہے۔ایک دم سناٹا،تنہائی اداسی،بے کلی آپ میں رچ بس جاتی ہے،آپ خودسے بھی روٹھ جاتے ہیں۔ ہاں ایساہی ہوتاہے۔آپ کاتومیں نہیں جانتا، میرے ساتھ توایساہی ہے۔میں کئی ہفتوں سے اسی حالت میں ہوں۔کچھ سجھائی نہیں دیتا، بے معنی لگتی ہے زندگی،دوبھرہوگیاہے جینا…… لیکن پھر وہی جبرکہ بڑامشکل ہے جینا،جئے جاتے ہیں پھربھی۔وہ رات بھی عجیب سی تھی۔بے کلی کم ہونے کانام نہیں لیتی تھی اوربالآخرصبح ہوئی تو کینیڈاکیلئے روانہ ہوگیا۔

بہن عارفہ مظفراورماجدبھائی ٹورنٹوائیرپورٹ پرمنتظرتھے۔یوں توپچھلے ڈیڑھ سال سے باقاعدگی کے ساتھ ای آوازچینل پر”ہارڈ ٹاک”کے عنوان سے ہفتہ وارپروگرامزمیں عالمی اوربین الاقوامی موضوعات پرآن لائن کھل کربات ہوتی ہے لیکن ان کی پرخلوص دعوت پریہ پہلی ملاقات ہوئی،سچ پوچھئے تو اس قدرعزت افزائی پرشکریہ ادا کرنے کیلئے الفاظ بھی کم پڑگئے ہیں۔کس قدروطن کی محبت میں سرشارامریکاوکینیڈاکیلئے براہ راست اورآن لائن ساری دنیاکے ممالک میں اس قدرعمدگی اورپرعزم لہجہ میں ایک آوازکی دنیاسجارکھی ہے اورایک بہترین پاکستان کیلئے نہ صرف کوشاں ہیں بلکہ پاکستان کی نمائندگی کاحق اداکررہی ہیں۔ ایسے پرخلوص افراداورمتحرک اداروں کی حوصلہ افزائی کیلئے مقتدرافرادکواپناحق اداکرنے کی ضرورت ہےان کی معیت میں دیگراہم ہم وطنوں سے ملاقات بھی ایک گراں قدرسرمایہ رہی جس کاذکرکسی اورکالم میں ہوگا ان شاءاللہ۔

میں اس قدرمصروفیات کے باوجودملکی صورتحال سے مکمل آگاہی کیلئے کالم کی شکل میں اپنی ڈیوٹی اداکرتارہا۔تھوڑی دیر کیلئے ای میل دیکھنے کی کوشش کرتارہاہوں توان گنت،ہزاروں دعاگومحبتوں کے پھول سجائے میرااس طرح استقبال کرتے ملے کہ اپنے کریم ورحیم رب کے کرم ورحم کی بارش میں مکمل طورپربھیگ جاتا ہوں اورخودمیں دوبارہ اتنی قوت محسوس کرتاہوں کہ اپنے اردگردکی بھی خبرلے سکوں۔

وطنِ عزیزکی طرف نگاہ اٹھتی ہے تودل میں ایک کسک سی پیداہوجاتی ہے کہ آخرہم کہاں جارہے ہیں؟پھرسوچتاہوں کوئی بھی ہو…جب طاقت ہواس کے پاس”ہتھیاربند جتھہ ہو،حکم بجالانے والے خدام ہوں،راگ رنگ کی محفلیں ہوں،جام ہوں،عشوہ طرازی ہو،دل لبھانے کاسامان ہو،واہ جی واہ جی کرنے والے خوشامدی اوربغل بچے ہوں……تو اس کے دیدے شرم وحیاسے عاری ہو جاتے ہیں۔ شرم وحیاکااس سے کیالینادینا!چڑھتاسورج اور اس کے پوجنے والے بے شرم پجاری جن میں عزت ِنفس نام کوبھی نہیں ہوتی۔بس چلتے پھرتے روبوٹ………تب طاقت کانشہ سرچڑھ کربولتاہے ۔نیب میں جن افراد کوملکی دولت لوٹنے کامجرم ٹھہراتے ہوئے فیصلوں کاانتظارتھا،وہی عدم اعتمادجیساآئینی کھیل کرمرکزمیں حکومت بنالیتے ہیں ، گویاایک پیغام ملتاہےکرلوجوکچھ کرنا ہے ہم تودھڑلے سے ایسے ہی بے شرمی کامظاہرہ کرتے رہیں گے۔

لیکن مجھے آج ان کے برعکس کرداروں کاذکرکرناہے کہ جن کاذکرآنکھوں کی ٹھنڈک،دلوں کاسکون اوراطمینان وفرحت بخش ہے ۔ہاں کوئی بھی ہو، کہیں بھی ہو، انکارسنناتواس کی لغت میں ہی نہیں ہوتا۔انکارکیاہوتاہے وہ جانتاہی نہیں ہے لیکن ہوتایہی آیاہے،ہوتا یہی رہے گا۔منکرپیداہوتے رہتے ہیں۔نہیں مانتے کانعرہ ٔمستانہ گونجتارہتاہے،تازیانے برستے رہتے ہیں،کھال کھنچتی رہتی ہے، خون بہتا رہتا ہے لیکن عجیب سی بات ہے ،جتنی زیادہ شدت سے نہیں مانتے کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے ،ہر جتن ہرحربہ اپنایاجاتاہے،وہ آوازاسی شدت سے گونجنے لگتی ہے چاروں طرف۔ نہیں مانتے کارقص …….رقص ہی نہیں،رقصِ بسمل، نہیں مانتے نہیں مانتے کا نغمہ اور گھومتا ہوا رقاص۔

کیابات ہے جی،کھولتے ہوئے تیل کے اندرڈالاجاتاہے،تپتے صحرامیں لٹاکر،سینے پرپہاڑجیسی سلیں رکھی جاتی ہیں،برفانی تودوں میں کودجاتے ہیں لیکن نعرۂ مستانہ بلندہوتارہتاہے۔رقص تھمتاہی نہیں اوریہ توحیدکارقص،جنوں تھمے گابھی نہیں۔زمین کی گردش کوکون روک سکاہے!بجافرمایاآپ نے، بندوں کوتوغلام بنایاجاسکتاہے،ان پررزق روزی کے دروازے بندکیے جاسکتے ہیں،یہ دوسری بات ہے کہ ہم نادان صرف روپے پیسے کوہی رزق سمجھ بیٹھے ہیں۔بندوں کوپابہ زنجیرکیاجاسکتاہے،قیدخانوں میں ٹھونس سکتے ہیں آپ،عقوبت خانوں میں اذیت کاپہاڑان پرتوڑسکتے ہیں۔پنجروں میں بندکر سکتے ہیں،معذورکرسکتے ہیں،بے دست وپا کر سکتے ہیں،ان کے سامنے ان کے پیاروں راج دلاروں کی توہین کرسکتے ہیں،انہیں گالیاں دے سکتے ہیں،جی جی سب کچھ کر سکتے ہیں لیکن ان کواپنی مرضی کاغلام نہیں بناسکتے۔

صدیوں سے انسان یہ دیکھتاآیاہے،انکارکرنے والوں کوبھوکے کتوں اورشیروں کے آگے ڈال دیاجاتاتھا۔اس جگہ جہاں چاروں طرف خلق خداکاہجوم ہوتااورایک جابرتخت پربراجمان ہوکریہ سب کچھ دیکھتااورقہقہے لگاتااورخلق خداکویہ پیغام دیتاکہ انکارمت کرنا،کیاتوپھریہ دیکھویہ ہوگاتمہارے ساتھ بھی۔ہرفرعونِ وقت اپنی تفریح طبع کیلئےیہ اسٹیج سجاتاہے،سجاتارہے گا۔ایسا اسٹیج جہاں سب کرداراصل ہوتے ہیں،فلم کی طرح اداکارنہیں۔لال رنگ نہیں،اصل بہتاہواتازہ خون،زندہ سلامت انسان کا،روناچیخنابھنبھوڑنا کاٹناسب کچھ اصل…….بالکل اصل۔ہوتارہاہے اورہوتارہے گا،فرعونیت توایک رویے کانام ہے،ایک بیماری کانام ہے۔ ایک برادری ہے فرعونوں کی،فرعونوں کی ہی کیا…….ہامان کی،شدادکی،قارون کی،ابولہب کی،ابوجہل کی۔یہ برادری کانام ہے جس میں کسی بھی وقت کسی بھی مذہب وملت کے لوگ ہوسکتے ہیں۔بس بچتاوہ ہے جس پررب کی نظرِکرم ہو۔

سب کچھ قیدکیاجاسکتاہے،سب کچھ لیکن ایک عجیب سی بات ہے،اسے قیدنہیں کیاجاسکتا،بالکل بھی نہیں،مشکل کیاممکن ہی نہیں ہے۔عجلت نہ دکھائیں ،خوشبوکوقید نہیں کرسکتے آپ!اورپھرخوشبو بھی توکوئی ایک رنگ ایک مقام نہیں رکھتی ناں،بدلتے رہتے ہیں اس کے رنگ،خوشبوکے رنگ ہزار…. بات کی خوشبو،جذبات کی خوشبو،ایثارووفاکی خوشبو…….بس اب آپ چلتے رہئے اوران تمام خوشبوؤں کی رانی ہے عقائدکی خوشبو،دین کی خوشبو،نظریات کی خوشبو ۔ یہ خوشبوقیدنہیں کی جاسکتی۔جب بھی دبائیں ابھرتی ہے۔وہ کیایادآ گیا:”جتنے بھی توکرلے ستم،ہنس ہنس کے سہیں گے ہم”۔جتناخون بہتاہے اتنی ہی خوشبو پھیلتی ہے۔پھرایک وقت ایسا بھی آتاہے جب دردخودہی مداوابن جاتاہے دردکا۔دیکھئے پھرمجھے یادآگیا:
رنگ باتیں کریں اورباتوں سے خوشبو آئے
درد پھولوں کی طرح مہکے اگرتوآئے

یہ سب کچھ میں آپ سے اس لیے کہہ رہاہوں کہ کچھ عرصہ قبل ایک خبرآئی۔آپ نے دیکھی،پڑھی یاسنی ہوگی۔اگرنہیں،تویہ بتانے کی سعادت شائدمیرے حصے میں آرہی ہے لیکن نہیں،یہ تواس کاکمال ہے جس نے ہم جیسے بے خبروں کوبتایاہے۔ (نیویارک ۔آن لائن)امریکی آرمی کاایک اسپیشلسٹ میٹری ہولڈبروکس گوانتاناموبے کے عقویت خانے میں کلمۂ شہادت پڑھ کر حلقہ بگوشِ اسلام ہوگیاتھا۔نوجوان فوجی افسرہولڈبروکس نے جن کی ڈیوٹی صرف چھ ماہ تک کیوباکے عقوبت خانے میں مسلمان قیدیوں کی نگرانی اوربعض اوقات اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ لیجاتے وقت رہنمائی کرناہوتی تھی ،مسلمان قیدیوں کے اخلاق اور عبادات سے متاثر ہوکراسلام قبول کرلیا۔ہولڈبروکس نے ایک مختصر سی ای میل میں تسلیم کیاکہ مراکشی اوردیگر مسلمان قیدیوں کے حسنِ اخلاق اورتلاوت ِقرآن پاک جووہ عقوبت خانے کی سخت ترین جالیوں کے عقب میں کرتے تھے،کی مانیٹرنگ کرتے ہوئے وہ بے حدمتاثرہواتھا۔اورکیابات باقی رہ گئی جناب۔

دیکھئے!چراغ کوتوپھونک مارکربجھایاجاسکتاہے،نورکوکون بجھاسکتاہے!جی جناب نورکوتوپھونک مارکرنہیں بجھایاجاسکتا۔ اسلام نورہے،قرآن حکیم نور ہے،روشنی ہی روشنی،صراط مستقیم کھراسودا……..اسی قرآن کونافذکرنے کیلئے توپاکستان جیسی معجزاتی ریاست عطاہوئی تھی جس نے یہ سکھایاکہ اس ملک کیلئے جان قربان کردیناسب سے بڑااعزازہے اورماں باپ،بیوی بچے اورپوری قوم کےعلاوہ ملائکہ بھی استقبال کیلئے جمع ہوجاتے ہیں کہ بندے نے اپنے رب سے وفاداری کا جوحلف اٹھایاتھااس میں یہ کامیاب ہوگیا۔نجانے مجھے آج ایک مرتبہ پھروہ135نوجوان جوارضِ وطن کیلئےبرف کے پہاڑوں میں دفن ہوگئےاوریہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے کہ اب تک آٹھ ہزارسے زائد نوجوان ان سردترین وادیوں کارزق بن گئے ہیں کہ انہوں نے یہ حلف اٹھایاتھاکہ اس ملک کی سرحدوں کی ہرحالت میں حفاظت کریں گے۔بابااقبال کیاخوب فرماگئے:
وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے
مرے بت خانے میں کعبے میں گاڑوبرہمن کو

میں پچھلی چاردہائیوں سے زائدبرطانیہ میں مقیم ہوں اورمجھے ہرسال کئی مرتبہ یورپ کے دیگرممالک کے ساتھ ساتھ امریکاو کینیڈاکاسفرکرنے کاموقع ملتارہتاہے، ہرسال نومبرمیں ان تمام ممالک کے شہری اپنی افواج سے یکجہتی کیلئےبڑی تعداد اپنے سینے پرپوپی یعنی پوست کاسرخ پھول ہروقت سجائے رکھتی ہے۔یہ پھول پہلی اوردوسری جنگ عظیم میں اپنی جان کانذرانہ پیش کرنے والے فوجیوں کی یاددلاتاہے۔ان تمام ممالک کے شہری اس پھول کو خریدکراپنے کوٹ کے کالریاشرٹ اورجیکٹ پرسجاتے ہیں اوراس پھول کی فروخت سے ہونے والی آمدنی جنگِ عظیم میں مارے جانے والے فوجیوں کے پسماندگان کی فلاح وبہبود اوریادگاروں پرخرچ کی جاتی ہے۔یہ پھول دراصل ملک وقوم کاتحفظ کرنے والے فوجیوں سے عقیدت اورمحبت کااظہارہے۔ ہر سال11نومبرکوپوپی ڈے منایا جاتاہے اوراس روزملک بھرمیں اپنے فوجیوں کے کارناموں کویادکیااوران کی یادگاروں پرپھول رکھے جاتے اور خصوصی تقریبات کااہتمام کیاجاتاہے۔

20مارچ2003کوجب امریکانے عراق پرحملہ کیااوربرطانیہ نے اس کاساتھ دیاتوبرطانوی تاریخ میں پہلی بارلاکھوں لوگ اس حملے اوربرطانوی افواج کی اس میں شمولیت کے خلاف احتجاج کیلئے وسطی لندن میں جمع ہوئے مگرٹونی بلیئراپنی ہٹ دھرمی پرقائم رہے اورجارج بش کاساتھ دیا،جس کاخمیازہ لیبرپارٹی کواگلے عام انتخاب میں بھگتناپڑایعنی لیبرپارٹی عوامی حمایت سے محروم ہوگئی اورانتخابات میں ناکام ہوئی،جس کے بعدسے اب تک اُسے اقتدار میں آنے کاموقع نہیں ملا اورٹونی بلیئرتوہمیشہ کیلئے مستردکردیئے گئے۔اس بھرپورعوامی ردِّعمل کے باوجودبرطانوی لوگ اپنی فوج سے کبھی بدگمان نہیں ہوئے۔عراق ہویا لیبیاجہاں کہیں بھی کسی جنگ میں برطانوی افواج نے حصہ لیاتویہاں کے شہریوں نے اسے اپنے سیاستدانوں کی کوتاہ اندیشی قراردیا۔ان کے دلوں میں اپنی فوج کیلئے احترام میں کوئی کمی نہیں آئی۔یہی وجہ ہے کہ برٹش آرمی،نیوی اورایئرفورس میں شمولیت کویہاں کے نوجوان اپنے لئے ایک اعزازاوراپنے ملک کی خدمت کاایک اہم ذریعہ سمجھتے ہیں۔

سوشل میڈیاپرپاکستان اورپاک فوج کے خلاف یہ آگ ہروقت بھڑکتی رہتی ہے۔پاکستانی دفاعی اداروں کے خلاف سوشل میڈیاپرجو مہم ہمہ وقت جاری رہتی ہے اس سے دیارِغیرمیں آباد محب وطن پاکستانیوں کوبہت ملال ہوتاہے۔اگرچہ انہیں اس حقیقت کابھی بخوبی اندازہ ہے کہ اس بے بنیاد مہم اور پروپیگنڈے کے پس منظرمیں پاکستان دشمن ممالک اورایجنسیوں کے خطیروسائل کارفرما ہیں۔پاکستان کاسالانہ دفاعی بجٹ تقریباًدس بلین امریکی ڈالر ہے جوکہ ہمارے ملک کے کل بجٹ کا18فیصدبنتاہے مگر پاک فوج کے خلاف سازشوں میں مصروف نام نہاد قوم پرست اور پاکستان کے دشمن ملکوں کے ایجنٹ مسلسل یہ پروپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں کہ پاک افواج پاکستان کے تمام وسائل کوکھاگئی ہیں حالانکہ فوج اپنے وسائل سے بڑھ کر ملک وقوم کے تحفظ کے تقاضے پورے کر رہی ہے۔ ایک لمحے کیلئے فرض کرلیجیے کہ اگرہماری فوج کسی دشمن گروپ کوقومی سلامتی کے تقاضوں کونظراندازکرنے کی مکمل آزادی اورخودمختاری فراہم کر دے توہماراحال کیاہو گا۔

ہمارے بہت سے طالع آزمارہنمائوں نے جس طرح ملکی وسائل کوبے دریغ لوٹااورپاکستان سے باہراپنے لئے محفوظ ٹھکانے بنائے ملکی بجٹ کا75سے80 فیصد حصہ تعلیم،صحت اورعوامی فلاح وبہبودپرخرچ کرنے کی بجائے اپنے غیرملکی بینک اکاؤنٹس میں منتقل کیایاجائیدادیں خریدیں۔اگرایسی صورت حال کی کھلی چھٹی دے دی جائے تومعلوم نہیں آج پاکستان کی آزادی اورخودمختاری کاسودا کس بھاؤکردیاجائے۔

آپ سن لیجیے پاکستان بھی نورہے،آپ نے سنابھی ہے اورباربارسناہے،میرے رب نے اعلان کردیا ہے،اس کا فرمان ہے:شہدازندۂ جاویدہیں۔اپنے رب سے رزق پاتے ہیں اورقادرِمطلق نے خبردارکیاہے کہ کبھی مردہ گمان بھی مت کرنااوراب آپ ذرادل تھام کر سنئے:جب بدترین تشددکے بعد بھی وہ قیدی اور ایسے جاںگسل حالات میں وطن کی حفاظت کرنے والے نوجوان مسکرارہے ہوں تو وہ کون سی طاقت ہوتی ہے جس سے ان کے پائے استقلال میں ذرہ بھربھی جنبش نہیں ہوتی،کیاایسا تونہیں کہ کوئی شہید اسے تحسین کی نظرسے دیکھ رہاہو…….بدری شہیدیامیدان احدکے شہداء۔ مجھے اجازت دیجیے مالک آپ سب کا نگہبان رہے۔ کچھ بھی تو نہیں رہے گا۔ بس نام رہے گا اللہ کا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں