Science and Sufi

سائنس اورسائیں

:Share

ہر وہ عالم صوفی کہلانے کا مستحق ہے جس کا علم دوسرے عام انسانوں کے لئے نفع بخش اور باعث برکت ثابت ہو۔ یورپ کی سائنسی لیبارٹریوں میں ایسے برگزیدہ صوفی دن رات خدا کی بارگاہ میں علم مانگنے کے لیئے ہاتھ پھیلائے اور گردنیں جھکائے کھڑے نظر آتے ہیں، وہ بھوک دیکھتے ہیں نہ پیاس، دن ہو یا رات، یہ وقت کی پروا کرتے ہیں اور نہ اپنے آرام کی، ان کا تمام وقت اپنے رب سے علم کی طلب میں گزرتا ہے۔ ان لوگوں کی تپسیا میں ایسی شدت ہوتی ہے کہ خدا انہیں مایوس نہیں کرتا اور ان کی جھولی علم کے موتیوں سے بھرتا رہتا ہے۔ خدا کے یہ گنے چنے بندے بھی خدا کا دیا ہوا علم اپنے آپ تک محدود نہیں رکھتے اور کوشش کرتے ہیں کہ اللہ کی مخلوق کے ساتھ یہ علم بانٹا جائے، سو جس کی جتنی توفیق ہوتی ہے وہ انسانی آسائشات کے لیئے اتنی ہی زیادہ ایجادات کرتا ہے۔

ایسی ہی ایک علمی درگاہ امریکی شہر ہیوسٹن میں واقع ہے جس کا نام ناسا ہے۔ یہاں جو عالم فاضل صوفیا کام کرتے ہیں انہیں رب نے کتنا علم عطا کیا ہے اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ 18 فروری 2021 ء کو ان برگزیدہ بندوں کی بھیجی ہوئی خلائی مشین 6 کروڑ کلومیٹر کا سفر طے کر کے مریخ کی سطح پر اتر گئی۔ زمین سے مریخ کا کم سے کم فاصلہ 5 کروڑ 86 لاکھ کلومیٹر ہے مگر یہ ’کتابی‘ فاصلہ ہے کیونکہ حقیقت میں مریخ سے زمین کا اتنا کم فاصلہ آج تک ممکن نہیں ہو سکا۔ یہ کم سے کم فاصلہ 2003 ء میں ریکارڈ کیا گیا تھا جب مریخ اور زمین اپنے اپنے مدار میں ایسی جگہ پر آ گئے تھے جہاں ان کے درمیان 5 کروڑ 60 لاکھ کلومیٹر کی دوری تھی۔ سو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ناسا کے جہاز نے تقریباً 6 کروڑ کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا۔

مگر شاید یہ بات بھی مکمل طور پر درست نہ ہو۔ کیونکہ مریخ اور زمین کے درمیان فاصلہ 40 کروڑ کلومیٹر تک بھی چلا جاتا ہے جبکہ اوسطاً یہ دونوں سیارے ایک دوسرے سے تقریباً 22 کروڑ کلومیٹر کی دوری پر واقع ہیں۔ یہ کائنات کے اس خلائی علم کی ایک معمولی سی مثال ہے۔ کیونکہ دو سیاروں کے درمیان فاصلہ ماپنا بھی ایک پیچیدہ کام ہے۔ سائنسی صوفیا کے اسی قبیلے میں سٹیفن ہاکنگ نام کے بزرگ بھی گزرے ہیں، 14 مارچ سنہ 2018 ء کو ان کا انتقال ہوا تھا، وفات سے پہلے انہوں نے اپنی ایک کتاب میں پیشگوئی کی تھی کہ 2070 ء تک انسان مریخ پر اترنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ ناسا والوں کی خلائی مشین تو مریخ پر اتر گئی، دیکھتے ہیں کہ اگلے 50 برسوں میں اس بزرگ صوفی کی بات سچ ثابت ہوتی ہے یا نہیں! اللہ کا ایک ایسا ہی بندہ آسٹریلیا میں بھی رہتا ہے، یہ ساری رات اپنے گھر میں دور بین لگائے آسمان کو تکتا رہتا ہے، اس کا کام آسمانوں میں اپنے رب کے کرشمے تلاشن کرنا ہے۔ اس بزرگوار صوفی کا نام رابرٹ ایوانز ہے۔ یہ حضرت خلا میں سپر نووا تلاش کرتے ہیں۔ سپر نووا اس ستارے کو کہتے ہیں جس میں انتہائی شدید دھماکوں کے نتیجے میں بے پناہ توانائی خارج ہوتی ہے، اتنی زیادہ کہ ہمارے کھربوں سورج مل کر بھی شاید وہ توانائی پیدا نہ کر سکیں۔ اس عمل کے دوران سپر نووا اپنی کہکشاں کے باقی ستاروں کی مانند زیادہ چمکدار رہتا ہے اور پھر ختم ہو جاتا ہے۔ ایسا سپر نووا اگر زمین سے 500 نوری سال کے فاصلے پر برپا ہو جائے تو یہاں زندگی فنا ہو جائے گی۔ اس پرنور صوفی ایوانز کا کہنا ہے کہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ یہ کائنات اس قدر وسیع ہے کہ ہمیں سپر نووا سے تباہی کا کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ یہ شدید دھماکہ ایک خاص قسم کے ستارے میں ہوتا ہے جو ہمارے سورج سے کم از کم دس بیس گنا بڑا ہو اور ایسا کوئی سورج ہمارے نظام شمسی میں نہیں ہے۔

اس قسم کا جو ستارہ سب سے قریب ہے وہ پچاس ہزار نوری سالوں کے فاصلے پر ہے۔سپر نووا اربوں سالوں تک روشن رہتے ہیں مگر جب ان کے وصال کا وقت قریب آتا ہے تو وہ اچانک ہی معدوم ہو کر ختم ہو جاتے ہیں، سب میں دھماکہ بھی نہیں ہوتا، اس کا منظر یوں ہوتا ہے جیسے ایک ٹمٹماتا ہوا چراغ۔ ایک کہکشاں میں یہ واقعہ اوسطا دو تین سو برسوں میں ایک مرتبہ ہوتا ہے۔ مکرمی بزرگوارم ایوانز کی دوربین 50 ہزار سے ایک لاکھ تک کی کہکشاوں کو دیکھ سکتی ہے اس لئے 80 کی دہائی سے لے کر 2003 ء تک انہوں نے رب کا یہ کرشمہ 36 مرتبہ دیکھا۔ اللہ کی ذات ’’نورسماوات‘‘ ہے۔ کبھی کبھار 3 سال میں بھی کوئی سپر نووا نظر نہیں آتا اور کبھی دو ہفتوں میں 3 مرتبہ یہ جلوہ دکھائی دیتا ہے۔ رب کی باتیں رب ہی جانے!

ایک صوفی صاحب کشف بزرگ یوکرائن میں بھی گزرے ہیں، ان نام تھا جارج گامو۔ ایک مرتبہ آپ مراقبے اور گہرے غوروخوض میں تھے کہ ان پر یہ راز منکشف ہوا کہ اگر یہ کائنات بگ بینگ کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے تو اس واقعہ کی باقیات کے طور پر ریڈیائی لہریں کائنات میں اب بھی موجود ہوں گی اور چونکہ یہ کائنات بے حد وسیع ہے تو زمین تک پہنچتے پہنچتے وہ لہریں اب تک مائیکرو ویو کی شکل میں آ چکی ہوںگی۔ ان لہروں کو پکڑنے کے لئے صوفی گامو نے اینٹینے کی طرز پر ایک آلے کا تصور پیش کیا جس کا کام ان مائیکرو ویوز کو ریکارڈ کرنا تھا۔ اب ایک اتفاق ملاحظہ فرمائیں کہ 1964ء میں دو امریکی صوفیوں نے، جو پیشے کے اعتبار سے سائنس دان تھے، نیو جرسی کے مقام پر ایک بہت بڑا اینٹینا لگایا جو مواصلاتی مقاصد کے لئے تھا۔ اس اینٹینے نے مسلسل ایک آواز ریکارڈ کی جس کی ان خدا کے بندوں کو سمجھ نہیں آئی، انہوں نے اینٹینے کی ہر طرح سے جانچ کی، ہر پیچ کھول کر دوبارہ کسا، سب پرزے نئے سرے سے جوڑ کر بھی دیکھے مگر آواز آنی بند نہ ہوئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان سے محض پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر پرنسٹن یونیورسٹی میں سائنسی صوفیائے کرام کی ایک علیحدہ ٹیم اس آواز کو ریکارڈ کرنے کی کوشش کر رہی تھی جس سے نیو جرسی کے صوفیا پیچھا چھڑانے میں لگے ہوئے تھے!

یہ کائنات کے آغاز کی آواز تھی، یہ وہ قدیم ترین روشنی تھی جو اب مائیکرو ویو کی شکل میں ڈھل کر ان تک پہنچی تھی، ان صوفیا عظام کو ابتدا میں معلوم ہی نہ ہو سکا کہ خدا نے انہیں کیا ودیعت کر دیا ہے، وہ 90 ارب کھرب میل پرے کائنات کے کسی کونے سے ابتدائی اور قدیم ترین فوٹون ریکارڈ کر رہے تھے! مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ ان صوفیوں اور سائیں بابوں کی ٹیموں کو پتا ہی نہیں تھا کہ روس کا ایک صوفی 1940 ء میں یہ پیش گوئی کر چکا تھا کہ کائنات کے آغاز کی آواز اب بھی اس عالم میں موجود ہے۔ 1978 ء میں نیو جرسی کے صوفیوں کو اس کارنامے پر، جس میں ان کا کوئی کمال تھا اور نہ ادراک تھا کہ وہ کیا ریکارڈ کر رہے ہیں، فزکس کا ’’نوبل انعام‘‘ دیا گیا۔ اشفاق احمد کا ایک ڈرامہ من چلے کا سودا ہے۔ اس میں ایک کردار کہتا ہے کہ: ’’اب خدا تک پہنچنے کا راستہ بدل گیا ہے اب طبیعات کو سمجھے بغیر مابعد الطبیعات سمجھ نہیں آ سکتی۔‘‘ یہ عظیم صوفیا اب اپنا مراقبہ لیبارٹریوں میں کرتے ہیں۔ اگر آپ کا ارادہ بھی سائنسی صوفی یا سائیں بابا بننے کا ہے تو جنگلوں میں تیاگ کرنے کی بجائے لیبارٹریوں کا رخ کریں۔ اس دور میں جب مسلمان سائنس اور ٹیکنالوجی میں غیرمسلموں سے بہت پیچھے ہیں، انسانیت کی خدمت سائنسی صوفی بن کر بھی کی جا سکتی یے۔سائنس کا ٹیچر بننے کی بجائے میکس پلانک کی طرح سائنس کا صوفی بننا بہتر ہے۔ صوفی نیلز بوہر، بابا ردر فورڈ اور سائیں آئن سٹائن بنیں، آپ پر مولوی صوفیوں سے پہلے زمانے کا باطن روشن ہونے لگے گا! افسوس ہے کہ اشفاق احمد جیسی توانا آواز بھی نقار خانے میں طوطی ثابت ہوئی۔

چلتے چلتے ایک واقعہ بھی آپ کے گوش گزارکردوں۔میں ہمیشہ پاکستان آمدپربابااشفاق اورآپابانوقدسیہ سے محبت سمیٹنے ان کے پاس جانااپنافرض سمجھتا تھا۔ایک مرتبہ جب میں ان سے ملنے کیلئے حاضرہواتوان کے پاس ہمیشہ کی طرح کوئی نہ کوئی “بابا”ضروربراجمان ہوتاتھا۔ہیوسٹن امریکاسے ڈاکٹر جمیل اخترتشریف فرماتھے جوکہ ہیوسٹن یونیورسٹی میں اللہ کی چھوٹی چھوٹی مخلوق پرتحقیقات کے ادارے کے سربراہ تھے۔مکھی کاذکرچل نکلاتوانہوں نے فرمایاکہ اس کی تین سو سے زائدآنکھیں ہیں اوریہی وجہ ہے کہ جب کوئی اسے ہٹانے یامارنے کاارادہ کرتاہے تواس سے پہلے ہی یہ اپنے دفاع میں اڑجاتی ہے لیکن انسان اسے بھی کبھی کبھاردھوکہ دیکرشکارکرلیتاہے۔میں اپنی عادت سے مجبورہوکرفوراًمخل ہواکہ”بے شک اس کی تین سوآنکھیں ہیں لیکن بیٹھتی پھربھی گندگی پرہے”۔میرے اس جواب پربابااشفاق گویاتڑپ اٹھے اورپنجابی میں گویاہوئے”کاکا،کی کیا ،واہ واہ،کمال دی گل کیتی اے،دوبارہ کہہ”(واہ واہ بیٹا،کیاکمال کی بات کی تونے،دوبارہ کہو)۔میں نے اپنی جلدبازی پرخودکوبہت کوسااوربات بدلتے ہوئے کہاکہ آنکھ توایک ہی اچھی جوحق شناس ہو”۔بابااشفاق نے فوری آپابانوقدسیہ کوبلاکریہ ساراواقعہ سنایا۔جس کے جواب میں محترم ڈاکٹرصاحب نے اس مکھی کے گندگی پر بیٹھنے کے جوفوائدسنائے کہ کس طرح یہ مکھی ہزاروں نہیں لاکھوں اقسام کے موذی جراثیم کووائرس بننے سے پہلے موت کے گھاٹ اتاردیتی ہے،تورب العزت کی صناعی پرہم سب دم بخودہوگئے۔

گو کہ آج ہم بابے اور سائیں پیدا کر رہے ہیں مگر یہ وہ بابے نہیں جن کا ذکر اشفاق صاحب کر گئے تھے، یہ وہ بابے ہیں جو جہالت کا سپر نووا ہیں، ایسا سپر نووا جس کے معدوم ہونے کا اگلے کئی برس تک کوئی امکان نہیں۔ بل برائسن کی کتاب ’’تقریباً ہر چیز کی مختصر تاریخ‘‘ سے لئے گئے یہ اقتباسات کائنات کے آغاز، ریڈیائی لہروں، پلینٹس اور سپرنوواز وغیرہ کے بارے میں ہیں۔ یہ سائنسی نظریات، تحقیقات اور دریافتوں کے بارے حقائق ان سائنسی صوفیا عظام کا فیض ہیں جن سے آج پوری دنیا مستفید ہو رہی ہے۔ علم کسی رنگ و نسل، علاقے یا عقیدے کا محتاج نہیں۔ ہر وہ عالم صوفی کہلا سکتا ہے جس کا انسانی خدمت، فلاح و بہبود اور جدید ترقی کیلئے ضمیر روشن ہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں