سعودی حکمران شدید بدحواس

:Share

سعودی حکمران شدید بدحواسی کے عالم میں ہیں۔ مستقبل بہت تابناک دکھائی دے رہا تھا، مگر اچانک منظرنامہ تبدیل ہوگیا ہے۔ کہاں تو سعودی عرب عالمی معیشت میں ایک قابلِ رشک مقام کی طرف بڑھ رہا تھا اور کہاں یہ حالت ہے کہ سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے، چینیوں کے عزائم کے حوالے سے اضطراب ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ فوری طور پر سرمایۂ سیّال کی ضرورت ہے۔
سعودی حکمرانوں کو بھی اندازہ ہوچکا ہے کہ اب تیل کے سہارے زیادہ دن اچھی طرح نہیں گزارے جاسکتے۔ وہ تیل کے بعد کی معیشت کیلئے تیاری کر رہے ہیں۔سعودی عرب کا معاشی ڈھانچا تبدیل کرنے کی بھرپور کوششوں کا آغاز ہوچکا ہے۔ ملک میں نئے منصوبے شروع کیے جارہے ہیں اورپہلی مرتبہ ان منصوبوں کیلئےعالمی مارکیٹ میں سرمایہ کار تلاش کرنے کا عمل بھی شروع کردیا گیا ہے۔ ولی عہدمحمد بن سلمان اور ان کے مشیروں کیلئےایک بڑا امتحان ’’آرامکو‘‘ کی نجکاری ہے۔ سرکاری شعبے کی اس دیو ہیکل کمپنی کو اب عوام کے سامنے لایا جارہا ہے۔ کمپنی کے شیئرز عوام کو فروخت کرکے بڑے پیمانے پر سرمائے کااہتمام کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔
سعودی معیشت کا مکمل دارو مدار تیل کی آمدن پر رہا ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی نچلی قیمتوں سے سعودی معیشت کو غیر معمولی دھچکا لگا ہے۔ سعودی بجٹ کا خسارہ ۸۰؍ارب ڈالرتک پہنچ گیاہے۔سعودی معیارات کے اعتبارسے یہ خسارہ زیادہ دن برداشت نہیں کیا جاسکتا ۔
ولی عہد محمد بن سلمان نے وژن ۲۰۳۰ء کے تحت سعودی معیشت کو ایک مکمل نیا چہرہ دینے کااعلان کیاہے۔’’نوم‘‘ کے نام سےنیا شہر بسایاجارہا ہے۔ اس شہر میں جن منصوبوں کی تیاری کی جارہی ہے ان پر مجموعی طور پرکم و بیش ۵۰۰؍ ارب ڈالرخرچ ہوں گے۔حال ہی میں ریاض میں تین ہزار سے زائد متوقع سرمایہ کاروں کو مدعو کیا گیا۔ محمد بن سلمان اور حکومتی مشیرسرمایہ کاروں کوزیادہ سے زیادہ مطمئن کرناچاہتے ہیں تاکہ سرمایہ کاری کامرحلہ زیادہ سے زیادہ آسان ہوجائے۔
فی زمانہ سرمایہ کاری کسی حداورجغرافیائی حدود کی پابند نہیں ہوتی مگر ایک مشکل یہ ہے کہ سرمایہ کاروں کا ذہن بہت تیزی سے تبدیل ہوتا ہے۔ وہ آج آپ کے ساتھ ہیں اورکل کسی اورکے ساتھ۔ انہیں کسی بھی چیز کاحتمی طورپرپابند نہیں کیا جاسکتا۔برطانوی اخبار فائنانشل ٹائمز کے مطابق محمدبن سلمان نے حال ہی میں ملک کے امیر ترین گرفتارافرادکی رہائی کیلئےشرط یہ رکھی ہے کہ وہ اپنی۷۰ فیصد دولت سے دستبردارہوجائیں!اس صورت میں نوم پروجیکٹ کیلئےکم و بیش۱۰۰؍ارب ڈالرجمع ہوجائیں گے۔
بدعنوانی کے خلاف مہم کے نام پرملک کے امیرترین افراد کی گرفتار ی کے بعد سرمایہ کاروں تشویش اورسوچ میں پڑگئے ہیں کہ سعودی عرب میں سرمایہ کاری دانش مندی کا مظہر ہوگی بھی یا نہیں؟ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ انہیں اپنی سرمایہ کاری پر کنٹرول حاصل ہوگا یا نہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ سعودی عرب میں سرمایہ کاری کریں اور کل کسی بھی سیاسی تبدیلی کے ہاتھوں انہیں اپنے سرمائے سے ہاتھ دھونا پڑیں۔سرمایہ کاری یقینی بنانے کیلئےاعتماد کی فضا ناگزیر ہے۔ جہاں اعتماد نہ ہو وہاں کسی بھی پیش رفت کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
سعودی عرب میں سرمایہ کاری کی خواہش رکھنے والے سرمایہ کاروں کا اعتماد اس لیے بھی مجروح ہوا ہے کہ بدعنوانی کے خلاف مہم کے نام پرجن لوگوں کوگرفتار کیا گیا ہے ان میں شہزادہ الولید اوردیگربڑی کاروباری شخصیات بھی شامل ہیں، جن کی مغربی دنیامیں غیرمعمولی سرمایہ کاری اوراسٹیکزبہت زیادہ ہیں۔
ناروے میں آزاد فنڈز کی نگرانی پر مامور بینک ’’نارجز بینک‘‘کے اثاثوں کی مالیت کم و بیش ایک ہزاربلین ڈالر ہے۔ یہ بینک عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ بینک کا کہنا ہے کہ عالمی منڈی میں خام تیل کے نرخ اگلے کئی سال بہت ہی نچلی سطح پر رہیں گے۔ یہ بات سعودی عرب کیلئےغیر معمولی تشویش کا باعث ہےکہ تیل کی دولت پر عیش کرنے کا زمانہ گزرچکا، اب اگر خوشحالی و ترقی کویقینی بنائے رکھنا مقصود ہے تو لازم ہے کہ آمدن کے دیگر ذرائع یقینی بنائے جائیں۔ یہی سبب ہے کہ بہت بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے ذریعے نوم پروجیکٹ شروع کیا گیا ہے۔ دنیا بھر سے سرمایہ کاروں کو مدعو کیا جارہا ہے تاکہ یہ منصوبہ ڈیڈ لائن کے مطابق مکمل ہو اور سعودی معیشت معتدبہ حد تک استحکام سے ہم کنار رہے۔
صورتِ حال کی نزاکت دیکھتے ہوئے نارجز بینک نے ایگزون موبل، شیل اور برٹش پٹرولیم جیسی بڑی تیل کمپنیوں میں اپنے تمام اسٹاکس فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان اسٹاکس کی مالیت کم و بیش ۳۵؍ارب ڈالرہے۔عالمی منڈی میں تیل کے کم نرخ سعودی عرب کی آرامکو سمیت دنیا بھر کی آئل کمپنیز کے اسٹاکس کی قدر میں شدید کمی کا باعث ہیں۔ سعودی حکمراں طبقہ ابتدائی مرحلے میں آرامکو کے پانچ فیصد تک شیئرز فروخت کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس صورت میں کم و بیش ۱۰۰؍ارب ڈالر جمع کیے جاسکیں گے۔
نیویارک اور لندن کی اسٹاک مارکیٹس ہی اتنی بڑی اور فعال ہیں کہ آرامکو جیسی کمپنی کے شیئرز کی فروخت کو ڈھنگ سے ڈیل کرسکیں مگر مشکل یہ ہے کہ وہاں شفافیت کا تقاضا کیا جاتا ہے اورگورننس کابھی خیال رکھاجاتاہے جبکہ سعودیوں نے اب تک معاملات کو سات پردوں میں رکھا ہے اور شکوک و شبہات کوپیداہونے اور پنپنے کاموقع دیا ہے۔ سعودی چاہتے ہیں کہ لندن، زیورخ اور نیویارک میں اپنی تمام پرائیویٹ ایکویٹی بھی جمع کرلیں اور پرائیویٹ انویسٹمنٹ بینکرز سے ذاتی مراسم کو بھی بروئے کار لاکر کوئی ایسا انتظام کریں کہ بہت بڑے پیمانے پر سرمایہ آتا رہے۔ مگر جب تک اعتماد کی فضا پیدانہیں ہوگی تب تک سرمایہ کار خاطر خواہ دلچسپی نہیں لیں گے۔
چین نے آرامکو کے شیئرز خریدنے میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ اس بات کا واضح اشارہ ہوگا کہ چینی قیادت سعودی عرب میں سرمایہ کاری بڑھانے کے ساتھ ساتھ عالمی معاشی و مالیاتی محاذپر اپنی پوزیشن مزید مستحکم کرنے کی خواہش مند ہے۔ ہاں، پریشانی کا ایک پہلو یہ ہوسکتا ہے کہ سعودی عرب میں چین کی سرمایہ کاری ایران کو چینی قیادت سے بر افروختہ کرسکتی ہے۔ چین کو اس حوالے سے بہت محتاط ہوکر چلناہوگا۔
چینی قیادت کو چند ایک معاملات میں الجھنوں کا سامنا ہے۔ اندرونی قرضوں کادباؤ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ بیرون ملک بہت بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری چینی قیادت کیلئےکسی بھی اعتبار سے کوئی آسان کام نہیں۔ ویسے بھی چین ،پاکستان اور دیگر ایشیائی ممالک میں۱۰۰؍ارب ڈالر سے زائد سرمایہ کاری کا وعدہ کر رکھا ہے،صرف پاکستان میں سی پیک کے حوالے سے چین ۵۶؍ارب ڈالرسے زائدکی سرمایہ کاری پرکام جاری ہے۔
نوم پروجیکٹ کی کامیابی کیلئےسعودی عرب میں سیاسی استحکام لازم ہے،ساتھ ہی ساتھ اعتماد کی فضا پیدا کرنا بھی ناگزیر ہےلیکن نوم پروجیکٹ کیلئے معاشی و مالیاتی مہم جوئی کیلئےولی عہد محمد بن سلمان کامالدار شخصیات کو حراست میں لیکران سے سرمایہ نکلوانا بیرون ملک بہت سے سرمایہ کاروں کو شکوک و شبہات میں مبتلا کرنے کیلئےکافی ہے۔ ان دو شرائط کی عدم تکمیل سے نوم پروجیکٹ کی کامیابی کے امکانات ممکن نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں