قرض جوچکاناہی پڑے گا

:Share

دنیاکی سب سے بڑی تیل کی بندرگاہوں میں سے ایک مشرقی سعودی عرب کی تیل تنصیبات پرراس تنورہ پرڈرون حملہ اور آرامکوکے رہائشی علاقے پر میزائل حملے کی کوشش سے توانائی کی عالمی ترسیل کوہدف بنایاگیاہے۔خلیج تعاون کونسل کے سیکرٹری جنرل نایف الحجرف کے مطابق ان دہشتگرد حملوں نے نہ صرف مملکت کی سلامتی اور اقتصادی صلاحیتوں کوہدف بنایاہے بلکہ عالمی معیشت،تیل کی ترسیل کے اعصابی مرکزاورعالمی توانائی کی سکیورٹی کوبھی نشانہ بنایاہے۔یوں محسوس ہورہاہے کہ انسانیت اورامن ایک مرتبہ پھرظلم واستبدادکے ہاتھوں شرمندہ ہوگیاہے اورامن کی کوششیں کرنے والے سر تھام کربیٹھ گئے ہیں۔

ادھردوسری طرف عالمی برادری بہت ہی بے شرمی اوربے حسی سے یمن میں برپاقیامت کاتماشادیکھ رہی ہے۔جنگ نے سبھی کچھ تلپٹ کرکے رکھ دیا ہے۔لاکھوں افرادکوبنیادی سہولتوں کی شدیدقلت کاسامناہے۔پینے کاصاف پانی تک آسانی سے دستیاب نہیں۔غذاکی شدیدقلت کے باعث ہزاروں افرادبالخصوص بچوں کوموت کاسامناکرناپڑاہے۔بمباری بھی تسلسل سےجاری ہے لیکن پھربھی خوف کاسَنّاٹاکانوں کے پردے پھاڑنے پرتُلاہے

ایک گھرمیں والدین اپنے سات بچوں کے ساتھ دُبکے ہوئے ہیں۔باہرنکلنے کی ہمت نہیں کہ کسی بم کا ٹکڑایاکوئی گولی زندگی کا چراغ گل کر سکتی ہے۔یہ لوگ کریں توکیاکریں؟گھرمیں کچھ کھانے کوہے نہ پینے کو۔چھت میں ایک بڑاسوراخ ہے جس کے ذریعے یہ آسمان کودیکھتے ہیں، اِس اُمّیدپرکہ شایدبادل گِھرآئیں،کچھ پانی برسے توپینے کیلئےپانی جمع کیاجاسکے۔اس گھرانے کے پاس پینے کاپانی بھی نہیں ہے۔بچے پیاس اوربھوک سے بلک رہے ہیں۔ماں نے ایک بچے کوگودمیں لیاہواہے۔اُس غریب کے جسم میں اِتنی جان نہیں کہ بچے کودودھ پلاسکے۔اس بچے کی حالت بہت بُری ہے۔بھوک سے اِس کے جسم میں جیسے جان ہی نہیں رہی۔ماں بھی کیاکرے؟کئی ہفتوں کی بھوک کے نتیجے میں پیداہونے والی شدیدکمزوری رنگ لے آئی۔بچے نے ماں کی گودہی میں دم توڑدیا۔اگربچہ بول سکتاتواِتناضرورکہتاکہ میں پیداہی کیوں ہواتھا۔

اللہ کاشکرہے بچوں کوکچھ پتاہی نہیں کہ طاقت کتنی بے رحم ہے اورلوگ کس قدربیدردی اوربے پروائی سے ایک دوسرے کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ یمن میں بچے موت کے منہ میں جارہے ہیں اوردنیایہ تماشاخاموشی سے دیکھ رہی ہے گویایہ سب کچھ کسی اوردنیا،کسی اورزمانے میں ہورہاہو۔ یمن پرایک ایسی جنگ مسلط ہے جس کاکوئی مفہوم ہے نہ جواز۔یمن تباہ اورپوری نسل موت کے منہ میں جارہی ہے۔یمن کاالمیہ یہ ہے کہ وہاں جولوگ کسی نہ کسی طور اقتدارپرقابض ومتصرف ہیں وہ اُنہی لوگوں کوہلاک کرنے پرتُلے ہوئے ہیں جن پروہ حکومت کرناچاہتے ہیں۔یہ وہ بُرائی ہیں جو صرف بے حِسی پر پلتی اوراُس کے بغیرزندہ نہیں رہ سکتی۔

یمن میں اب رہاکیاہے جس پریاجس کیلئےحکومت کی جائے؟20لاکھ افرادغذاکی شدیدقلت سے دوچارہیں۔10لاکھ بچے ہیضے سمیت کئی بیماریوں میں مبتلاہیں۔لاکھوں چھوٹے بچے شدیدبھوک کی حالت میں انتہائی کمزوری سے دوچارہیں اورموت کے منہ میں اس طورجارہے ہیں کہ کسی کوشایدبعدمیں معلوم بھی نہ ہوسکے گاکہ اُن کاکوئی وجودتھابھی یانہیں۔اس وقت یمن غریب ترین ملک ہے مگرظالموں نے اس پربھی بس نہیں کیا۔اُسے مزیدتباہ کیا جارہاہے۔سویلین ہلاکتیں اب پسندکامعاملہ ہیں۔جوجتنے زیادہ شہریوں کو ہلاک کرسکتاہے وہ اُتنابڑافاتح ہے۔ایک طرف سویلینزکی ہلاکتوں کاگراف بلندہوتاجارہاہے اوردوسری طرف جنگجوگروپ اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ وہ بڑی فتح کی طرف بڑھ رہے ہیں۔لوگ جنگل کے حیوانات کی درندگی کارونا روتے ہیں جبکہ درندگی اورسَفّاکی میں کوئی بھی درندہ انسان کامقابلہ نہیں کرسکتا۔

اب ایک اہم سوال یہ ہے کہ عالمی برادری کب جاگے گی۔جولوگ بھیانک مظالم ڈھارہے ہیں اُن کی مذمت کرناتولازم ہے مگرسوال یہ ہے کہ جو لوگ یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں اُنہیں کیاکہاجائے۔یمن میں جوکچھ ہورہا ہے اُس کے آگے اب بندباندھنالازم ہے۔عالمی برادری اس حوالے سے اپنا فرض کب پہچانے گی؟جولوگ ایک لایعنی اورلاحاصل جنگ میں الجھے ہوئے ہیں اُنہیں کب ہوش آئے گااوروہ کب خون خرابہ چھوڑکرانسانیت کے نام پرامن کو اپنائیں گے؟

اب کچھ ایسابچانہیں جس کیلئےجنگ جاری رکھی جائے،ہاں امن کیلئےکوشش کرنے کی گنجائش ضرورموجودہے۔اگرطے کرلیا جائے تواچھی خاصی مثبت تبدیلی یقینی بنائی جاسکتی ہے۔اسلام کی توبنیادی تعلیم یہ ہے کہ کسی بھی انسان کوکسی جوازکے بغیر قتل نہ کیاجائے اوریہ کہ جس نے ایک انسان کوبچایااُس نے گویاپوری انسانیت کوبچایا۔جوکچھ یمن میں ہورہاہے اُسے جاری رہنے دیاجائے اِس کی گنجائش اب قطعاًنہیں۔بائیڈن نےیمن میں خانہ جنگی کی بھرپور مخالفت کرتے ہوئے کہاکہ یہ خانہ جنگی ہمارے ضمیرپربڑابوجھ ہے۔ایران کوبھی جہاں یمن کے حوثی باغیوں کی مددجاری رکھنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے وہاں سعودی عرب کوروکنابھی اشدضروری ہے بلکہ یمن میں جنگ بندی موثربنانے کے حوالے سے سعودی عرب اورایران کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔یمن میں لڑنے والوں کویہ بات یادرکھنی چاہیے کہ اب کوئی بھی فاتح بن کرنہ ابھرے گا کیونکہ جس ملک کیلئےوہ لڑرہے تھے وہ تورہاہی نہیں ۔اب انہیں نئے سِرے سے ابتداکرنی ہے۔انہیں باہمی رضامندی کے ساتھ مل کرامن کیلئےکام کرناہوگا، شدید اورشرم ناک نوعیت کے مظالم روکنا ہوں گے۔

ہوسکتاہے کہ متحارب دھڑوں کوایک جگہ دیکھ کرعالمی برادری کوبھی کچھ شرم آجائے اوروہ یمن میں استحکام یقینی بنانے کی طرف متوجہ ہو۔ انسانیت کی لاج رکھنے کیلئےیہ سب لازم ہے۔یمن کے شہریوں بالخصوص بچوں پرجوقیامت گزررہی ہے وہ پوری دنیاکیلئےایک بڑاچیلنج ہے۔یمن کیلئےہراس شخص کوکچھ کرناہے جس کے سینے میں دل ہے اورجوضمیر کی آوازپر لبیک کہنے کوتیاررہتاہو۔یہ ایساقرض ہے جوچکاناہی پڑے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں