The Fear Of Blood Bath Has Increased

غسلِ خون کااندیشہ بڑھ گیاہے

:Share

اسے پہلے بھی اپنے ہی خون میں نہلایاگیاتھاتب بغدادواقعی عروس البلادتھا۔مشہورمورخ فلپ کے ہٹی تاریخِ عرب میں لکھتا ہے کہ جب ہلاکو خان اسماعیلی حشیشین جوحسن بن صباح کے پیروکارتھے کی سرکوبی کیلئے قلعہ الموت کی طرف بڑھ رہا تھاتواس نے خلیفہ جوحسن بن صباح کے پیروکار تھے کی سرکوبی کیلئے قلعہ الموت کی طرف بڑھ رہا تھاتواس نے خلیفہ المستعصم (1258۔1242)کواس مہم میں شامل ہونے کی دعوت دی تھی۔ خلیفہ نے اس کاجواب دینابھی مناسب نہیں سمجھاتھا۔ ہلاکونے نہ صرف قلعہ الموت فتح کرلیاتھابلکہ جس بستی نے بھی مزاحمت کی اس کی اینٹ سے اینٹ بجاکررکھ دی تھی۔ ستمبر1257ء میں وہ شاہراہ خراساں پربغدادکی طرف بڑھ رہاتھا،اب اس نے خلیفہ کوالٹی میٹم بھیجاکہ وہ ہتھیارڈال دے، اپنے آپ کوفاتح کے حوالے کردے اورشہر کی بیرونی فصیل گرادے۔تسلی بخش جواب نہ پاکر منگولوں نے شہرکامحاصرہ کرلیا۔

جنوری1257ءمیں حملہ آورفوج کی منجنیقیں بغداد کی فصیل پرگولہ باری کررہی تھیں،جلدہی ایک مینارٹوٹ چکاتھااورفصیل ٹوٹ گئی تھی۔حملہ آورشہرمیں داخل ہورہے تھے۔اب ہلاکوخان کو”شہرامن”میں خلل نہ ڈالنے کاصائب مشورہ دیاگیا۔اسے بتایا گیاکہ”اگرخلیفہ ماراگیاتوساری کائنات دگرگوں ہوجائے گی،سورج اپناچہرہ چھپالے گا،بادل برسناچھوڑدیں گے اورسبزہ اگنابند ہوجائے گا۔”ہلاکو خان نے ان خدشات پرذرّہ بھر دھیان نہیں دیا۔دس فروری تک منگول بغدادپر قابض ہوچکے تھے۔خلیفہ اپنے تین ہزاردرباریوں کے ہمراہ غیرمشروط طورپرفاتح کے حضورپیش ہوا۔دس دنوں میں وہ سب تہہ تیغ ہوچکے تھے۔شہرلوٹ مارکی نذرہواپھراسے آگ لگادی گئی۔نصف سے زیادہ آبادی قتل ہوئی،لاشوں کی سڑاند اوربدبواتنی تیزتھی کہ ہلاکوخان کوچند روزکیلئے بغدادسے باہرجاکررہناپڑا۔

سیّد امیر علی نے ابن خلدون کے حوالے سے لکھا ہے کہ چھ ہفتوں پرمحیط قتل و غارت میں سولہ لاکھ انسان رزقِ خاک ہو گئے۔خدامعلوم تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے یا نہیں، بعض واقعات توگزرے ہوئے سانحات کا عکس نظر آتے ہیں۔موجودہ بغدادکا حشر دیکھئے،ہلاکو خان دوردراز سے واردہوا تھا،اسے بغداد سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔تاخت و تاراج،لوٹ مار اور ہوس گیری ہی چڑھائی کے اسباب تھے۔اکیسویں صدی کا ہلاکوخان سات سمندر سے تشریف لایا ہے ۔اس نے صرف بغداداور کابل کو تاراج نہیں کیا بلکہ اسلام آباد میں بھی ڈیرے ڈال لئے ۔بغداد اورکابل والوں کے میزائل کیا آہیں بھی وہاں نہیں پہنچ سکتیں تھیں مگرپھر بھی گرجتا برستا چلا آیا۔ ویسا ہی الٹی میٹم دیا۔صدام نے بھی حاکمِ وقت خلیفہ المستعصم کی طرح لیت ولعل سے کام لیا۔ہو سکتا ہے میدانِ کربلا میں برپا ہونے والے معرکہ حق و باطل کا منظر بھی اس کے پیشِ نظررہا ہو،خلیفہ کوزندگی سے پیار تھا،کسے نہیں ہوتا،زندگی کاتو تقاضہ ہی جئے جانا ہے مگرشرفِ انسانی کا اپنامعیار ہے۔اس کی میزان میں شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہوتی ہے۔اگر یوں نہ ہوتا تو ٹیپو سلطان شہید کا نام کب سے مٹ چکا ہو۔وہ نہ صرف آج بھی تاریخ کی کتابوں میں زندہ اور کروڑوں مسلمانوں کے دلوں میں بس رہا ہے بلکہ ان کی قبر بھی زندۂ جاوید ہے۔حضرت سلطان باہو نے فلاح اور کامیابی کی پہچان ہی یہ بتائی ہے کہ ہاتھ انہیں کے کچھ لگا ”قبر جنہاں دی زندہ ہو”سرنگا پٹم کے قریب چھوٹی سی ندی کے کنارے واقع مزار شہید پرجنہیں حاضری دینے کی سعادت نصیب ہوئی ہے ان کے دل گواہی دیتے ہیں کہ شہید نے طوقِ غلامی کے عوض طوالتِ عمر کا سودا نہ کرتے ہوئے صحیح فیصلہ کیا تھا۔

یہ سنہری روایت بھی کتنی شاندارتھی۔نواسۂ رسول اکرم ﷺ نے اپنے اور اپنے خانوادۂ کے خونِ مطہر سے قرطاسِ عالم پریہ فرمان لکھ دیا تھاکہ جان جاتی ہے توجائے ، مومن کا ہاتھ ”یزید کے ہاتھ ”میں نہیں جائے گا۔سچ ہی تو ہے کہ اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد۔کربلا کیا ہے ،یہ فیصلے کی وہ گھڑی ہے جو غیور انسانوں سے اپنی جان اوراس سے بھی عزیز ترمتاع کی قربانی مانگتی ہے تاکہ سب کچھ دینے والے کا حق ادا ہو سکے۔فنا ہوجانا بچوں کا کھیل نہیں،زندگی دوام چاہتی ہے۔ہر ایک چاہتا ہے کہ وہ ہزاروں سال جئے اورہر سال کے دن ہوں پچاس ہزار۔4 مئی 1799ء کی صبح سرنگا پٹم کے قلعے میں محصور ٹیپو سلطان نے بھی یہی چاہا ہوگا۔اس کی عمر ہی کیاتھی!اس وقت 48 سال 5 ماہ اور 14 دن ،جوانی بھی نہیں ڈھلی تھی،بہار جوبن پرتھی۔ ہنگامِ سفرٹل بھی سکتا تھا۔ جنرل ہارس نے 22اپریل1799ء کوسرنگا پٹم پر گولہ باری شروع کرنے سے پہلے مصالحت کی پیشکش کی تھی،شرائط البتہ کڑی تھیں۔سلطان سے کہا گیا تھا کہ ”آدھی سلطنت چھوڑ دو،دو کروڑ تاوان ادا کرو،چار بیٹے اور چارجرنیل یرغمال دو۔”جواب چوبیس گھنٹے کے اندر مانگا گیا تھا۔طاقت کے نشے میں چورحملہ آور ہمیشہ ہوا کے گھوڑے پر سوارآتے ہیں جوشکار کو چند سانسوں کی مہلت دینا بھی گوارہ نہیں کرتے۔تہذیب و تمدن نے لاکھ ترقی کی ہومگر نہ طاقت کے نشہ میں کوئی کمی آئی ہے اور نہ اس کے طور طریقے بدلے ہیں۔

سلطان کی غیرت نے گردن جھکادینے کی اجازت نہ دی ،مردانہ وار مقابلہ کیا۔انگریز چومکھی لڑتا تھا،جنگ میں سب کچھ روا تھا۔دشمن کے عمائدین پر ڈورے ڈالنااس کامحبوب مشغلہ تھا ۔بشری کمزوریوں کا جائزہ لینے کے بعد وہ طے کرتاکہ کس کس پنچھی پرجال پھینکا جائے ۔ان کی چالیں بالکل اسی طرح کامیاب رہتیں جس طرح آج کے دور میں امریکا بہادرکی بڑے لوگوںکو خریدلینے کی مہم کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے۔4مئی کی صبح کوبھی یہی ہوا،”پورنیا”دشمن کے پاس بک گیا تھا۔انگریزی فوج قلعے میں داخل ہو گئی تھی ۔ سلطان دوپہر کے کھانے کیلئے ابھی بیٹھا ہی تھا ، کہتے ہیں پہلا لقمہ اٹھایا تھاکہ دشمن کے قلعے میں داخل ہونے کی اطلاع ملی۔ ہاتھ کھینچ لیا اورفرمایا ”ہم بھی عنقریب جانے والے ہیں”۔اٹھے اورچند جانبازوں کے ہمراہ حملہ آوروں پر ٹوٹ پڑے۔ طاقت کے غیر معمولی عدمِ توازن سے کیسے نپٹا جا سکتا ہے۔ دفاع کرتے کرتے جامِ شہادت نوش کیا۔ اِناّ لِلّہِ وَاِنَّا اِلیْہِ رَاجِعُون۔

بے پناہ ننگی جارحیت ایک ایساسیلابِ بلا ہے جس کا دھارا رکے نہیں رکتا جب تک اس کے مد مقابل اس سے بڑی طاقت خم ٹھونک کر کھڑی نہ ہو جائے ۔ مستقبل قریب میں ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔جن میں دم خم ہے وہ اپنی اپنی مصلحتوں کے پیشِ نظرخطرہ مول لینا نہیں چاہتے۔تیسری دنیا بیچاری تو بھیڑ بکریوں کا ریوڑ ہے جس پر مغربی استعمار نے چند ”گڈریئے” مقرر کر رکھے ہیںجن میں سے کئی ایک رکھوالوں کے روپ میں بھیڑیئے ہیں۔ ریوڑ میں سے جو بھیڑ بکری ذرا سا بھی سر اٹھائے اس کی وہ درگت بنتی ہے یہ آنے والی نسلوں کیلئے بھی نشانِ عبرت بن جاتی ہے۔یہی الزام پہلے افغانستان پر تھاپھر عراق اس الزام میں دھر لیا گیا اور درپردہ ابھی تک پاکستان پر اپنے خوں آشام دانت گاڑنے کے منصوبے جاری و ساری ہیں۔کہنے کو تو فاتحین کرام ببانگِ دہل یہ ارشاد فرماکرافغانستان میں داخل ہوئے تھے کہ عالمی امن کو ان دہشت گردوں سے خطرہ ہے اورعراق میں داخل ہوتے وقت یہ نعرہ لگایا تھا کہ وہ محکوم ومجبور اہلِ عراق کو آزادی کا تحفہ عطا کرنے آئے ہیں،حکومت بدلتے ہی وہ آزاد شہری ہونگے،ان کی اپنی حکومت ہو گی ،وہ عراق کی دولت کے خود مالک ہونگے، اپنی تقدیر خود بنا سکیں گے، اپنے بچوں کا مستقبل خودسنوار سکیں گے اور جبکہ پاکستان کو اس بات سے ڈرایاگیا کہ یہ دہشت گرد کہیں پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر قبضہ کرکے ساری دنیا کا امن نہ تباہ کر دیں۔ہم جہاں پاکستان کو اس خطرے سے نکلنے میں مدد کریں گے وہاں پاکستان کے غریب عوام کی تقدیر بدلنے میں بھی ان کی مدد کریں گے۔آہ!کتنے شیریں ہیں تیرے لب؟پھول ہی پھول جھڑتے ہیں ان سے!

تاریخ کی گواہی البتہ ایسے خوشنما وعدوںپر اعتبار کرلینے میں مانع ہے۔ پہلی جنگِ عظیم کے بعد فاتح انگریز جرنیل نے بھی بغداد میں مژدہ سنایا تھاکہ وہ عراق پر قبضہ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے ۔فقط اس پر موقوف نہیں ہے،جس فاتح نے بھی وہاں قدم رنجہ فرمایااس نے وہیں اپنے خونی پنجے گاڑ دیئے۔ کون جابراپنی مرضی سے کبھی مفتوحہ علاقوں سے گیا ہے؟ ہاں، حالات اور مقامی آبادی کا جذبۂ حریت انہیں تشریف لیجانے پر مجبور کردے تو اور بات ہے؟

بڑی پریشانی کا دور ہے،بے گناہوں کو تڑپ تڑپ کرجان دیتے بھی نہیں دیکھا جا سکتا۔ یہ سوچنا بھی گوراہ نہیں کہ وہ اپنے وطنِ عزیز کادفاع نہ کریں ۔ الجھن ہی الجھن ہے ،بیکس انسانوں کاٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر کیا کرے؟کدھر جائے؟حالیہ انتخابات میںبشمول بلوچستان کروڑں لوگ سڑکوں پر امڈ آئے اوراپنی اس ناکامی کے بعد اب ان مٹھی بھرملت فروش اور عیار دشمن کے مسلط کردہ ایجنٹوں کو ایک نئے ایجنڈے کے ساتھ سرگرم کردیاگیا ہے ۔ حافظ شیرازی کا بھی ایسے ہی حالات میں دل دکھا ہو گا۔وہ لسان الغیب بڑے غور و خوض کے بعد اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ”رموز مملکت خویش خسرواں دانند”(اپنی سلطنت کے رازبادشاہ ہی جانتے ہیں)اس لئے کسی ”گدائے گوشۂ نشیں”(جھگی والے فقیر)کو شور و غوغا نہیں کرنا چاہئے لیکن ہم کب تک جھگی والے فقیربنے بیٹھے رہیں گے ۔ بیداری کا احساس جن مربی دوستوں کو ہے وہ توبرملا ان سانپوں کاسرکچلنے کا مشورہ دے رہے ہیں بہر حال اشرافیہ اگر اب بھی نہیں سمجھتی تو جان لے کہ ’’تیری بربادی کے مشورے ہیں آسمانوں میں‘‘۔

اب تویہ بھی طشت ازبام ہوچکاہے کہ را،سی آئی اے اورموساد نے کس تیزی کے ساتھ عراق اور افغانستان کے بعد بالخصوص بلوچستان میں عراق اورافغانستان سے کہیں زیادہ سرمایہ کاری کرکے کن خطرناک ارادوں سے اپنے مذموم ارادوں کی تکمیل کیلئے خونی پنجے گاڑنے کی ازحدکوشش کی تھی اوربعض اوقات تویوں لگ رہاتھا کہ اس بار جو میدانِ جنگ سجنے جا رہا ہے اس میں ان بے سروسامان پاکستانیوں کوشائد خود ہی اس سیلاب کے سامنے بند باندھنا پڑے،انہیں خود ہی ان بن بلائے مہمانوں کو دربدر کرنا پڑے اور فلوجہ، نجف،بغداد اور کابل’ قندھار اور غزنی کے عوام کی طرح لڑنا ہمارا مقدر ٹھہرے گا ۔ بلوچستان میں دہشتگردی کی لہرنے جہاں وطن دشمن طاقتوں کے عزائم کاپول کھول دیاوہاں ان کی ناکامی بھی نوشتۂ دیوار پر لکھی جاچکی ہے لیکن اس کے باوجود اب ضروری ہوگیاہے کہ اس سے پہلے کہ شکاری اپنی مچان بنانے میں پوری طرح کامیاب ہو جائے ،اسے پوری قوت کے ساتھ اس دھرتی سے دربدر کرنا ہو گاورنہ پھر کسے علم اس کے نشانے کی زد پرکس کا گھر ہو، کس کا بیٹا ہو ، باپ ، ماں یا بہن ہو۔یادرہے کہ وطن عزیزغیرملکی قرضوں کی شکل میں معاشی جال میں جکڑاجاچکاہے کہ پاکستان دیوالیہ کے کنارے کھڑاکردیاگیاہے۔ماتم کرنے سے پہلے سیلاب کو روکنا بہت ضروری ہے کہ وگرنہ وہی سحر جو خونِ صد ہزار انجم سے پیدا ہوتی ہے ،ڈرہے کہیں یہ غسلِ خون بھی رائیگاں نہ چلا جائے!!!

اپنا تبصرہ بھیجیں