The Difference Between Iron And Diamond

لوہے اورہیرے میں فرق

:Share

کچھ سال پہلے کی بات ہے امریکا کے ایک ٹی وی چینل پرایک ریالٹی شوآیاکرتاتھاجس کانام جیری اسپرنگرشوتھا۔یہ شوبہت دلچسپ تھا۔ یہ 1991میں شروع ہوااور27سال تک مسلسل چلنے کے بعد2018میں ختم ہوگیا۔اس شومیں حقیقی زندگی سے تعلق رکھنے والے کردار حقیقی مسائل پربحث مباحثے کرتے۔ شو کی ریٹنگ بہت زیادہ تھی اس وجہ سے چینل کو بہت زیادہ آمدن ہوا کرتی تھی چنانچہ ایسے افراد جو اس شومیں آ کر اپنے حقیقی مسائل پیش کرتے شو کے منتظمین معاوضے کے طور پر انہیں اچھی خاصی رقم دیا کرتے تھے۔یہ لوگ واقعی حقیقی ہوتے، انڈیا پاکستان کے شوز کی طرح پیڈ ایکٹرز نہیں ہوتے تھے۔ نتیجتاً اس شو کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ان شوز میں ایک ایساسلسلہ بھی شروع کیا گیاجسے آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ امریکاکے چہرے پر زور دار تھپڑ تھا (اگر امریکا کاکوئی چہرہ ہے)۔

اس سلسلے کانام تھا”اس بچے کاباپ کون ہے؟”ایک عورت ایک بچے کے ساتھ پروگرام میں آتی اوربچے کے باپ کی تلاش شروع کردی جاتی۔دراصل اس عورت کو پتہ نہیں ہوتا تھا کہ اس بچے یا بچی کا اصل باپ کون ہے۔استغفراللہ، استغفراللہ، استغفراللہ۔شو کے منتظمین عورت کے کہنے پران مختلف مردوں کے ساتھ رابطہ کرتے جن سے وہ ملتی رہی تھی۔ان سب کوتین تین چارکی تعدادمیں شومیں بلاکران کاڈی این اے ٹیسٹ کروایاجاتااوربچے کے ڈی این اے سے میچ کرنے کی کوشش کی جاتی۔مردوں کوبلانے کاسلسلہ اس وقت تک جاری رہتاجب تک کسی مردکے ساتھ بچے کاڈی این اے میچ نہیں ہوجاتا تھا ۔ بیس تیس یاچالیس مردوں کے ڈی این اے کے بعدآخرکاربچے کااصل باپ تلاش کرلیاجاتا۔اس دوران وہ تمام مردجن کے بارے میں عورت بتاتی جاتی تھی وہ یہ تسلیم کرتے جاتے کہ واقعی وہ عورت سے وقت گزارچکے تھے۔ کہنے کوتویہ ایک کھیل تھالیکن جدید تہذیب کے دعویداروں کی اخلاقیات کاجنازہ تھا جسے پوری دنیادیکھاکرتی تھی۔

اس شوکے دوران ایک بار ایک ایسی عورت بھی ایک بچے کے ساتھ آئی،جس نے آتے ہی پچاس ایسے افرادکی فہرست دی جن پراسے شک تھاکہ ان میں سے کوئی ایک اس کے بچے کاباپ ہے لیکن جب پچاس افرادکاڈی این اے کیاگیاتوپچاس میں سے ایک سے بھی بچے کاڈی این اے نہیں ملاتھا جبکہ سبھی نے اعتراف کیاتھاکہ ان کے اس عورت سے تعلقات رہے ہیں۔اس پرعورت نے سواورافرادکی فہرست دی۔ لیکن ان سب کے اعتراف کے باوجودان میں سے کوئی بھی بچے کاباپ نہیں تھا،یہاں تک کہ دوسوافرادکاڈی این اے کیاگیالیکن جب ان دوسومیں سے بھی کوئی بچے کاباپ ثابت نہ ہوسکاتواس عورت نے مزیدافراد کو بلانے سے اس لئے روک دیاکہ مجھے ان افرادکا نام پتہ معلووم نہیں جن کے ساتھ میں نے نشے کی حالت میں وقت گزارا لیکن اس عورت کے نامزدتمام افراد نے تسلیم کیاکہ انہوں نے اس عورت کے ساتھ وقت گزاراہے۔یہ توہم سنتے آئے تھے کہ ان لوگوں کے ہاں نکاح وغیرہ کامعاملہ تقریباًختم ہوچکاہے لیکن اس حد تک اخلاقی گراوٹ کااندازہ نہیں تھا۔

آج سے14صدیاں قبل میرے آقاخاتم النبین جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایاتھاکہ ایک ایساوقت آئے گاجب زنااس قدر عام ہوجائے گاکہ اسے گناہ ہی نہیں سمجھاجائے گا۔میرےصادق وامین نبی ﷺکے قول ِصادق کی تصدیق خودزمانہ کررہاہے بلکہ خودکوترقی کی معراج پرپہنچنے والے برملااس کو تسلیم کرکے اپنے اخلاق باختہ ہونے کاثبوت فراہم کررہے ہیں۔میں یہ سوچ کرکانپ جاتاہوں کہ وہ عورت جوشومیں شرکت کرتی ہوگی،اس کے والدین بھی یہ شو دیکھتے ہوں گے،بھائی بہن بھی یقیناً اس شوکودیکھتےہوں گے،رشتہ داربھی ٹی وی کے سامنے بیٹھ کراس مشہورزمانہ شوکابڑی بے چینی سے انتظارکرتے ہوں گے لیکن شوکے اس کردارخاتون کو کسی کی بھی شرم یاحیا نہیں ہوتی تھی،نہ کسی کاخوف نہ عزت بے عزتی کا احساس ،گناہ ثواب کامعاملہ توبہت پیچھے رہ گیا،
جہاں رہتی ہوں گی جواس کے جاننے والے ہوں گے،ان کے سامنے بھی اسے کوئی شرمندگی محسوس نہیں ہوتی ہو گی،لیکن ٹھہریے ایساکیوں ہوا؟ وہ معاشرہ کیسے مردہ ہوا یا اسے بنایاگیا؟آخراس معاشرے کی غیرت کو کن عوامل نے ذبح کردیا؟

اس معاشرے میں سب سے پہلے آزادی کے ایسے قوانین بنائے گئے جن کے تحت کوئی دوسرے فردکی زندگی میں مداخلت نہیں کر سکتا۔کوئی عدالت قانون یامذہب کسی کوبے راہروی سے نہیں روک سکتا۔مذہب کوانسانوں کی زندگیوں سے نکال باہرکیاگیاہے اورآج باپ تلاش کرنے کیلئےڈی این اے کیا جاتاہے لیکن پھربھی باپ نہیں ملتا۔مجھے بش،اوباما،ٹرمپ، جوبائیڈن اورمغرب وغیرہ کی کسی بھی انسان دشمنی پرافسوس نہیں ہوتاکیونکہ ان بیچاروں کوصرف ماں کا کنفرم ہوناکافی ہے ۔امریکااورتمام مغرب میں اس مادرپدرآزادی میں تمام سرکاری اداروں میں شناخت کیلئے باپ کے نام کاکالم ہی سرے سے موجود نہیں۔

ایک بارایک لڑکی نےباباجی سے سوال کیاکہ ہمارے سماج میں لڑکوں کوہرطرح کی آزادی ہوتی ہے،وہ کچھ بھی کریں،کہیں بھی جائیں،اس پرکوئی خاص روک ٹوک نہیں ہوتی اس کے برعکس لڑکیوں کوبات بات پرروکاجاتاہے،یہ مت کرو،یہاں مت جاؤ،گھرجلدی آجاؤ۔یہ سن کرباباجی مسکرائے اورکہا:بیٹی!لوہے کی دکان کے باہر میں لوہے کی چیزیں پڑیں ہوتی ہیں؟ سردی،گرمی، برسات، رات، دن پڑی رہتی ہیں،لیکن ان کا کچھ نہیں بگڑتا اور ان کی قیمت پربھی کوئی اثر نہیں پڑتا ۔سماج میں لڑکوں کی کچھ اس طرح کی حیثیت ہے۔اب آپ چلیں ایک سنارکی دکان میں۔ایک بڑی تجوری اس میں ایک چھوٹی تجوری اس میں رکھی چھوٹی سُندرسی ڈبی میں ریشم پر نزاکت سے رکھا چمکتا ہیرا کیونکہ جوہری جانتا ہے کہ اگر ہیرے میں ذرا بھی خراش آ گئی تو اس کی کوئی قیمت نہیں رہے گی ۔ اسلام میں بیٹیوں کی اہمیت بھی کچھ ایسی ہے کہ پورے گھر کو روشن کرتی جھلملاتے ہیرے کی طرح ذراسی خراش سے اس کے اور اس کے گھر والوں کے پاس کچھ نہیں بچتا،بس یہی فرق ہے لڑکیوں اورلڑکوں میں۔پوری مجلس میں خاموشی چھاگئی اس بیٹی کے ساتھ پوری مجلس کی آنکھوں میں چھائی نمی صاف صاف بتا رہی تھی لوہے اورہیرے میں فرق۔

ہمارے ہاں کے لبرل سیکولر،سرخے اوردیسی چے گویرے بھی ایسے ہی قوانین کے نفاذکیلئےدن رات کوشاں ہیں لیکن میں شکرگزار ہوں اپنے ان پڑھ فسادی بنیاد پرست اورترقی دشمن”علمائے دین”کاجوکسی بھی قیمت پرایسے نہیں ہونے دے رہے۔منبرومحراب میں بیٹھ کرآج بھی قوم کی تربیت کررہے ہیں کہ مر جائیں گے لیکن ایسی بےحیائی کوقانونی تحفظ کبھی حاصل نہیں کرنے دیں گے۔میں لعنت بھیجتاہوں اس ترقی پر،اس روشن خیالی پراورایسی سپرپاورپرجہاں اصل باپ کوئی لیبارٹری بھی نہیں تلاش کرکے دے سکتی۔کمال منافقت تویہ ہے کہ ڈی این اے اوراس کی مددسے اپنے باپ کی تلاش کرنے والے ملحداور لبرلز،اسی ڈی این اے کے خالق اور اس کی تعلیمات کاانکارکردیتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں