Shall we remain silent

کیا ہم خاموش رہیں گے

:Share

دوحہ کے آسمان پر گرنے والے بم۔۔۔ صرف قطر پر نہیں گرے
یہ وار امتِ مسلمہ کے دل پر کیا گیا ہے۔
کیا ہم خاموش رہیں گے۔۔۔ یا تاریخ کو ایک بار پھر بیداری کی صدا دیں گے؟

مشرقِ وسطیٰ کی تاریخ بارہا اس امر کی گواہ رہی ہے کہ یہاں کی زمین بارود اور سازشوں کی جولانگاہ بنی رہی۔۔۔ یہ وہی سرزمین ہے جہاں انبیاء کے قدموں کی خوشبو رچی بسی ہے، اور جہاں شہداء کے لہو نے زمین کی رگوں میں حرارت بھری ہے۔
آج ہم ایک ایسے سانحے پر گفتگو کر رہے ہیں جس نے امت کے دلوں کو لرزا دیا ہے۔ دوحہ، جو امن کی علامت تھا، اسرائیلی بمباری کا شکار ہوا۔ یہ حملہ محض قطر پر نہیں۔۔۔ یہ ہماری غیرت، ہماری عزت، اور ہمارے ایمان پر کھلا وار ہے۔
صدر ٹرمپ کہتے ہیں کہ وہ اس حملے سے خوش نہیں۔۔۔ مگر سوال یہ ہے
کیا یہی امریکا نہیں جس نے فلسطین کے لہو پر آنکھیں بند رکھیں؟
کیا یہی امریکا نہیں جس نے عراق کو کھنڈر بنایا؟
کیا یہی امریکا نہیں جس نے افغانستان کو دہائیوں تک بارود کی آماجگاہ بنایا؟
ہم کیسے یقین کریں کہ یہ الفاظ حقیقت ہیں؟
ٹرمپ کا یہ کہنا کہ ‘میں مشرقِ وسطیٰ کے کسی واقعے پر حیران نہیں ہوتا’۔۔۔ کیا یہ بے بسی ہے؟ یا سازش کا پردہ؟
امریکا کی خاموشی ہمیشہ اسرائیل کی کھلی چھوٹ رہی ہے۔ یہ بیان اعترافِ جرم بھی ہے اور چشم پوشی کا اقرار بھی۔
اسرائیل کی جارحیت نئی نہیں۔ بیروت، لبنان، غزہ، شام۔۔۔ سب اس کے زخموں کے گواہ ہیں۔ مگر قطر پر حملہ غیر معمولی ہے۔ وہاں امریکا کا سب سے بڑا فوجی اڈہ موجود ہے۔ سوال یہ ہے اگر ایک ایسا ملک بھی محفوظ نہیں، جہاں امریکی افواج ہیں۔۔۔ تو پھر کون محفوظ ہے؟
قطر کے امیر نے اعلان کیا یہ ایک مجرمانہ کارروائی ہے، ریاستی دہشت گردی ہے۔
یہ الفاظ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ چھوٹے ملک بھی جب غیرت سے بولتے ہیں تو تاریخ میں اپنی جگہ بناتے ہیں۔۔۔ یہ وہی لہجہ ہے جو صلاح الدین ایوبی کے ہونٹوں پر تھا
‘ہم بیت المقدس کو آزاد کیے بغیر دم نہ لیں گے!’
حماس نے کہا کہ قیادت محفوظ رہی، مگر چھ افراد شہید ہوئے۔ یہ شہداء ہماری آنکھوں کا نور ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
(مومن، مومن کے لیے ایک عمارت کی طرح ہے، جس کا ہر حصہ دوسرے کو سہارا دیتا ہے)
سوال یہ ہے کیا ہم اپنے شہداء کا سہارا ہیں یا خاموش تماشائی؟
امریکی سینیٹر بھی حیران ہیں کہ اسرائیل نے اپنے بڑے اتحادی کو اطلاع نہ دی۔ یہ وہ لمحہ ہے جب سامراج کے پاؤں ڈگمگاتے ہیں۔ رومی سلطنت بھی ایسے ہی زوال کا شکار ہوئی تھی، جب اتحادی اس کی پرواہ نہ کرتے تھے۔
اے امتِ محمد ﷺ!
یہ وقت غفلت کا نہیں، بیداری کا ہے۔ دوحہ پر حملہ ہمیں یاد دلا رہا ہے کہ ہمارا دشمن ایک ہے اور ہمارا ایمان بھی ایک۔
قرآن کہتا ہے
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیعًا وَلَا تَفَرَّقُوا
اگر آج ہم تفرقے میں رہے، تو دوحہ کے بعد مکہ و مدینہ بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔
لیکن اگر ہم ایمان کے پرچم تلے جمع ہوگئے۔۔۔ تو دنیا دیکھے گی کہ بدر و خیبر کی امت آج بھی زندہ ہے!

اپنا تبصرہ بھیجیں