تاریخ کے سیاہ دھبوں کا سب سے بڑا عنوان

:Share

چنددن پہلے ڈاکٹرفوزیہ کااپنی بہن کی سلامتی کیلئے ایک دردناک خط موصول ہواجس کوپڑھ کریقین ہوگیاکہ ہما ری قومی بے حسی اورچشم پوشی انتہا کوپہنچی ہوئی ہے ۔وقت کی پکارصدابصحراثابت ہورہی ہے۔کاش یہ صدا کسی گنبد میں دی گئی ہوتی ،کم ازکم واپس تولوٹتی۔ جہاں میں پوری قوت سے قوم کی مظلوم بیٹی عافیہ کانام لیکرپکارتاکہ تم کہاں ہو؟تو سوال کاجواب نہ ملتا، سوال تو واپس آتا۔آئیے حساب لگاکر دیکھیں کہ جس روزقوم کی اس مظلوم بیٹی کوجواپنے دو معصوم العمراورایک گود میں لپٹے بچوں کے ساتھ تھی،ہماری خفیہ ایجنسیوں کے مستعداورسائے کی طرح پیچھا کر تے بے رحم ہاکس نے پوری درندگی اورسفاکی سے اغواکیاتوان دنوں کون کون مسنداقتدار پرمتکمن تھا۔23جون 2003ءکے بدنصیب دن پرویزمشرف صدر، ظفراللہ جمالی وزیر اعظم،فیصل صالح حیات وزیرداخلہ،خورشید محمود قصوری وزیر خارجہ تھے اور سید ضمیرجعفری کے فرزند ارجمند جنرل احتشام ضمیر ایک اہم ترین قومی ایجنسی کے سربراہ تھے۔ان تمام اعلیٰ عہدیداروں کے علم کے بغیر ایک پتہ بھی جنبش نہیں کرسکتاتھا۔ ظفر اللہ جمالی صاحب اس تا ریخ سے مزید ایک برس 26جون2004ء تک اپنے عہدہ جلیلہ پرفائزرہے۔

آج بھی اس ملک سے فاسق کمانڈوکی رخصتی کے بعدجمہوری اورعوامی حکومت کادعویٰ کرنے والے آصف علی زرداری، یوسف رضاگیلانی، حنا ربانی کھر ،رحمان ملک،نوازشریف ،شاہدفاقان عباسی اورعمران خان کے ساتھ ساتھ دومرتبہ وزیر خارجہ شاہ محمودقریشی یہ سب افرادبھی اس حقائق سے انکار نہیں کر سکتے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی اوران دنوں اس کے بچوں 7سالہ احمد،5 سالہ مریم اورچندماہ کا سلمان کے اغوأ حبس بیجا،او ر ظالم امریکیوں سے قیمت کی سودے بازی اورحوالگی میں ملوث خفیہ ایجنسیوں کے کارپردازوں اورایوان اقتدار کے حاکموں میں ہونے وا لی ان کاروائیوں سے مکمل طورلاعلم تھے۔ شرم کامقام تویہ ہے کہ اس مظلوم اوربے گناہ خاتون کی وہ دردناک چیخیں جس نے بگرام ایئربیس کے درودیوارتک ہلاکررکھ دئیے،ا ن کی اذیت ناک ابتدأتواسلام آباد سے ہوئی ،وہ یہاں کسی کو سنائی کیوں نہیں دیں؟وہ تمام خفیہ ایجنسیاں جنہوں نے عزت وطن کایہ معرکہ سرکیا،براہ راست وزیراعظم کوجوابدہ تھیں اوراگرشوکت عزیزسے لیکرآج تک کے تمام وزرائے اعظم،وزیر داخلہ اور وزیر خارجہ کے اختیارات کی حدودآگ کے اس دریا کے پار نہیں جاسکتی توانہیں قوم سے مکمل جمہوریت کےدعویٰ پر مزیدجھوٹ بولنے پر معافی مانگتے ہوئے اس بات کااقرارکرناہوگاکہ ان کوکسی حدتک اعتماد میں ضرورلیاگیا۔

تاہم حقائق تویہ ہیں کہ فاسق کمانڈوکی رخصتی کے بعدنئی جمہوری حکومت کے دورمیں عافیہ کو افغانستان سے امریکا لیجایاگیااورکسی بھی جمہوری حکومت کا دعویٰ کرنے والی حکومت کو توفیق نہ ہوسکی کہ عافیہ کی بازیابی کامطالبہ کرتی۔اس سنگین واردات کابقدر علم ہونے کے باوجودان سب کے دلوں میں ایک بیٹی سے فطری محبت کاکوئی گداز پیدا نہیں ہوا؟ذہنوں میں کوئی تلاطم اوردلوں میں کوئی دردپیدانہیں ہوا؟کیاان تمام کے دست وپا،قلب وبصارت اور نطق سماعت پرمکمل طورپر قفل پڑگئے کہ زرداری کی جمہوری حکومت سے لیکرآج تک کسی ایک موقع کی منا سبت سے کبھی ایک باربھی اس رازکو منکشف کرنے کی ہمت نہ کرسکے؟حالانکہ ریمنڈڈیوس کی گرفتاری کے موقع پرعافیہ کی رہائی کاایک بہترین موقع تھالیکن غلاموں کوہمت نہ ہوسکی کہ اپنے آقاؤں سے ایسی گزارش ہی کرسکتے اورآج ریمنڈڈیوس کی اپنی کتاب میں جوہوشربااورشرمناک حقائق سامنے آئے ہیں ،اس نے ساری قوم کے شرم سے سرجھکادیئے ہیں ۔

عافیہ پرامریکاکی عدالت میں اس طرح مقدمہ چلایاگیاکہ تمام زمینی حقائق اوررپورٹس چیخ چیخ کرعافیہ کی مظلومیت کی دہائی دے رہی تھیں لیکن امریکا کی عدالت نےحا لات کی بے رحم زنجیروں میں جکڑی کمزور،نحیف اورمظلوم عافیہ کوعدم ثبوت کے باوجود87سال کی قیدسنادی۔ ڈاکٹرعا فیہ صدیقی صرف عصمت صدیقی کی ہی بیٹی تونہیں،وہ تواپنی ماں کے نام کی رعایت لفظی سے پا کستان کی عصمت کی بیٹی ہے۔بیٹیاں،جوسب کی ایک جیسی ہوتی ہیں،گڑیوں سے کھیلتی ہوئی ، تتلیوں کے پیچھے بھاگتی ہوئی ،باپ کے پیروں کی آہٹ پرلہراتے با لوں سے دوڑتی ہوئی،اس کے سینے سے لگ کردل میں اپنی بے لوث محبت اوراطاعت کی لازوال قندیلیں روشن کرتی ہوئی،اپنی ننھی سی عمرمیں ہی دلہن سی لگتی ہوئی،اورہما رے ایمان کے حوالے سے والدین کے گھروں میں رسالت مآب ﷺکی مہمان کی حیثیت رکھتی ہوئی لیکن آج پابندِسلاسل ہونے کے باوجوداسے جنسی زیادتی کانشانہ بنادیا گیااوروہ جہاں کینسر کے موذی مرض میں مبتلازندگی کے آخری سانس لے رہی ہے وہاں جیل کی آہنی سلاخوں کے پیچھے ہرآن کروناوائرس کے خطرے سے دوچارہے ۔صد حیف کہ علمائے دین بھی اس واقعے پر منہ میں خود غرضی کی گھنگھنیاں ڈالے بے حسی کا شکارہیں اورصدمبارک اورتحسین کے لائق ہیں ہماری وہ مجبور وبیکس کشمیری دختران ملت کی سربراہ آسیہ اندرابی جنہوں نے اپنی ملی غیرت کامظاہرہ کرتے ہوئے سڑکوں پرآ کر اپنا احتجاج ریکارڈکروایاتھااورآج وہ خوددرندہ صفت بھارتی متعصب مودی کے حکم پربھارت کی سب سے بدترین جیل تراڑمیں قید تنہائی میں اپنی شدیدبیماری کابھی مقابلہ کررہی ہیں اورہم توآج اسے بھی بھول چکے ہیں جبکہ عیاراورسفاک ہندواسے پاکستان سے محبت کےجرم عظیم کی سزادے رہے ہیں ۔

ساری پاکستانی قوم اب بجاطورپرمطا لبہ کرتی ہے کہ فاسق کمانڈو پرویزمشرف کے فردجرائم میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی زندگی تباہ کرنے کا جرم ،پا کستان کی بیٹی کی عزت وتوقیرپامال کرنے کاجرم اورغیرملکی درندوں کے ہاتھوں بیچنے کاجرم سرفہرست رکھاجائےاورعدالت عظمیٰ میں ان تمام اہلکاروں پرمقدمات قائم کئے جا ئیں جنہوں نے اپنے اعلیٰ افسران کے احکامات کی تعمیل میں ڈاکٹرعا فیہ صدیقی کودن دیہاڑے کراچی میں گلشن اقبال سے اپنے سفرپر جا تے ہوئے اغوأ کیا، اسلام آباد کے کسی انٹیروگیشن سنٹر کے عقوبت خا نے میں پہنچایااورافغانستان کے بگرام ایئربیس میں قائم امریکی جیل میں منتقل کرنے کے گناہ عظیم میں برابرکے شریک رہے ہیں۔ مملکت پاکستان کاخواب دیکھنے والاعلا مہ اقبال بھی اپنی قبر میں تڑپ اٹھاہو گاکہ اس کے نا م سے منسوب گلشن سے اس کے دل کے پھول کے اس بے دردی سے ٹکڑے کردئیے گئے۔

یہ کیسی قومی غیرت ہے،ہما ری متعدداین جی اوز،حقوق انسا نی کے علمبردار، غیر ملکی قیدیوں کے غمگسارکہاں سوئے ہوئے ہیں؟شایدڈاکٹرعا فیہ صدیقی کیلئے کوئی آوازاٹھا نے،کوئی احتجاجی تحریک اورریلی نکالنے میں کسی اقتصادی فائدے کی کوئی صورت نظرنہیں آرہی ہوگی۔یہاںہمسایہ ملک کے جا سوسوں اوردہشتگردوں کوسزائے موت کے باوجودرہاکروانے کیلئے اپنی تمام صلا حیتیں صرف کرکے واپسی کامحفوظ انتظام کرکے انسانی حقوق کے چیمپئن بننے کانعرہ بلندہوا،جبکہ جواب میں ہمیں آج تک لا شوں کے تحا ئف ملتے ہیں۔ ہم امریکی قیدیوں کواپنی جیلوں میں وی آئی پی سہو لتیں دیتے ہیں۔ برطانوی شہریت کے حامل قاتل کی سزائے موت معاف کرکے نہائت احترام سے واپس برطانیہ بھجواتے ہیں اورمہذب قوم ہونے پراصرارکرتے ہیں۔اگرایشین ہیومن رائٹس کمیشن ،امریکی قیدی معظم بیگ کی کتاب کی اشاعت اورایوان رڈلی درست طورپرتصدیق نہ کرتے توشاید ہمیں خبرتک نہ ہوتی اورمعاملہ موجودہ صورت اختیارنہ کرتااورعافیہ کانام و نشان تک مٹادیاگیاہوتا۔اسی تشہیرکے نتیجے میں مظلوم اوربے بس ڈاکٹرعافیہ صدیقی کوامریکامنتقل کیاگیاجس پرحد درجہ واہیات اورمضحکہ خیزالزامات کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا ۔

صرف اس تصورسے کلیجہ منہ کوآتاہے اورآنکھیں فرط غم سے خون کادریابن گئی ہیں کہ ا پنے خلاف ہونے والی غلیظ سا زش سے بے خبر،عفت مآب خاتون اپنے تین معصوم العمربچوں سمیت درندہ نماانسانوں کے حوا لے کردی گئی۔اس نے اپنے ہم وطن اغوأکاروں کوغیرت وطن کااحساس تودلایا ہوگا، باربار اپنا جرم توپوچھاہوگا،ا پنی بے گناہی کی قسمیں بھی توکھائیں ہوں گی،ا پنی عزت ونا موس کاواسطہ بھی دیاہوگا،ایک خوفزدہ،سہمی ہوئی نازک سی عا فیہ نے اپنے لبا س اوربدن پرلپٹی حیاکی چادرنوچنے پردہشت زدگی میں فریادتوکی ہوگی۔وہ خونخوار،بے مہرآنکھوں کی تاب نہ لا کرچلّائی توہوگی،اس نے اشک بھری آنکھوں سے بہن،بیٹی ہونے کاواسطہ بھی دیاہوگا۔کیااس وقت کی آمریت اورآج تک کی جمہوریت کے الاؤ میں پگھلے ہوئے سیسے نے سب کی سماعتیں سلب کرلی ہیں ؟کسی کی بصارت میں اپنی بیٹی،اپنی جوان بہن کاعکس نہیں ابھراکہ ان میں کوئی عا فیہ صدیقی کی جگہ ہوتی توان کے جگرچھلنی نہ ہوتے؟دل خون نہ ہو تا؟ کیاوہ اس کی جگرپاش چیخیں برداشت کرلیتے؟

عقوبت خا نے کی تاریک راتوں میں تنہائی کاعذاب اورنت نئی اذیتوں نے کیسے اس کی جسمانی توانائیاں کشید کی ہوں گی؟ان کاحساب ہے کسی کے پاس؟اورپھرجب اسے اپنے جگرگوشوں کے بغیراسلام آبادکی کربلا سے پا بجولاں یزیدی دمشق جیسے بگرام ایئربیس پرزینب بنت علی کی سنت اداکرتے ہوئے منتقل کیاجارہاتھااوراس کی آہیں سسکیوں میں اور سسکیاں چیخوں میں تبدیل ہورہی تھیں توکسی کے ضمیرنے ملامت نہیں کی؟کسی کی آنکھ سے ندامت کاکوئی آنسونہیں گرا؟ خوف اوردہشت سے ایک نازک سی عورت کے لرزتے ہوئے جسم کی حالت کسی دل میں کوئی گدازپیدانہ کرسکی؟ کیا انسان ایساسنگدل بھی ہوسکتا ہے؟ یوسف رضاگیلانی،پرویز مشرف اوران کے بعدآج تک حکومت میں برسراقتدار آنے والے کئی افراد اپنے والد گرا می کے نام کے ساتھ سیّدبھی لکھتے ہیں،ارضِ وطن کوریاست مدینہ کانعرہ بلندکرنے والے اوریہ تمام حضرات یوم آخرت کوسیّدالانبیاء کاسامناکیسے کریں گے جب ڈاکٹرعافیہ صدیقی سیّدالانبیاء کے سا ئے میں بیٹھی اپنے تمام مظالم کاذمہ داران کوٹھہرادے گی؟کبھی ایسابھی سوچاہے کہ ایساسوچنے کی مہلت بھی چھین لی گئی ہے؟ چنگیراورہلاکوکے مظالم ہوں یاکربلا کی ظلمتیں،تا ریخ نویس اس خوف کابجاطورپراظہارکرتے ہیں کہ شاید آئندہ آنے والی نسلیں ان کودروغ گو کہیں گی لیکن عافیہ صدیقی کوپیش آنے وا لے شرمناک اورکرب انگیزحالات قرون وسطیٰ کی تاریخ کی تصدیق کرتے ہیں ۔

آج جب وطن کے ہرباضمیرانسان کی آنکھیں ظلم کی اس داستان پراشکبارہیں،اس شرمناک داستان کاورق ورق ذرائع ابلاغ میں بکھراپڑاہے۔اس درجہ کی عملی بازگشت جس کایہ مطالبہ کرتی ہے،اقتدارکے ایوانوں سے برآمدنہیں ہورہی۔کیاوہ تمام مضا مین،کالم،ادارئیے اوراخباری بیانات کوئی جذباتی افسانہ طرازی ہے جواہل قلم ہما ری آگاہی کیلئے سپرد قلم کررہے ہیں!یقین کیجئے یہ ملک کی تاریخ کاایک شرمناک باب مرتب ہورہاہے اوراس کومرتب کرنے والے قابل ستائش و احترام ہیں،جن کی تحریروں نے اہل وطن کی رگوں میں حمیت کاخون دوڑآیاہے۔قابل مبارکبادہیں دخترانِ ملت اوربہت سے اہل قلم ،جن کے مضا مین عالم اسلام کوخواب غفلت سے جگانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن عمران خان کے دورہ امریکاسے قبل عافیہ کی رہائی کا کریڈٹ اس موجودہ حکومت کودینے کی جھوٹی دہائی بھی دی گئی،جس کاوزیرخارجہ بمشکل فوزیہ صدیقی سے اسلام آبادمیں ملنے کیلئے چندلمحوں میں ان کو مایوس کردیتاہے۔خدارا!اب یہ مذاق بندہوناچاہئے اورموجودہ حکومت کوسفارتی ذرائع سے بڑھ کرحکومتی سطح پراس اہم ترین مسئلے کواقوام متحدہ کے توسط سے اٹھانے کابندوبست کرناچاہئے تاکہ جلد ازجلد ڈاکٹر عا فیہ صدیقی کوپنجہ فرعون سے رہا کروایا جائے کہ دنیا بھر میں امریکہ اس وقت سب سے زیادہ کرونا وباء سے متاثر ہونے والا اور اس کے نتیجے میں سب سے زیادہ اموات والا ملک بن چکا ہے۔ یہ وباء امریکی جیلوں میں بھی بری طرح سے پھیل چکی ہے اور اس کے نتیجے میں قیدیوں کی اموات بھی واقع ہو رہی ہیں۔یادرکھیں تاخیرکی صورت میں خاکم بدہن عافیہ کوکچھ ہواتوتاریخ کے سیاہ دھبوں کاسب سے بڑاعنوان آپ کوٹھہرایاجائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں