ریاستی قتل،موردِ الزام کون؟

:Share

یورپ سے زیادہ یہ بات کون جانتا ہے کہ سیاسی بنیاد پر کیا جانے والا کوئی قتل عالمی جنگ بھی چھیڑسکتا ہے۔۱۹۱۴ءمیں سربیا کے ایک قوم پرست کے ہاتھوں آرک ڈیوک پر چلائی جانے والی گولی نے پہلی جنگِ عظیم کا باعث اورلاکھوں افرادکی ناگہانی موت کی منحوس خبرکاسندیسہ لیکراس دنیامیں نمودارہوئی اوراِسی جنگ کی کوکھ سے دوسری جنگ عظیم نے جنم لیا۔ ۱۸۸۱ءمیں روس کے زار نکولس دوم پرپھینکے جانے والے بم نے اصلاحات کا عمل روک دیا۔ سیاسی قتل بڑے پیمانے پر خرابیاں پیدا کرنے کا باعث بنتے رہے ہیں۔اس کی بھاری یاہلکی قیمت ہرقوم کوچکاناپڑتی ہے۔۱۹۶۱ء میں کانگو کے وزیر اعظم پیٹرس لمومبا کے قتل نے ملک کو تباہی کے راستے پر ڈال دیا۔ اس قتل کیلئےامریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کو ذمہ دارٹھہرایاجاتاہے۔ ۱۹۹۴ءمیں روانڈا کے صدرجووینل ہبیاریمانا کے قتل نے اس ملک کو افریقا کی تاریخ میں بدترین نسلی تطہیر سے دوچار کیا۔ اس کے اگلے ہی سال اسرائیل کے وزیر اعظم یزاک رابن کے ایک جنونی یہودی کے ہاتھوں قتل نے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان پائیدار اور وسیع تر امن کے امکانات کومٹی میں ملا دیا۔ ۲۰۰۷ء میں بے نظیر بھٹو کے قتل نے نہ صرف سندھ پاکستان میں اربوں روپے کی املاک کو خاکستر کردیابلکہ “ٹین پرسنٹ”کے نام سے مشہوراورکرپشن کے بے تاج بادشاہ زرداری کو ملک کے سب سے بڑے منصب پرفائزکردیااورآج تک وطن عزیزسے کرپشن ،بددیانتی،ناانصافی اورحقیقی قیادت کے پنپنے کی گنجائش تقریباً ختم کردی۔
امریکی صدر ابراہم لنکن کے قتل کے بعد اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم بنجمن ڈزرائیلی نے کہا تھا کہ قتل سے تاریخ کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔ ان کی بات بالکل غلط تھی۔ ایسا بیسوں مرتبہ ہوچکا ہے کہ کوئی لیڈر قتل ہوا اور ملک کی تاریخ ہی بدل گئی۔ اور حقیقت یہ ہے کہ تاریخ اگر تبدیل نہ ہو توزیادہ عجیب ہوجاتی ہے۔ بنجمن جونزاوربنجمن اولکن کی تحقیق کے مطابق ۱۸۷۴ء سے۲۰۰۴ء تک قومی راہنماؤں کوقتل کرنے کی۲۹۸ کوششیں کی گئیں، جن میں سے۶۱کوششیں کامیاب رہیں۔ سیاسی راہنماؤں کے قتل نے کئی ممالک میں تاریخ کے دھارے کارخ تبدیل کردیا۔۱۹۵۰ءکے عشرے سے حالت یہ ہے کہ ہرتین سال میں دو قومی راہنماقتل کیے جارہے ہیں۔
ضروری نہیں کہ کسی ملک میں شدید عدم استحکام پیدا کرنے کیلئےکسی قومی راہنما ہی کو قتل کیا جائے۔ چندبرسوں کے دوران ایک اور چلن تیزی سے عام ہوا ہے۔ یہ چلن ہے دشمن کو بیرون ملک یا اسی کی سرزمین پر قتل کرنے کا۔قانون اورپالیسی بنانے والوں کی توجہ اس چلن نے یکساں طور پرپائی ہے۔اب بڑی ریاستیں کسی بھی ملک کوکمزورکرنے کیلئےاس کے راہنماؤں کونشانہ بنانے کے بجائے وہاں اپنے مخالفین کونشانہ بناتی ہے اوراس کی منظوری باضابطہ پالیسی کے تحت دی جاتی ہے۔ سالزبری میں روسی ڈبل ایجنٹ سرگئی اسکرپل پرنیوروکیمیکل حملہ اس حوالے سے تازہ ترین مثال ہے۔ برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے ۱۲مارچ کوکہاکہ اس حملے میں روسی حکومت کے ملوث ہونے کاامکان نظراندازنہیں کیاجا سکتا اور پھرنہ صرف برطانیہ نےچند ہی دنوں میں۲۳سفارتی اہلکاروں کوملک بدری کاحکم دے دیابلکہ امریکاسمیت کئی یورپی ممالک نے سو سے زیادہ روسی سفارتکاروں کوملک سے نکال دیااوردنیامیں سردجنگ کادوبارہ آغازہوگیا۔
روسی صدرولادیمیرپوٹن کی طرف سے مخالفین کے خلاف کاروائیوں کاحکم دیاجانا،انہیں نشانہ بنایاجاناکوئی حیرت انگیزبات نہیں۔ روس کی سرزمین پرصحافیوں،سیاستدانوں اوردیگرمخالفین کو نشانہ بنانے کاسلسلہ ایک زمانے سے جاری ہے۔بدنام زمانہ روسی خفیہ ادارے کے جی بی کی پیش رَوفیڈرل سیکیورٹی ایجنسی نے پوٹن کے دورمیں مجرمانہ سرگرمیوں کے حامل کاروباری گروہوں کے ساتھ مل کرایسی فضاپیداکی ہے،جس میں مخالفین کیلئےمحفوظ رہتے ہوئے زندگی بسرکرنا انتہائی دشوارہوگیاہے۔پوٹن نے بیرون ملک ممکنہ دشمنوں کوختم کرنے میں بھی کوئی ہچکچاہٹ
محسوس نہیں کی ہے۔ ۲۰۰۶ءمیں لندن میں الیگزینڈرلٹویننکوکاقتل اس کامنہ بولتاثبوت ہے۔ ایسے میں سالزبری میں سرگرئی اسکرپل پرحملہ کوئی حیرت انگیزبات نہیں لیکن امریکااورمغربی ممالک کادامن بھی ایسی آلودگی سے پاک نہیں۔امریکی سی آئی اے اوربرطانوی ایم آئی سکس کے ان کارناموں پرتوہالی وڈنے بڑےفخریہ اندازمیں فلمیں تک بناکراپنی دھاک بٹھانے کی درجنوں کوششیں منظرعام آچکی ہیں۔
دشمنوں کوبیرون ملک قتل کرانے کے حوالے سے روس کوئی انوکھا ملک نہیں۔ دوسری جنگ عظیم سے پہلے اور بعد میں جنوبی امریکا کی حکومتیں بیرون ملک سیاسی پناہ حاصل کرنے والے اپنے بائیں بازو کے مخالفین کو کچلنے میں مصروف رہیں۔ نسل پرستی کے دور میں جنوبی افریقا کی حکومت بھی موجودہ حکمران افریقن نیشنل کانگریس کے ارکان کوپڑوسی ممالک میں قتل کرانے میں کچھ باک محسوس نہ کرتی تھی۔
نصف صدی کے دوران جس ملک نے بیرون ملک اپنے دشمنوں کو نشانہ بنانے میں سب سے زیادہ دلچسپی لی ہے ان میں اسرائیل سب سے نمایاں ہے۔ جب فلسطینیوں نے مزاحمت کادائرہ وسیع کرتے ہوئے بیرون ملک اسرائیلیوں کونشانہ بناناشروع کیااور۱۹۷۲ءکے میونخ(جرمنی)اولمپکس میں اسرائیلی دستے کے۱۱؍ارکان کوقتل کردیاتواسرائیل کے مرکزی خفیہ ادارے موسادنے بیرون ملک اہم دشمنوں کوہدف بناناشروع کیا۔اسرائیلی خفیہ ادارے اب تک بیرون ملک کم وبیش۲۷۰۰قتل کر چکے ہیں۔تیونس،مالٹا،اردن، لبنان،متحدہ عرب امارات اوردیگرممالک میں فلسطینی آپریٹیوزکو نشانہ بنایا گیا۔ معروف اسرائیلی صحافی برگمین نے اپنی ایک حالیہ کتاب میں اس حوالے سے لکھا ہے کہ اب تک یہ طے نہیں ہوسکا کہ میونخ میں اسرائیلی ایتھلیٹس کو ہلاک کرنے والے بھی مارے گئے یا نہیں۔
اسرائیل نے ممکنہ دہشت گردی کا خدشہ ظاہر کرکے فلسطینیوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ غزہ اور غرب اردن میں اسرائیلی فوجیوں کی کارروائیاں تواتر سے جاری رہی ہیں۔ حماس کے سربراہوں کا قتل بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ شیخ احمد یاسین اور عبدالعزیز رنتیسی کو اسرائیلی فوج نے۲۰۰۴ءمیں شہیدکیا۔ خالد مشعل کوزہردے کرہلاک کرنے کی کوشش ناکام رہی۔ برگمین نے مزیدلکھاہے کہ اسرائیلی فورسز نے ۲۰۰۰ءسے۲۰۰۵ءکے دوران۳۰۰ سے زائد فلسطینیوں اور۱۵۰سے زائدغیرمتعلق افرادکومحض شبہے کی بنیادپرموت کے گھاٹ اتاردیا۔
فلسطینیوں کے معاملے میں اسرائیل نے حفظِ ماتقدم کے طورپرقتل کاطریق اپنایایعنی ذراسابھی شک ہوتودشمن کوموت کے گھاٹ اتاردواوراس حوالے سے بیرونی سرزمین پربھی خون بہانے سے گریزنہیں کیاگیا۔نائن الیون کے بعدامریکانے بھی یہی کیا۔برطانیہ اورفرانس نے بھی امریکی قیادت کے نقش قدم پرچلتے ہوئے وہ سب کچھ کیاجودشمنوں سے محفوظ رہنے کیلئےضروری سمجھاگیا۔ڈرون حملوں میں دشمنوں کے ساتھ ساتھ اپنوں کو بھی نشانہ بنایاگیا۔امریکا،برطانیہ اور فرانس نے اس بات کوترجیح دی ہے کہ دشمن کوبیرونی سرزمین پرنشانہ بنایا جائے۔ یہی سبب ہے کہ ڈرون حملے زیادہ مقبول رہے ہیں۔ امریکا نے افغانستان، پاک افغان سرحدی علاقے، صومالیہ، یمن اوردیگرمقامات پرڈرون حملوں میں دشمنوں کوٹھکانے لگانے کی حکمتِ عملی اپناکرپوری دنیا کی مخالفت مول لی اورانسانیت کے پرخچے اڑانے میں اپنی جارحانہ سفاکی کوبے دریغ استعمال کرنے میں کبھی عارمحسوس نہیں کی ۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی جارج واکر بش اور براک اوباما کی پالیسیوں پر عمل جاری رکھا ہے۔ یمن میں تین صوبوں کو دشمنوں کے حوالے سے فعال قرار دے کر وہاں ڈرون حملوں کی اجازت دے دی گئی۔ اس کے نتیجے میں ان تین صوبوں میں خوب ڈرون حملے کیے گئے ہیں۔ نیو امریکا نامی تھنک ٹینک سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار پیٹر برگن کا کہنا ہے کہ امریکی پالیسی سازوں نے وضاحت نہیں کی ہے کہ دشمنوں کی سرگرمیوں کے حوالے سے فعال خطے کون کون سے ہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ یہ اصطلاح محض اس لیے وضع کی گئی ہے کہ دشمنوں کو کسی نہ کسی بہانے نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھا جا سکے۔
کسی بھی بیرونی سرزمین پردشمن کوانفرادی حیثیت میں روایتی طریقے سے نشانہ بناناانتہائی قابل مذمت ہے اور ڈرون حملوں کے ذریعے کسی کو نشانہ بناناتواوربھی قابل مذمت ہے کیونکہ اس میں جانی نقصان کاخطرہ بہت زیادہ رہتاہے۔ دنیابھرمیں انسانی حقوق کی پاسداری کاعلم بلندرکھنے والے قانون دانوں کی نظر میں ڈرون حملے سراسر غیر قانونی ہیں کیونکہ ان میں بے قصور افراد بڑی تعداد میں مارے جاتے ہیں۔ بالائے عدالت اور دیگر مشکوک طریقوں سے قتل کے واقعات کے اقوام متحدہ کی خصوصی رابطہ کار ایگنیز کیلامرڈ کہتی ہیں کہ ڈرون حملوں میں غیر متعلق افراد کی ہلاکت کا خدشہ غیر معمولی ہوتا ہے اور عام طور پر ایسی ہلاکتیں واقع ہوتی ہیں جن کاکسی بھی جرم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ امریکا نے اپنے طور پر دہشت گردوں کی فہرستیں تیار کر رکھی ہیں۔ یہ فہرستیں محض شک کی بنیاد پر تیار کی جاتی ہیں۔ کسی کے بارے میں بھی طے کردیا جاتا ہے کہ وہ القاعدہ اور دیگر گروپوں کا رابطہ کار یا سہولت کار ہے۔ اور پھر کسی بھی ٹارگٹڈ شخص کو وضاحت کا موقع بھی نہیں دیا جاتا۔ جسے مارنے کا طے کرلیا جاتا ہے، اسے مار دیا جاتا ہے۔
امریکااور اسرائیل بیرونی سرزمین پر دشمنوں کو قتل تو کرتے ہیں مگر ان ہلاکتوں کو قتل قرار دینے سے گریز کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ ’’ٹارگٹڈ اٹیکز‘‘ہیں۔ اوباما نے اپنے آخری ایام میں ایک حکم نامہ جاری کرکے وضاحت کی تھی کہ جو کچھ امریکی فورسز اپنی سرزمین کو بچانے کیلئےکرتی ہیں اُنہیں کسی بھی حالت میں قتل نہیں کہا جاسکتا۔ امریکا اور اسرائیل دونوں ہی بین الاقوامی اداروں کی کارروائی سے بچنے کیلئےان ہلاکتوں کو قتل قرار دینے سے گریزاں رہتے ہیں۔
امریکا اور اسرائیل کا یہ وتیرہ رہا ہے کہ اگر کسی دشمن کو پکڑنا اور اس پر مقدمہ چلانا آسان نہ ہو تو قتل کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ دونوں کے پالیسی ساز اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ جو ہاتھ نہ آسکے اُسے قتل ہی کردیا جائے۔ یہ پالیسی بہت سی خرابیوں کا باعث بنی ہے مگر اب تک اس پر عمل جاری ہے۔ دنیا بھر میں اس طریق کار پر تنقید کی جارہی ہے مگر دونوں ریاستیں ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔ اب برطانیہ اور فرانس بھی ان کے ہم نوا ہوتے جارہے ہیں۔ فرانس اور برطانیہ نے بیرون ملک دشمنوں کو براہ راست نشانہ بنانے کا سلسلہ تو شروع نہیں کیا ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ وہ بھی اس راہ پر بہت جلد گامزن ہوں گے۔
اسرائیل اور امریکا دونوں ہی بضد ہیں کہ جن پر ذرا بھی شبہ ہو اُنہیں قتل کردیا جائے کیونکہ قتل نہ کیے جانے کی صورت میں وہ حملے کرکے زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ انسانی حقوق کے ادارے اس پالیسی کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں خرابیاں بڑھتی ہیں، کم نہیں ہوتیں۔ اسرائیلی حکومت کہتی ہے کہ ممکنہ دشمنوں کو جلد از جلد اور بڑی تعداد میں موت کے گھاٹ اتاردیناہی دانش مندی کی علامت ہے۔ دوسری طرف ایمنسٹی انٹرنیشنل کاکہنا ہے کہ ایسا کرنا بنیادی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس سلسلے میں ایک بنیادی استدلال یہ بھی ہے کہ دشمنوں کونشانہ بنانے کے عمل میں بہت سے غیر متعلق افرادبھی موت کے گھاٹ اتاردیے جاتے ہیں۔
معروف قانون دان فلپ سینڈز نے امریکا اور برطانیہ کو جنگی قوانین کی صریح خلاف ورزیوں کا مرتکب قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دونوں ہی ممالک تمام متعلقہ قوانین کی سنگین خلاف ورزی کرتے آئے ہیں اور تمام اقدار کو یکسر فراموش کر بیٹھے ہیں۔ فلپ سینڈز کہتے ہیں کہ امریکا، اسرائیل اور برطانیہ جس نوع کے اقدامات کر رہے ہیں وہ صرف جنگ کی حالت میں درست قرار دیے جاسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں۔ دوسری طرف اسرائیل کا استدلال یہ ہے کہ اس کاوجودداؤپرلگاہواہے۔ ایسے میں جنگی قوانین پر عمل کی عیاشی کا متحمل نہیں ہوا جاسکتا۔
ریاستی پیمانے پرقتل کومختلف ادوارمیں مختلف پہلوؤں سے دیکھااورپرکھاگیاہے۔۱۵۱۶ءمیں ’’یوٹوپیا‘‘کے مصنف ٹامس مور نے لکھا تھا کہ ریاست کے دشمنوں کو قتل کرنا اس لیے ضروری ہے کہ اسی صورت باشندوں کو محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ ۱۷۸۹ء میں اُس وقت کے امریکی صدر ٹامس جیفرسن نے جیمز میڈیسن کو لکھا کہ زہر دے کر یا کسی اور طریقے سے دشمنوں کو قتل کرنااٹھارہویں صدی کے دوران انتہائی خوف کی علامت سمجھاجاتارہا ہے۔ ۱۸۰۶ء میں اس وقت کے برطانوی وزیرخارجہ نے نپولین کوقتل کرنے کے ایک منصوبے کی محض راہ مسدود نہیں کی بلکہ فرانس کو باضابطہ طور پر مطلع بھی کیا۔
دشمنوں کوغیرقانونی طورپریعنی بالائے عدالت قتل کرنے کاسلسلہ دم توڑتا دکھائی نہیں دیتا کیونکہ ٹیکنالوجی کی ترقی نے قتل کوآسان ترکردیا ہے۔ ڈرون حملوں کے ذریعے کسی کوبھی آسانی سے نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ بنیادی حقوق کی پاسداری کیلئےکام کرنے والے ادارے اور تنظیمیں چیخ چیخ کر تھک چکی ہیں مگر بڑی ریاستیں اس حوالے سے اپنی روش تبدیل کرنے کیلئےتیار نہیں۔ امریکا، برطانیہ، فرانس،روس اوردیگر ممالک نے دشمنوں کو بیرونی سرزمین پر نشانہ بنانے کے حوالے سے اپنی پریکٹس ترک کرنے کا اب تک عندیہ نہیں دیا۔ اس حوالے سے عالمی اداروں کو آگے بڑھ کرٹھوس کرداراداکرناہوگا۔ طاقتورممالک میں بنیادی حقوق کے اداروں کوبھی اس حوالے سے اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے کام کرناچاہیے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں