Terrorist of Today

عصرحاضرکادہشتگرد

:Share

دہشتگردی عصرحاضرکی سب سے ہولناک لعنت جس پرہرمہذب ومتمدن دنیااورمعاشرہ پریشان ہے اوراس عفریت سے محفوظ رہنے کیلئے کوشاں بھی ہے مگربھارت واحدملک ہے جس کی موجودہ قیادت متعصب اوراقلیتوں پرزندگی حرام کرنے والا مودی جیساسازشی کررہاہے جودہشتگردی کےہر معاملے پربڑھاوادینے میں پیش پیش رہتاہےاوراپنی روش پردیدہ دلیری سے ابھی تک قائم ہے۔مودی کے تمام بازوئے شمشیرزن بشمول راشٹریہ سیوک سنگھ(آرایس ایس)،بجرنگ دل،وشواہندوپریشد،سنیکت ہندوسنگھرش سمیتی،کرنی سینا، سناتن سنستھا،سریرام سینے، ہندوویواواہنی،اب جوبھی دہشتگردانہ کام کرتے ہیں یاتعصب سے مامورجوکرتوت بھی کرتے ہیں انہیں باعث ندامت نہیں سمجھتے بلکہ اعلانیہ اظہارکرنے لگے ہیں۔مودی سرکار کاروّیہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ اس حدتک ظالمانہ ہوچکاہے جس کی مثال خودبھارت ہی کی ماضی میں نہیں ملتی۔کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب لوجہا،گئورکھشااوراب بچہ چوری کے نام پرکسی مسلمان کوجان سے نہ ماراجاتاہو، کسی کی سرراہ پٹائی نہ ہوئی ہو،اوریہ تمام دہشتگردانہ ظالمانہ کاروائیاں ڈھکے چھپے نہیں ہورہیں،باضابطہ کسی نہ کسی تنظیم کے بینرتلے ہورہی ہیں۔

جولوگ انفرادی طورپران دہشتگردیوں میں ملوث ہیں ،وہ بھی عام طورپرکسی بھگواتنظیم سے وابستہ ہیں اوراس کااظہارکھلے عام کررہے ہیں پھر بھی نجانے ان کے خلاف ان کی تنظیم کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جاتی۔اگردنیاکودکھانے کیلئے اکا دکاواقعہ میں کوئی کاروائی ہوبھی رہی ہے تومحض دکھاوے کے طورپرکیونکہ ان پرمعمولی قسم کی دفعات لگائی جاتی ہیں تاکہ وہ آسانی سے ضمانت پررہائی پاسکیں ۔دہشتگردی کی زیادہ ترکاروائیاں راشٹریہ سیوک سنگھ (آرایس ایس)کی ذیلی تنظیمیں جیسے وشواہندوپریشداوربجرنگ دل انجام دے رہی ہیں جبکہ بعض کاروائیاں مخصوص ریاستوں میں سرگرم عمل تنظیمیں کر رہی ہیں جیسے گوا،مہاراشٹر،کرناٹک کی حدتک سناتن سنستھا،جنوبی کرناٹک میں سری رام سینے اوراترپردیش میں ہندودیوا واہنی بعض جگہوں پرنئے نام بھی سامنے آرہے ہیں جیسے ہریانہ میں مسلمانوں کوجمعہ کی نمازنہ پڑھنے دینے کیلئے بھگوا تنظیموں کاایک متحدہ محاذ”سنکیت ہندوسنگھرش سمیتی”سامنے آگیاہے۔پدماوت علم کی مخالفت کے نام پرکھڑی کی گئی تحریک کے وقت”کرنی سینا”کابینراستعمال کیاگیاجس نے راجستھان اورہریانہ وغیرہ میں طوفانِ بدتمیزی مچایا۔

تنظیمیں چاہے کوئی بھی ہوں ان سب کی فکرایک ہی ہے اورصاف پتہ چلتاہے کہ ان سب تنظیموں کے پیچھے وہی متعصب ذہنیت ہے جس کومودی سرکار نے بڑھاوادیکرخوف کی علامت بنادیا ہے۔ہندورکھشاکے نام پرمسلمانون،عیسائیوں اوردلتوں سے بے انتہاء نفرت کااظہاراوراپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے جھوٹ اورفریب کے ساتھ تشدد اوردہشتگردی کررہے ہیں۔عالمی قوانین کے مطابق ان تمام متعصب اوربیمارذہنیت کی تنظیموں پرفوری پابندی لگنی چاہئے خاص طورپربجرنگ دل پر،کیونکہ سب سے فعال تنظیم یہی ہے جس نے ایک طرح سے پورے بھارت میں دہشتگردی کی کمان سنبھال رکھی ہے۔کہیں یہ براہِ راست میدان میں اترتی ہے اورکہیں اس کے زیراثرافرادیاگروپس سامنے آتے ہیں۔ماضی میں بجرنگ دل پر پابندی لگائے جانے کا مطالبہ بھارتت کی تمام اہم سیاسی جماعتوں کے قائدین کرتے رہے ہیں جن میں دیوےگوڑا،شردپورا، لالوپرشاد ، رام دلاس پاسوان ،مایاوتی اورمنیش کمارتیواری کے نام قابل ذکرہیں۔

جب من موہن سنگھ وزیراعظم تھے توسابق وزیراعظم دیوےگوڑانے ایک خط لکھ کرشکائت کی تھی کہ بجرنگ دل،کرناٹک اوراڑیسہ میں اقلیتوں کے خلاف جنونی اندازمیں تشددکررہاہے۔ایک اورممتازبھارتی رہنمادیرپامائل نے کہاتھاکہ راشٹریہ سیوک سنگھ کی اس ذیلی تنظیم پراس لئے پابندی لگنی چاہئے کہ عام دہشتگردتوچھپ کرحملہ کرتے ہیں جبکہ بجرنگ دل کھلے عام دہشتگردی پھیلارہے ہیں۔یہ بھی کہاگیاکہ جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے وہاں پارٹی بجرنگ دل کواپنی بقاکیلئے آکسیجن سمجھتی ہے۔نیشنل کمیشن فارمناریٹیز بھی ایک زمانے میں بجرنگ دل سے عاجزرہاہے اورپابندی لگانے کامطالبہ کرتا رہا۔کمیشن کے وائس چیئرمین مائیکل نپٹونے کرناٹک حکومت پرجب وہ بی جے پی کے تحت تھی،الزام عائد کیاتھاکہ باربار کی یاددہانی کے باوجودبجرنگ دل کوچرچ اورعیسائیوں پرحملوں سے بازنہیں رکھاجاسکا۔ وشواہندو پریشد نے جو خودآرایس ایس کی ایک ذیلی تنظیم ہے۔

1984ءمیں بجرنگ دل قائم ہواتھا،اپنے یوتھ ونگ کے طورپرہندوپریشدکواس کی ضرورت یوپی میں ہندوؤں نوجوانوں کوبابری مسجدپرقبضے کیلئے شروع کی گئی اورنوجوان متعصب ہندو
نوجوانوں کواس تحریک میں شامل کرنے کیلئے باقاعدہ ایک سیل بنایاگیا۔ان کی یہ پیشکش اور تحریک اتنی کامیاب رہی کہ جلدہی اسے وسعت دیکرسارے ملک میں پھیلادیاگیا۔رام جنم بھومی کے حوالے سے جتنی بھی ریلیاں سنگھ پریوارنے نکالیں ان سب میں بجرنگ دل کے کارکن پیش پیش رہے۔1962ءمیں بابری مسجد کی شہادت سے لیکر2002ءکے گجرات فسادات تک ہرخونخواری میں بجرنگی کارکن براہِ راست ملوث رہے۔نرسمہاراؤکی حکومت نے بابری مسجدمیں عبادت پرپابندی لگادی تھی لیکن بعدازاں ان پراس قدردباؤپڑاکہ صرف ایک سال بعدیہ پابندی اٹھانی پڑی۔اس سے پھرسے رہ رہ کرمختلف قومی اورعالمی اداروں کی طرف سے اس کونکیل ڈالنے کامطالبہ ہوتارہا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل ہیومن رائٹس واچ،پیپلزیونین فارسول لبرٹیزاورپیپلزیونین فارڈیموکریٹک رائٹس جیسی انسانی حقوق کی تنظیمیں گاہے بگاہے، بجرنگ دل کے کالے کرتوتوں پرروشنی ڈال کربھارتی حکم رانوں سے اس پرپابندی لگانے کامطالبہ کرتی چلی آرہی ہیں مگراب تک بی جے پی اوراس سے پہلے کانگرس کی حکومت نے ان مطالبات کوتسلیم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی، گویا دہشتگردی کی کھلی چھٹی دیئے جانے پربھارت کی کسی بھی حکومت کوکوئی ملال ہے اورنہ ندامت!مودی سرکارکی سرپرستی نے تودہشتگردبجرنگ دل کے حوصلے اتنے بلند کر دیئے ہیں کہ اس کے منہ کوانسانی خون کاچسکالگ چکاہے۔

اب ایک مرتبہ پھرمودی سرکاراوراس متعصب جماعت کے دیگررہنماء اوروزراءانتخابات جیتنے اس انتہاءپسندتنظیم کے ساتھ کھڑے نظرآرہے ہیں ،کون نہیں جانتا کہ نوادہ میں گری راج سنگھ فسادبھڑکانے کے الزام میں گرفتار بجرنگ دل کے ذمہ داروں سے ملنے جیل جاکراس بات پرباضابطہ آنسو بہارہاہے اوریقین دہانی کروارہاہے کہ وہ ان سب کوجلدجیل سے رہائی دلا کردم لے اسی طرح ہزاری باغ میں جیت ہنسانے ماب لنچنگ کے ملزموں کی کھلے عام میزبانی کررہاہےجوحال ہی میں ضمانت پررہا ہوئے تھے،یہ کام اس نے خاموشی سے نہیں کیا بلکہ مٹھائی کھاتے ہوئے ان کے ساتھ تصویریں بنوائیں۔بجرنگ دل کے کارکن پہلے صرف لاٹھی کا استعمال کرتے تھے،اب ہرطرح کےآتشیں ہتھیاروں کااستعمال بے دھڑک استعمال کررہے ہیں۔ اس سال رام نومی کے موقع پرسنگھ پریوارکی طرف سے انہیں کھلے عام ترشول اورتلوارایسے ہتھیاربانٹے گئے۔اس سے پہلے یہ خبربھی آئی کہ انہیں ہرقسم کے ہتھیارچلانے کی تربیت وٹریننگ دی جارہی ہے۔آرایس ایس کے ذریعے چلنے والے ایک اسکول میں بجرنگ دل کے سینکڑوں کارکنوں کو مارشل آرٹس کی ٹریننگ دی جارہی ہے جس میں انہیں تلوار،ترشول کے علاوہ دیگر ہتھیار چلانے کی تربیت بھی دی جارہی ہے۔ملک کے مختلف مقامات پربجرنگ دل اورہندوپریشداسکول کے بچوں کوہرقسم کے اسلحے استعمال کے استعمال کی کھلے عام ٹریننگ دی جارہی ہے۔

28فروری2015ء کوپندرہ روزہ ملی گزٹ نے اطلاع دی تھی کہ بجرنگ دل ملی ٹینٹ ہندوفورس تیارکرنے کافیصلہ کیاہے جس کے تحت ملک کے تمام اضلاع میں شکتی آرادھناکیندر قائم کیاجائے گاجہاں اس کے کارکن لاٹھی اورپستول چلاناسیکھیں گے۔ اس سکیم پرنہ صرف باقاعدہ عملدرآمدہورہاہے بلکہ اب تومودی سرکارکی سرپرستی میں ہونے والی ہندو دہشتگردانہ کاروائیوں اور وارداتوں کانوٹس انٹرنیشنل میڈیابھی لے رہاہے اورعالمی ادارے بھی بھارت پرانگلی اٹھارہے ہیں۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں بھارتی حکومت پرسخت تنقیدکی گئی ہے کہ وہ اقلیتوں اوردلتوں پرہونے والے ظلم اورجبرکوروکنے میں ناکام رہی ہے۔سی آئی اے کی ورلڈفیکٹ بک میں وشواہندوپریشداوربجرنگ دل کوملی ٹینٹ،عسکریت پسندیا جنگجو قرار دیا گیاہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں تنظیموں کودہشتگردکادرجہ دینے کاباضابطہ اعلان کیاہے لیکن کیاان دہشتگردجماعتوں کے ساتھ بھی عالمی طورپر ویساہی سلوک کیاجارہاہے جیسا پاکستان میں بعض جماعتوں کے بارے میں روارکھاجارہاہے؟کیااس کھلی منافقت کاپردہ چاک کرنے کی ذمہ داری ہماری حکومت پوری کررہی ہے؟

اپنا تبصرہ بھیجیں