Suppression Of Sedition

فتنے کی سرکوبی

:Share

امیرتیمورایک شاندارجنگجواورداناشخص تھا۔اس کی سوانح پڑھ کراحساس ہوتاہے کہ اپنے تمام ترمظالم اورشخصی کمزوریوں کے باوجودوہ ایک غیر معمولی شخص تھا۔ امیرتیمورکامشہورقول ہے کہ کمزوری یاطاقت کوئی الگ شے نہیں۔مخالف کی کمزوریاں کسی شخص کوطاقتوربنادیتی ہیں۔اسی طرح اس کی اپنی کمزوری دشمن کوطاقتوربناتی ہے۔تیمورنے اپنی سوانح میں ایک دلچسپ قصہ لکھا ۔تاتاریوں کایہ بے مثل سورماکہتاہے کہ ایک بارمیں نے ایک نہایت حسین لڑکی کواپنی دلہن بنایا۔ شادی کے بعدمیں کوئی سال بھرگھرمیں رہا، میری زندگی کا یہ واحدحصہ ہے جب کسی معرکے میں حصہ نہیں لیا۔ایک دن ناشتہ کرنے کے بعداپنے کمرے میں کھالوں کے نرم بسترپرلیٹاہواتھا،میری نظردیوارسے لٹکی تلوار پرپڑی۔یہ تلوارمیں نے خاص طورپرکئی دھاتوں کے امتزاج سے بنوائی تھی جوہلکی ہونے کے ساتھ نہایت تیزدھار تھی ۔ مجھے خیال آیاکہ کہیں اسے زنگ نہ لگ گیاہو۔جب اسے اتارکرمیان سے نکالاتومجھے وہ خاصی بھاری لگی۔میں حیران ہوا کہ تلواررکھے رکھے بھاری کیسے ہوگئی؟پھراچانک ہی مجھے احساس ہواکہ میں اتنا عرصہ ورزش اورعسکری مشق نہ کرنے سے کمزورہوگیاہوں۔میں نے اسی دن اپنے اہلخانہ کوسمرقندبھیج دیااورلشکرکولے کراگلے معرکے کیلئےروانہ ہوگیا۔ امیرتیمورمنگولوں سے نفرت کرتاتھا۔وہ خودکوچنگیزخان سے بڑاسالار گردانتا تھامگر وہ منگول قائدکے ایک قول کوہمیشہ دہراتاتھا کہ سپاہی کے سامنے صرف ایک ہی راستہ ہے۔بہادری،جرأت اوردلیری کاراستہ،جسے مضبوط عزم ہی سے عبور کیاجاسکتاہے۔”

ارضِ وطن میں جاری سیاسی ابتری کی طرف نگاہ دوڑائیں تومعلوم ہوتاہے کہ سیاست میں صبر،حوصلہ اورمعاملہ فہمی جیسی صفات معدوم ہوگئی ہیں اورسیاستدان کے جارحانہ روّیوں نے گلی کوچوں تک بارودی سرنگیں بچھاکراپنے اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے بربادی کے مناظرتیارکرلئے ہیں۔ عمران خان کے وہم وگمان میں نہیں تھاکہ ان کے خلاف عدم اعتمادکی تحریک اس طرح کامیاب ہوجائے گی کہ ان کی اپنی جماعت کے بیشتراراکین کے علاوہ ان کے اتحادی ان کا ساتھ چھوڑجائیں گے بلکہ وہ عوامی جلسوں میں میں یہ دعویٰ کرتے رہے کہ وہ اللہ کاشکراداکررتے ہیں کہ ان کے خلاف یہ تحریک پیش ہوئی اوراب وہ ایک ہی بال سے تمام وکٹیں اڑادیں گے لیکن باوجودان کے یہ تمام دعوے ایک بڑھک کے سوا کچھ ثابت نہ ہو سکے بلکہ باوجودتمام غیرآئینی ہتھکنڈوں کے وہ ایک خط جس کووہ امریکی سازش سے تشبیہ دیتے رہے،ان کے کسی کام نہ آسکے اورپارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتمادکی کامیابی کے بعدانہیں جاناپڑالیکن وہ ابھی تک اپنی اس شکست کوتسلیم کرنے کیلئے بالکل تیارنہیں اورملک میں”حقیقی آزدی”کے نام پرمظاہروں کاپروگرام ترتیب دے چکے ہیں۔اسی سیاسی ابتری کوہمارے دشمن پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کیلئے دندنارہے ہیں۔

26اپریل2002ء کوکراچی یونیورسٹی کے احاطے میں بلوچ انتہا پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے مجیدبریگیڈکی ایک خاتون خودکش حملہ آورشاری بلوچ عرف برمش اپنے جسم سےایک طاقتوربم باندھ کرچینی مرکزکے قریب اس وین سے جاٹکرائی جس میں تین چینی اساتذہ سمیت کم ازکم چار افراد ہلاک اورچارشدیدزخمی ہوگئے۔یہ پہلی مرتبہ ہے کہ تنظیم کی جانب سے خاتون خودکش حملہ آورکااستعمال کیاگیا۔ کراچی یونیورسٹی حملے میں ملوث خاتون خودکش حملہ آورشاری بلوچ عرف برمش نے 2014میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے بی ایڈ کی تعلیم مکمل کی جبکہ 2015 میں بلوچستان یونیورسٹی سے زولوجی میں ایم ایس سی کررکھی تھی۔بلوچستان کے ضلع تربت کے علاقے نظر آبادکی رہائشی شاری بلوچ ضلع تربت ہی میں شعبہ تعلیم سے بھی وابستہ اورگورنمنٹ گرلزمڈل سکول کلاتک میں استادکے فرائض انجام دے رہی تھی۔ان کے شوہرڈاکٹرہیبتان بشیربلوچ ایک ڈینٹسٹ ہیں۔شاری بلوچ دو بچوں کی ماں تھی اوراس کے دونوں بچے تقریباًپانچ سال تک کی عمر کے ہیں۔

شاری بلوچ چاربہنیں اورتین بھائی ہیں اورسب ہی تعلیم یافتہ ہیں۔شاری بلوچ تنظیم کی جانب سے منعقدہ احتجاجی مظاہروں میں رضاکارانہ طور پر حصہ لیتی تھی مگراس کے پاس کسی تنظیم کاکوئی عہدہ نہیں تھا۔ کالعدم تنظیم بلوچ سٹوڈنٹ آرگنائزیشن بی ایس اوآزاد کے ایک رکن کے مطابق شاری بلوچ گذشتہ دو برسوں سے مجیدبریگیڈ کا حصہ تھی۔اس تنظیم کادعویٰ ہے کہ مجیدبریگیڈمیں اس وقت کثیرتعداد میں بلوچ خواتین بطورخودکش حملہ آورشامل ہیں۔شاری بلوچ کے رشتہ دارکے مطابق نے شاری کے خاندان میں کوئی بھی شخص جبری گمشدگی یاسکیورٹی اہلکاروں کے ہاتھوں ہلاک نہیں ہوالہذایہ تاثرکہ اس نے ایساکسی ذاتی بدلے کیلئے کیا،درست نہیں۔شاری بلوچ بظاہرایک پرسکون اورخوشگوار زندگی گزاررہی تھی۔ بظاہر یہ یقین کرنامشکل ہے کہ مذکورہ خاتون ایک خودکش بمبار تھی ۔شاری بلوچ کے رشتہ داراوراہل علاقہ کے مطابق ان کے خاندان کے دیگر افراد مختلف سرکاری عہدوں پرفائزہیں جن میں اس کے والداوربھائی شامل ہیں ۔

کالعدم تنظیم کے مطابق شاری بلوچ چھ ماہ پہلے بلوچستان کے علاقے کیچ سے کراچی منتقل ہوئی اورڈیڑھ ماہ پہلے بہن کی شادی میں شرکت کیلئے کیچ گئی تھی۔ خاندانی ذرائع اس بارے میں لا علم ہیں کہ شاری بلوچ کب کالعدم تنظیم سے منسلک ہوئی اوراس نے یہ قدم کیوں اٹھایاتاہم اس واقعے کے بعدشاری بلوچ کےشوہربھی اپنی ڈیوٹی سے غائب ہے اوراس کا فون مسلسل بندہے۔کراچی یونیورسٹی میں خودکش حملہ کرنے والی شاری بلوچ نے یہ اقدام کیوں اٹھایاتاحال کوئی واضح مؤقف سامنے نہیں آیا ہے۔تحقیقاتی ادارے کسی بریک تھروتک تونہیں پہنچے تاہم حکام کاکہناہے کہ تحقیقات اطمینان بخش حدتک جاری ہیں تاہم اس واقعہ کی جڑوں تک پہنچنے کیلئے یہ جانناضروری ہے کہ آخرایک تعلیم یافتہ خاتون جودوکمسن بچیوں کی ماں اور مستحکم مالی پوزیشن کی حامل تھی،جس کاساراخاندان تعلیم یافتہ اورسرکاری ملازمتوں سے استفادہ کررہے ہیں،اس نے یہ راستہ کیوں اختیارکیا؟

بلوچستان کی پارلیمانی سیکریٹری بشریٰ رند نے جمعرات کودعویٰ کیاتھاکہ شاری بلوچ کے شوہرہیبتان کوحراست میں لیاگیاہے تاہم پولیس حکام نے اس دعوے کومستردکیاہے تاہم اس حملے کے بعدسے شاری بلوچ کے شوہرڈاکٹرہیبتان بشیر روپوش ہیں۔سوشل میڈیا کے ذریعے ڈاکٹرہیبتان بشیربلوچ نے اعتراف کیاہے کہ وہ شاری بلوچ کی مجیدبرگیڈمیں شمولیت اور فدائی مشن کے بارے میں جانتاتھااوردوسال سے زائد عرصہ قبل وہ مجیدبرگیڈمیں فدائی کے طورپراپنانام دے چکی تھی،اس فیصلے پر پہنچنے کے بعدجب اس نے اپنے شوہرکوآگاہ کیاتواس نے اپنی بیوی شاری بلوچ سےدریافت کیاتھاکہ”کیایہ ایک شعوری فیصلہ ہے یاجذباتی ؟ “تواس نے کہاکہ”خودکوقربان کرنے سے بھی کیاکوئی بڑاشعورہوسکتاہے”۔تواس کے شوہرنے تسلیم کیاکہ”میں نے اس کے فیصلے کااحترام کیا۔۔۔”

شاری بلوچ کے شوہرڈاکٹرہیبتان بشیر نے اعتراف کیاکہ شاری بلوچ کےاس اقدام سے ایک دوروزقبل اس کی شاری سے ملاقات ہوئی تھی،اس کے علم میں تھاکہ وہ یہ قدم اٹھانے والی ہے لیکن کب اورکہاں،وہ اس سے لاعلم تھا۔ڈاکٹربلوچ کے مطابق آخری وقت وہ(شاری بلوچ) کہہ رہی تھی کہ اب ہم ابدی طورپرایک دوسرے میں جذب ہونے والے ہیں۔

شاری بلوچ اورڈاکٹر ہیبتان دونوں کا تعلق تربت سے ہے۔انہوں نے شاری سے دوستی اورشادی کے بارے میں بتایاکہ کالج کے بعدجب وہ کوئٹہ میں میڈیکل کالج میں داخلے کیلئے این ٹی ایس ٹیسٹ دینے گیاتھاتووہاں شاری سے دوستی کاآغازہوا۔”ہمارے ملتے جلتے خیالات تھے،یہ شاید 2009 یا2010کی بات ہے اورپھروالدین کی رضاسے ہماری2014 میں شادی ہو گئی۔”

بلوچستان میں بلوچستان نیشنل پارٹی،نیشنل پارٹی اوردیگرقوم پرست جماعتیں سیاست کررہی ہیں جوصوبے کے معاملات پر سخت مؤقف اختیار کرتی ہیں۔ڈاکٹر ہیبتان بشیرسے جب سوال کیاگیاکہ بلوچستان اوراس کے عوام کیلئے عدم تشدد والی سیاست کابھی توآپشن موجودتھا، اگرشاری بلوچ کو سیاست میں دلچسپی تھی تواس نے وہ راستہ کیوں نہیں اپنایا؟ڈاکٹرہیبتان کاکہناہے کہ شاری کوسیاست سے انکارنہیں تھالیکن اس کاخیال تھاکہ مبینہ ریاستی تشددکاجواب پرتشددسیاست سے ہی دیاجاسکتاہے لیکن حیرت کی بات تویہ ہے کہ شاری کے والدین اپنی بیٹی کے شدت پسندخیالات سے مکمل لاعلمی کااظہارکررہے ہیں۔ان کے مطابق “ہم یہ نہیں جانتے کہ اس حملے کی منصوبہ بندی کس نے کی اورکس چیزنے ان کی بیٹی کوایساکرنے پرمجبورکیا، دونوں(میاں بیوی)سیاسی ذہن رکھتے تھے لیکن ہم نہیں جانتے تھے کہ وہ شدت پسندتھے۔

دوسری جانب ڈاکٹرہیبتان کے خاندان کی جانب سے شاری کے اقدام کی مذمت کی گئی ہے،ان کے بھائی اوراستادڈاکٹرسراج بشیربلوچ نے ٹوئٹرپر اپنے پیغام میں کہاہے کہ ہم ہراس انتہاپسندانہ عمل کے خلاف ہیں جس سے بے گناہ اورمعصوم انسانوں کاضیاع ہوتاہے،26/اپریل کوجامعہ کراچی میں ہونے والے خود کش حملے کے شدیدمذمت کرتے ہیں۔ہماری روایات اور خاندان ایسے انتہاپسندانہ عمل کی کبھی بھی حمایت نہیں کرتا۔اگر خواتین میں شدت پسندی کے رجحانات کی تاریخ کاجائزہ لیاجائے تویہ بات سامنے آتی ہے کہ خواتین کی جانب سے شدت پسند تنظیموں کاحصہ بننے کے پیچھے مختلف عوامل اوروجوہات رہی ہیں۔

چیچنیا میں روسی فوجیوں کے خلاف خواتین خودکش حملہ آوروں کااستعمال2000کے اوائل میں شرکت کرنے والی زیادہ تر ایسی خواتین تھیں جن کے شوہروں، بھائیوں یاوالدکوروسی فوجیوں کی جانب سے ہلاک کردیاگیاتھا۔اس لیے ان کیلئے”بلیک ویڈوز”یعنی سیاہ بیواؤں کالفظ استعمال کیاگیا۔ ان خواتین کی جانب سے خودکش حملہ آورتنظیم کاحصہ بننااپنے پیاروں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کابدلہ لیناتھا۔اسی وجہ سے ہی یہ تصوربھی عام ہواکہ خواتین زیادہ ترشدت پسندتنظیموں اورپرتشدد کارروائیوں کاحصہ کسی ذاتی بدلے لینے کی نیت سے کرتی ہیں اوردہشتگردتنظیمیں ان کے غم وغصے کافائدہ اٹھاتے ہوئے انھیں اس قسم کی پرتشدد کارروائیاں کرنے پرآمادہ کرتی ہیں۔

مگرخواتین میں شدت پسندی کے رجحانات کاجائزہ لینے والے محققین کے مطابق یہ کہنادرست نہیں کہ خاتون خودکش حملہ آوربننے کے پیچھے ہمیشہ یہی وجہ ہوتی ہے۔ان کے مطابق القاعدہ،تامل ٹائیگرزاورنام نہاد شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ اور بوکوحرام میں پڑھی لکھی خواتین کی شمولیت اوران کی پرتشددکارروائیوں میں حصہ لینے نے اس تاثرپرسوالات کھڑے کر دیے کیونکہ ان کارروائیوں میں حصہ لینے والی خواتین نہ صرف باشعوراورتعلیم یافتہ تھیں بلکہ ان کے خاندان والوں کے ساتھ کسی ریاست یاتنظیم کی جانب سے ناانصافی کی کوئی تاریخ نہیں تھی جس کی بناپریہ کہاجائے کہ انہوں نے ایسا بدلے کی نیت سے کیابلکہ یہ خواتین ان تنظیموں کے نظریہ کی پیروکارتھیں۔

ان میں شدت پسندتنظیم نام نہاددولت اسلامیہ کیلئےلاہورمیں خودکش حملہ کرنے کی ارادہ رکھنے والی نورین لغاری جنہیں حملے سے پہلے گرفتارکر لیاگیااورامریکی ریاست کیلیفورنیامیں2015میں ایک حملے میں ہلاک ہونے والی پاکستانی نژاذ امریکی شہری تاشفین ملک شامل ہیں۔یہ دونوں خواتین نہ صرف خودتعلیم یافتہ تھیں بلکہ ان کاتعلق پڑھے لکھے خاندان سے تھا۔تاشفین ملک ایک بچی کی ماں تھیں اوران کی ہلاکت کے وقت ان کی بچی کی عمرچھ ماہ تھی۔انسداد دہشتگری کے ماہرین کے مطابق شدت پسند تنظیموں کی جانب سے خواتین خودکش حملہ آوروں کواس لیے بھی استعمال کیاجاتاہے کیونکہ یہ ٹارگٹ کے قریب ترین جاکرزیادہ تباہی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

پاکستان جیسے معاشرے میں خواتین کے پردے کااحترام کرتے ہوئے ان کی زیادہ تلاشی نہیں لی جاتی جس کی وجہ سے یہ خواتین حملہ آورنہ صرف اپنے کپڑوں میں دھماکہ خیزموادچھپانے میں کامیاب ہوجاتی ہیں بلکہ اکثرسکیورٹی چیک پوائنٹس سے بغیرتلاشی بھی گزرجاتی ہیں۔خاتون حملہ آور کواستعمال کرنے کامقصد اپنی تنظیم اوراس کے نظریہ کی تشہیرکرنابھی ہے کیونکہ جب بھی خاتون حملہ آورخود کش حملہ کرتی ہیں تومیڈیامیں اسے زیادہ کوریج دی جاتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ شدت پسند گروہ یہ بھی بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیاں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ اب خواتین نے بھی ہتھیاراٹھا لیے ہیں۔
اگرچہ ٹی ٹی پی نے کبھی کھل کراس بات کااعتراف نہیں کیاکہ انہوں نے اپنی کاروائیوں میں خواتین خودکش حملہ آوروں کا استعمال کیاہے لیکن انہوں نے پاکستان سمیت دنیاکے متعدد مملک میں خواتین کواس کام کیلئےبھرتی کیا۔اگر شدت پسندی کی تاریخ کاجائزہ لیں توسیکولرشدت پسند تنظیموں نے اپنی کارروائیوں میں خواتین کااستعمال زیادہ کیااورکھل کراس کی تشہیر بھی کی۔اب ضرورت اس امرکی ہے کہ فوری طورسرجوڑکران محرکات کاحقیقی جائزہ لیکراس کوفوری مداوا کیاجائے اور ایساحل ترتیب دیاجائے کہ آئندہ کوئی شاری بلوچ اس معاشرے میں پیدانہ ہوجس کودشمن اپنے مفادات کیلئے استعمال کرتے ہوئے ارضِ وطن کے خلاف استعمال کرسکیں۔بلوچستان میں اس فتنے کی سرکوبی کیلئے فوری طورپران تمام دردمند بلوچی مذہبی علمااوراعلیِ تعلیم یافتہ پروفیسرزکی ایک کمیٹی بنائی جائے جوجنگی بنیادوں پرایسے پروگرامزترتیب دے جن کو مقامی افرادکی دادرسی کاپورا اختیاردیاجائے۔یہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔

فرانس کے لیجنڈری لیڈرچارلس ڈیگال نے جب الجزائرکامسئلہ حل کرناچاہاتوملک بھرمیں طوفان کھڑاہوگیا۔ڈیگال کے دوستوں نے مشورہ دیاکہ الجزائرکے ایشو پرآپ کی حکومت ختم ہوجائے گی۔پارٹی کے اندربھی سازشیں ہورہی ہیں،سسٹم بچانازیادہ ضروری ہے،آپ مفاہمت سے کام لیتے ہوئے کوئی درمیانہ راستہ نکالیں۔فرانسیسی مردآہن کاچہرہ یہ سن کرسرخ ہوگیا۔اس نے بے ساختہ جواب دیا”لیڈرمسائل لٹکایانہیں،حل کیا کرتے ہیں۔ممکن ہے سٹیٹس کوکی پالیسی جاری رکھنے سے میں چندبرس زیادہ حکومت کرجاؤں مگرمیرے ملک کی بنیادیں ضرورکھوکھلی ہوجائیں گی” ۔کیاہمارے سیاستدانوں کواس بات کااحساس ہے کہ پاکستان اس وقت بری طرح دشمنوں کے نرغے میں ہے اوراسے معاشی طورپردیوالیہ کرکے خاکم بدہن اس کی ایٹمی قوت کے پرکاٹنے کی تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں