The Fall Of Granada And Pakistan

سقوطِ غرناطہ اورپاکستان

:Share

غرناطہ سپین کے جنوب میں ایک تاریخی شہرکانام ہے اوراس کی وجہ شہرت مسلمانوں کاالحمراءمحل ہے۔1492ءتک غرناطہ آخری اسلامی ریاست کا مرکزتھا آج سے ٹھیک 553سال قبل۔892ھ بمطابق1492ءمیں ہسپانیہ میں مسلم اقتدارکاہمیشہ کیلئےخاتمہ ہوگیااوران کی آخری ریاست غرناطہ بھی مسیحیوں کے قبضے میں چلی گئی۔اس واقعے کوسقوط غرناطہ کے نام سے یادکیاجاتاہے۔ہسپانیہ میں آخری مسلم ریاست غرناطہ کے حکمران ابوعبداللہ نے تاج قشتالہ اورتاج آرا غون کے مسیحی حکمران ملکہ آئیزابیلااورشاہ فرڈیننڈکے سامنے ہتھیار ڈال دیے اوراس طرح ہسپانیہ میں صدیوں پر محیط مسلم اقتدارکاہمیشہ کیلئےخاتمہ ہوگیا۔18شرائط پر مبنی معاہدے کے تحت مسلمانوں کومکمل مذہبی آزادی کی یقین دہانی کرائی گئی لیکن مسیحی حکمران زیادہ عرصے اپنے وعدے پر قائم نہ رہے اور یہودیوں اور مسلمانوں کوہسپانیہ سے بے دخل کردیاگیا۔مسلمانوں کوجبراًمسیحی بنایاگیاجنہوں نے اس سے انکارکیاانہیں جلاوطن کر دیاگیا۔

ان تمام شرائط میں بظاہرمسلمانوں کی عزت وآبروکی حفاظت کی ضمانت نظرآرہی ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ قرآن وحدیث میں یہودونصاریٰ کے بارے میں واضح احکامات ہیں کہ وہ کبھی بھی تمہارے خیرخواہ اورہمدردنہیں ہوسکتے اورتاریخ نے اس بات کوبہت جلدسچ کردکھایا۔کچھ عرصے میں ہی عیسائیوں نے اس معاہدے کی دھجیاں بکھیرکررکھ دیں اورپھرمسلمانوں پرظلم وستم کی وہ عبرتناک داستان شروع ہوجاتی ہے جوآج بھی اسپین اوردنیاکی تاریخ میں موجود ہے۔سب سے پہلے تبدیلی مذہب کاحکم نامہ جاری ہواجس کے تحت حکم دیاگیاکہ ہر مسلمان عیسائیت قبول کرلے ورنہ قتل کردیاجائے گا۔اس حکم کے ذریعے بے شمار مسلمان جبراًعیسائی بنا دئے گئے۔ہزاروں لوگوں کوسولی پرلٹکادیاگیااورہزاروں کوقیدی بناکرجبری مشقت کے کیمپوں میں پہنچا دیاگیاجہاں موت کے بعدان کورہائی ملی۔

مدارس میں بچوں کوعیسائیت کی تعلیم دی جانے لگی۔ان کے کتب خانوں میں محفوط تاریخ کی کتابوں سے پتہ چلتاہے کہ صرف ایک دن میں تین ہزارسے زائد مسلمانوں کوعیسائی بنایاجاتاتھا۔کچھ عرصے بعدنہ صرف مسلمانوں کے لباس اورزبان پرپابندی لگائی گئی بلکہ انہیں اپنانام بھی تبدیل کرنے کاحکم جاری ہوگیا مساجدکوگھوڑوں اوردیگرجانوروں کے اصطبل میں تبدیل کردیاگیااورمسلمانوں کی عالیشان اورخوبصور ت مساجدکوگرجاگھروں میں تبدیل کردیا گیا۔ ابشاراة میں ابوعبداللہ اوراس کے سارے خاندان کوعبرتناک اندازمیں قتل کردیاگیااوراس علاقے کونہ صرف مسلمانوں کامذبح خانہ بنادیاگیا بلکہ مسلمانوں کو جانوروں کی طرح ذبح کرنے کا تماشہ دکھایاجاتاتھا۔

مسلم ہسپانیہ (اندلس)کے آخری حکمراں ابوعبداللہ بن مولائے ابوالحسن جب وہ غرناطہ کی چابیاں مسیحی حکمرانوں کے حوالے کرکے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے غرناطہ سے جلا وطن ہورہاتھا۔اس نے جب آخری نگاہ اپنے آبا ؤاجداد کے ورثے پرڈالی تو اس کی آنکھیں ڈبڈباگئیں،تو اس وقت اپنے بیٹے کی آہ وزاری پراس کی ماں نے یہ تاریخ سازالفاظ کہے:جس چیزکی حفاظت تم مردوں کی طرح نہیں کرسکے،اس کے چھن جانے پرعورتوں کی طرح آنسوبہانے سے کیافائدہ۔

اس مقام پرجہاں ابوعبداللہ کی آہ نکلی مسیحیوں نے مسلمانوں کی شکست کی علامت کے طورپرمحفوظ کرلیااورآج اسے مُورکی آخری آہ کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ یورپی تاریخ داں اندلس کے مسلمانوں کے لیے”مُور”کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ ابو عبداللہ، اندلس کی آخری مسلم ریاست مملکت غرناطہ کاوہ بد بخت حکمران تھا جس نے عین اس وقت اپنے والدابوالحسن اورچچامحمدبن سعدالزاغل کے خلاف علم بغاوت بلندکردیاجب وہ اندلس میں مسیحیوں کے مشترکہ لشکر سے اندلس میں مسلمانوں کی بقاکی آخری لڑائی لڑرہے تھے۔

1469ء کے اندلس کے سیاسی منظرنامے پرایک نگاہ ڈالتے ہوئے اس داستان کے آخری باب کی طرف چلتے ہیں جس کاآغازتقریباًآٹھ سوسال قبل جبل طارق یا جبرالٹرکے ساحل پرطارق بن زیادنے مسیحی گاتھ شہنشاہ راڈرک کوعبرتناک شکست دے کرکیاتھا۔موسیٰ بن نصیراورطارق بن زیاد نے جلدہی ہسپانیہ سے مسیحیوں کی حکومت کاخاتمہ کردیااوراسی طرح ہسپانیہ،دمشق کی خلافت کے زیرنگیں آگیا۔ دمشق کے انقلاب کے بعداسلامی خلافت بغداد منتقل ہوگئی اور اندلس کی حکمرانی اموی شہزادے عبدالرحمن الداخل کومل گئی۔وقت گزرتاگیااوراندلس کی حکومتیں بدلتی رہیں اورمسلمان اندلس میں مضبوط اورمستحکم ہوتے چلے گئے۔آہستہ آہستہ اندلس عالم سلام کاعلم وہنرکامرکزبن گیا۔دورعروج میں اندلس نے ابنِ بیطار،ابنِ رشد،ابنِ باجا، الفارابی ،ابنَ حزم،اسحق موصلی اور الخظیب جیسے ہزاروں علمااورفضلاءپیداکیے۔پھروقت نے پلٹاکھایااوراندلس کے مسلمانوں کازوال شروع ہوگیا، پھر قدرت نے یوسف بن تاشفین کی صورت میں اندلس کے مسلمانوں کو سنبھلنے کابہترین موقع فراہم کیامگران کے نصیب میں زوال لکھ دیاگیاتھا۔الداخل کی عظیم سلطنت ٹکڑے ٹکڑے ہوناشروع ہو گئی۔

سرقسطہ،قشطالیہ،الشبیلہ اورقرطبہ جیسے عظیم علم وہنرکے مراکزمسلمانوں کے ہاتھ سے نکلنے شروع ہو گئے۔آراغون اورقشتالہ کی مضبوط مسیحی مملکتیں وجودمیں آگئیں۔تاریخ میں آراغون کی حکمران ازابیلانامی ملکہ کابڑاخوفناک کرداربھی سامنے آیاہے۔یہ وہی ملکہ ہے جس کی تحریک پرکولمبس نے اپنی بحری مہم شروع کی تھی۔دوسری طرف قسطلہ کاشاہ فرنڈیڈس نامی متعصب عیسائی تھا۔یہ دونوں حکمراں شدت پسنداورمسلمان دشمن تھے اوراندلس سے مکمل طورپرمسلمانوں کاخاتمہ چاہتے تھے،اسی مشترکہ مفاد کے تحت ان دونوں حکمرانوں1469ءمیں آراغون اورقسطلہ کی ریاستوں کوباہم مدغم کرلیااور آپس میں شادی کرلی ۔

1469ء تک اندلس کے مسلمان غرناطہ کی ریاست تک محدود ہوکررہ گئے تھے۔سارااندلس ان کے ہاتھ سے نکل چکاتھا،مسلمان اندلس بھرسے سمٹ کر غرناطہ میں اپنی بقاء کی لڑائی میں مصروف تھے۔غرناطہ کاموجودہ حکمران ایک نڈراورقابل شخص مولائے ابوالحسن تھا۔اہل اندلس کوطویل عرصے بعد ایک لائق حکمران نصیب ہواتھا۔اہل اندلس اسے اپنانجات دہندہ تعبیرکررہے تھے۔سلطان ابوالحسن سے مسلمانوں کی توقعات کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سلطان کابھائی محمد بن سعدالزاغل(جو الزاغل کے نام سے مشہورہے )مالقہ کے علاقے کاحکمران تھااورجب اس نے یہ محسوس کیاکہ مسیحی ان دونوں بھائیوں میں پھوٹ ڈلواناچاہتے ہیں توالزاغل فوراًغرناطہ پہنچااوراس نے مالقہ کے تخت سے دست بردارہوتے ہوئے ابوالحسن کے ہاتھ پربیعت کرلی ۔اسی طرح ابوالحسن طاقتورہوگیااورجب فرنڈیڈس نے ابو الحسن سے خراج طلب کیاتواس نے تاریخی جواب دیا:غرناطہ کے ٹکسال میں مسیحیوں کو دینے کیلئےسکّوں کی بجائے اب فولادکی وہ تلواریں تیارہوتی ہیں جوان کی گردنیں اتارسکیں۔یہ جواب سن کرفرنڈیڈاورازابیلامبہوت رہ گئے۔اس وقت قشتالہ اور آراغون کی باہمی ریاست کارقبہ سوالاکھ مربع میل کے لگ بھگ تھاجبکہ غرناطہ کی ریاست سمٹ سمٹاکرصرف چارہزارمربع میل رہ گئی تھی۔ یہ مختصر رقبہ بھی مسیحیوں کی نگاہ میں کھٹک رہا تھا۔وہ اندلس سے مسلمانوں کامکمل خاتمہ چاہتے تھے۔انہوں نے ابوالحسن سے فیصلہ کن جنگ کاارادہ کیااور خاموشی سے جنگی تیاریاں تیزکردیں۔ابوالحسن بھی غافل نہیں تھا۔آخرکارغرناطہ کے سرحدی مقام لوشہ میں سلطان ابوالحسن اورفرنڈیڈکاٹکراؤہوگیا، اہل غرناطہ قوت اورعدددونوں اعتبارسے مسیحیوں کی مشترکہ افواج کے مقابلےپرکمزورتھے مگران کوعلم تھاکہ ان کے پاس اندلس آخری خطہ اراضی رہ گیاہے۔اس کے دفاع کیلئےاہل غرناطہ نے سردھڑکی بازی لگادی ۔آخرکار لوشہ کے میدان میں طارق بن زیاد کی یاد تازہ کرتے ہوئے ابو الحسن نے فرنیڈنڈ کو شکست فاش سے دوچارکیا۔

ابھی ابوالحسن لوشہ کے میدان میں ہی تھا کہ غرناطہ میں اس کے ولی عہدابوعبداللہ نے بغاوت کردی اورغرناطہ کے تخت کامالک بن بیٹھا۔مسیحیوں سے جہاد میں مشغول مسلمانوں کیلئےیہ خطرناک اطلاع تھی ۔لوشہ کی فتح کے بعدوہ ابو الحسن کی سربراہی میں اندلس میں مسلمانوں کی نشاط ثانیہ کاخواب دیکھ رہے تھے۔ ابوعبداللہ کی بغاوت نے ان کے ہوش اڑادئیے اورسلطان ابوالحسن کومجبوراًلوشہ چھوڑکرمالقہ میں پناہ لینی پڑی۔یعنی اس نازک دورمیں جب اہل اندلس اپنے بقاء کی جنگ میں مصروف تھے ،ابو عبداللہ کی اقتدارکی ہوس نے غرناطہ کی سلطنت کودوحصوں میں تقسیم کردیا۔بجائے باپ کے ہاتھ مضبوط کرنے کے ابوعبداللہ اس کی سلطنت کے درپے ہوگیا۔دوسری طرف مسلمانوں کومنقسم دیکھ کرشکست خورہ فرنڈیڈکوحوصلہ مل گیااوراس نے مالقہ پرحملہ کر دیا۔مالقہ میں ابو الحسن اور فرنڈیڈکوبرسرپیکاردیکھ کرابوعبداللہ نے بے غیرتی کی انتہاکرتے ہوئے ابوالحسن پرپشت سے حملہ کردیا۔ابو الحسن تجربہ کارسپہ سالارتھا،اس نے ایک طرف تو مسیحیوں کاڈٹ کرمقابلہ کیا دوسری طرف ابوعبداللہ کوواپس غرناطہ جانے پرمجبورکردیا۔ اسی دوران ابوعبداللہ اورفرنڈیڈکا لوشینیہ کے مقام پرآمناسامناہوگیا۔ناتجربہ کارابوعبداللہ نے شکست کھائی اورگرفتارہوگیا،ابوعبداللہ کے فرنڈیڈ کی قید میں جانے کے بعدغرناطہ کاتخت خالی ہو گیا،بیٹے کی بغاوت نے ابوالحسن کوبیمارکردیاتھا، اس پرزبردست فالج کاحملہ ہوگیاتھا،اس نے ریاست سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے اپنے بھائی الزاغل کو غرناطہ کاتخت سنبھالنے اورفرنیڈنڈکامقابلہ کرنے کاحکم دیا۔الزاغل غرناطہ پہنچااوراس نے مسلم افواج کی ازسرِنوتنظیم شروع کردی۔ الزاغل بلاشبہ ابوالحسن کاحقیقی جانشین تھااورممکن تھاکہ اپنی دلیری اور صلاحیتوں کوبروئے کارلاتے ہوئے وہ اندلس کے مسلمانوں کا نجات دہندہ بن جاتامگراس موقع پرابوعبداللہ کا ایک دفعہ پھرمکروہ کردارسامنے آتاہے۔ دوران قید فرنیڈنڈ نے ابوعبداللہ کی خصلت پہچان لی۔وہ سمجھ گیا کہ ابوعبداللہ کو مسلمانوں سے زیادہ اپنے اقتدارکی خواہش ہے۔اب فرنیڈنڈنے ابوعبداللہ کوالزاغل اورابوالحسن کے خلاف استعمال کرنے کامنصوبہ بنایا ۔اس نے ابوعبداللہ کویقین دلایا کہ وہ اسے غرناطہ کاوارث تسلیم کرتاہے اوریہ کہ فرنیڈنڈغرناطہ کاتخت حاصل کرنے میں ابوعبداللہ کی مددکرے گا ۔

ابوعبداللہ سے سازبازکرنے کے بعد فرنڈیڈنے اسے اپنی قیدسے رخصت کردیا۔ابوعبداللہ سیدھا مالقہ پہنچاجہاں الزاغل کاقبضہ تھااہل مالقہ کویقین دہانی کرائی کہ فرنڈیڈاس کے ساتھ ہے اوراگراہل مالقہ،ابوعبداللہ کاساتھ دیں تووہ ان کی مسیحیوں سے صلح کرواسکتاہے۔جنگ وجدل سے گھبرائے ہوئے مسلمان اس کی باتوں میں آگئے اورانہوں نے مالقہ پرابوعبداللہ کی بالادستی تسلیم کرلی ۔ اب ابوعبداللہ نے الزاغل کوپیغام بھیجا کہ اگروہ لوشہ کاقلعہ اس کے حوالے کر دے توان دونوں کی صلح ہوسکتی ہے۔اس طرح مسیحیوں کی مشترکہ افواج کامقابلہ دونوں مل کرکریں گے۔لوشہ کاقلعہ دراصل غرناطہ کا دفاعی مورچہ تھا،فرنڈیڈکئی سالوں سے لوشہ پرقبضہ کرنے کے چکرمیں تھااس طرح اُس کاراستہ غرناطہ تک آسان ہوجاتامگراہل لوشہ نے اپنےعلاقے کا دفاع بڑی بے جگری سے کیا ہواتھا ۔ لوشہ کی دفاعی اہمیت کے باوجودمسلمانوں میں اتحادکے خواہش مندالزاغل نے ابوعبداللہ کاکہامان لیااورلوشہ کاقلعہ اس کے حوالے کردیا۔لوشہ پرقبضہ فرنڈیڈ کے منصوبے کاحصہ تھا۔اب ابوعبداللہ مالقہ اورلوشہ دونوں پرقابض تھا۔ اس نے فوراًفرنیڈنڈکولوشہ آنے کی دعوت دے ڈالی۔مسلمان حیران وپریشان ہو گئے کہ جس لوشہ کی حفاظت کیلئےانہوں نے سالوں سے سردھڑکی بازی لگائی ہوئی ہے وہ بغیرکسی خون خرابے کے فرنڈیڈکومل گیا ۔

ادھرمالقہ میں جب مسلمانوں نے یہ صورت حال دیکھی توانہوں نے ابوعبداللہ کے خلاف بغاوت کردی۔اس پرفرنڈیڈنے مالقہ کامحاصرہ کرلیا۔اہل مالقہ کی مدد کیلئےالزاغل غرناطہ سے روانہ ہوگیا۔غرناطہ خالی دیکھ کرابوعبداللہ کوسنہری موقع مل گیا،وہ فوراًغرناطہ پہنچ گیااورتخت غرناطہ پرقبضہ کرلیا۔یہاں سے المناک داستان کاوہ باب شروع ہوتاہے جس کاانجام مسلمانانِ اندلس کی مکمل بربادی پرختم ہوا۔وہ لوگ جوآٹھ سوسال قبل اندلس میں روشنی کاپیغام لے کرآئے تھے اورروشنی کی مانندپورے اندلس میں پھیل گئے تھے وہ راستہ بھول گئے۔افرادراستہ بھول جائیں توگھرانے تباہ ہوجاتے ہیں مگرجب قومیں راستہ فراموش کردیں توسلطنتیں بربادہوجاتی ہیں۔اندلس کے مسلمانوں کے ساتھ بھی یہی ہوا۔غرناطہ پرابوعبداللہ کاقبضہ بھی مسلمانان اندلس کیلئے بربادی کاپیش خیمہ ثابت ہوا۔یہ منظرنامہ دیکھتے ہوئے مالقہ والوں نے فرنیڈنڈسے صلح کرلی۔اس طرح لوشہ اورمالقہ پرفرنڈیڈکاقبضہ مکمل ہوگیا ۔

ابوعبداللہ کوبیٹاکہنے اورمسلمانوں کی خیرخواہی کادم بھرنے والافرنڈیڈاب اپنے اصل روپ میں آگیا۔اس نے ابوعبداللہ کوپیغام بھجوایا کہ اب غرناطہ کی چابیاں مسیحیوں کے حوالے کردی جائیں ۔یہ پیغام ملتے ہی ابوعبداللہ کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔اپنوں سے غداری کرنے کاانجام اسے نظرآنے لگا۔ اس نے اہل غرناطہ سے مشورہ کیااہل غرناطہ موسیٰ اورطارق کے فرزندتھے۔انہوں نے آخری دم تک جنگ لڑنے کاارادہ ظاہرکیا۔اہل غرناطہ اور فرنڈیڈمیں سخت لڑائی لڑی گئی۔مسلمانوں کوعلم تھاکہ اندلس میں اب غرناطہ ہی ان کی آخری امیدہے لہٰذاوہ جم کرلڑے اورانہوں نے مسیحیوں کو شکست سے دوچارکردیاغرناطہ کے مضافات کے علاقے دوبارہ مسلمانوں کے قبضے میں آگئے۔ان میں البشرات نامی پہاڑی علاقہ بھی شامل تھا ۔

قدرت قوموں کوسنبھلنے کیلئےکئی مواقع دیتی ہے۔یوسف بن تاشفین کی آمد سے لے کرابوالحسن کی تخت نشینی تک اہل اندلس کوسنبھلنے کے کئی مواقع ملے مگر اقتدارکی خواہش اورہوس میں اپنوں سے غداری نے اہل اندلس کوبربادکرکے چھوڑا۔اس نازک موقع پرجب مسیحی اندلس میں مسلمانوں کوآخری پناہ گاہ کے سامنے مورچہ زن تھے اس وقت بھی اہل اندلس کی آپس کی نااتفاقی ختم نہ ہوئی۔اہل غرناطہ کی ابوعبداللہ کی سربراہی میں مسیحیوں کے خلاف کامیابیاں اس کے چچا الزاغل کوایک آنکھ نہ بھائی،وہی محمدبن سعد الزاغل جوکچھ عرصہ قبل مسلمانوں کے اتحادکی خاطراپنے بھائی سلطان ابوالحسن کے حق میں اپنی سلطنت سے دستبردارہوچکاتھا،اس دفعہ اس نے شرمناک حرکت کی۔الزاغل نے اہل غرناطہ کے خلاف فرنڈیڈکے حق میں اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے فرنڈیڈ کوابوعبداللہ پرحملہ کرنے پراکسایا۔فرنیڈنڈنے یہ سنہری موقع جانے نہ دیااورایک دفعہ پھرمسلمانوں کوآپس میں لڑوادیا۔اب الزاغل نے فرنیڈنڈکی مددکے ساتھ ابوعبداللہ پرحملے کرنے شروع کیے،غرناطہ کے مضافات کے تمام قلعے ایک ایک کرکے مسیحیوں کے قبضہ میں دوبارہ چلے گئے اورآخرکاراہل غرناطہ محصور ہو کررہ گئے۔غرناطہ کے تخت کاخواہش مند الزاغل کوفرنڈیڈنے اس کی خدمات کاصلہ دیتے ہوئے اسے ہسپانیہ سے نکل جانے کاحکم دیا۔ الزاغل، فرنڈیڈکامنہ دیکھتارہ گیااورآخرکارمراکش میں جلاوطن کردیاگیااوروہیں گمنامی کی موت مرگیا۔ غداروں کاانجام یہی ہوتا ہے ۔

اب فرنڈیڈ اورازابیلانے فیصلہ کن معرکہ کی تیاریاں شروع کردیں۔1492ءکاسال آگیااوراسی سال موسم گرمامیں مسیحیوں کی مشترکہ ا فواج نے غرناطہ کا محاصرہ کرلیا۔غرناطہ کے شمال میں پہاڑی سلسلہ تھے اورمحاصرے کے دوران اہل غرناطہ کومددملتی رہی مگرسردیاں شروع ہوتے ہی پہاڑوں پربرف باری شروع ہو گئی اورغرناطہ کوکمک ملنابندہوگئی۔شہر میں اشیاءخوردنوش کی قلت ہوگئی ۔

اہل غرناطہ اب بھی مسیحیوں پرفیصلہ کن حملہ کرنے پرآمادہ تھے۔غرناطہ کاسپہ سالار”موسیٰ بن ابی غسان”افسانوی شہرت کاحامل کردارتھا۔وہ آخری سپاہی تک لڑناچاہتاتھامگرابوعبداللہ ذہنی طورپرشکست قبول کرچکاتھا۔وہ اوراس کے اکثرامرافرنڈیڈسے صلح کامعاہدہ کرناچاہتے تھے،وہ سمجھتے تھے کہ اسی طرح وہ اپنے لیے زیادہ سے زیادہ مراعات حصل کرسکیں گے۔امراِسلطنت سازش میں مصروف ہوگئے۔پس پردہ مسیحیوں سے رابطے قائم کرنے لگے ان سازشی عناصرکاسرغنہ وزیراعظم غرناطہ”ابوالقاسم”تھا۔فرنڈیڈنے غرناطہ پرقبضے کی صورت میں اس کوغرناطہ کااہم عہدہ دینے کاوعدہ کرلیا۔ ابوعبداللہ کی ذہنی شکست میں ابوالقاسم کا مرکزی کردارتھا۔بلاآخرابوعبداللہ نے ابوالقاسم کوخفیہ سفارتکاری کی اجازت دے دی۔صلح کی شرائط طے کرلی گئیں۔بظاہران شرائط میں مسلمانوں کیلئےہر قسم کا تحفظ یقینی بتایاگیاتھامگربعدمیں مسیحیوں نے اس پرکتناعمل کیاوہ ایک علیحدہ باب ہے۔

معاہدے کے تحت ابوعبداللہ کوالبشرات کے علاقے میں ایک جاگیردے دی گئی۔آخرکاروہ تاریخی دن آگیاجسے آج تک تاریخ اسلام کاہرطالب علم سیاہ دن سے تعبیر کرتا ہے۔2جنوری1492ءکوغرناطہ کی چابیاں ابوعبداللہ نے اپنے ہاتھوں سے فرنڈیڈ اورازابیلاکوپیش کردیں۔پادری اعظم نے قصر الحمراء پرلہراتاصدیوں پراناپرچم اسلامی اتارکرصلیب کونصب کردیاوراس طرح سقوط غرناطہ کے ساتھ ساتھ اندلس میں مسلمانوں کاآٹھ سوسالہ حکمرانی کاسورج بھی غروب ہوگیا ۔سوسال کے اندراندرمسیحیوں کے ظلم وستم کے باعث لاکھوں مسلمان ہجرت کرکے مراکش اورشمالی افریقامیں آبادہوگئے ان کے قبائل آج بھی وہاں مہاجرکی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔لاکھوں مسلمانوں کاقتل عام ہوااوربیشماراہل ایمان مسیحی ظلم وستم کی تاب نہ لاکرمسیحی بن گئے۔یوں ایک غداراوربزدل حکمران ابوعبداللہ کی شامت اعمال کانتیجہ اہل اندلس کودیکھناپڑا۔

مسلمانوں کے زیرحکمرانی اندلس کئی صدیوں تک سچی تہذیب وشائستگی کامرکزاورعلوم فنون کاسرچشمہ بنارہا،جس کی ہمسری یورپ کی کوئی قوم نہیں کرسکی۔ جو مسلمان اپنادین بدلنے پرراضی نہیں ہوئے ان کوعیسائیوں نے دہشتگردکانام دیکرجلا وطن کرکے نام ونشان تک مٹادیا۔اس سرزمین پر خدائے بزرگ وبرترکانام لیواایک بھی متنفس نہیں بچاتھا۔آج اس سرزمین کی مسجد قرطبہ جس کودنیاکی خوبصور ت مسجدکہاجاتاہے جسے دیکھنے ہزاروں سیاح یہاں کا رخ کرتے ہیں وہاں کسی مسلمان سیاح کونمازتک پڑھنے کی اب تک اجازت نہیں بلکہ قانونی جرم تک قراردے دیاگیاہے۔شائداب یہ مسجدآج اذان کی آوازسے محروم پھرکسی طارق بن زیاداورعبدالرحمٰن اوّل کاانتظارکررہی ہے۔

وہی اندلس جہاں پہلے داخل ہونے والے مسلما ن عبدالرحمان الداخل جیسی عظیم الشان شخصیت نے یورپ کے قلب میں پہلی اسلامی مملکت قائم کی۔ یورپ کو تاریکیوں سے نکال کرجدید سائنسی،سیاسی،ادبی اورفنی علوم سے روشناس کروایااورفن تعمیرات کے حوالے سے مسلمانوں نے ایسے نمونے پیش کئے کہ جن کودیکھ کردنیاآج بھی دنگ ہے،اس میں مسجدقرطبہ اور قصرالحمراکے نام قابل ذکرہیں۔مسلمانوں نے یہاں اپنی آمدکے فوراًبعدہی تین لاکھ کتابوں پرمشتمل ایک مکتب غرناطہ شہرمیں قائم کروایا۔اس کے بعداندلس نے ترقی کی ایسی منزلیں طے کیں کہ اس سرزمین کوقلب یورپ کادرجہ مل گیا۔صلیبی قوتوں نے آٹھ صدیوں تک اندلس کے علوم وفنون اورترقی سے پورافائدہ اٹھایالیکن مسلمانوں کواپنے دشمن کی حیثیت سے یادرکھا۔مسلمان امراءاورحکومتی اداروں کے بااثرعہدیداروں سے خصوصی تعلقات کی بناء پراندلس کی حکومت میں ان کی مداخلت اس قدر بڑھ گئی کہ بادشاہ کے دربار میں خصوصی مشیران کی تعیناتی ان کی سفارش سے ہونے لگی۔ان مشیران کی بدولت امورمملکت کے تمام حساس رازفرنینڈس اورازابیلاکے پاس باقاعدگی کے ساتھ پہنچنے لگےاوربالآخر سقوط غرناطہ کاسانحہ غدارمسلمانوں کے ہاتھوں اپنے انجام کوپہنچا۔مسلمانوں نے800سال تک شاندارحکومت کی لیکن وہ کیااسباب تھے کہ آٹھ صدیوں تک حکومت کرنے والوں کواس ذلت ورسوائی کامنہ دیکھناپڑا۔تاریخ اٹھاکردیکھ لیں،آپ کوآج کے حالات سے حد درجہ مماثلت نظرآئے گی،مگرہے کوئی اس پرفکرو تدبرسے کام لے؟(کیاہمارے ہاں اسٹیٹ بینک کے گورنرکی تقرری اوردوسرے مشیران کہاں سے آئے ہیں اوران کی تقرری کس کے احکام سے ہوئی ہے؟)

مجھے اب خوف اس بات کاہے کہ ہم اپنی تاریخ سے اب بھی کوئی سبق حاصل کرتے دکھائی نہیں دے رہے۔شائد میرے ارض وطن پرایسے ہی ذلت اور رسوائی کے مہیب سائے دن بدن بڑھ رہے ہیں جن سایوں کی وجہ سے یورپ کے قلب میں سقوط غرناطہ کاسانحہ پیش آیا۔اس وقت کاغدارمسلمان بادشاہ ابو عبداللہ جس نے اپنے فوجی افسروں سے کہناشروع کر دیاتھاکہ یہ وقت لڑائی کانہیں ہے،ہمیں عیسائیوں سے صلح کرلینی چاہئے۔جنگ کرنے سے شہرغرناطہ میں خون خرابہ ہوگا۔اس”روشن خیال”بادشاہ نے خفیہ طورپر(بیک ڈورڈپلومیسی چینل)اپنے وزیرکوفرنینڈکے پاس صلح کی درخواست کیلئے بھیجاجسے فرڈی نینڈ نے منظورکیااورصلح نامہ تیارکیاگیاجس پردونوں فریقوں نے دستخط کئے۔غرناطہ کے غیرت مندمسلمانوں نے مقابلہ کیا۔وہ ہتھیار ڈالنے کے حق میں بالکل نہیں تھے مگر غدار بادشاہ ابوعبداللہ اوراس کے امیروں نے ان غیرت مندمسلمانوں کا ساتھ نہیں دیا بلکہ عوام کو اپنی روشن خیالی کے پردے کے پیچھے چھپی ہوئی ذلت آمیزصلح پررضامند کروایا۔۔۔۔۔پاکستان میں ایساہی کھیل شروع ہوچکاہے۔آئی ایم ایف کے حکم پرحکومت نے اسمبلی میں منی بجٹ کے نام پر جس خطرناک کھیل کاآغازکیاہے،اس کے نتائج سے خوفزدہ ہوں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں