قربانی کابکرا؟

:Share

سات سال قبل شام کے صدر بشارالاسد کے خلاف ہونے والے پرامن احتجاج نے جلد ہی کھلم کھلا خانہ جنگی کی شکل اختیار کر لی جس میں اب تک اس میں ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ لوگ مارے گئے ہیں اور اس سے متعدد شہر اور قصبے تباہ ہو گئے ہیں۔لڑائی شروع ہونے سے پہلے ہی بہت سے شامیوں کوصدراسدکی حکومت سے بیروزگاری،بدعنوانی اورسیاسی پابندیوں کی شکایتیں تھیں۔بشارالاسداپنے والد حافظ الاسدکی جگہ 2000ءمیں اقتدار میں آئے تھے۔مارچ2011ء میں جنوبی شہردیرامیں پڑوسی عرب ملکوں کے ”عرب سپرنگ”سے متاثر ہوکرجمہوریت کے حق میں ہونے والے ایک مظاہرے میں تشددپھوٹ پڑا۔ کومت نے اسے کچلنے کیلئے مہلک خطرناک اسلحے کی بھرپورطاقت کااستعمال کیاجس کے بعدملک بھر میں احتجاج ہونے لگا جن میں صدر اسد سے استعفے کا مطالبہ کیا جانے لگالیکن جواب میں حکومت نے اسے کچلنے کیلئے بھرپورطاقت کا استعمال کیا جس کے بعد ملک بھر میں احتجاج بڑھ گیاجس میں صدر اسد سے استعفے کا مطالبہ کیاجانے لگا۔مظاہروں کو دبانے کیلئے طاقت میں شدت آتی گئی جس کے جواب میں حزبِ مخالف کے حامیوں نے بھی ہتھیار اٹھا لیے اور انھیں پہلے اپنے دفاع اوربعدمیں سکیورٹی فورسزسے لڑنے کیلئے استعمال کرنے لگے۔بشارالاسدنے کہا کہ مظاہرے ”بیرونی پشت پناہی سے ہونے والی دہشتگردی”ہے اوراعلان کیاکہ وہ ان کوکچل کررہے گا۔ تشددپھیلتاچلا گیا اورملک خانہ جنگی کاشکارہوگیا۔
برطانیہ میں قائم تنظیم سیریئن آبزرویٹری فارہیومن رائٹس کے شام میں موجود ذرائع نے مارچ 2018ء تک شام میں 353,900افرادکی ہلاکت کی تصدیق کی ہے، جن میں 106,000عام شہری ہیں ۔ اس تعداد میں وہ 56,900 افراد شامل نہیں ہیں جویاتوغائب ہیں یاپھران کے بارے میں خیال ہے کہ وہ مرچکے ہیں۔ اسی دوران خلاف ورزیوں کاریکارڈرکھنے والے ادارے وی ڈی سی نے شام میں اپنے ذرائع کی مدد سے بین الاقوامی انسانی قانون کی متعدد خلاف ورزیوں کی خبردی ہے۔ اس نے فروری2018ءتک جنگ میں185,980افرادکے مارے جانے کی تصدیق کی ہے جن میں119,200 عام شہری شامل ہیں۔ یہ جنگ صرف بشارالاسداوران کے مخالفین کے درمیان محدودنہیں رہی،اس میں متعدد تنظیمیں اورمتعدد ملک ملوث ہوگئے جن میں ہرایک کااپنااپناایجنڈا ہے۔ایک طرف مذہبی جنگ ہورہی ہے،جس میں سنی اکثریت صدراسدکی علوی شیعہ اقلیت سے نبردآزماہے دوسری طرف ملک کے اندربدامنی سے دولت اسلامیہ اورالقاعدہ جیسی شدت پسند تنظیموں کووہاں قدم جمانے کاموقع مل گیا۔
شام میں رہنے والے کردالگ ہیں جو سرکاری فوج سے تو نہیں لڑ رہے لیکن اپنے لیے الگ ملک چاہتے ہیں۔ شامی حکومت کوایران اورروس کی حمایت حاصل ہےجبکہ امریکا،ترکی اورسعودی عرب سنی اکثریت کی پشت پناہی کررہے ہیں۔ روس نے شام میں فوجی اڈے قائم کررکھے ہیں اور اس نے 2015ء سے بشار الاسد کی حمایت میں فضائی حملے شروع کررکھے ہیں۔ ان حملوں کی وجہ سے پانسہ اسد کی حمایت میں پلٹ گیا ہے۔ روسی فوج کا کہنا ہے کہ وہ صرف ”دہشتگردوں”کو نشانہ بناتی ہے، لیکن امدادی کارکنوں کے مطابق وہ حکومت مخالف تنظیموں اورشہریوں پر بھی حملے کرتی ہیں۔ دوسری طرف ایران کے بارے میں خیال ہے کہ اس کے سینکڑوں فوجی شام میں سرگرمِ عمل ہیں اوروہ صدراسد کی حمایت میں اربوں ڈالرخرچ کررہا ہے۔ ایران ہزاروں شیعہ جنگجوؤں کو تربیت دے رہا ہے۔ زیادہ تر جنگجوؤں کا تعلق لبنان کی حزب اللہ سے ہے، لیکن ان میں عراق،افغانستان اوریمن کے شیعہ بھی شامل ہیں۔یہ سب شامی فوج کے شانہ بشانہ لڑ رہے ہیں۔
امریکہ،فرانس،برطانیہ اوردوسرے مغربی ملکوں نے سنی اکثریت کومختلف قسم کی مدد فراہم کی ہے۔ ایک بین الاقوامی اتحادی فوج 2014ء سے شام میں دولتِ اسلامیہ کے ٹھکانوں پربمباری کر رہی ہے۔ان کی وجہ سے سیریئن ڈیموکریٹک فورسزنامی باغی دھڑے کوبعض علاقوں پرتسلط قائم کرنے میں مدد ملی ہے۔اس خانہ جنگی کافائدہ اٹھاتے ہوئے ترکی کی ممنوعہ باغی تنظیم پی کے کے نے ترکی کے سرحدی علاقوں میں ترکی فوج پر حملے شروع کردیئے جس کے بعد اب ترکی نے ان باغیوں کی سرکوبی کیلئے براہِ راست جواب دیتے ہوئے ان علاقوں کاکنٹرول سنبھال لیا ہے ۔سعودی عرب کوفکر ہے کہ شام میں ایران اپنااثرورسوخ بڑھارہاہے،اس لیے وہ باغیوں کواسلحہ اورپیسہ دے رہاہے۔اسرائیل کوتشویش ہے کہ حزب اللہ کوملنے والااسلحہ اس کے خلاف استعمال ہو سکتاہے، اس لیے وہ بھی شام میں حملے کررہاہے لیکن اب لبنان میں حالیہ انتخابات میں حزب اللہ کی ناقابل یقین فتح نے امریکا،مغرب اوراسرائیل کیلئے خطرہ کی گھنٹی بجادی ہے۔
لبنان میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں حزب اللہ کی پہلے سے کہیں بہترکامیابی اس کی ملکی معاملات پرگرفت کومزیدمضبوط کردے گی اور ایران کے ساتھ اس کے ہرشعبے میں تعلقات اورتعاون مزیدمضبوط،مستحکم اوربہترہوگیاہے جبکہ سعودی عرب اورخلیجی ریاستوں کی واجبی کامیابی سے زیادہ فرق نہیں پڑے گاتاہم اسرائیل کے حوالے سے لبنان میں ایران نوازحزب اللہ کے مزیدمستحکم ہونے پرتشویش پائی جاتی ہے۔حزب اللہ لبنان کے علاوہ شام میں بھی زیران کادست وبازوہے اوراس نے خاص طورپرشام کی اسرائیل کے قبضے میں جانے والی گولان کی پہاڑیوں کے ساتھ نہ صرف اپنے مورچے بنالیے ہیں اورایرانی ساختہ میزائل بھی داغے ہیں۔اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہونے کہاہے کہ ایران سے بعدکی بجائے ابھی نمٹنا بہترہوگا۔انہوں نے ایران پر جارحیت کاالزام عائدکرتے ہوئے کہاہے کہ ایران شام میں جنگجوبھیج رہاہے اوریہ صورتحال اسرائیل کیلئے خطرہ کا باعث ہے۔
نیتن یاہوگزشتہ کئی ماہ سے شام میں ایرانی فوجی موجودگی اورلبنان کی حزب اللہ کے بارے میں اپنے طورپرخطرے کی گھنٹی بجانے کی کوشش کر رہا ہے۔ لبنان کے انتخابات کے غیرسرکاری اورغیرحتمی نتائج کے مطابق ایرانی حمائت یافتہ حزب اللہ اوران کی سیاسی اتحادی جماعتوں نے 128رکنی پارلیمان میں نصف سے زائدنشستیں حاصل کرلی ہیں ۔حتمی نتائج اگرایسے ہی رہتے ہیں تولبنان میں حزب اللہ کی طاقت میں بے تحاشہ اضافہ ہوجائے گا۔سعودی عرب اورمغربی ممالک کے حمائت یافتہ سعدحریری بھی سب سے بڑابلاک بنانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔لبنان میں آخری انتخابات کاانعقاد2009ءمیں ہواتھا۔لبنان میں نوسال کے بعدہونے والے پارلیمانی انتخابات میں پولنگ کاآغازصبح سات بجے شروع ہوکرشام سات بجے تک جاری رہا۔اس موقع پرسیکورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے۔لبنان میں ووٹ ڈالنے کے اہل افرادکی تعدادتقریباً3.7ملین ہے۔ تمام پندرہ اضلاع میں ٹرن آؤٹ بڑامثبت اندازمیں جاری رہاجوسول سوسائٹی کی نئی تحریک کیلئے اچھی خاصی نشستیں جیتنے کاسبب بنا۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق تمام ریاستی فرقہ وارانہ جماعتیں حکمرانی میں اپناحصہ برقراررکھ سکیں گی تاہم حزب اللہ کی قوت اب پہلے کے مقابلے میں مزیدمستحکم ہوجائے گی لیکن قصرسفید کے فرعون نے ایران کے خلاف ایک نیامحاذکھول دیاہے۔امریکی صدرٹرمپ نے اسرائیلی ایماء پرایران سے کئے جانے والے معاہدے کوختم کرنے کیلئے ڈیڈلائن دینے کی بجائے اسے ختم کرنے کااعلان کردیالیکن اس کے اتحادی مغربی ممالک اس معاہدے کو بچانے کیلئے سرتوڑکوششیں کررہے ہیں جبکہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری انتونیوگٹرس نے تین ہفتے قبل امریکااورمغربی ممالک کوایٹمی معاہدے کی پاسداری اوراس کوتوڑنے کے خطرات کے مضمرات سے متنبہ کیاتھا۔روس اورچین نے بھی امریکاکے اس عمل پرانتہائی ناپسندیدگی کااظہارکیاہے جبکہ ایران بہت پہلے معاہدہ ختم ہونے کی صورت میں پورے عزم کے ساتھ یورینیم کی افزودگی شروع کرنے کااعلان کرچکاہے۔یورپی ممالک کی رائے میں یہی معاہدہ ایران کوایک ایٹمی طاقت بننے سے روکے ہوا ہے جبکہ امریکااوراسرائیل کامؤقف یہ ہے کہ اس معاہدے کے باوجودایران اپناجوہری پروگرام جاری رکھے ہوئے ہے۔اس سارے پس منظرنے امریکی پالیسی سازوں کیلئے مشکل پیداکردی ہے کہ کوئی ایسافیصلہ نہ کیاجائے جوجلتی پرتیل ڈالنے کے مترادف ہولیکن اسرائیل اورایران کوئی سنگین غلطی کرسکتے ہیں جس کامحرک حزب اللہ ہوسکتی ہے لیکن ناقابل یقین طبیعت، تکبراور طاقت کے نشے میں بدمست ٹرمپ بتدریج ایسے اقدامات کررہاہے جس سے عالمی امن کوشدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔
امریکاکی جانب سے ایران کے جوہری معاہدے کے دستبرداری کے بعداس کے مستقبل کے بارے میں سوالات پیداہوگئے ہیں۔2015ءمیں طے پانے والے اس معاہدے کے تحت ایران نے اپنی جوہری سرگرمیاں محدود کرنے پررضامندی ظاہر کی تھی جس کے بدلے میں اس پر عائد امریکی، یورپی اور اقوامِ متحدہ کی پابندیاں اٹھا لی گئی تھیں۔اب امریکی صدر ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ وہ ایران کے خلاف دوبارہ پابندیاں لگارہے ہیں۔ان پابندیوں کے دوبارہ نفاذ کاایران پراوراس سے کاروبار کرنے والی عالمی کمپنیوں پرکیااثرپڑے گا؟امریکی محکمہ خزانہ کے مطابق یہ پابندیاں دو مراحل میں لگائی جائیں گی۔ تیل کی خرید وفروخت پرپابندیاں چھ ماہ بعدنافذ کی جائیں گی جبکہ دیگر پابندیوں کا نافذ 90دن کے بعدہوگا۔پہلی ڈیڈ لائن چھ اگست ہے اوراس دن سے عائدہونے والی پابندیوں سے ڈالرکی خریداری،سونے اوردیگردھاتوں کی تجارت کے علاوہ فضائی اورکاروں کی صنعت متاثرہو گی۔ پابندیوں کی اگلی لہر4نومبر کو آئے گی جس کا ہدف ایران کا فنانشل سیکٹر اور تیل سے متعلق ادارے ہوں گے۔چھ ماہ کے اختتام پر ان افراد کے خلاف بھی پابندیاں بحال ہو جائیں گی جو ماضی میں امریکی محکمہ خزانہ کی پابندیوں کی فہرست کا حصہ تھے۔ایران دنیا کے تیل پیدا کرنے والے سب سے بڑے ممالک میں سے ایک ہے۔ وہ سالانہ اربوں ڈالر مالیت کا تیل اور گیس برآمد کرتا ہے۔تاہم بین الاقوامی پابندیوں کے نفاذ کے بعد ملک میں تیل کی پیداوار اور اس کی مجموعی قومی پیداوار میں خاصی کمی آجائے گی۔
اگرچہ امریکا ایران کابڑا گاہک نہیں ہے، غیرملکی کمپنیاں اوردیگر ممالک جو پابندیوں کے نفاذ کے بعدبھی ایران سے کاروبارکرتے رہیں گے، امریکی پابندیوں کاسامنا کریں گے۔اس کااثر یورپی تیل کمپنیوں پر پڑ سکتاہے۔فرانسیسی کمپنی ٹوٹل نے پابندیاں اٹھنے کے بعدایران کے ساتھ پانچ ارب ڈالرکا معاہدہ کیاتھاجبکہ برٹش پیٹرولیم نے ایران کی سرکاری تیل کمپنی کے ساتھ ایک گیس فیلڈچلانے کامعاہدہ کیاہواہے۔وہ کمپنیاں جوایران کوکمرشل طیارے فروخت کررہی ہیں وہ ان پابندیوں سے شدیدمتاثرہوسکتی ہیں۔ایئر بس اوربوئنگ نے ایران کو2015ء کے جوہری معاہدے کے بعد مجموعی طور پر180طیارے فروخت کرنے کامعاہدہ کیاتھااورپابندیوں کی وجہ سے انھیں اربوں ڈالر کانقصان ہوسکتاہے کیونکہ وہ طیاروں کی تیاری میں امریکی ساختہ پرزے استعمال کرتی ہیں۔کاریں بنانے والی فرانسیسی کمپنیوں رینواورپرجو نے بھی ایران میں کاروبارکے معاہدے کیے ہیں جوان پابندیوں سے متاثرہوسکتے ہیں۔ایران میں پابندیوں کے خاتمے کا مثبت اثرسیاحت کے شعبے پربھی پڑاتھااور2012ءمیں سیاحوں کی جوتعداد38لاکھ تھی وہ2015ء میں بڑھ کر50 لاکھ سے زیادہ ہو گئی تھی،پابندیوں کے نفاذ کے بعد اس میں بھی کمی آ سکتی ہے۔
ایران کے تجارتی شراکت داروں کے پاس اب بھی کچھ امید باقی ہے کیونکہ امریکا کے علاوہ اس جوہری معاہدے میں شامل دیگر ممالک نے اسے برقرار رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔یہی نہیں بلکہ انہوں نے امریکاسے یہ بھی کہا ہے کہ وہ اس کی راہ میں روڑے نہ اٹکائے۔امریکی حکومت نے کہاہے کہ ایران سے کاروبار کرنے والوں کوچھوٹ دیناممکن ہے تاہم اس نے تاحال اس بارے میں کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی ہیں کہ کون سی کمپنیوں کوچھوٹ دی جاسکتی ہے۔اگر یہ نہ ہواتو یورپی یونین ایران سے کاروبارکرنے والی کمپنیوں کوامریکی پابندیوں سے تحفظ دینے کیلئےخود حرکت میں آ سکتی ہے جیسا کہ اس نے کیوبا کے معاملے میں کیا تھا،گویااس مرتبہ مغربی ممالک نے فیصلہ کیاہے کہ وہ امریکاکیلئے مزیدقربانی کابکرابن کراپنی آئندہ آنے والی نسلوں کوامریکا کا معاشی غلام نہیں بننے دیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں