The Earnings Of Poor In The Era In Which It is Lost

جس دورمیں لٹ جائے فقیروں کی کمائی

:Share

جب میں مڈل اسکول کاطالب علم تھااوراپنے والد(مرحوم)کے ساتھ اکثرضدکرکے ان کے ساتھ لاہوراپنے دورکے چچاسے ملنے کیلئے جایاکرتاتھا۔مجھے یاد ہے کہ میرے عزیزوں کاقیام مشہورزمانہ سنٹرل ماڈل ہائی سکول لوئرمال لاہورکے بالکل قریب تھا۔اسکول کے مین گیٹ کے ساتھ ہی آج بھی امام بارگاہ گامے شاہ کے داخلے کامرکزی دروازہ ہے۔وہ زمانہ ہرطرح کی دہشتگردی سے کوسوں دورامن وامان کادورتھاجس کوبعدازاں کئی مرتبہ کسی جنگی چھاؤنی کی طرح تختہ مشق بھی بنایاگیا۔اس گیٹ کے ساتھ ان دنوں چرس بھرے سگریٹ اورکونڈی ڈنڈا لیے بھنگ گھوٹنے والے کچھ ملنگ لوگ آتے جاتے زائرین سے خیرات کی امید میں بیٹھے نظرآتے تھے۔کبھی کبھارانہیں مست ملنگوں کے پاس خاک سے اٹی ہوئی زلفوں اورکٹے پھٹے احرام نماسیاہ لباس میں ایک مجذوب ساشخص بھی نظرآتاتھا۔میں اپنے کزن کے ساتھ اکثراس سیاہ پوش کے پاس کھڑاہوکراس کی حرکات وسکنات کاطفلانہ سا جائزہ لیاکرتاتھا۔اکثراس کے پاس سگریٹ کی خالی ڈبیوں کے خولوں سے بھرا ہوا لفافہ پڑا رہتا تھا۔وہ اس میں سے ایک ڈبی نکال کر اس کی تہیں کھولتا، اندر والے سفید حصے پر اشعار لکھتا اورگلے میں ڈالے ہوئے ایک میلے کچیلے تھیلے میں ڈال لیتا۔میں جان گیا تھا کہ سگریٹ کی ڈبیوں کے خولوں سے بنائے ہوئے وہ گتے ہی اس شخص کی نوٹ بک اور پرسنل ڈائری تھے۔مجھے اس شخص کے پاس بیٹھنے اوراس کے لکھے ہوئے وہ گتے دیکھنے کی بڑی خواہش تھی لیکن شایداس کی “خوفناک اور پراسرار” حالت دیکھ کرزیادہ نزدیک جانے کاحوصلہ بھی نہیں پڑتاتھا۔میں نہیں جانتاتھاکہ جس شخص کے اشعارمیرے والد حضورشام کے وقت اپنی ڈیرے پرلگنے والی دوستوں کی بیٹھک میں سن کراپنے تمام دوستوں سمیت خوب داددیاکرتے تھے،وہ انہی اشعارکاخالق ساغرصدیقی تھا۔

میں جب نویں جماعت میں پہنچاتوآخری مرتبہ والدصاحب کے ساتھ لاہورکاسفرکیاتومجھے اپنے انہی چچاکی دوکان پرجانے کاموقع ملا۔ان کافوٹوفریمنگ کااچھا خاصا ذریعہ معاش تھااوراس کے ساتھ ساتھ لاہورکے کئی معروف ادیبوں کی بیٹھک بھی دوکان کے عقب میں سجی رہتی تھی۔پہلی مرتبہ میں نےاسی مجذوب ساغرصدیقی کواپنے چچاکی سرنگ جیسی لمبی دوکان کے آخری گوشے میں ان کیلیے بچھائی چادرپرگاؤتکیہ لیے،لبوں میں سگریٹ لگائے سگریٹ کی ڈبیوں کے خولوں کے گتوں پراشعارلکھتے دیکھا۔مجھے یاد ہے کہ جب میرے چچانے میرے والدکی موجودگی میں ان سے متعارف کراتے ہوئے کہاکہ”ساغرجی یہ میرا بھتیجاہے،اسے بھی اپنے تئیں چھوٹی چھوٹی کہانیاں لکھنے کا شوق ہے مگر آپ اسے کچھ لکھناشکھنا سکھائیں”،تو وہ میرے چہرے پر نظریں گھاڑے دیکھتے رہے اورمجھے مجال نہ ہوئی کہ میں ان کی طرف آنکھ بھرکے دیکھ پاتا۔انہوں نے میرے چچاسے کہا،”بابوجی ایک پرچی دو”۔میں ابھی یہ سوچ ہی رہاتھاکہ پرچی کاکیامطلب ہوگاکہ میرے چچانے لوہے کے سیل بکس سے ایک روپے کانوٹ نکالااوربڑے ادب سے اپنے دونوں ہاتھوں سے ساغرصاحب کے ہاتھ میں تھما دیا۔وہ اٹھے اورسامنے چائے کی دوکان سے ایک گلاس چائے،دورس اورایک کے ٹوسگریٹ کی ڈبی لاکرواپس تکیہ کے ساتھ ٹیک لگاکربیٹھ گئے۔روپے کی پرچی سے بچنے والی چونی انہوں نے میری طرف بڑھائی اوراشارے سے جیب میں ڈالنے کوکہا۔اس سے پہلے کہ میں چونی کا وہ سکہ لینے سے انکار کرتا میرے چچا بولے”اوئے رکھ لا،درویشاں دا دتا ہویا برکت والا ہوندا اے”۔ساغرصاحب نے سگریٹ کی ایک خالی ڈبی کے خول کو چیرا اورڈبی کے الٹی طرف کے سفید حصے پر یہ دو اشعار لکھ کر میرے ہاتھ میں تھما دیے،جو میرے لیے کسی بھی مکتبہ عشق سے حاصل کردہ پہلا سبق ٹھہرے۔
نقشِ پائے رسول ملتے ہیں……… فیض عالم کی رہگزاروں پر
جذب ومستی کے پھول کھلتے ہیں…….. تتلیاں رحمتوں کی رقصاں ہیں

میرے کزن کے بقول”وہ اکثر شام کے بعد دوکان کے اسی گوشے میں سڑکوں سے اکٹھی کی گئیں سگریٹوں کی خالی ڈبیوں کے ساتھ آ بیٹھتے تھے۔ لوہاری دروازہ میں واقع دوکان کی اوپری منزل پرشہرہ آفاق خطاط تاج الدین زریں رقم اور خورشید گوہر رقم کی مشہور بیٹھک کاتباں تھی جہاں سارا دن نامور شعرا اور ادبی ہستیوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔اکثر وہ شعرا حضرات بھی نیچے دوکان پرساغر صاحب کے پاس یٹھے رہتے۔میں گواہ ہوں کہ شباب کیرانوی جیسے کئی فلمساز اورصہبا اکبرآبادی جیسے کئی شاعران سے گیت اورغزلیں لکھوا کراپنے نام سے شائع کرتے تھے۔”یہ میری خوش قسمتی تھی کہ مجھے لاہوردوران تعلیم کئی برس تک ان کی صحبت میسر رہی۔میری تربیت میں جہاں میرے والد محترم اوران کے پاس بیٹھنے والی علمی شخصیات کے بے حد احسانات ہیں وہاں میرے یہ چچاکے بھی کئی احسانِ عظیم ہیں جن کی براہ راست میری تربیت میں بڑاعمل دخل رہاہ ے ۔میرے یہ چچا بھی اردو، پنجابی اورکشمیری زبان کے اعلی پائے کے شاعر تھے۔لہذا ساغرصاحب جو بھی لکھ کر دیتے، میں اسے سمجھنے کیلئے چچا کاسر کھاتا رہتا۔

ساغرصاحب کی کبھی سمجھ آنے اورکبھی نہ آنے والے اندازمیں بتائے گئے شاعری کے علم العروض کے کچھ نکات اوردوچار بحریں ہی سیکھ پایاتھاکہ تعلیم مکمل ہونے پرمجھے اعلیٰ تعلیم کیلئے امریکاجاناپڑگیااوریہ سلسلہ وہاں ایسارکاکہ پھرکبھی جاری نہ ہوسکا،صرف ایک مرتبہ اپنی اہلیہ مرحومہ کی یادمیں کچھ اشعارلکھے جس کی بعدازاں اصلاح منجھے ہوئے شاعراورمیرے بیٹے ڈاکٹرکامران کے ہاتھوں مکمل ہوئی۔میں پاکستان واپسی کی تیاریوں میں تھاکہ اچانک19جولائی 1974ءکووہ اس جہان فانی سے چل بسے۔ان کی موت مجھ سمیت ان کے بہت سے پرستاروں کیلئے بڑی ہی تکلیف اوردکھ کاباعث تھی۔ساغرصدیقی کے انتقال کے بعد ساغرمیموریل سوسائٹی بنی اورمیرے چچانے ان ادبی احباب کی درخواست پرساغرسے جڑی کچھ یادیں،جن میں ان کے سیاہ احرام، رنگ برنگے کپڑوں کے ٹکروں سے سلی ہوئی دوگودڑیاں،پیتل اورتانبے کی کچھ انگوٹھیاں اورنگینوں سے سجے پتھرکے چندکاسے ان کی خدمت میں پیش کردیے۔

گزشتہ دنوں میرے کسی قاری نے حسن نثارکاکالم ارسال کیاجس میں مرحوم مجذوب ساغرصدیقی کابڑی تحقیرسے ذکرکیاگیاتھاتو مجھے ساغرصاحب کی خدمت میں حاضر ہونے والے وہ نام نہاد شعرایادآگئے جوساغرصاحب کوسگریٹ کی ڈبیاں اورچرس کی ڈلیاں دیکرغزلیں لکھواکراپنے نام سے شائع کرواکے عظیم شاعر کہلوائے ۔خودکودنیائے صحافت کاعظیم صحافی سمجھنے والے صاحبِ میخانہ حسن نثار صاحب لکھتے ہیں کہ۔۔۔۔عشروں پہلے لاہورمیں ایک بھوکا ننگا مجذوب شاعرکملی پہنے قریہ قریہ آوارہ، پھرا کرتا تھا۔کسی نے روٹی دی…کھا لی، چرس دی…. پی لی…گالی دی…. لے لی…غرضیکہ ہراعتبارسے”واجب القتل” تھا ۔۔۔ لیکن فتوے سے اس لیے بچا رہاکہ ہر قسم کے سوداگروں کیلئے بے ضرر تھا۔اور تو اور اپنے وقت کے مہان فلم پروڈیوسر اس کے پاس آتے ،چرس کے ہیرے موتی پیش کرتے،اور اس سے لازوال نغمے بٹورکے لے جاتے۔وہ گنہگار اس قدر معصوم تھا کہ اپنے ہی لکھے ہوئے گیتوں سے سرشارہوتے ہوئے بھی کبھی نہ جان پایاکہ یہ گیت اسی کے لکھے ہوئے ہیں…حسن نثارآخرمیں بڑی تحقیرسے لکھتے ہیں کہ”اس شاعرخانہ خراب کانام تھا ساغر صدیقی۔ کیا عجیب کامبی نیشن ہے،ایک طرف ساغردوسری طرف صدیقی۔اسی ساغرکے اس شعرپرغورکریں:
آؤ اک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغرکوخدایادنہیں

حسن نثاراگراپنے ماضی پرنظردوڑائیں توشایدانہیں یادآجائے گاکہ وہ صرف ڈھائی عشرے قبل لنڈے کاکوٹ پہنے مفلرسے ناک صاف کرتے ہوئےکبھی حامد میرکے والدگرامی وارث میر صاحب کا بیگ تھامے ذاتی خدمتگار کی طرح پیچھے چلتے دکھائی دیتے تھے۔ ساغرمفلوک الحالی کے جرم میں”واجب القتل” تھا،ہاتھ میں کاسہء فقرلئے درکوزہ گری کرتارہامگروہ سامراجی غلاموں کاغیرت فروش بھکاری نہیں بنا۔ساغرصدیقی کے اعزازمیں ٹارگٹ کلراوربھتہ خور مافیوں نے موسیقی کی شامیں منعقدنہیں کیں۔ساغرایک پراگنداطبع سیاہ پوش مجذوب ضرورتھالیکن اس نے اٹالین سوٹ برانڈاورکلائی پراپنی گھری کی نمائش کرتے ہوئے خوش پوش مسخرے حسن نثارکی طرح قرآن وحدیث اورشان رسالت مآب کے حوالے سے کبھی گستاخانہ باتیں یااسلامی اقداروشعائر کے بارے ہرزہ سرائی کرکے لوگوں سے لعنتیں نہیں سمیٹیں۔ساغرصدیقی نے اوروں سے ملی چرس اورچائے پی،مداحوں سے روٹی ضرور کھائی مگرحسن نثارکی طرح مجیدنظامی جیسے معززصحافی کوگالی دیکرخواجہ فرخ سے سٹیج پرسرعام طمانچے نہیں کھائے۔یہ بھی کسی لطیفے سے کم نہیں کہ شاعری کے بنیادی اصولوں سے ناواقف شخص،علامہ اقبال کوشاعرمشرق کے نام سے پکارے جانے پرچاندپرتھوکتااورساغرصدیقی جیسے سخن ورکی فقیرانہ زندگی کاحوالہ دیکرعامیانہ اندازمیں جگت بازی کر رہاہے۔بقول حسن نثار”لوگ واقعی بڑے ظالم ہوتے ہیں کہ اپنے اپنے ظالموں کوکندھوں پہ اٹھائے پھرتے ہیں اورروشنی تقسیم کرنے والوں کواندھیروں کے سپردکردیتے ہیں کہ یہی بدنصیب معاشروں کاالمیہ ہوتاہے۔اپنے بہترین قسم کےلوگوں کومختلف قسم کی موتوں کے گھاٹ اتار اتارکران پرماتم کرنے والے ظالم لوگ۔اسی ساغرصدیقی نے لکھاتھا۔۔
جس شہرمیں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس شہرکے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے

لیکن ہمارے سلطان توبراہِ راست خودلوٹتے ہیں،سرکاری طورپرلوٹتے ہیں۔۔دن دیہاڑے لوٹتے ہیں”…………حسن نثارعلمیت اوردانشوری کادعویٰ تو کرتا ہے لیکن ساغر صدیقی کایہ شہرہ آفاق شعربھی درست نہیں لکھ سکا۔ شعرکاغلط لکھاجاناکوئی بڑی بات نہیں لیکن موصوف کی طرف سے اکثروبیشتریاتو دوسروں کے اشعار غلط لکھے جاتے ہیں یاخوداپنے اشعاربحرسے خارج اوربے وزن ہوتے ہیں اوریہی ان کے جاہل ہونے کی علامت ہے۔یادرہے کچھ لوگوں نے اس شعر کے دونوں مصرعوں میں”عہد”لکھا ہے، لیکن”شہر” کاذکرکسی بھی دیوان،کلیات یاکتاب میں موجودہی نہیں۔میری تحقیق کے مطابق اصل شعر کچھ یوں ہے…………
جس دورمیں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہدکے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے

اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ آپ جیسا ڈبل فیس ہی ظالموں کوکندھوں پراٹھانے کی بات کررہاہے۔خواص وعوام گواہ ہیں کہ وہ کراچی کاظالم بھتہ خور وسفاک دہشتگردمافیہ ہویادین پر گستاخانہ حملے کرنے والےلوگ،ان کاپہلااورکھلاحلیف حسن نثارہوتاہے۔ وہ آپ ہی ہیں جوکبھی ظالموں کے نظریات اپنے کاندھوں پراٹھائے پھرتے ہیں اورکبھی خودان کے کندھوں پربیٹھے اپنی عقل کل پر ماتم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔کچھ تعجب نہیں کہ آپ کوبے تحاشہ پی کریہ سب کچھ لکھنے وقت ذرابرابر شرم محسوس نہیں ہوئی ہو گی لیکن قارئین کے ذوق مطالعہ کیلئے اس شعرکاپس منظرلکھ رہاہوں۔ساغرصاحب نے ایوب دورکے اوائل میں:”کیاہے صبر جو ہم نے،ہمیں ایوب ملا”کے مرکزی مصرع کے ساتھ ایک نظم لکھی تھی۔یہ نظم ایوب خان کی نظرسے گزری تواس نے لاہورآمد کےموقع پرساغرصدیقی سے ملنے کی خواہش کااظہارکیا۔حساس اداروں اورافسر شاہی نے ساغرکی تلاش میں اندرون شہرکارخ کیاتواندرون لوہاری گیٹ میں مشہور حاجی نہاری والے کی دوکان کے سامنے پان فروش کے تھڑے پربیٹھے ساغرصاحب ان کے ہتھے چڑھ گیے ۔اہلکاروں نے ساغرکوبتایاکہ فیلڈ مارشل صدر مملکت نے انہیں گورنر ہاؤس میں ملاقات کی درخواست کی ہے توساغرصدیقی نے کھرا جواب دیتے ہوئے انکارکردیاتھاکہ ہم فقیروں کابادشاہوں سے کوئی لینا دینانہیں۔صدرمجھے کیادیں گے،صرف یہی دوچارسو روپے، مگرفقیروں کی قیمت اس سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔اہلکاروں کے مزیداصرارپرساغرنے سڑک پر پڑی سگریٹ کی خالی ڈبی اٹھاکر کھولی اوراس کےاندرکے سفیدحصے پریہ شعر لکھ کر ان کے حوالے کردیا…………
ہم سمجھتے ہیں ذوقِ سلطانی
یہ کھلونوں سے بہل جاتاہے

یہ شاعرانہ جواب صدرایوب خان سے زیادہ درندہ صفت گورنرنواب آف کالاباغ امیرمحمدخان کوناگوارگزرامگرانہوں نے اگلے روز جوٹیم روانہ کی جوبصد کوش تمام ساغر کی بجائے ایک اورسگریٹ کی ڈبی پرلکھاہواوہ شعرساتھ لے گئی جوآپ نے ہمیشہ کی طرح اپنے عالمانہ نشے میں غلط لکھ دیاہے۔یادرکھیں کہ ساغرصاحب آپ جیسے ضمیرفروش اورزردصحافت کے قلم کاروں کی طرح کبھی بھی کسی مسندنشین یاسامراجی گماشتوں کی قدم بوسی کیلئے محلات شاہی کے ضمیرفروش مہمان نہیں بنے۔آپ جناب ساغر صدیقی کے حوالے سے یہ کالم لکھنے سے قبل آئینے میں اپنی صورتِ کرداردیکھ لیتے توآپ کویہ ضرورنظر آجاتا کہ آپ یہودی غلامین کی یاتراکیلئے مشرف کی محافل موسیقی ومجرا،نائن زیروکے گسٹاپوہاؤس ہی نہیں اپنے نظریاتی بھائی پیرآف لندن شریف کی قدم بوسی کیلئے انگلستان اوریہودی آقاؤں کی قدم بوسی کیلئے کینیڈا تک پہنچ جاتے ہیں۔ساغرنے فقیری یابھیک میں چرس کی ڈلیاں اورکالے لباس کی چادریں لیں مگرصد آفرین کہ اس غیرت مند مجذوب نے آپ جیسے غدارِامت کی طرح اپنے مغربی اورسامراجی آقاؤں کے سفارت خانوں سے کینالی کے اٹالین سوٹ اورولائتی شراب کی پیٹیاں،محلات شاہی کی گداگری سے ایکڑوں کے پلاٹ اور سیاسی بلیک میلنگ سے کروڑوں ڈالروں کی بخششیں اکٹھی نہیں کیں۔یہ بھی ذہن میں رہے کہ آپ کا(لائلپور) فیصل آبادسے لاہور ، پھرماڈل ٹاؤن سے بیلی پورکے سفرکی خوفناک اورلرزہ خیزداستانیں اگرمنظرعام پرآجائیں تودانشمندی کاسارا مصنوعی غبارہ اس کی تاب نہ لا سکے گااوربے نظیربھٹونے آپ کوبلاکرجوڈانٹ پلائی تھی اورآپ کے منت ترلہ کرنے کے باوجودآپ کوبھری مجلس سے نکال دیاگیاتھا،اس کے چشم دیدگواہ بھی موجودہیں،اگروہ میدان میں آگئے توآپ کومنہ چھپانے اورغرق ہونے کیلئے گھونٹ بھرپانی بھی میسرنہ ہوگاجبکہ اپ کی اولادپہلے ہی انسانیت کے غم میں بگلابھگت کی آنکھوں میں مگرمچھ کے آنسوؤں کی حقیقت کے بارے میں گواہی دے چکے ہیں۔

اپنی نام نہاد دانشوری کو صحافت کے نام پرفروخت کرنے کا دھندا ختم کریں،میڈیا پر چیخ چیخ کر قوم کو بھاشن دینے سے بھی اجتناب کریں،عورت کے نام پر صحافت کو مت بیچیں،لال پٹیاں اور سرخ پھٹے چلا کر، گلا پھاڑ کرعورت کا نام لےکر جذباتی بلیک میلنگ کے ذریعے صحافت جیسے مقدس پیشے کے اصول ، ضابطے اورقاعدے مت روندیں کہ یہ تہذیب اورجہالت کامعاملہ ہے،یہ صحافت اور ریاستی طاقت کانہیں قاعدے قانون اوراخلاق کی بات ہے۔ ہوش کیجئے،ہوش!شام اوررات گئے لائیومیڈیاپرآنے کی زحمت نہ کیاکریں کہ نوجوان نسل بھی آپ کے اس چہرے کودیکھ کرپریشان ہے کہ جس کے اپنے ہوش وحواس قابومیں نہیں اورکس طرح معاشرے کاناصح بننے کی ایکٹنگ کررہاہے۔صحافت کالفظ ہی صحیفے سے نکلاہے،سوچئے کہ اس ملک کے باسیوں کاذرائع ابلاغ سے اعتمادکیوں اٹھتاجارہاہے؟مولاناظفرعلی خان،حمیدنظامی،منہاج برنا،حسین نقی،ضمیرنیازی اوراحمدعلی خان کے علمی وارثوں کی یہ زیب نہیں دیتا کہ معاشرے کے حقوق یاان کی عز ت کے نام پرخوداپنے ہی قبلے کوسستی شہرت کے چندلال پھٹوں،بے بنیاد اوردلیل سے عاری ٹیلی فونک بیپروں کے عوض بیچ ڈالیں اوراپناقدبڑھانے کیلئے ساغرصدیقی پرتحقیرکے تیروں کی بارش کاسہارا لے کہ یہ تمام تیرواپس آپ کی منافقت کوچھلنی کرکے رکھ دیں گے۔

اس میں شک نہیں کہ اپنے ہی خون میں شرابورساغرصدیقی اس ہنستے بستے شہرمیں کئی دنوں تک مقتل کانظارابنارہا،اُس وقت ملک کی سب سے بڑی ادبی تنظیم رائٹرزگلڈکے انتخابات پرپانی کی طرح روپیہ بہایاجارہاتھااوربہت سارے خوشحال ادیب اورشاعر رائٹرز گلڈسے معذوروں کاوظیفہ بھی پارہے تھےلیکن ساغر جس نے عمربھرصلہ وستائش سے بے نیازہوکررحم اورحُسن وپیارکے گیت تراشے تھے،اپنے خون آلودکُرتے میں لپٹاتیسرے دن بے کسی کے ساتھ مرگیاتھا ۔ اُسے کس نے کفن پہنایااورکون لوگ دفن کرنے قبرستان گئے۔یہ شکستِ ساغرکی آخری گمشدہ کڑی ہے اورجس طرح کسی کویہ معلوم نہیں کہ اُس نے کس ماں کی گود میں آنکھ کھولی؟کس باپ کی شفقت سے محروم ہوا؟اورکس بھائی نے اُسے پیارسے پکارا؟اس طرح یہ بھی معلوم نہیں کہ اُسے قبر میں اُتارنے والے کون تھے؟

ساغر کوقبرستان میانی صاحب میں دفن ہوئے48سال بیت گئے ہیں اورمجھے اُس کی زندگی کے بکھرے بکھرے مناظرترتیب دیتے ہوئے اُس کی آخری آرام
گاہ پرلگاہوایہ کتبہ بے حال کردیتاہےکہ:”عاشق کوسجدہ کرنے کی مستی میں اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتاکہ اُس کی پگڑی کہاں گری ہے اوراُس کاسر
محبوب کے قدموں پرکس اندازسے گرتاہے”لیکن اُس کے کسی مداح نے اُس کے کتبے پراس کے شعرکے ساتھ یہ الفاظ لکھوادیئے”ساغر کاقاتل یہ معاشرہ ہے”۔
سُناہے اب تلک واں سونے والے چونک اُٹھتے ہیں
صدادیتے ہوئے جن راستوں سے ہم گزرآئے

ساغرصدیقی کی فنی عبادتوں اوراُس کی پاکیزہ شخصیت کے خدوخال لفظوں میں بیان کرنامشکل ہے۔اُس کی زندگی میں جھانک کر دیکھنامیری ہمتوں سے باہر ہے لیکن اس کی تحقیرکسی بھی طورقابل برداشت نہیں کہ آج بھی اس کی یادوں کے موتیوں اورپھولوں کی خوشبوکواپنے دل میں سنبھال کررکھاہواہے لیکن کیاکروں کہ اس کے ساتھ ہونے والے سلوک کے بارے میں جب سوچتاہوں تویہ موتیوں کے تمام پھول خون کے دھبوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔مجھے اکثروہ ساغرصدیقی یادآتاہے جوبرسوں پہلے مجھے اس شہرمیں ملاتھا۔گھنگھریالے بالوں،خوبصورت آنکھوں اورخوبصورت چہر ے والاساغرصدیقی اورپھرایک تباہ حال شاعر!جس کی میت پرکوئی اپناآنسو بہانے والانہ تھا۔زندگی کی المناکیوں کا ایک ایساعنوان بن گیاجس کولکھنے کیلئے لہوکے چھینٹے اُڑانے پڑتے ہیں۔ساغر نے تمام زندگی دارورسن پرگزاری لیکن مرنے کے بعداُس سے زندگی کوئی بھی نہ چھین سکا۔اُس نے تواپنے لہوسے فکروفن کاسنگھار کیاتھا۔فاقوں کی سیاہ راتوں اوربیچارگی میں ڈوبی ہوئی صبحوں میں بھی اُس نے سچے خیالوں اورپُرنورجذبوں کے فانوس روشن رکھے۔اُس نے بے گھروں کے دکھ میں اپناگھر بنانے کے خیال کو جھٹک دیا۔ننگے زخمی پیروں کودیکھ کرخودتپتی ہوئی سڑکوں پر ننگے پاؤں جلتارہا۔برہنہ جسموں کی بے وقعتی پرسیاہ پوشی کرنے والے کے حوصلے کا مقابلہ کون کر سکتاہے؟اور بھوکے معدوں کے غم میں فاقوں کے دوزخ میں جلنا اُسی کا کمال تھا۔یہ وہ انسانی کمال ہے جو صرف آج کے بے برکت دورمیں ساغر کی زندگی میں نظرآتاہے اوریہی وہ حقیقت ہے جوصدیوں تک اُس سے اہلِ دردکی محبتوں کوزندہ رکھے گااورحسن نثارکواس کابدصورت چہرہ آئینہ میں دکھاتا رہے گا۔
میں جوچپ ہوں تجھے ناداں سمجھ کر
نہ دکھازباں درازی مجھے بے زباں سمجھ کر

یہاں یہ واقعہ درج کئے بغیرکالم مکمل نہیں ہوگاکہ گزشتہ برس جب آپ نے ایک مرتبہ پھرساغرصدیقی کاجس توہین آمیزاور متکبرانہ اندازاورلہجے میں تذکرہ کیا،جس کاجواب میرے لئے اس لئے لازمی ہوگیاتھاکہ اگراب بھی آپ کی اس یاوہ گوئی کی گوشمالی نہ کی جاتی توساغرصدیقی کی یادمیں منعقدمحفل میں بیٹھی اکثریت جوآپ کے بگڑے دہن کاکافی وشافی علاج کاسامان کیلئےبالکل تیارتھی، وہاں کچھ بھی ایساناپسندیدہ عمل وقوع پذیرہوجاتاجواس مجلس کے شایان شان نہ ہوتا۔پہلی مرتبہ اس مجلس میں آپ کوبہت قریب سے جاننے والوں نےبڑے واضح الفاظ میں آپ کو”اپنی بندقبا” کی طرف توجہ دلاتے ہوئے زبان درازی سے گریزکابڑاصائب مشورہ دیا تھااورمیں نے بھی اپنے کالم میں ساغرصدیقی کامعاملہ اللہ کے سپردکرنے کامشورہ دیاتھاکہ وہ بظاہرایک نشئی اورمتنازعہ وضع قطع وپراگنداطبع رکھنے والاشخص سہی،مگرمیری نظرمیں وہ ایک صاحب علم سخن ور،پیغمبرِحق ﷺکاعاشق،اکابرین ملت کاادب کرنے والامجذوب قلندرتھا۔بحرحال حسن نثار جیسے احمق دین دشمن”دانشور”کی طرح بندہء یروشلم،دہلی وجالندھرنہیں تھا۔وہ سیدعلی ہجویری رحمۃاللہ علیہ کے مزارکے سامنے پائلٹ ہوٹل کے فٹ پاتھ پرخون اگلتاہوااس جہان فانی سے رخصت ہوالیکن کون جانے کہ تم جیساجعلی اورمنافق خوش پوش نیویارک یا کندن کے کسی مہنگے ترین ہسپتال میں نشانہء قضابن جائے یاپھراپنے آقاشیرون اور انجہانی قادیانی خلیفوں کی طرح برس ہابرس بسترمرگ پرایڑیاں رگڑتارہے۔

میں دعا گو ہوں کہ اللہ آپ کو ہدایت دے اور آپ اسلامی اقدار اور نظریات حق کے بارے اول فول لکھنے اور بکنے سے توبہ کر لیں۔کاش آپ کبھی نصرت
فتح علی کی آواز میں ساغرصدیقی کا یہ عاشقانہ کلام دل کے بند دروازے کھول کر سنیں تو آپ نبیءآخرالزماںﷺ اور دین حق کے روشن نظریات کے بارے ہرزہ سرائی کرنے سے باز آ جائیں۔
بزم کونین سجانے کیلے آپ آئے
شمعِ توحید جلانے کیلئے آپ آئے

اپنا تبصرہ بھیجیں