لمحوں کی خطا، صدیوں کی سزا

:Share

پچھلےچند عشروں میں ایشیاکے طول وعرض اوربحرالکاہل کے خطے میں بہت کچھ تبدیل ہوچکاہے۔ کئی ممالک مضبوط ہوکر ابھرے ہیں لیکن جنوب مشرقی اورجنوبی ایشیامیں امریکااورمغرب کی مشترکہ جنگی حکمت عملی میں بھارت کواپنی ڈھال کے طورپراستعمال کرنے کےامکانات اب مشکلات سے دوچار دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ پاک چین اشتراک ایک بڑے حریف کی شکل میں موجودہے،جسے منہ دیے بغیرکچھ کردکھانا، کسی مقام تک پہنچناتقریباًناممکن ہے۔ علاقائی اورعالمی حالات بہت تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں۔یہ عمل پیچیدہ بھی ہے اور ہر معاملہ پوری توجہ چاہتاہے۔کوئی ایک چھوٹی غلطی بھی خاصانقصان پہنچا سکتی ہے۔

چندعشروں کے دوران ایشیاوبحرالکاہل کے خطے میں ایک طرف جاپان تیزی سے ابھراہے اورعالمی سیاست میں اپنی بات منوانے کیلئے کوشاں ہے ۔جاپان معاشی اعتبارسے بہت مضبوط ہے تاہم جغرافیائی طورپرمحدودہونے اورکمزورثقافتی اثرات کا حامل ہونے کے باعث وہ عالمی سطح پرکوئی بڑاکرداراداکرنے کی پوزیشن میں نہیں،دوسری طرف بھارت خودکوعلاقائی سپر پاوربننے کیلئے امریکااوریورپ کاآلہ کاربننے کیلئے خودکوپیش توکر چکاہے لیکن پاک چین اشتراک کاحقیقی خطرہ نظراندازکرنا ہےبھی ممکن نہیں۔

چین معاشی اعتبارسے اس قدرمضبوط ہوچکاہے کہ اب جاپان اورامریکااس کواپنے مستقبل کیلئےحقیقی خطرہ سمجھ رہے ہیں۔ عالمی سیاست و معیشت میں امریکا کی بالادستی رفتہ رفتہ محدودہوتی جارہی ہے۔سات آٹھ عشروں سے عالمی نظام کی قیادت امریکاکے ہاتھ میں رہی ہے اور امریکایہ سمجھتاہے کہ چین عالمی نظام کی قیادت اپنے ہاتھ میں لیناچاہتاہے یاپھراِس امرکیلئے کوشاں ہے کہ چند ہم خیال اورطاقتورممالک کے ذریعے امریکاکوایک طرف ہٹاکرخطوں کی تقدیرلکھنے کاامریکی حق سلب کرنا چاہتاہے۔امریکااوریورپ بھانپ چکے ہیں کہ اُن کیلئے گنجائش تیزی سے گھٹ رہی ہے۔امریکااب تک ہارڈپاوریعنی عسکری قوت کے ذریعے معاملات کواپنے حق میں کرنے کے درپے رہاہے۔دوسری طرف یورپ سوفٹ پاوریعنی جدیدترین علوم وفنون اور معاشی اقدامات کے ذریعے اپنی آبروبچانے کی کوشش کررہاہے۔اپنے مشترکہ مفادات کیلئے امریکااور یورپ نے چین کاراستہ روکنے کیلئے خطے میں بھارت کو قربانی کابکرابنانےکی سازشوں کاجال بچھادیاہے لیکن مکاربنیاءامریکاویورپ کی مددسے علاقے کی سپرپاوربننے کاخواب دیکھ رہاہے۔

انہی خطرات کوبروقت بھانپتے ہوئےگزشتہ ماہ پاک فضائیہ اورچین کی پیپلز لبریشن آرمی ایئر فورس کی باہمی کامیاب شاہین9 جنگی مشقوں میں دونوں ممالک کی فضائیہ نے اپنے تجربات اورکارکردگی کامظاہرہ کیابلکہ اہم بات یہ ہے کہ یہ جنگی مشقیں خطے کے سیاسی حالات اورپاکستان کی مغربی ٹیکنالوجی سے مشرق کی طرف منتقلی کاایک اہم پیغام بھی ہے۔پاکستان کے آپریشنل ایئربیس پرہونے والی یہ دوہفتوں پرمبنی ہمہ جہت پہلوپر مبنی مشق محض دو دوست ملکوں کی فضائیہ کا باہمی اشتراک ہی نہیں بلکہ جہاں الگ الگ ثقافتی ماحول اورآپریشنل روایات سے بڑھ کرزبان کے فرق کے باوجودخطے کی دواہم مضبوط فضائی طاقتوں کی صلاحیتوں میں بے پناہ اضافہ کاموجب بنی ہیں وہاں خطے کی جیوپولیٹیکل صورتحال اورملٹری ایوی ایشن شعبے میں پاکستان کی خود انحصاری یامغرب سے مشرق کی جانب سفرکا ایک اہم ذریعہ بھی ہے۔

دراصل2011ءکوپاک چین دوستی کاسال قراردیتے ہی پاکستانی ایئربیس پرشاہین مشقوں کاآغازکردیاگیاتھا۔یہ پہلی مرتبہ تھاکہ چینی فضائیہ کے
اہلکاروں اورپائلٹس کوغیرملکی ایئربیس پرتعینات کیاگیاتھا۔اس کے بعد2013ءمیں پاک فضائیہ کاعملہ شاہین2 کیلئےچینی ایئربیس پرتعینات ہواجوچینی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی غیرملکی فضائیہ کے عملے کوچینی ایئربیس پرتعینات کیاگیا ہو۔پاکستان اورچین کے درمیان شاہین فضائی مشقوں کامقصدفضائی جنگ میں مہارت کوبڑھانے کےعلاوہ فضائی جنگ اوردفاع کیلئےوسائل کوترتیب دینااورپائلٹس اورزمینی تکنیکی عملے کی صلاحیتوں کوبڑھاناہے تاکہ وہ موجودہ پیچیدہ جنگی حالات میں فضائی طاقت کے اظہارکے مختلف طریقہ کاراورحکمتِ عملی کوبھی سمجھ سکیں۔

پاکستان ایئرفورس فضائی جنگ کاایک وسیع تجربہ رکھتی ہے۔پاکستانی فضائیہ کے پائلٹس نے نہ صرف اپنی فضائی حدودمیں متعددمعرکوں میں جنگی تاریخ رقم کی ہے بلکہ خلیجی ملکوں میں بھی پاکستان ایئرفورس کے پائلٹس نے اپنالوہامنوایاہے۔

پاکستانی فضائیہ متعددعالمی فضائی مشقوں کابھی حصہ ہے اوردنیاکی بہترین فضائی افواج کے ساتھ مشق کرنے کاتجربہ رکھتی ہے۔پاک فضائیہ امریکا،اٹلی، ترکی،مصر،یواے ای،اردن اورسعودی عرب کی فضائی افواج کے ساتھ مشترکہ مشقیں کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چینی فضائیہ کے اعلیٰ ترین افسران پاک فضائیہ کے پائلٹس اوردیگرعملے کی تعریف کرتے نظرآتے ہیں۔شاہین3مشق سال2014ءمیں منعقدکی گئی،جس کی اختتامی تقریب سےپیپلزلبریشن آرمی ایئرفورس کے میجرجنرل رین ہون شن کاپاک فضائیہ کی اعلیٰ درجے کی پیشہ وارانہ جنگی مہارت اورجنگی مشقوں کی شاندارکارکردگی کااعتراف کرتے ہوئے پاک فضائیہ کے پائلٹس کی جارحانہ جنگی اندازکی حکمت عملی کوخراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے اس بات کابھی اقرارکیاکہ پاک فضائیہ کے پائلٹس تربیت بھی ایسے حاصل کرتے ہیں جیسے جنگ لڑرہے ہوں۔ہم نے آپ لوگوں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔

شاہین مشق کاابتدائی ہفتہ زیادہ ترجائزے اورمنصوبہ بندی کاتھاجس میں فضائی مشق کے مقاصداوراہداف کوطے کرکے ایک وار گیم ترتیب دیاگیا۔اس وارگیم میں فضاسے زمین پراہداف کی تلاش،اہداف کولاک کرنا،فضاسے فضامیں مارکرنے کے علاوہ طیاروں کے درمیان ڈاگ فائٹ اور فضائی حملے کی صورت میں زمینی ایئرڈیفنس کوالرٹ کرنے کے ساتھ ساتھ جوابی کارروائی کرنے کی مشق شامل تھی۔ان تمام مشقوں میں تیاری اورردِّعمل کادورانیہ منٹوں اورسیکنڈوں کاتھاجس نےان مشقوں کونہایت پیشہ ورانہ اور معیاری بنادیا۔ اس فضائی مشق کاایک مقصدیہ بھی تھاکہ کسی بھی وقت ضرورت پڑنے پردوست فضائیہ سے ممکنہ مددکاتعین بھی کیاجاسکے۔ ان فضائی مشقوں میں لڑائی سے زیادہ مل کرکام کرنے اوربروقت فضائی آپریشنزسرانجام دینے کی صلاحیت کاکامیاب تجربہ بھی ہوا۔فضائی جنگ زمینی حقائق کے لحاظ سے اپنے منفرداندازمیں لڑی جاتی ہے اور زمین یاسطح پرموجود حالات جنگی فیصلوں اور حکمتِ عملی پراثراندازہوتے ہیں۔ فضائی جنگ میں دشمن کوسمندرکے اوپرللکارناہوتوحکمتِ عملی،طیاروں کاانتخاب،اڑنے کی فارمیشن اوردیگرمعاملات صحرا،میدان اورپہاڑی خطے کی جنگی حکمتِ عملی سے مختلف ہوں گے۔

چین پاک اقتصادی راہداری کے اعلان کے بعد بھارت اور مغربی طاقتوں کی جانب سے اس سی پیک منصوبے کو ناکام بنانے کیلئےامریکااورمغربی طاقتیں بھارت کواستعمال کررہی ہیں۔ لداخ اوراکسائے چین کے متنازع علاقوں میں کشیدگی کو ہوادی جارہی ہے۔کشمیرمیں کیے جانے والے بھارتی اقدامات کے حوالے سے پاکستان کے علاوہ چین میں بھی تشویش پائی جاتی ہے اوریہی وجہ ہے کہ بھارتی عزائم کوخاک میں ملانے کیلئےپاکستان اورچین نےاپنے پہاڑی علاقوں میں مشترکہ فضائی دفاع کے قیام کیلئے ضروری اقدامات اٹھائے ہیں۔

18دسمبر کوجب چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمرجاوید باجوہ شاہین9مشق کامعائنہ کرنے پاک فضائیہ کے ایئربیس کادورہ کررہے تھے توعین اسی وقت پاکستان کے وزیرِخارجہ شاہ محمودقریشی نےابوظہبی میں پریس کانفرنس میں انکشاف کیاکہ بھارت اپنے اندرونی حالات سے توجہ ہٹانے کیلئےسرجیکل اسٹرائیک کی منصوبہ بندی کررہاہے۔اس سے قبل10دسمبرکوبھی قریشی نے بھارتی فالس فلیگ آپریشن کے خدشے کااظہار کیاتھا ۔ فروری2019ء میں بھارتی طیارے نے پاکستانی فضائی حدودمیں رات کی تاریکی میں پاکستانی علاقے میں بم گرائے تھے۔بھارت نے دعویٰ کیاتھا دراصل اس نے اپنے ہدف کونشانہ بنایاہے،حالانکہ وہاں چنددرختوں کے علاوہ کسی کوکوئی نقصان نہیں پہنچاتھا۔ لیکن پاک فضائیہ نے اگلے ہی روزسورج کی روشنی میں اعلانیہ ایسا جواب دیاتھا کہ اقوام عالم میں وہ بھارت کی شرمندگی اورتاریخ کاحصہ بن گیاہے۔

دوسری جانب بھارت مسلسل چین کے ساتھ متنازع علاقوں میں چھیڑچھاڑمیں مصروف ہے۔لداخ میں دوبدو لڑائی میں کئی بھارتی فوجی مارے جا چکے ہیں۔ان دونوں سطح پربھارت جنگی رسوائی کے بعدعالمی سطح پرمجروح ساکھ کو بحال کرنے کیلئےبھارت ،پاکستان یاچین کے ساتھ کسی ایسے ہدف کونشانہ بناسکتاہے جس میں دونوں ملکوں کے مفادات مشترک ہوں۔ان حالات میں پاک چین فضائیہ کاشمالی علاقوں میں بلندپہاڑوں میں فضائی مشق دنیا کیلئے پیغام ہے کہ جہاں دنیاکے2بلند پہاڑ”کے ٹو”اور”ہمالیہ”ہیں ،ان2ملکوں کی فضائیہ ان پہاڑوں سے بھی بلندحوصلے کے ساتھ جنگ کیلئے تیارہیں بلکہ کسی بھی جارحیت کی صورت میں دونوں فضائیہ مل کرخوفناک منہ توڑجواب دے سکتی ہیں۔

اس وقت خطے کے سیاسی حالات کیاہیں،اس کااظہارشاہین9کی اختتامی تقریب سے خطاب میں چین کے سفیرنونگ رونگ نے کھل کرکہاکہ “موجودہ سیکورٹی حالات میں بڑھتی ہوئی پیچیدگیوں کے باعث بین الاقوامی اور علاقائی حالات میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔خطے میں امن واستحکام کو برقراررکھنے اورمشترکہ چیلنجزسے نبردآزماہونے کیلئےدونوں ممالک اوران کی مسلح افواج کاباہمی تعاون وقت کی اہم ضرورت ہے،اوراس مشق کے دوران دونوں فضائی افواج نے عسکری میدان میں متعددکامیابیاں اورمشترکہ مقاصد حاصل کیے ہیں۔

اگرجنگی طیاروں کی بات کی جائے توپاک فضائیہ کے پاس ایک سے زائدقسم کے طیارے موجودہیں،جس میں امریکی ساختہ ایف 16،پاک چین ساختہ جے ایف17تھنڈراورمیراج طیاروں کے علاوہ دیگرطیارے بھی موجودہیں۔1990ءکی دہائی میں پریسلرترمیم اوردفاعی پابندیوں کے بعد پاکستان نے اپنی دفاعی صلاحیت میں خودانحصاری پیداکرنے کیلئےاقدامات شروع کیے۔پاک فضائیہ نے مغربی جنگی آلات سے جان چھڑاتے ہوئے چین کے تعاون سے جدیدجنگی سہولتوں سے مزین جے ایف17طیارہ بناکراپنی فضائیہ میں کامیابی سے شامل کرلیاہے۔ حالیہ جنگی مشق”شاہین9” میں بھی پاکستانی فضائیہ کی جانب سے چین میں تیارکردہ ملٹری ایوی ایشن آلات کااستعمال کیاگیاہے۔ پاک فضائیہ کے سربراہ ایئرچیف مارشل مجاہد انورخان نے”شاہین ۹”مشق میں شامل چینی لڑاکاطیارے کاکامیاب تجربہ بھی کیا۔

یہاں اہم بات یہ ہے کہ ایئر چیف نے جس چینی طیارے میں پرواز کی اس کی کوئی فوٹیج منظر پر نہیں آئی اور یہ بھی قیاس آرائیاں ہیں”جوجے10 شاہین9کاحصہ تھے،ان پرچین کاجھنڈانہیں تھا،توکیامستقبل میں ایک اورخوفناک سرپرائزدشمن کیلئےتیارکھڑاہے؟”ایئرچیف مارشل مجاہدانور کا کہناتھاکہ”موجودہ حالات کے تناظرمیں چینی ملٹری ایوی ایشن ٹیکنالوجی دورِجدیدکی عسکری ضروریات کاایک اہم جزوہے اورعصرِحاضرکے تمام چیلنجوں سے مقابلہ کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔چینی پائلٹس کی پیشہ ورانہ مہارت کی تعریف کرتے ہوئے ایئرچیف نے کہاکہ چینی پائلٹس عسکری ہوابازی کی غیرمعمولی صلاحیتیں رکھتے ہیں۔

پاک فضائیہ کے سربراہ کایہ بیان بہت اہمیت کاحامل ہے اوراس بات کی غمازی کررہاہے کہ پاک فضائیہ نے چین کے تعاون سے فضائی دفاعی شعبے میں مغرب پرانحصارکوکم سے کم کرتے ہوئے جنگی طیاروں کے علاوہ دیگرشعبوں میں بھی چینی ملٹری ایوی ایشن کااستعمال بڑھادیاہے جس میں ریڈار،میزائل، گراؤنڈکنٹرولز،ایئرڈیفنس،ارلی وارننگ سسٹم اوردیگرشعبہ جات شامل ہیں۔

پاک فضائیہ کی دفاع اورجنگی آلات میں اسی خودانحصاری کوقائم کرنے کیلئےایروناٹیکل کمپلیکس کامرہ کوایوی ایشن سٹی میں تبدیل کردیا گیاہے اوراس میں ایوی ایشن صنعت کے حوالے سے نئے نئے ادارے قائم کیے جارہے ہیں۔ایوی ایشن سٹی کے قیام کا مقصدپاکستان کوعسکری اور شہری ہوابازی کے شعبے میں جدیداورمقامی سطح پرتیارکردہ کم قیمت آلات کی فراہمی ہے۔اس ایوی ایشن سٹی میں پہلے ہی58فیصدجے ایف17تھنڈرکی تیاری کی جارہی ہے۔اس کے علاوہ ایوی ایشن سٹی میں آرمی ایوی ایشن کے ہیلی کاپٹروں کیلئےپرزہ جات کی تیاری بھی کی جائے گی۔

پاک فضائیہ نے اس سے قبل جولائی2017ءمیں اس بات کااعلان کیاتھاکہ پروجیکٹ”عزم”میں ففتھ جنریشن وارفیئرکی تیاری کی جارہی ہے،جس میں بغیرپائلٹ کے ایسے لڑاکاطیارے تیارکیے جائیں گے جوطویل فاصلے تک دشمن کومارنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ پاکستان اورچین کے درمیان فضائی جنگی مشقوں کااشتراک ملکی دفاع کومضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ فضائی دفاع میں خود انحصاری کی جانب بڑھتاہواقدم بھی ہے۔دونوں ملک جوبھی فضائی جنگی آلات تیارکررہے ہیں،شاہین مشقیں ان آلات کی آپریشنل کارکردگی کاجائزہ لینے کااہم موقع بھی فراہم کررہی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں