ہم کب تک اپنے حال مست ومال مست معمولات میں مکمل مست رہیں گے؟پہلےشریف خاندان اورزرداری اینڈکمپنی جیسے افرادکاسول، ملٹری مناقشہ جیسے متنوع معاملات نے ہماری توجہ کواپنے سحرمیں جکڑرکھاتھا۔پچھلے پانچ برسوں سےبے معنی مباحث اورطعن وتشنیع قومی سطح پرفکروعمل کی یکسوئی کوپارہ پارہ کررکھا ہےجبکہ ہماری نظریاتی سرحدوں پردشمن کے بھرپورحملوں میں تیزی آگئی ہےلیکن ہماری اوّلین ترجیح یہ معلوم ہوتی ہے کہ ہم پہلے ایک دوسرے سے تونمٹ لیں،باقی پھردیکھاجائے گا ۔پہلی مرتبہ پاکستان کے ڈی جی آئی ایس آئی نے 98منٹ میڈیاکے سامنے سیاسی افق پرپھیلی ان درپردہ ظلمتوں کے حقائق سے آگاہ کیاجونہ ماننے کی صورت میں دن کے اجالے میں قوم کی گمراہ کرنے کاسبب بن رہے ہیں۔تاہم پھربھی کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کے متعلق ہوشیاررہنا اشد ضروری ہے۔
ضرب عضب کے شروع ہونے سے قبل قوم کواپنے کئی تفصیلی کالمزاورٹی وی پروگرامزمیں پہلی مرتبہ ففتھ جنریشن وارفیئرکے خطرات سے آگاہ کرتے ہوئے دشمن فورسزکے طریقہ واردات سے آگاہ کرنے کی ذمہ داری کابیڑہ اٹھائے ہوئے ہوں اوراسلام آبادمیں جنوری2019ء میں ایک سیمینارمیں جس میں زندگی کے تمام شعبہ حیات بشمول عسکری ماہرین کے دانشوروں کی ایک کثیرتعدادشامل تھی،اس میں پہلی مرتبہ سکستھ جنریشن وارفیئرکے آغازکاجب ذکرکیاتو بہت سے احباب نے اس خطرہ کواس قدرمحسوس نہیں کیاجس کے نتائج سے ہم آج دوچار ہیں۔
میں آپ کی توجہ خطے میں جاری چندبرس قبل کے حالات کی طرف یعنی پاکستان کے ازلی دشمن انتہاپسندمودی کی اس تیزرفتارسفارت کاری کی طرف مبذول کروانا چاہتاہوں جب اس نےچین کے اوپرتلےتین دورے کیےجوخاصی اہمیت کے حامل تھے۔پھرآپ کویہ بھی یادہوگاکہ بھارت نے بھوٹان کی سرحد کے ساتھ ڈوکلام میں چین کے ساتھ تناؤکوکسی بڑے ٹکراؤمیں بدلنے سے گریزکیاحالانکہ امریکااوراس کے اتحادیوں کوبھارت کی اس حرکت پربڑی مایوسی ہوئی تھی۔یہی نہیں،بھارت نے جاپان،امریکا،آسٹریلیااوراپنے سمیت بننے والے بظاہرچین مخالف اتحادمیں بھی چین سے کشیدگی کاباعث بننے والے کسی بھی اقدام میں شمولیت کے باوجودگریزکاعندیہ دیکرچین کویہ اشارہ دیاکہ چین کیلئے خاصی سفارتی گنجائش موجودہے۔
مودی کی چین یاترابالآخراس دن کامیابی کی نویدلیکرسامنے آگئی جب اسلام آبادمیں شنگھائی تعاون تنظیم کے تحت ہونے والی کانفرنس میں شرکت کیلئے بھارت کی آمادگی کے پیچھے بھی چین کی کاوشوں کاعمل دخل بتایاگیایعنی بھارت نے چین کی بات مانتے ہوئے نہ صرف آمادگی کا اظہارکیابلکہ اپنے مربیوں کویہ یقین دلانے میں بھی کامیاب ہوگیاکہ وہ خطے میں ان کے مفادات کی نگرانی اس اندازمیں بہترطورپرکرسکتا ہے ۔بھارت اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ پاکستان اورچین کے تعلقات طویل المیعادخدوخال کے حامل ہیں لیکن ساتھ ہی اسے یہ بھی معلوم ہے کہ اس کے پاس چین کوآفرکرنے کیلئے ایک مضبوط معیشت، داخلی استحکام اوربڑی مارکیٹ موجودہے جبکہ پاکستان ایک ابترمعیشت اورابتر داخلی استحکام سے دوچارہے۔
اس وقت بھی چین کے ساتھ بھارت کی تجارت کاحجم قریب 100ارب ڈالرہے۔اگر وہ چین کی کچھ بھی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتاہے تووہ اس کیلئے فائدہ کاسوداہےکیونکہ یہ پاکستان کے مفاد کی قیمت پرہوگا۔اس کاخیال ہے کہ اس کی کوششیں اورپاکستان کے داخلی حالات اورآپس کی سر پھٹول مل کرچین کو پاکستان میں اپنے لیے امکانات سے متعلق بدظن کرکے اپنی پالیسی پرنظرثانی پرمجبورکرسکتے ہیں ۔بڑی حدتک پاکستان کےجاری حالات اسی سمت بگٹٹ بھاگ رہے ہیں بلکہ ستم ظریفی یہ ہے کہ پہلی مرتبہ پاکستانی فورسزکے خلاف ایسا بھیانک پروپیگنڈہ کیاجارہاہے کہ پہلی مرتبہ پاکستان کے اہم ادارے کے ڈِی جی نے جومیڈیامیں اپنی تصویربھی شائع ہونے سے گریزکرتاتھا، اسے میڈیامیں آکریہ کہناپڑاکہ جھوٹ کوجس تیزی اورفراوانی کے ساتھ بولااورپھیلایاجارہاہے،اب سچ کوچھپانا ایک جرم ہے لیکن غیر ضروری سچ نشرکرنابھی شرہے۔ڈی جی آئی ایس آئی نےرات کے اندھیرے میں ان دوملاقاتوں کابھی انکشاف کیاجس میں جنرل باجوہ کو تاحیات عہدے کے ساتھ مزیدپرکشش پیکج کی آرکی گئی لیکن جنرل باجوہ کے انکارپر عمران خان نے مایوس ہوکردن کے اجالے میں ان کوکبھی میرجعفر،میرصادق، نیوٹرل اورجانورجیسے القابات سے پکارناشروع کردیا۔
یادرہے کہ ملکی سیاسی ومعاشی ابتری حالات میں”سی پیک”سے متعلق معاملات بھی شامل ہیں جوبھارت کاایک اہم تزویراتی ہدف ہے۔ہم اسے فوری طور پرتواس لئےجوڑسکتے ہیں کہ پچھلے دنوں جنرل باجوہ نے اپنی پریس بیفنگ میں یہ بتایاکہ خودکئی چینی وفودنے پاکستانی بیورو کریسی کے متعلق شکائت کی کہ کس طرح وہ سی پیک کی تکمیل میں روڑے اٹکارہے ہیں جبکہ تحقیق کے بعدپتہ چلاکہ کچھ وزراء کی خصوصی ہدایات نے بیوریوکریٹس کربال وپرکاٹ رکھے تھے اورعمران خان بھی اس پردانسہ خاموش تھے۔یہی اہم وجہ ہے کہ2019ءسے اب تک سی پیک کی مدمیں کچھ خاص چینی سرمایہ کاری پائپ لائن میں نہیں جبکہ صورتحال یہ ہے کہ امریکی بلاک کے ساتھ نسبتاًسردتعلقات کی وجہ سے پاکستان کیلئے اقتصادی اورعالمی معاملات میں چین اورکسی حد تک روس کی اہمیت اوربھی دوچندہو گئی ہے۔ یہاں یہ امربھی اہمیت کاحامل ہے کہ پاکستان کی سیاسی ابتری کامودی نے فوری فائدہ اٹھاتے ہوئےدورہ روس میں پوٹن سے ماضی کے تعلقات اور ان میں پائی جانے والی گرمجوشی کاذکرتواترسے کیااوربھارت نےاپنی معاشی پوزیشن کوبین الاقوامی تعلقات کے میدان میں بہت خوبی سے استعمال کرتے ہوئے پاکستان کی قیمت پراپنے تمام کارڈاستعمال کرتے ہوئے قریب آتے ہوئےروس کوپاکستان سے مزیددورکردیا۔
امریکاہویایورپ اوراب ایک مرتبہ پھرروس،فوراًہی ہتھیاروں کی خریداری کالالچ دےکرسفارتی میدان میں مراعات کا خواہاں ہوجاتاہے۔ روس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ابھی نوزائیدگی کے دورسے گزررہے تھے لیکن عمران کے اقتدارمیں آتے ہی جس طرح ان کے اہم وزیر نے امریکی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے تین سال کیلئے سی پیک کو منجمدکرنے کامشورہ دیتے ہوئے تمام پراجیکٹ کی ازسرنوتحقیق کااعلان کیاتھا،اس کے فوری بعداعلیٰ سطحی چینی وفدنے فوری طورپراس کی تفصیلات مانگ لی تھیں اوراوپرتلے کئی ملاقاتوں میں جنرل باجوہ کوبھی شکایات کابھاری پلندہ تھمایاتھاجس کونارمل کرنے کیلئے جنرل باجوہ کوچین کے دوخصوصی دورے بھی کرنے پڑے جہاں یقین دلایاگیا کہ پاکستانی فورسزبطورایک ادارہ ہرصورت اس اسٹریٹیجک پراجیکٹ کانہ صرف ضامن بلکہ اس کی مکمل حفاظت بھی کرے گا۔ ہیں۔عمران خان کویہ باورکرایاگیاکہ ہمیں اس طرف بہت ٹھوس،فوری اور مسلسل کام کی ضرورت ہے۔ محض اس پراجیکٹ کواس لئے بندکرنایاسست روی کاشکارکرناکہ یہ پراجیکٹ ن لیگ کے دورمیں شروع ہوا،درست نہیں۔سفارتی کامیابیاں یکسوئی سے حاصل ہوتی ہیں،ایک دوسرے کو فتح کرنے اورنچلا دکھانے کی شوقین اقوام بالعموم اس پھل سے محروم رہ جانے والوں میں شامل ہوجاتی ہیں۔
ہمارے ہاں’’ففتھ جنریشن‘‘وارکابہت تذکرہ رہابلکہ اس پرباقاعدہ کئی ڈاکومینٹری بھی بنائی گئیں کہ اس کے پیچھے کیسے خوفناک عوامل کارفرما ہیں۔ففتھ جنریشن وارکا بنیادی ہدف عوام اور ریاستی اداروں،بالخصوص فوج،کے مابین غلط فہمیاں اوردوریاں پیداکرناہے۔مجھ سمیت بہت سے لوگوں کایہ خیال ہے کہ پاکستان کواس وقت اس جارحیت کاسامناہے۔ تاہم،اب میرااحساس یقین میں تبدیل ہوگیاہے کہ بات’’سکستھ جنریشن وارفئیر‘‘کی جانب چل پڑی ہے۔گویہ تخصیص ابھی کہیں مستعمل نہیں لیکن جوکچھ اب ہورہاہے وہ اس طرح کی کسی’’کیٹیگری‘‘ میں ہی رکھاجاسکتاہے۔
اس جنگ کاہدف ریاستی ادارے کااپناڈھانچاہوتاہے۔اس میں نچلے درجے کے ملازمین اورافسران،اورپھر افسران اور اعلیٰ کمانڈ کے مابین غلط فہمیاں پیداکرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔مثلاً اگرآپ کویادہوتواُن دنوں سپریم کورٹ کے مشرف فیصلے کے بعد بیانات کاایک طوفان آن کھڑاہوگیاتھا۔ایک کے بعدایک بیان سامناآ رہا تھا،ان پر تبصرے ہو رہے تھے، ہر طرف ’’سچ‘‘ اور ’’سچوں‘‘ کا غلغلہ تھا۔ ہم سب کے کانوں کو یہ بات بہت بھلی معلوم ہوتی تھی جب بار بار یہ دہرایا جاتا تھا کہ ساری جنگیں تو امریکاکے کہنے پر لڑی جاتی ہیں یا اس کی خوشنودی کیلئے ختم کر دی جاتی ہیں،یا جرنیل تو کسی اور ملک کے کہنے میں ہیں اور یا پھرانہیں عام سپاہی کے جینے مرنے سے کچھ لینا دینا نہیں،وہ تو بس اپنے اللے تللے جاری رکھنا چاہتے ہیں اور ڈالروں پر ’’بک‘‘جاتے ہیں تو پھر اس تمام صورتحال سے صرفِ نظرممکن نہیں رہتا۔
اس بھیانک پروپیگنڈے کوعدم اعتمادکی تحریک سے اس لئے جوڑدیاگیاکہ فردواحدنے نہیں بلکہ فوج نے بطورادارہ اپنی ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے آئندہ کیلئے صرف آئینی کردار ادا کرنے کا تہیہ کرتے ہوئے مطلع کر دیا کہ وہ عدم اعتماد تحریک میں کوئی بھی کردار ادا نہیں کرے گی،اب اس کو سیاسی جماعتیں باہم طے کریں جس پرعمران خان صاحب نے ایک ایسا یوٹرن لیا جس کا خمیازہ اب ساری قوم بھگت رہی ہے اور اسی کا شاخسانہ اب”لانگ مارچ” کی شکل میں ملک میں جاری ہے جس کیلئے خودعمران کے بہت ہی قریبی ساتھی فیصل واڈانے “خون ہی خون،لاشیں ہی لاشیں دیکھنے”کابیان دیکرساری قوم میں ایک فکرکی لہر دوڑادی ہے۔
اہم سوال یہ ہے پاکستان کی فوج کی جانب سے تحریک انصاف حکومت گرائے جانے کی مبینہ بیرونی سازش کو”کھوکھلی اورمن گھڑت کہانی “قراردیے جانے کے بعدکیاپاکستان کی سیاست میں بیانیے کی جنگ حتمی مراحل میں داخل ہوچکی ہے یاابھی اور ایسے مراحل باقی ہیں؟اور کیا عمران جلدانتخابات کے انعقادکے مقصد میں کامیاب ہوسکیں گے؟اس سوال کادارومداراس نکتے پرہو گاکہ عمران کامؤقف اوربیانیہ ڈی جی آئی ایس پی آراورڈی جی آئی ایس آئی کی پریس کانفرنس سے عوامی سطح پرکس حدتک متاثرہوتاہے۔واضح رہے کہ یہ معاملہ اس وقت شروع ہواجب رواں سال مارچ کے مہینے میں عمران نے27مارچ کواعلان کیاتھاکہ ان کی حکومت گرائے جانے کی سازش کی جارہی ہے اوراس مؤقف کوانہوں نے حکومت گرنے کے بعدبارباردہرایاجس میں امریکااوراپوزیشن جماعتیں شامل ہیں ، پہلےدبے الفاظ میں فوج کوبھی مورد الزام ٹھہرایالیکن اب فوج کونیوٹرل رہنے کے طعنوں وتشنیع کے زہریلے تیروں کی ایک تیزپبرش شروع کررکھی ہے اورغداری تک کالیبل لگایاجارہاہے۔
عمران خان کی اسی تنقید کا جواب گزشتہ دنوں جب غیرمعمولی طورپرآئی ایس آئی کے سربراہ نے ایک پریس کانفرنس میں دیا تو اس کے جواب میں عمران نے اپنی ان دوملاقاتوں اورباجوہ کوپیشکش کااعتراف توکرلیالیکن اس بات کاجواب نہیں دیاکہ انہوں نے عدم اعتمادتحریک پیش ہونے سے قبل ساری اپوزیشن کی گرفتاری کاعندیہ کیوں دیابلکہ اب وہ ان انکشافات کے بعدبوکھلاکرآئی ایس آئی کے سربراہ کوبھی دہمکیاں دینے پراترآئے ہیں۔
اس پریس کانفرنس کے دوران غیرملکی سازش کے معاملے پرکہاگیاکہ”ہمارے لیے یہ حیران کن تھا جب27مارچ کو اسلام آبادکے جلسے میں کاغذکاایک ٹکڑالہرایا گیااورڈرامائی اندازمیں ایک ایسابیانیہ دینے کی کوشش کی گئی جس کا حقیقت سے دوردورتک کوئی واسطہ نہیں تھا۔اس سےقبل آرمی چیف نے11مارچ کوکامرہ میں عمران سے خوداس کا تذکرہ کیاتھاجس پر”انہوں نے فرمایا یہ کوئی بڑی بات نہیں۔”عمران خان نے گذشتہ دنوں اپنےانٹرویومیں اس دعوے کو جھوٹ قراردیااوریہ دعویٰ کیاکہ”اگرمیں جواب دیناشروع ہوجاؤں تومیرے ملک کونقصان پہنچے گا۔ملک کونقصان سے مطلب میری فوج کونقصان پہنچے گاکیوںکہ مجھے پتاہے کہ دنیا، ہمارے دشمن چاہتے ہیں کہ ہماری فوج کمزورہو۔” لیکن وہ یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ انڈین میڈیاتوعمران خان کے بیانات چلاکراپنے ہاں گھی کے چراغ جلارہاہے تاہم سائفرکے حقائق سے بالاتریہ معاملہ اب سیاسی میدان میں مقبولیت اورطاقت کے اظہارہے جس میں پی ٹی آئی،پی ڈی ایم اورفوج تین فریق بن چکے ہیں
ایسے میں چند سوال نہایت اہمیت کے حامل ہیں جن میں سرفہرست تویہ ہے کہ کیاعمران خان کے بیانیے کو،جس پروہ اب بھی قائم ہیں،دھچکہ پہنچے گا؟دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ سے صرف ایک ماہ قبل اس پریس کانفرنس کے بعدملک کے اہم ادارے اورایک بڑی سیاسی جماعت کے درمیان تناؤکے اثرات کیاہوں گے؟
پاکستان میں فوج کے سیاست میں مداخلت کے حوالے سے جوگہرے خدشات تھے،وہ اب ختم ہوتے نظرآرہے ہیں لیکن دشمن ایجنٹوں کے ہروزنت نئے پروپیگنڈے سوشل میڈیاکی زینت بنتے رہتے ہیں۔کچھ کوششیں ایسی بھی جاری ہیں کہ لسانی یافرقہ وارانہ بنیادوں پرفوج کے اندرتفریق پیداکی جائے۔افواج کی صفوں میں ہلکاساگومگوبھی اچھی سے اچھی فوج کامورال اوراستعدادِ کاردرہم برہم کرسکتاہے۔پاکستان اپنی افواج کے افسروں،جوانوں اورہائی کمانڈمیں ایسے کسی disconnectکا متحمل نہیں ہو سکتا جس کے نتیجہ میں کمانڈ کی ساکھ یا جنگ کی وجوہ پرکسی قسم کا اشتباہ پیدا ہو۔ یہ سکستھ جنریشن وار فیئر کسی بھی دیگرکےمقابلے میں ملک و قوم کیلئے مہلک ثابت ہوسکتی ہے۔
یادرکھیں کہ پاکستان کامستقبل روشن ہے لیکن وہاں تک پہنچنے کاراستہ باقی تمام اقوام کی نسبت مشکل ہے۔ پاکستان دنیا میں ایک بہت بڑے Trouble Spotپرواقع ہے اوریہاں کچھ نہ کچھ چلتاہی رہے گا۔ ہمیں اس سب کاسامنا کرتے ہوئے اپنے روشن مستقبل تک پہنچناہے ۔یکسوئی،اتحاداورداخلی استحکام وہ تین اصول ہیں جوبین الاقوامی برادری میں ہمیں محترم بناسکتے ہیں۔اس کے سوا کوئی اورراستہ نہیں۔