A Story Of Power And Powerlessness

اختیار اوربے اختیاری کی داستان

:Share

بہت دکھ جھیلے ہم نے،بہت دردسہے ہم نے… خون ہی خون اورآگ کاکھیل، بارود کی بو،شعلہ اگلتی ،انسانی خون چاٹتی بے حس بندوقیں…آٹادستیاب نہ خوردنی تیل…پٹرول چلئے رہنے یجئے…بھوک کے ستائے ہوئے معصوم انسانوں کی خودکشیاں، بیروز گارنوجوانوں کے مدقوق چہرے،گھروں میں جہیزنہ ہونے کی وجہ سے بوڑھی ہوجانے والی لڑکیاں،سرمایہ داروں کی چکی میں پستاہوامزدور،سڑکوں پرکھلےعام لوٹ مار،اغوابرائے تاوان کی وارداتیں، معصوم بچیوں کی اجتماعی آبروریزی، پھول جیسے معصوم بچوں کواپنی بھوک کی بھینٹ چڑھانے والے درندے،آئین کاقتل،قانون وانصاف کاقتل، انسانیت کاقتل۔

بھتہ خوروں،قاتلوں ،دہشتگردوں کاراج…پورے سماج کویرغمال بنانے والے سفاکوں کاٹولہ…خاک ہی خاک،خون ہی خون… زباں بندی کافرمان،بے آسرابندگان خدااوران کاخون چوسنے والی جونکیں،جودن بدن فربہ ہوتی رہتی ہیں۔گولیوں کی تڑتڑاہٹ میں زندگی وموت کارقص بسمل،سسکیاں، ہچکیاں،چیخیں،ماتم،گریہ اورشام غریباں۔ہرآنے والانئے سازپرنیاراگ الاپتاہے۔ہم دیوانوں کی طرح اس کے پیچھے بھاگنے لگتے ہیں اورپھروہی دھتکار، مایوسی اورشکستگی،ابلیس کھڑامسکراتاہے۔ ایسے حالات میں کوئی چھوٹی سی بھی خبر…خوشی کی خبر،مسرت کالمحہ سامنے آئے توجی بے اختیارکھل اٹھتاہے۔ ہاتھ فضامیں بلندہوتے ہیں اوربے خودی میں رقص کرنے لگتاہے۔بندہ بشرجوہوا۔

اشتہارات کی دنیابھی کیاخوب ہے۔پرفریب اورسہانی۔کچھ دیرتک ہم بے خودسے ہوجاتے ہیں۔ایساہوتابھی ہے؟میراگریہ،ماتم تو جاری رہتاہے۔چلئے کچھ دیر ہم خوش ہوجاتے ہیں۔بہت پرامیداورخوش کن الفاظ سے مزین ہے یہ اشتہار۔”اب راج کرے گی خلق خدا…اورجوکچھ ہوگا،آپ کے مطابق، میرے مطابق اورخلق خداکے مطابق”۔

اچھا! توآگیاہے وہ سہاناوقت…اب دل کی ویرانی شگفتگی میں بدلےگی،خواب تعبیرپائیں گے،دل مردہ پھرسے جی اٹھے گا۔ مسرت رقص کناں ہوگی،نسیم صبح مژوۂ جاں فزاہوگی،قہقہے گونجیں گے،خوشحالی کے پھول کھلیں گے،کلیاں چٹکیں گی،دکھ ختم ہوجائیں گے،درد دورہوجائے گا،ہربشرامان پائے گا، دل کی مراد برآئے گی،نغمۂ دل رباسماعتوں میں رس گھولے گا،چین و آرام،سکون ہی سکون۔ہاں ایساہوگا؟واقعی خلق خداراج کرے گی؟اگریہ لفظوں کی حدتک ہے توپھرہم عادی ہیں۔سنتے رہتے ہیں اورلگتایونہی ہے کہ بس کچھ دیرکیلئےبھولنے کی کوشش ایام تلخ ،کوجیسے تھیٹرمیں ڈراما،سینمامیں فلم،ہم کچھ دیرکیلئےکھوجاتے ہیں،اس میں حقیقت کہاں بدلتی ہے۔سینماکے یخ بستہ ہال سے باہرنکلتے ہی لُوکے تھپیڑے…حقیقت منہ چڑاتی ہے۔

اشتہارسچ بولتے ہیں؟ہوسکتاہے آپ کومجھ سے اختلاف ہو،ضرورکیجئے یہ آپ کاحق ہے لیکن میراتجربہ ہے اشتہارصرف راغب کرنے کانام ہے۔دعویٰ لاکھ سہی ،حقائق کچھ اورہیں۔”جیسے چاہوجیو”جی نہیں سکتے”زندگی ہے مست”کون سی زندگی” “ناچوگاؤجھومو کیسے؟”ہم آپ کیلئےچشم براہ ہیں”کیا واقعی!بس اسی طرح کا فریب ……ہرسرمایہ دارمجسم عاجزی بن کرکہتاہے”ہم نے اپنی مصنوعات میں عوام کاخیال رکھاہے”کبھی ہواہے بھلاایسا؟بس اشتہارات کی دنیا۔راغب کرنے کادھندا ۔اوراسپانسرکویہ کہہ کرزیادہ پیسے بٹورنے کاکاروبار”سب سے زیادہ دیکھاجاتاہے ہمارایہ پروگرام”بس یہی ہے،یہ جوہمارے گھر میں ایک ڈبے نے جسے ہم ٹی وی کہتے ہیں،ہمیں غلام بنارکھاہے۔جی جناب!آگہی کیلئےسب سے مؤثرذریعہ۔بجاارشادفرمایا،لیکن بس بحث،تسلی،دلاسہ ایک آسرا…بس اورکچھ نہیں…کیابحث کرنے سے بنتی ہے فلاحی ریاست؟کیاصرف یہ کہہ دینے سے کہ”اب راج کرے گی خلق خدا”واقعی راج کرنے لگتی ہے خلق خدا؟یہ توہم گزشتہ75 برسوں سے سن رہے ہیں۔اقبال بانوبھی اپنی بہت خوبصورت آوازمیں سناکررخصت ہوچکی۔کب بدلی تقدیر،ایک آیا،دوسراآیا،سب کے سب دعوے داراورپھروہی ٹائیں ٹائیں فش۔

بھلایہ بحث مباحثے کسی بھوکے کاپیٹ بھرتے ہیں؟کسی برہنہ کاتن ڈھانپتے ہیں؟بتائیے ناں آپ بس سرمایہ داروں کی تجوریاں بھرتی رہتی ہیں۔ سیاستدانوں ان نعروں سےاقتدارکاراستہ ہموارکرتے رہتے ہیں اوربھوکے خودکشیاں کرتے رہتے ہیں اورٹی وی کاپیٹ مرتے مرتے بھی بھرجاتے ہیں ایک نئی خبر،پھر ایک نئی بحث۔معاشی پالیسیاں وہی رہیں گی،خارجہ پالیسی وہی رہے گی، تویاروپھرکیابدلا!کچھ دیرکی فلم ہے،مزے اڑائیے۔چلئے اچھا ہے،کچھ لوگوں کاتوپیٹ بھرتاہے ناں،ان کے اثرورسوخ میں تواضافہ ہوتاہے ناں۔وہ توہیروبنتے ہیں ناں۔چلیے کسی کاتوبھلاہو۔

ہاں حالات توخراب ہیں،بہت خراب…..لیکن کیوں ہیں؟میں نہیں جا نتا،لیکن سب کی طرح سوچتاضرور ہوں اور میں اس نتیجے پر پہنچاہوں کہ میں اصل نہیں ہوں جعلی ہوں۔ایک کشتی کی بجائے بہت سی کشتیوں میں سوارہوں۔ایک راستہ چھوڑکربہت سے راستوں پر گامزن ہوں۔ادھورااورنامکمل ہوں میں۔ میں اپنااعتمادکھوبیٹھاہوں اورسہاروں کی تلاش میں ہوں۔میں اتناتوجانتاہوں کہ بیساکھیوں سے میں چل تولوں گالیکن دوڑنہیں سکوں گا، پھربھی بیساکھیوں کاسہارا ……میں گلے اورشکوے شکائت کرنے والابن گیا ہوں…مجھے یہ نہیں ملا،میں وہ نہیں پاسکا،ہائے اس سماج نے تومجھے کچھ نہیں دیا،میرے راستے کی دیواربن گیاہے۔

میں خودترسی کاشکارہوں،میں چاہتاہوں کہ ہرکوئی مجھ پرترس کھائے،میں بہت بیچارہ ہوں،میراکوئی نہیں۔میں تنہاہوں،مجھے ڈس رہی میری اداسی…. ہائے میں مرگیا،ہائے میں کیاکروں،میں مجسم ہائے ہوں۔میں کیاہوں،میں کون ہوں مجھے کچھ معلوم نہیں۔ عجیب سے مرض کاشکارہوں میں۔بس کوئی مجھےسہارادے ،کوئی میراہاتھ تھامے،کوئی مری بپتاسنے……بس میری اورمیں کا چکر۔میں اس گرداب میں پھنس گیاہوں اورنکلنے کی کوشش کی بجائے اس میں غوطے کھارہاہوں۔میں حقائق سےآنکھیں چرا کر خواب میں گم ہوں۔ہرشے بس مری دسترس میں ہو،جبکہ میں جانتاہوں کہ میں”کن”کہہ کر”فیکون”نہیں دیکھ سکتا،پھربھی میں اس پرتوکبھی غورہی نہیں کرتاکہ میں نے کیادیالوگوں کو!

اس سماج کومیں نے کیادیا!میں دیناجانتابھی ہوں یامجھے بس لیناہی آتا ہے؟ کبھی نہیں سوچامیں نے۔مجھے خودسے فرصت ملےتوسوچوں بھی ناں!میں نے کسی سے محبت کادعویٰ کیا،جینے مرنے کی قسمیں کھائیں اورپھراسے دھوکادیا،اس کے اعتمادسے کھیل گیا۔ایساہی کیاناں میں نے!میں اسے کوئی جرم نہیں سمجھتا۔ کسی نے مجھ سے ہمدردی کی،میراساتھ دیا،مجھے اپنے کام میں شریک کیااورمیں نے کیاکیا؟جب میراہاتھ کشادہ ہواتواسے چھوڑکر دوسروں کے پاس جابیٹھا،ایساہی کیا ناں میں نے،میں نے اپنی چرب زبانی سے لوگوں کی جیبوں سے پیسے نکالے،انہیں سہانے خواب دکھائے،مفلوک الحال لوگوں کو جعلی پلاٹ فروخت کر دیئے،کسی غریب نے قرض لے کرمجھے پیسے دیئے کہ میں اسے باہربھیج دوں تاکہ اس کا ہاتھ کشادہ ہو،میں نے کسی اورکے ہاتھ بیچ ڈالا،اس کاپورامستقبل تباہ کرڈالا۔میں نے اپنا پیٹ بھرنے کیلئے ہروہ کام کیاجس پرمجھے شرم آنی چاہیے،لیکن میں اترائے پھرتا ہوں۔

میں نے بڑے لوگوں سے تعلقات بنائے اس لئے کہ وہ میرے کرتوتوں میں میری معاونت کریں۔میں نے غنڈوں اور بدمعاشوں کی فوج تیارکی اور خاک بسر لوگوں کوزندہ درگورکردیااورپھربھی میں معززہوں۔میں نے بینکوں سے فراڈکے ذریعے بھاری رقوم کاہیرپھیرکیااورکئی ایکڑپرمحیط فارم ہاؤس بناکراس میں عیش و عشرت سے رہنے لگا،جب ہوس ختم نہ ہوئی تودونوں ہاتھوں سے کرپشن سے لوٹی ہوئی دولت سے بیرون ملک محلات اورنفع بخش کاروبارشروع کردیئے اورملک کے اقتدارکیلئے صرف خودکواہم سمجھنے کااستحقاق اب بھی اپنے لئے سمجھتے ہیں۔اپنے جرائم کومیں دیکھتاہی نہیں ہوں۔میں نے قبرستان میں کئی مردے دفن کئے اورخودکبھی نہیں سوچاکہ مجھے بھی یہاں آنا ہے۔

میں نے جعلی ادویات بنائیں،انہیں فروخت کیااوراپنی تجوریاں بھرلیں،میں نے مذہب کوپیسہ کمانے کاذریعہ بنالیا،میں ایک بہت اچھا بہروپیاہوں جوایساروپ دھارتاہے کہ اصل کاگمان ہو۔میں نے لوگوں کی فلاح وبہبودکاکام بھی اس لئے کیاکہ لوگوں میں میری واہ واہ ہواورسماج میں میری وقعت بڑھے اورپھراس کو بھی پیسے کمانے کاذریعہ بنالیا۔میں نے چندروپوں کاراشن تقسیم کیااوراپنی اس سستی شہرت کیلئے اس سخاوت کی تصاویربنواکراخبارات کوجاری کیں،ان کوبارباردیکھ کراپنے نفس کوخوب موٹاکیا۔میں نے رشوت لی،حق تلفی کی،ہرناجائزکام کیااورجائزکام والوں کوراستہ ہی نہیں دیاجب تک میری جیب نہ بھردی انہوں نے۔ عجیب ہوں میں،بندہ نفس،بندہ مکروفریب،بندہ حرص وہوا۔

ہم سب مجرم ہیں،کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں،اگرکسی نے مجھے گالی دی میں نے اس کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کیااور جب اللہ کے قانون کوتوڑا گیاتوبس میں تبصرہ کرتارہ گیا،مسجدیں بموں سے اڑا دی گئیں اورمعصوم و یتیم بچیوں کو فاسفورس بموں سے بھسم کردیااورمیں بس ٹی وی کے سا منے بیٹھادیکھتارہا۔میں نے ملک اوراس میں رہنے والے معصو م لوگوں کیلئے آخرکیاکیا؟سوائے جمع زبانی خرچ کے۔۔۔۔پھرجب میں ہلکان ہوگیا،مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہاتھا کہ میں اس عذاب سے جومیں نے اپنی غلط کاریوں کی بدولت خریداہے،اس سے نجات کیسے حاصل کروں؟تب میں نے پہلے اقرارکیا اپنی خطاؤں کااپنے رب کے سا منے اورپھرعزم کیا:نہیں اب میں بندہ نفس نہیں،بندہ رب بننے کی کوشش کروں گا۔یہ بہت مشکل ہے،بہت زیادہ…… لیکن میں نے اپنے رب کوسہارابنالیااورمیرے زخم بھرنے لگے،پھرایک دن ایسابھی آیاکہ میں نے تہیہ کرلیاکہ میں اپنے لئے نہیں خلق خداکیلئے زندہ رہنے کیلئے کوشش کروں گا۔

آپ رب کریم کاسہاراپکڑلیں تومشکلیں آسان ہوجاتی ہیں۔مجھے بہت الجھن ہونے لگتی تھی کہ میں عذاب اورآزمائش میں فرق کیسے کروں،تب میں نے اپنا مسئلہ ان کے سا منے رکھ دیا،بہت دیرتک دیکھتے رہے،مسکراتے رہے اورپھرایک ہی چٹکی میں یہ مشکل بھی حل کردی:دیکھ بہت آسان ہے عذاب اور آزمائش میں فرق رکھنا،جب کوئی پریشانی،مصیبت ،دکھ یا کوئی مشکل آئے اور وہ تجھے تیرے رب کے قریب کر دے توسمجھ لے یہ آزمائش ہے اور جب کوئی پریشانی،مصیبت ،دکھ یا کوئی مشکل تجھے رب سے دور کردے تو سمجھ لے یہ عذاب ہے،توبہ کاوقت ہے،ضرورکرتوبہ اورجلدی کراس میں کہ:
رحمت یہ چاہتی ہے کہ اپنی زباں سے
کہہ دے گناہ گارکہ تقصیرہوگئی

جدیددورکی تمام سہولتوں سے محروم بھی ستاروں سے اپنے سفرکی منزل کاتعین کرلیتے تھے کیونکہ وہ سحرکے ستارے کی قدرسے بخوبی واقف تھے کہ یہ اب صبح کی نویدسنارہاہے اورروشنی کی پہلی کرن مسافرکے سفرکاایک مرتبہ پھرتعین کردیتی تھی اورنئے اعتمادکے ساتھ سفرجاری وساری رہتاہے اور بالآخر منزل تک پہنچانے پرتسلی وتشفی کاسامان دل کے سکون کاباعث بنتاتھا۔وطن عزیزمیں چومکھی جنگ جاری ہے،آستینوں میں چھپے دشمن بھی اپنی بدخواہی میں مصروف کارہیں ۔ بیرونی محاذپر ڈٹے اندرونی لڑائی میں شکست خوردہ ہرگلی سرحدبن رہی ہے اورہرمحلہ محاذ،تفریق تقسیم میں اورتنقیدتضحیک میں بدل چکی ہے،معیشت معاشرت کوتبدیل کررہی ہے اورعدم برداشت کارواج سماج پراثرڈال رہاہے۔مملکت یوں خالی ہاتھ ہوگی کبھی سوچا نہ تھاکہ سینکڑوں کنٹینرزبندرگاہوں پرسوالی بنے فریادکناں ہیں لیکن اس کے باوجودسابقہ اورموجودہ وزیرخزانہ اپنی اپنی بولی بول کرطرم خان بننے کی کوشش کررہے ہیں۔

ادھربنوں میں ہونے والے تازہ حادثے کی پرورش نہ جانے کب ہوئی اس کاجواب کون دے گاتاہم سوال اہم ہوگیاہے جس کاجواب ملناضروری ہے کہ یہ نقب تازہ ہے یاکسی سیاسی مفادمیں چھپی سہولت کاری کانتیجہ؟دہشتگردوں کاانسداددہشتگردی ادارے پر قبضہ کس سیزفائرمعاہدے کی بزدلی کی سنددے رہاہےاورکون گزشتہ ایک دہائی سے آئین سے بالانظریاتی دہشتگردی کی بنیادپر “سیاسی سرمایہ کاری”کی کوشش کررہاہے؟میرادکھ یہ نہیں کہ گلی کوچوں میں چھپے دشمن باہرنکل رہے ہیں،شکوہ یہ ہے کہ اُنہیں چھپاکربھی چھپایانہیں جاسکا۔خیبر پختونخوامیں دہشتگردی کی نئی لہرکی ذمہ دارتحریک انصاف حکومت ہے یاریاست،بہرحال ذمہ داری اُس ایک صفحے کو بھی لینی ہوگی جس کی تحریرکامحورمحض ذاتی مفادات کے تحفظ کے سواکچھ نہ تھا۔

یہ بھی سچ ہے کہ جنرل باجوہ گمنامی میں جاکربھی”نام”کمارہے ہیں،جنرل فیض چکوال کی سُنہری دھوپ میں دادوتحسین سے لطف اندوز ہوتے ہوئے یقیناًاس بات پرغورتوضرورکررہے ہوں گے کہ غلطی کہاں ہوئی؟اورعمران خان زمان پارک میں اختیار اوربے اختیاری کی داستان لگاتارسُنارہے ہیں اورہرآنے والادن سیاست میں گرمی پیداکرنے کیلئے اک نئی کہانی سننے کوملتی ہے۔ہرروزلانڈری میں گندی لینن دھونے سے ہاتھ توکچھ نہیں آرہاالبتہ مزید غلاظت باہرآرہی ہے۔ریاست بقا کی اس لڑائی میں سچ کھوجنے کی کوشش بھی کرے توپھربھی شاید ہاتھ جھوٹ ہی آئے گالیکن اس کی بھی کوئی کوشش توہو۔

ایک طرف معاشی بحران خودمختاری کی دہلیزپرضرب لگارہاہے تودوسری جانب دہشت چوکھٹ سے لگی بیٹھی ہے۔نعروں اور وعدوں کے فریب میں الجھے ہوئے بے بس لوگ فقط آسمان کی جانب مُنہ کیے ہاتھ پرہاتھ دھرے دامن پھیلائے بیٹھے ہیں جبکہ جواب میں ہُواورمایوسی کاعالم ہے۔ہم ازل کے محتاجِ غنی خالی ہاتھوں کوتک رہے ہیں۔شدیدہوتامعاشی اورسیاسی بحران کب ختم ہوگاکوئی نہیں جانتا۔پنجاب میں ایک مرتبہ پھراقتدارکاسرکس لگنے کوہے،مٹی کے باوے جماعتیں بدل بدل کرسیاست کے سینے میں بے رحم دل آزما رہے ہیں۔ بداعتمادی کی اس فضا میں کبھی اعتماد اور کبھی عدم اعتماد کی تحریکیں آرہی ہیں اب کی بارپاکستان کے سب سے بڑے اورمعاشی طورپرقدرے مستحکم صوبے میں سیاسی عدم استحکام اوربے یقینی معاشی بنیادوں کوہلا کررکھ دیاہے جس کا ادراک شایدتب ہوگاجب معاملات ہاتھ سے نکل جائیں گے۔معیشت سنبھالناکسی ایک سیاسی جماعت کے بس کی بات نہیں۔ ریاست واقعی نازک موڑ پرکھڑی ہے اورہم اقتدارکے حصول میں سب کچھ بھول بیٹھے ہیں۔

ہمارے چاروں طرف کیاہورہاہے،ہمیں خوددیکھنااورسوچناچاہیے،ہم اجتماعی آزمائش میں مبتلاہیں یااجتماعی عذاب میں؟مجھےاپنے اندرسے کہیں یہ آواز آرہی ہے کہ “پلٹ آ،اپنے رب کی طرف پلٹنے کاوقت ہے،جلدی کرنادان،ایسانہ ہوکہ دروازے پرمنادی دینے والاپھرنہ لوٹے……پتہ نہیں کب راج کرے گی خلق خدا؟ کب ہوش میں آئیں گے ہم،آخرکب۔چلئے بہت…کرلی میں نے۔لگے رہوبھائی…کچھ بھی تونہیں رہے گا،بس نام رہے گا اللہ کا۔
یہ دیکھئے آدھی رات گزرگئی ہے۔اس وقت ہم سب کے برادربزرگ خواجہ رضی حیدرکہاں سے آگئے۔
سوال کرتے ہیں شاخوں سے کشتگانِ خزاں
کبھی بہاربھی آتی ہے درمیانِ خزاں
بس ایک ہجرسے آمیزہوگیا ہے وصال
یہاں توموسم گل بھی ہے داستانِ خزاں
یہ کیاکہ آنکھ بہاروں کی آرزوسے نہال
یہ کیاکہ روح میں آبادہے مکانِ خزاں

اپنا تبصرہ بھیجیں