The true testimony

صاحبِ قرآن اورمیلادالنبی

:Share

امت مسلمہ اس وقت جس صورتحال سے دوچارہے اس کی تفصیل میں جانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ہرصاحبِ نگاہ آگاہ ہے کہ عزت، وقار اور سربلندی گویاکہ ہم سے چھین لی گئی ہے اوربعض اوقات یہ لکھتے ہوئے بھی خوف محسوس ہوتاہے جو “مغضوب علیھم”قوموں کا نقشہ قرآن مجید میں کھینچاگیاہے،مختلف اعتبارسے وہی نقشہ آج ہمیں اپنے اوپرمنطبق ہوتانظر آ رہاہے،افتراق ہے،باہمی خانہ جنگیاں ہیں،اختلافات ہیں۔وحدتِ امت جومطلوب ہے ،اس کاتو شیرازہ بکھرچکاہے۔سوال یہ ہے کہ اس صورتحال کاحل کیاہے؟اس کیلئے ہم کس سے رجوع کریں؟اس کاجواب اگر ایک لفظ میں جانناچاہیں تووہ یہ ہے کہ خلوص اور اخلاق کارشتہ اوروفاداری کاتعلق ازسرِنواللہ سے،اس کی کتاب سے،اس کے رسول اکرمﷺ سے استوارکیاجائے اور صحیح بنیادوں پرقائم کیاجائے۔ایک حدیث کی روسے نبی اکرم ﷺنے فرمایا:دین توبس خیرخواہی،خلوص،اخلاص اور وفاداری کانام ہے”۔پوچھاگیاکہ”حضورﷺکس کی وفاداری،کس سے خلوص و اخلاص ؟ ”حضوراکرم ﷺنے ارشادفرمایا”اللہ سے،اس کی کتاب سے،اس کے رسول سے اورمسلمانوں کے رہنماؤں اورقائدین سے،اورعامتہ المسلمین سے”۔اللہ تعالیٰ کے ساتھ خلوص واخلاص کاجہاں تک تعلق ہے،تفصیل میں جانے کاموقع نہیں ہے،وہ ایک لفظ میں اداکیا جاسکتاہے ۔ التزام توحیداورشرک کی ہرنوعیت سے اجتناب اللہ تعالیٰ کے ساتھ وفاداری ہے،اگرچہ یہ کام آسان نہیں،بقول حکیم الامت علامہ اقبال:
براہمی نظرپیدامگرمشکل سے ہوتی ہے
ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنالیتی ہے تصویریں

جہاں تک قرآن مجیداورحضوراکرم ﷺکے ساتھ خلوص واخلاص کامعاملہ ہے تویہ درحقیقت دوچیزیں نہیں ہیں،جیسے کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ سے فرمائش کی گئی کہ ہمیں حضوراکر مﷺکی سیرت واخلاق کے بارے میں بتائیں توآپ نے سوال کیا”کیاتم قرآن نہیں پڑھتے؟ اورجواب اثبات میں آیاتوآپ نے فرمایاکہ”کان خلق القران،حضوراکرم ﷺکی سیرت اور اخلاق قرآن ہی توہے”۔

غورکرنے سے معلوم ہوتاہے کہ نبی اکرمﷺسے ہمارے تعلقات کی بنیادیں چارہیں۔سورة الاعراف کی آیت157کاپس منظربڑا عجیب ہے ، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب اپنے اوراپنی قوم کیلئے بارگاہِ خداوندی میں رحمت کاسوال کیاتواللہ تعالیٰ نے جواباً ارشادفرمایا:”میری ایک رحمت عام ہے جوتمام مخلوقات کیلئے کھلی ہوئی ہے اورجومیری رحمتِ خصوصی ہے تواسے میں نے مخصوص کردیاہے ان لوگوں کیلئے جومیرے نبی امی سے اپناصحیح تعلق قائم کریں گے۔وہ تعلق کیاہے؟اس کو مذکورہ آیت کے آخری حصے میں بیان کردیاگیاہے: (پس آج یہ رحمت ان لوگوں کاحصہ ہے) جواس پیغمبرنبی امی کی پیروی اختیارکریں …… ….لہنداجولوگ ان پرایمان لائیں گے ،ان کی تعظیم کریں گے،ان کی نصرت وحمائت کریں گے اور اس روشنی کی پیروی اختیارکریں گے جوان کے ساتھ نازل کی گئی ہے وہی فلاح پانے والے ہیں(اصل معنی میں کامیاب اورمیری رحمتِ خصوصی انہی لوگوں کے حصے میں آئے گی)”۔

اس آیت مبارکہ کی روشنی میں غورکیاجائے توحضوراکرم ﷺکے ساتھ ہمارے تعلق کی چاربنیادیں واضح طورپرسامنے آتی ہیں۔سب سے پہلی بنیادہے تصدیق وایمان،یہ تصدیق کرناکہ آپ اللہ کےرسول ہیں،آپ ﷺنے جوکچھ فرمایااپنی طرف سے نہیں فرمایا،جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد فرمایاگیاہے: اورہمارانبی ﷺ اپنی خواہش نفس سےنہیں بولتا، یہ توایک وحی ہے جوان پرکی جاتی ہے،اسے زبردست قوت والے نے تعلیم دی ہے”۔(سورة النجم5-3)

اب اس ضمن میں یہ جانناچاہئے کہ اس ایمان اورتصدیق کے دودرجے ہیں،ایک زبانی اقرارجس سے انسان اسلام کے دائرے میں آجاتاہے،وہ قانونی ضرورت پوری ہوجاتی ہے جوامتِ محمدی میں شامل ہونے کیلئے لازمی اورضروری ہے لیکن اصلی ایمان دل سے تصدیق کاہے جبکہ آنحضرت رسول اکرمﷺکی رسالت ونبوت پردل میں یقین کی کیفیت پیداہوجائے تویہ ہے ایمانِ مطلوب ،اس کے بغیرجودوسرے حقوق ہیں نبی اکرم ﷺ کے وہ ہم ادانہیں کرسکتے،پھرزبانی کلامی تعلق رہے گاجیسا کہ اللہ معاف فرمائے ہماری ایک عظیم اکثریت کاہے۔دوسراتعلق ہے تعظیم و محبت، یہ لازمی تقاضہ ہے یقینِ قلبی کا۔ اگریہ یقین ہوکہ آپ ﷺاللہ کے رسول ہیں توآپ کی عظمت کانقش قلب پرقائم ہوجائے گا،آپ کی محبت دل میں جاگزیں ہوگی۔جیسے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا”تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتاجب تک میں اسے محبوب ترنہ ہوجاؤں اس کے اپنے بیٹے سے،اس کے اپنے باپ سے اورتمام انسانوں سے” (بخاری، الصحیح، حب الرسولﷺمن الایمان،14:1،رقم:14) ۔یہ حدیث مبارکہ اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ایمان کامعیاراس کے سوااورکچھ نہیں کہ دنیاومافیہاکی ہرشے سے بڑھ کرحضورنبی اکرم ﷺ کی ذات سے محبت کی جائے اورجب تک یہ کیفیت پیدانہ ہوکوئی شخص نام کامسلمان توہوسکتاہے، مومن نہیں ہو سکتا۔

ایک دفعہ حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ اقدس میں سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے پوچھا:اے عمر! تمہیں مجھ سے کتنی محبت ہے؟حضرت عمر رضی اللہ عنہ جوابھی مرحلۂ تربیت سے گزررہے تھے عرض کرنے لگے:’’حضور!مجھے سب سے بڑھ کر آپ کی ذات سے محبت ہے مگرگاہے بگاہے محسوس ہوتاہے کہ اولاد کی محبت آپ کی محبت سے قدرے زیادہ ہے‘‘ حضور نبی اکرم ﷺ فرمانے لگے : ’’اے عمر!اگریہ بات ہے توتمہارا ایمان ابھی مکمل نہیں ہوا۔‘‘اس فرمان کے بعد حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے دل کی کایا پلٹ گئی، یہاں تک کہ ان کے دل میں حضورنبی اکرم ﷺ کی محبت دیگر تمام محبتوں پر غالب آ گئی اوروہ بے ساختہ پکاراٹھے:رب ذوالجلال کی قسم!اب حضورنبی اکرم ﷺ کی محبت مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ ہے اور مرتے دم تک کبھی کم نہیں ہو گی”۔ اس پر آپ ﷺ نے حضرت عمر کاہاتھ پکڑ کر فرمایا:’’اب تمہارا ایمان مکمل ہوا۔ بخاري،الصحيح،کتاب الایمان، 2445:6،رقم:6257

یہاں یہ بات ملحوظ خاطررہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کاظاہروباطن ایک تھااوران کے کردارمیں منافقت کاشائبہ تک نہ تھا۔اسی لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضورنبی اکرم ﷺکے استفسار پردل کی بات بتادی۔ یعنی اگرمومن کے دل میں آنحضورﷺکی محبت اپنےتمام اعزاء اقرباء اورتمام انسانوں سے بڑھ کرجاگزیں ہوئی ہے تووہ حقیقتاً مؤمن ہے۔اس حدیث میں بیٹے اورباپ کاذکرنے تمام عزیزوں،رشتہ داروں، قبیلوں اور قوموں کااحاطہ کرلیاہے۔ان الفاظ میں کوئی ابہام نہیں ہے،ایسانہیں کہ بات واضح نہیں بلکہ صاف صاف اوردوٹوک اندازمیں ارشادہواہے کہ حقیقی ایمان کالازمی تقاضہ ہے کہ حضورﷺایک بندۂ مومن کودنیاکی تمام چیزوں سے محبوب ترین ہو جائیں اوران کی حرمت پرجان بھی چلی جائے تو اس کوسعادت سمجھیں۔

تعظیم ظاہری بھی مطلوب ہے اورقلبی بھی،اس طرح محبت کازبانی اظہاربھی ہواوردل میں بھی محبت جاگزیں ہواوراس کاسب سے بڑامظہرہے حضور اکرم ﷺ پردرودبھیجناجس کے بارے میں فرمایاگیا: اللہ اوراس کےفرشتے پیغمبرپردرودبھیجتے ہیں، مومنوتم بھی ان پردُروداورسلام بھیجا کرو۔اگرکوئی شخص اپنی دعاکل کی کل صرف حضور حضور ﷺپردرودبھیجنے پر مشتمل کردے تواس کامقام اورمرتبہ کہیں زیادہ ہو گااس سے،کہ وہ خوداپنے لئے کوئی سوالات کرتا رہے۔

تیسراتعلق حضور ﷺ کے ساتھ ہماراحضورﷺکی نصرت وحمائت ہےجولازمی نتیجہ ہے ان پہلی دو بنیادوں کا،وہ ہے حضور اکرمﷺکی اطاعت اوراتباع کا۔ ظاہربات ہے کہ جب آپﷺکواللہ کارسول ماناتو اب آپﷺکے حکم سے سرتابی چہ معنی دارد۔ آپ ﷺکاہرحکم سرآنکھوں پرہوگا،اس میں البتہ انسان تحقیق کاحق رکھتاہے کہ واقعتا ًمحمدرسول اللہ ﷺنے یہ حکم دیاہے یانہیں، لیکن جب طے ہوجائے کہ یہ آپﷺکافرمان ہے تواب چوں چراں کاکوئی سوال نہیں،اب تو اطاعت کرنی ہوگی اوراطاعت بھی کیسی؟وہ اطاعت جس کے بارے میں قرآن مجیدمیں فرمایاگیا:
“پس نہیں تیرے رب کی قسم!یہ لوگ ہرگزمؤمن نہیں ہیں جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کوفیصلہ کرنے والانہ مان لیں،پھر جوکچھ تم فیصلہ کرواس پراپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں بلکہ آپ ﷺ کے فیصلے کے آگے پوری دلی آمادگی اورخوشی کے ساتھ سرِ تسلیم خم نہ کر دیں(سورة نساء۔65)

یہی بات آنحضورﷺنے فرمائی:تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں ہوسکتاجب تک کہ اس کی خواہشِ نفس اس ہدائت کے تابع نہ ہوجائے جومیں لیکرآیا ہوں ”۔جب اطاعت کے ساتھ محبت کی شیرینی شامل ہوجائے تواس طرزِ عمل کانام ہے اتباع۔اس کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ظاہرہے کہ اطاعت توان احکام کی ہوگی جوحضورﷺنے دیئے ہوں لیکن اتباع ان تمام اعمال وافعال کاہوگا جن کاصدوروظہورہوانبی اکرم ﷺ سے،چاہے اس کوکرنے کاحکم آپ ﷺ نے بالفعل نہ دیاہو۔اس اتباع کاجوقرآن مجیدمیں مقام ہے وہ بھی سن لیجئے۔(اے پیغمبر لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم خدا کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ بھی تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور خدا بخشنے والا مہربان ہے “۔ آل عمران :31

اس آیت کریمہ سے اتباع رسولﷺکی یہ اہمیت سامنے آتی ہے کہ اللہ سے محبت کادعویٰ ہے توجنابﷺکااتباع لازم ہے۔اس کا ایک نتیجہ تویہ نکلے گاکہ اللہ ہم سے محبت فرمائے گا اوردوسرانتیجہ یہ نکلے گاکہ ہم اس کی مغفرت کے مستحق قرارپائیں گے۔اس سے زیادہ ایک بندۂ مومن کی خوش بختی اورکیاہوسکتی ہے کہ وہ اللہ کامحبوب اوراس کی مغفرت کا سزاوار بن جائے۔

چوتھااورآخری اوریوں کہئے کہ یہ عروج ہے حضورﷺکے ساتھ ہمارے تعلق کا،وہ ہے تائیدونصرت۔حضورﷺایک مشن لیکرتشریف لائے تھے۔صحابہ کرام نے دورانِ خلافت راشدہ اس عمل کوجہاں تک پہنچایاتھا،ہم اپنی بے عملیوں کے طفیل وہ اثرات بھی ختم کرچکے ہیں۔اب توازسرنوپیغام محمدی ﷺکی نشرو اشاعت کرنی ہے۔پیغام محمدی ﷺکوپہنچاناہے تمام اقوام و ملوک تک،اورازسرِنواللہ کے دین کوفی الواقع قائم ونافذ کرناہے کرّہ ارضی پراوراس کیلئے پہلے اللہ جہاں بھی توفیق دے ، جس خطہ ارضی کی قسمت جاگے،عہدِ حاضرمیں انقلابِ محمدیﷺکاتواس ملک کی خوش بختی اورخوش نصیبی پرتو واقعتا ً رشک کرناچاہئے ۔ یہ ہے وہ فریضہ منصبی جوامت کے حوالے کیاگیاہے۔آنحضورﷺکامشن زندہ و تابندہ ہے۔حضورﷺ گویاکہ اب بھی پکاررہے ہیں:”کون ہے اللہ کی راہ میں میرامددگار،یعنی کون ہے جومیرے پیغام کی نشرواشاعت کاکام کرے ،میرے دین کا علمبرداربن کر کھڑا ہواورپورے کرۂ ارض پراس کاجھنڈاسربلندکرنے کیلئے تن من دھن لگانے کیلئے آمادہ ہوجائے“۔

اس ضمن میں آخری بات یہ ہے اس آیہ مبارکہ میں ،کہ اس عمل کاذریعہ کیاہے۔محمدرسول اللہ ﷺنے جوانقلاب برپاکیاتوآلۂ انقلاب تھاقرآن حکیم۔ پس معلوم ہوا آپﷺکی دعوت کامرکزومحورقرآنِ حکیم تھا۔آپﷺنے قرآن کریم کے ذریعے لوگوں کے اذہان وقلوب بدل کر رکھ دیئے۔اسی قرآن حکیم کی بدولت لوگوں کی سوچ میں انقلاب برپا کردیا۔اسی قرآن الفرقان کی آیاتِ بینات سے اذہان کی تطہیر فرمائی ،یہی قرآنی آیات وبینات لوگوں کے تزکیہ نفس کاذریعہ بن گئیں،اسی قرآن کریم کے نورسے خارج وباطن منورہوگئے۔وہ کتاب آج بھی اسی حالت میں اس امت کے پاس محفوظ ہے بس اس کے ساتھ اپنے تعلق کودرست کرناہوگا ۔یہ آنحضورخاتم النبین ﷺکے ساتھ ہمارے صحیح تعلق کی آخری اور اہم ترین بنیادہے۔اس وراثتِ محمدیﷺکومضبوطی کے ساتھ تھامنے کاحکم ہے اوراسی کو”حبل اللہ” قراردیاگیا ہے۔یہی کتاب اللہ،امت کے اندراز سرنواتحادویکجہتی پیداکرے گی،اسی سے وحدتِ فکر پیدا ہو گی،اسی سے وحدتِ عمل کی توفیق ملے گی،اسی سے ہماری جدوجہدیکجہتی کے ساتھ اپنے اصل ہدف کی طرف آگے بڑھےگی۔اس کتاب کے حقوق کوپہچانناہمارے حقیقی اور قلبی ایمان کیلئے ضروری ہے،یہی درحقیقت میلاد النبی ﷺ کااصل پیغام ہے۔یہی اصل لمحہ فکریہ ہے،اس کتاب کومانیں جس طرح ماننے کاحق ہے،اسے پڑھیں جیساکہ پڑھنے کا حق ہے،اس کوسمجھیں جیساکہ سمجھنے کاحق ہے،اس پرعمل کریں جیساکہ اس پرعمل کرنے کاحق ہے اورپھراس کے داعی ، مبلغ اورمعلم بن جائیں جیسے کہ اس تبلیغ،دعوت، تعلیم اورتبین کاحق ہے۔

درحقیقت عیدمیلادالنبی کاحقیقی پیغام یہی ہے جس کوسمجھنے اورعمل کرنے کی ضرورت ہے اوریہی وقت کااہم تقاضہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان جملہ امورپرعمل کرنے کی توفیق عطافرمائے کہ ہم نبی اکرمﷺکےمشن کی عالمی سطح پرتکمیل کیلئے راست سمت میں پیش قدمی کرسکیں ثم آمین
وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے
غبار ِراہ کوبخشافروغِ وادیٔ سینا
نگاہِ عشق ومستی میں وہی اوّل وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسین وہی طٰہ

اپنا تبصرہ بھیجیں