بڑے بحرانوں کی پہلے آہٹ محسوس ہوتی ہے،پھروہ خود آدہمکتے ہیں،تب بہت سوں کواندازہ ہی نہیں ہوپاتاکہ ہوکیاگیاہے۔پچھلے چار برس سےکچھ ایساہی ہماری معیشت کے ساتھ ہواہے اوراب تیزی کےساتھ اس کے نتائج سامنے آرہے ہیں۔دھیرے دھیرے، خاصی خاموشی کے ساتھ ڈیجیٹل یاکمپیوٹرزاورموبائل فون سسٹم سے جُڑاہوانظام معیشت کے حوالے سے چلن میں آچکاہے۔اس حوالے سے خاصی بحث وتمحیص بھی ہوچکی اوراسٹیٹ بینک کومزیدخودمختارکرنے کے نتائج بھی سامنے ہیں۔ماہرین کی نگاہ میں عالمی ساہوکاراپنی شرائط منوانے میں کامیاب ہوگئے ہیں تاہم اس نکتے پرکم ہی بات ہو رہی ہے کہ یہ سب کچھ ہماری معیشت کوکس طوربدل رہاہے اوریہ کہ یہ تبدیلی ہرشخص کے مفادمیں ہے بھی یانہیں۔تکنیکی (ٹیکنالو جیکل) پیش رفت نے کاروبارکے مختلف شعبوں میں درمیانے ایجنٹس یابچولیوں(مڈل مین)کیلئےشدیدخطرات پیدا کردیے ہیں۔
گزشتہ دنوں متعددبڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لاکھوں تقسیم کاروں اورسیلنگ ایجنٹس کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیاتھاکہ عام جنرل اسٹورتیزی سے بڑے کاروباری خاندانوں کے تھوک اورخوردہ دونوں ہی طرح کے کاروباروں سے جڑرہے ہیں۔اس کے نتیجے میں مڈل مین کے ہاتھوں ہونے والی فروخت میں20سے25فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ملک بھرمیں ایسے افرادکی تعدادپانچ لاکھ سے زائدہے جوشہروں اوردیہی علاقوں میں دکانوں پرجاکرآرڈرلیتے اورمال فراہم کرتے ہیں۔اب تکنیکی ترقی کی بدولت دکان دارکمپنی سے مال براہِ راست مانگتے ہیں۔اب دکان دارایپس کے ذریعے مال کاآرڈردیتے ہیں اورکمپنی24 گھنٹے میں ڈلیوری کردیتی ہے۔اس صورت میں دکان داروں کومال سستا ملتاہے کیونکہ تھوک فروش کومڈل مین کی تنخواہوں اوردیگر مدوں میں خرچ نہیں کرناپڑتا۔اس چلن سے مڈل مین کادھنداچوپٹ ہورہاہے۔سیدھی سی بات ہے،چھوٹادکان داریاکوئی اورشخص مال وہیں سے خریدے گاجہاں سے اُسے سستاملے گا۔
حالات کی روش دیکھ کراندازہ ہوتاہے کہ مڈل مین اُسی وقت میدان میں رہ سکتے ہیں جب وہ بھی چھوٹے دکان داروں کومال سستا دیں۔ ایسابہت مشکل ہے کیونکہ صنعت کاربالعموم بڑی کمپنیوں کوبڑے پیمانے پرمال دیتے ہیں۔یہ کمپنیاں مل کراجارہ داری بھی قائم کرلیتی ہیں۔عام مڈل مین کیلئےاُن سے مسابقت ممکن نہیں۔عام مڈل مین کے پاس اتناسرمایہ نہیں ہوت اکہ وہ بڑے پیمانے پرمال لے کرآگے سستا دے۔اوراگرچندایک مڈل مین مل کرکوئی ادارہ قائم کر بھی لیں توبازارمیں اتارچڑھاؤ کی ایک چھوٹی سی لہربھی اُن کاسب کچھ بہاکر لے جاسکتی ہے۔تکنیکی معاملات میں بڑی کمپنیاں اچھی خاصی سرمایہ کاری کر سکتی ہیں۔چھوٹے کاروباری افرادیعنی مڈل مین ایسا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔وہ کم ازکم تکنیک کے میدان میں توبالکل مقابلہ نہیں کرسکتے۔اس نقطۂ نظر سے دیکھیے تومعیشت میں بہت بڑی تبدیلی رونماہورہی ہے کیونکہ مڈل مین کاکردارختم ہوتاجارہاہے۔
اصل مصیبت یہ ہے کہ تکنیکی ترقی کے نتیجے میں جوتبدیلیاں رونماہوتی ہیں انہیں کسی قانون کے ذریعے روکانہیں جاسکتا۔کوئی ایسا قانون نہیں بنایاجاسکتاکہ دکان دارتھوک فروش سے مال براہِ راست لینے کی بجائے مڈل مین سے خریدیں۔اس معاملے میں انہیں پابندنہیں کیاجاسکتا۔بازارتولاگت،مال کی ترسیل، طلب اورمنافع کے کھیل سے چلتاہے۔مڈل مین یاتومال سستادیں یامال کے ساتھ کچھ اضافی دیں تب تودکان داراورعام لوگ اُن کی طرف متوجہ ہوسکتے ہیں بصورتِ دیگرلاگت اورقیمتِ فروخت کے کھیل میں جوجیتے گاسارے گاہک اُسی کی طرف جائیں گے۔بڑے کاروباری ادارے اس کھیل فاتح نظرآرہے ہیں۔
قیمت کاتعلق اس بات سے ہے کہ اُس میں کون سافریق کون سی قدرجوڑرہاہے۔مثلاًاخباردفترمیں تیارہوتاہے،پریس میں طبع ہوکرکئی بچولیوں کی وساطت سے قارئین کے گھرتک پہنچتا ہے۔قارئین اخبارکی جوقیمت اداکرتے ہیں اُس میں سے ان بچولیوں کوحصہ ملتاہے۔ اگرمڈل مین نکال دیے جائیں تواخبارکی قیمت کم ہوجائے گی۔ اخبار کوانٹرنیٹ کی مددسے کمپیوٹریا موبائل فون پرپڑھنے والوں کوزیادہ قیمت نہیں چُکانا پڑتی کیونکہ مڈل مین ہوتاہی نہیں۔
تکنیکی ترقی سے مڈل مین کادھنداہی چوپٹ نہیں ہورہابلکہ اوربھی کئی خطرات اُبھررہے ہیں۔سرمایہ کاروں کیلئےان خطرات کو سمجھنالازم ہے۔کچھ کچھ تووہ سمجھ ہی رہے ہیں۔تکنیکی ترقی(یعنی ٹیکنالوجیکل پیش رفت)سے وابستہ کمپنیوں کے شیئربھی اب مارکیٹ میں ہیں۔اشیائے خوردونوش اورروزمرہ استعمال کی دیگراشیاکی خریدوفروخت سے جُڑی ہوئی کمپنیوں کوزیادہ قبول کیاجارہا ہے۔ان میں بڑے پیمانے پرسرمایہ کاری کی جارہی ہے۔بیشترسرمایہ کاروں کوایسالگتا ہے کہ تکنیکی معاملات سے جُڑی ہوئی کمپنیوں میں سرمایہ کاری ہی بہترین حکمتِ عملی ہے کیونکہ ایسی صورت میں منافع کی شرح بڑھتی ہی جائے گی۔
کسی بھی کمپنی کی منافع کمانے کی صلاحیت کے حوالے سے بہت کچھ دیکھناپڑتاہے۔سرمایہ کاروں کوتکنیکی کمپنیوں کے شیئرز میں بھرپوردلچسپی لینے سے پہلے سوچناچاہیے کہ ایسا کرنے سے کہیں اُن کاسرمایہ خطرے میں تونہیں پڑجائے گا۔کوئی بھی کمپنی اُس وقت تک ہی پُرکشش رہ سکتی ہے جب تک وہ زیادہ منافع کماتی ہے۔اگرمنافع کمانے کی صلاحیت کمزورپڑ جائے توسرمایہ کاراُس سے منہ موڑناشروع کرتے ہیں۔یہ بالکل فطری معاملہ ہے۔یہی سبب ہے کہ اسٹاک مارکیٹ میں آئے دن شدیدنوعیت کااُتارچڑھاؤدکھائی دیتاہے۔تکنیکی کمپنیوں کابھی یہی معاملہ ہے۔
تکنیکی ترقی اپنے آپ میں بہت کچھ ہے مگرسب کچھ نہیں ہے۔اگرآج کوئی کمپنی تکنیکی اعتبارسے بہت اچھی ہے تواس کایہ مطلب نہیں ہے کہ وہ ہمیشہ منافع کماکردیتی رہے گی۔بعض تکنیکی اداروں کے شیئرغیرمعمولی قیمت کے ہوتے ہیں مگرجب گراوٹ آتی ہے توکوئی اُنہیں بچانے والانہیں ہوتا۔اس وقت سرمایہ کارتیزی سے تکنیکی کمپنیوں کی طرف متوجہ ہورہے ہیں۔یہ سب کچھ بہت اچھا دکھائی دے رہاہے مگربہت خطرناک بھی ہے۔تکنیک کی دنیامیں بہت کچھ بہت تیزی سے بدلتاہے۔یہی سبب ہے کہ بہت سے بڑے تکنیکی ادارے تیزی سے ابھرتے ہیں اورپھراُتنی ہی تیزی سے لاپتاسے ہوجاتے ہیں۔تحقیق وترقی کے شعبے میں کام اِتنازیادہ اوراِتنی تیزی سے ہورہاہے کہ بہت کوشش کرنے پربھی کسی تکنیکی کمپنی کیلئےوقت کے ساتھ چلناانتہائی دشوارہوتاہے۔کسی بھی ٹیکنالوجی کوآٓگے بڑھنے کیلئےبروئے کارلایاجاسکتاہے مگریہ لازم نہیں کہ ہرٹیکنالوجی ہمیں کچھ نہ کچھ دے کرہی جائے گی۔کبھی کبھی ٹیکنالوجی بہت کچھ لے بھی لیتی ہے۔
سرمایہ کاروں کواب بہت سنبھل کرچلناہوگا۔جوکاروباری ادارے ٹیکنالوجی کاسہارالے کربیچ کے لوگوں کونکال رہے ہیں وہ ایک بہت بڑابحران پیداکررہی ہیں۔اس بحران سے بطریقِ احسن نمٹنے کیلئےسوچنالازم ہے۔ہرشعبے کے بچولیوں کوسوچناہے کہ تیزی سے بدلتے ہوئے معیشتی ڈھانچے میں وہ کس طورجی سکیں گے،کام جاری رکھ پائیں گے۔پیدا کاراورحتمی صارف کے درمیان سے سبھی لوگوں کے نکل جانے کی صورت میں معیشت کیلئےنئی الجھنیں پیداہوسکتی ہیں۔عام دکان داریاخوردہ فروش کومال سستاملے یہ اچھی بات ہے مگردیکھنایہ ہے کہ اس کافائدہ حتمی صارف کوبھی مل پاتاہے یانہیں۔اگر نہیں توپھریہ ساری مشقّت کسی کام کی نہیں۔بچولیوں کامنافع ختم کرکے اگرخوردہ فروش اپنامنافع بڑھالے گاتونقصان میں صرف حتمی صارف رہے گا۔ معیشت کو بہتر بنانے والے ذہنوں کواس حوالے سے بھی سوچناہوگا۔