ظلم وستم اورسفاکی….اس قدربیباکی اوربیدردی کے ساتھ مسلمانوں کوذبح کیا جائے گاکہ انسانیت بھی منہ چھپاکرروئے گی۔ابھی توہم ڈومہ دولہ کے اس سانحے کونہیں بھول پائے جب قصرسفیدکے ایک ڈرون حملے میں اسی طرز کے حملے میں ایک مدرسے میں۸۵بچوں کے ٹکڑے ہم نے جمع کرکے اجتماعی قبروں کے سپرکردیئے تھے۔ پھر۱۶دسمبر ۲۰۱۴ءکوکیسے فراموش کریں جب دشمن کے ایجنٹوں نے انتہائی سفاکی سے آرمی اسکول پشاورمیں ۱۵۰/افرادکوخون میں نہلادیاجس میں آٹھ سال سے لیکر۱۸سال کے۱۳۲ /بچے شامل تھےاورآج قندوزکے مدرسے میں ان مہکتے پھولوں کے پاکیزہ خون میں لت پت،بکھرے اعضاء ،انسانی گوشت کے لوتھڑے اللہ ہی کے گھرمیں جمع کیے جارہے تھے کہ چلواب تمہارا انتظاروہاں ہورہاہے جہاں تم اللہ اوراس کی پاکیزہ مخلوق ملائکہ کے درمیان اپنی ایک الگ شان کے ساتھ قرآن کی محفل سجاؤگے جہاں رب اپنے دیدارجیسی نعمت سے سرفرازکرے گا لیکن جب مجھے ان سینکڑوں خاندانوں اوران حفاظ کی ماؤں کاخیال آتاہے کہ کس والہانہ محبت کے ساتھ ان کوسفیدلباس میں تیار کرکے روانہ کیاتھاکہ اوراب ان کی نظریں مسلسل دروازے پراپنے شہزادوں کی منتظر تھیں کہ سب سے پہلے وہ اپنے لخت جگرکی بلائیں لے گی،اس کامنہ چومنے کیلئے جب دروازے کی طرف لپکے گی تواس کے کانوں میں یہ رس بھری آوازگونجے گی کہ دیکھ ماں میری دستاربندی ہوگئی جس کاتجھے بڑی شدت سے انتظارتھا۔ مجھے آج شدت سے وہ ماں بھی یادآرہی ہے کہ جس کا حافظ قرآن شوہرصرف ایک سال پہلے اپنی بیوی سے یہ وعدہ لے رہاتھاکہ اگرمجھے کچھ ہوگیاتوتم میرے اس اکلوتے بچے کوحافظ قرآن ضروربنانااورچنددنوں کے بعدوہ اپنے کھیتوں میں کام کرتاہواکروسیڈی قصابوں کے ہاتھوں شہیدہو گیاتھا۔اس نے اپنے شوہرسے کئے گئے عہدکوکس محنت ومشقت اورمزدوری کرکے پایہ تکمیل تک پہنچایاکہ اب اس کابیٹااپنی ماں کے ایفائے عہدکی گواہی دینے کیلئے خوداپنے باپ کے پاس جنت میں پہنچ گیا۔
شنیدہے کہ افغانستان کے شمالی صوبہ قندوزکے ضلع دشت ارچی میں افغان ائیرفورس کے دوگن شپ ہیلی کاپٹروں کی بمباری کے نتیجے میں تباہ ہونے والے مدرسے کے ملبے سے مزیدلاشیں نکالی گئی ہیں اورشہیدہونے والے حفاظ کی تعداداب ڈیڑھ سوسے تجاوزکرگئی ہے جبکہ پانچ سو سے زائدزخمی ہوگئے ہیں جن میں اکثریت کی حالت تشویشناک ہے۔ ۳/اپریل منگل کے روز۱۰۱ کمسن حفاظ بچوں اوردیگرشہداء کی اجتماعی قبروں میں تدفین کر دی گئی تھی مگراب مزیدشہداء کوپہلی اجتماعی قبروں کے پہلومیں سپردخاک کیاجارہاہے۔ صرف قندوزمیں ہی نہیں بلکہ عالم اسلام میں دردِ دل رکھنے والے مسلمانوں کے ہاں سوگ کاعالم ہے اوران بے گناہوں کی اموات پرہر چشم پرنم ہے تاہم امریکانے اس واقعے سے لاتعلقی کااظہارکرتے ہوئے اسے افغان ائیرفورس کی کاروائی بتایا ہے۔
قندوزمیں طالبان کے زیرکنٹرول ضلع دشت ارچی کے مدرسہ دارلعلوم الہاشمیہ العمریہ پرجہاں پر ختم قرآن،ختم بخاری اورقرآن کے سینکڑوں حفاظ کی دستاربندی کی تقریب جاری تھی،تین بار بمباری کی ۔تقریب میں افغانستان بھرکے جیدعلماء شریک تھے جس کی مقامی انتظامیہ سے باقاعدہ اجازت حاصل کی گئی تھی۔قندوزمیں تقریب کے حوالے سے ایک مہینے سے تشہیری مہم کے ذریعے مسلمانوں کواس تقریب کی دعوت عام تھی۔
مدرسے اور مسجدکے ملبے سے مزیدلاشیں برآمدہونے کے بعدشہداء کی تعدادایک سوپچاس ہوگئی ہے ۔ ابھی ملبہ ہٹایاجارہاہے اور مزیدلاشوں کےملنے کے امکانات ہیں۔ اپنی مددآپ کے تحت ملبہ ہٹایاجارہاہے۔ شہیدطلباء کی نمازجنازہ میں ہزاروں افرادنے شرکت کی۔دوسری جانب طالبان نے افغان وزارتِ دفاع کے ان الزامات کوقطعی لغواور بے بنیادقراردیاہے کہ تقریب میں طالبان کے رہنماء موجودتھے۔ طالبان کاکہناہے کہ حکومت جاں بحق افراد کی تفصیلات جاری کرے تاکہ حقائق سامنے آئیں۔مقامی آبادی اورمدرسے کی انتظامیہ نے شہداء اور زخمیوں کی تصاویر جاری کرناشروع کردی ہیں۔تصاویرمیں دیکھاجاسکتاہے کہ فارغ التحصیل طلباء اوراساتذہ تقریب میں شریک تھے ۔ادھراقوام متحدہ نے افغانستان میں مدرسے پرفضائی حملے کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والے بچوں سمیت عام شہریوں کی ہلاکت کی تحقیقات شروع کردی ہیں۔ اقوام متحدہ کے معاون مشن کااپنے مختصربیان میں کہناتھاکہ انسانی حقوق کی ٹیم حقائق جاننے کیلئے متاثرہ علاقے میں موجود ہے،تاہم تمام فریقین اور عام شہریوں سے تحقیق میں تعاون کی اپیل کی ہے۔
مسجدومدرسہ الہاشمیہ والعمریہ پرافغان ائیرفورس کی وحشیانہ بمباری میں شہیدحفاظ میں سے بیشترکے ہاتھوں میں شہادت کے بعدبھی قرآن پاک کے نسخے موجودتھے۔ حفظ القرآن کی خوشی میں دیئے جانے والے تحائف ننھے شہداء کی لاشوں کے درمیان انہی کے پاکیزہ خون سے تربتر بکھرے پائے گئے۔یہ مناظردیکھ کرمقامی امدادی ٹیم کے افرادکی آنکھیں اشک بارہوگئیں اورکئی تو فرطِ غم سے نڈھال خودشدیدڈیپریشن کاشکارہوگئے ہیں ۔اس دلدوزسانحے پروہاں مقامی لوگوں میں شدیداشتعال پیداہوگیا ہے اورغم وغصے میں وہ اس واقعے کے انتقام کامطالبہ کررہے ہیں۔امریکی کٹھ پتلی کابل حکومت کے خلاف مظاہروں کاسلسلہ شروع ہوگیاہے۔دوسری جانب افغان وزارتِ دفاع کے حکام اورگورنر قندوزعبدالجبارڈھٹائی کامظاہرہ کرتے ہوئے وحشیانہ کاروائی طالبان جنگجوؤں ہی کے خلاف قراردینے پرمصرہیں۔
ان کاکہناہے کہ کہ مسجدومدرسہ میں حفاظ کرام کی دستاربندی کی تقریب نہیں ہورہی تھی بلکہ طالبان جنگجوؤں کی کوئٹہ شوریٰ کاایک اہم عسکری اجتماع منعقدکیا جارہاتھاتاہم دشت ارچی کے علمائے کرام اورعوام نے سختی سے اس کذب بیانی کومستردکرتے ہوئے انتہائی غم وغصے کا اظہارکیاہے۔سانحے کے بعدجاری تصاویرمیں واضح طورپرعلمائے دین اورننھے حفاظ کرام کی بڑی تعدادکوپھولوں کے ہارپہنے مدرسے سے متصل صحن میں بیٹھا دیکھاجاسکتاہے۔واضح رہے کہ اقوام متحدہ مشن کی سالانہ رپورٹ برائے ۲۰۱۷ءمیں بتایاگیاہے کہ ایک سال میں شہیدوزخمی ہونے والے افغان سویلین کی تعداددس ہزارسے زائدہے۔ان میں تین ہزار۴۳۸شہری شہیداورسات ہزارسے زائدزخمی ہوئے ہیں اوران زخمیوں میں۳۰٪ تعداد زندگی بھرکیلئے اپاہج اورمعذور ہو چکے ہیں۔سویلین پروٹیکشن ایڈوکیسی گروپ برائے افغانستان نے بتایاہے کہ ۲۰۱۸ءکے ابتدائی تین ماہ میں افغان سویلین شہادتوں کی تعداد۱۳۲۲ہوچکی ہے۔ادھرنیویارک ٹائمزسمیت دیگرعالمی میڈیا نے تصدیق کی ہے کہ مدرسے ومسجدپرافغان ائیر فورس کے گن شپ ہیلی کاپٹرز نے بمباری اور شیلنگ کی گئی جس میں علمائے دین،حفاظ اورطلباء سمیت بچوں کے والدین بھی جاں بحق ہوگئے جبکہ درجنوں ننھے حفاظ بمباری سے ہاتھ پیرالگ ہوجانے کے سبب عمربھرکیلئے معذورہوگئے ہیں۔
دوسری جانب افغان وزارتِ دفاع کے ترجمان بریگیڈیئرجنرل ایم رومانش کاالزام ہے کہ دارلعلوم الہاشمیہ العمریہ میں حفاظ کی دستاربندی نہیں بلکہ مسلح طالبان جنگجوؤں کااجتماع تھاجسے نشانہ بنایاگیااورایک جنگجوکمانڈرسمیت۲۱طالبان کوہلاک کیاگیاجبکہ چینل نیوزایشیاسے گفتگومیں گورنر قندوزنے دعویٰ کیاہے کہ افغان گن شپ ہیلی کاپٹروں نے طالبان ٹریننگ سنٹرکونشانہ بنایا۔ ادھرگورنرعبدالجبار نے قندوزاسپتال کادورۂ کرکے تمام زخمیوں پردباؤڈالاہے کہ اگرانہوں نے علاج کرواناہے توانہیں یہ بیان دیناپڑے گاکہ مسجدومدرسے میں طالبان کمانڈر اورجنگجو موجودتھے۔ اگران کایہ بیان حکومت کے خلاف ہواتو انہیں بغیرعلاج کے ہسپتال سے نکال دیا جائے گا۔
اس حوالے سے قندوزمیں موجودواقعے چشم دیدگواہ فضل خان نامی نوجوان نے ٹوئٹرپربتایاہے کہ دارلعلوم الہاشمیہ العمریہ میں تین سوکے قریب شہادتیں ہوچکی ہیں لیکن افغان حکومت حقائق کوچھپارہی ہے۔نیویارک ٹائمزنے بھی ایک عینی شاہد”ایم”کے حوالے سے لکھاہے کہ شہداء میں بڑی تعدادننھے حفاظ کی ہے جو دستاربندی کیلئے جمع تھے۔ ”ایم”نے نیویارک ٹائمزکوبتایاہے کہ گن شپ ہیلی کاپٹروں نے سب سے پہلے حفاظ بچوں کی صفوں پرراکٹ داغے۔عالمی جریدے چینل نیوزایشیاکو ایک عینی شاہدعبدالغنی خان نے بتایا کہ بمباری کے نتیجے میں ننھے حفاظ کے جسم کے پرخچے اڑگئے اورزخمیوں کی چیخ وپکارسے آسمان تک لرزاٹھا۔میں نے اپنی نگرانی میں درجنوں زخمی بچوں کوہسپتال پہنچایاجہاں بسترکم پڑگئے توان زخمیوں کو راہداریوں میں فرش پرلٹادیاگیا۔واضح رہے کہ عبدالغنی باوجود پوری کوشش کے اپنے جذبات پرقابونہ رکھ سکااورباربارآسمان کی طرف کانپتے ہاتھوں سے اشارہ کرکے موجودہ کٹھ پتلی حکومت پراللہ کے عذاب کی بددعائیں مانگ رہاتھا۔خودافغان حکومت کے حامی سابق کٹھ پتلی صدرحامد کرزئی نے بھی مسجدومدرسے پرافغان وزارتِ دفاع کی طرف سے وحشیانہ بمباری کی پرزورمذمت کرتے ہوئے اسے ناقابل معافی جرم قراردیاہے۔
ہماراایمان ہے کہ موت توکوئی نئی چیز نہیںکہ موت زندگی کی سب سے بڑی محافظ ہے،پھر کس کی مجال جو اس میں خیانت کر سکے تاہم ان ننھے شہداء کا اس طرح حالتِ ایمان اورراہِ خدامیں قربان ہوجاناان کے حق میں بڑی نعمت ہے اورپھرکیوں نہ ہو،ایسی موت تووصل حبیب اوربقائے حبیب کا خوبصورت سبب اور حسین ذریعہ ہے اورپھربقائے حبیب سے بڑھ کراورنعمت کیاہوگی۔ اس دنیامیں آناہی درحقیقت جانے کی تمہیدہے مگربعض جانے والے اپنے ماں باپ ،لواحقین اوراہل وطن کیلئے ایسی دولت اورفخروانبساط کی ایسی وراثت چھوڑجاتے ہیں کہ جس کے آگے خزائن و حشم سے مالا مال شہنشاہ بھی سوفقیروں کے فقیراورسو کنگالوں کے کنگال لگتے ہیں۔ان حفاظ کے قلب وذہن کے اندرعمل وخیرکے بیج پرمشیت کی برسائی ہوئی برسات نے بالآخرعمل خیرکی لہلہاتی ہوئی شہادت کی ایسی کھیتی اگادی کہ جس کی تقسیم شروع کردی جائے توسب کوہی اپنا دامن تنگ نظرآئے گا۔ ان شہداء نے اپنے خونِ دل اورجان سے پائے رسولۖکے نقوش کوایسا اجاگر کیاہے کہ ہرکسی کواب اپنی منزل آسان دکھائی دے رہی ہے۔ ان بچوںکی للہٰیت، اخلاص نیت اوربے لوث ادائے فرض نے ایک ہی جست میں تمام فاصلے عبورکرلئے ہیںجس کی تمناانبیاء، اصحابہ اور صالحین نے ہمیشہ کی۔ان عظیم بچوں کی یاداب تاقیامت تک کفر کے تاریک جزیروں پرایمانی قوت کے ساتھ کڑکتی اورکوندتی رہے گی۔
ان معصوم بچوں کی شہادت نے جہاں اوربے شمارباتوں کاسبق یاددلایاہے وہاں ایک یہ بات بھی ہمارے ذہن نشین کروائی ہے کہ عالمِ اسباب میں سانس کاایک تموج اورذرے کاایک حقیر وجودبھی تخلیق اسباب اورترتیب نتائج میںاپناحصہ رکھتاہے۔جس طرح عمل بدکی ایک خراش بھی آئینہ ہستی کودھندلاجاتی ہے اسی طرح عمل خیرکاایک لمحہ بھی عالم کے اجتماعی خیر کے ذخیرے میں بے پناہ اضافہ کردیتاہے اورلوحِ زمانہ میں ریکارڈہوکرکبھی نہ کبھی ضرورگونجتاہے اورمیزان نتائج میں اپناوزن دکھاتاہے اور یوں آخرت کوجب گروہ درگروہ اپنے رب کے ہاں حاضر ہونگے تویہ ننھے حفاظ بھی شہداء کے کے گروہ میں شامل اپنے رب کے ہاں اس شان سے حاضرہوں گے کہ تمام عالم ان پررشک کرے گا۔
رب سے ہم نے بھی ملاقات کرنی ہے،جانے کب……؟جانے کہاں……؟اورکس حال میں ہوںگے؟ کتنی بڑی ملاقات ہوگی جب ایک عبدذلیل اپنے معبوداکبرسے ملے گا!جب مخلوق دیکھے گی کہ خوداس کاخالقِ اکبراس کے سامنے ہے ،رب ذوالجلال کی قسم…..!کیسے خوش نصیب ہیں یہ نوجوان کہ جلوہ گاہ میں اس شان سے جائیں گے کہ اس ملاقات کے موقع پررب کونذرکرنے کیلئے کوئی انتہائی محبوب تحفہ ان کے کفن میں موجودہوگا ۔جی ہاں!ان کفنوں کی جھولیوںمیں جن میں بدن اورسچے ایمان وعمل کی لاش ہوگی مگر شہادت کے طمطراق تمغے سے سجی ہوگی۔ان تمغوں کو خدائے برتر کی رحمت لپک لپک کر بوسے دے گی اوراعلان ہوگا،
توحیدتویہ ہے کہ خداحشرمیں کہہ دے
یہ بندۂ دوعالم سے خفامیرے لئے ہے
کاش ہمیں بھی اس ملاقات اوریقینی ملاقات کاکوئی خیال آتااورتڑپادیتا،کاش ہم بھی ایسی موت سے ہمکنارہوجائیں جہاں فانی جسم کے تمام اعضاءباری باری قربان ہو جائیں،سب خداکیلئے کٹ جائیں، سب اسی کے پائے نازپرنثارہوجائیں جس کے دستِ خاص نے ان کووجودکے سانچے میں ڈھالاہے ۔یقینا ان بچوں کے دھڑ شیطانی قوتوں کاشکارہوگئے مگراشک بارآنکھوں سے سوبارچومنے کے لائق ہیں کہ فرشتے ان کو اٹھاکراللہ کے ہاں حاضرہو گئے ہیں اوران کی معصومیت اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ دنیاپرنہیں یہ آخرت پرنثارہوگئیں ۔انہوں نے دنیاکی کسی چیزسے نہیں خود رب سے عشق کیا،انہوں نے دنیاکی ساری اشیاء اورعیش وعشرت پرنہیں خودرسول اکرمۖ کی ذاتِ مبارک پرایمان کی بنیادرکھی، دنیاکی نشیلی چھاؤں میں نہیں بلکہ شہادت کے پرشوق سائے نے انہیں اپنے اندرسمولیااوروہ شباب وحسن سے وجدکرتے ہوئے اللہ کے ہاں اس طرح حاضر ہوگئے ہیں کہ حسن وجوانی باربارایسی حسرت کرے!!!
وہ زندگی اوردنیاپرجھومنے کی بجائے سچائی اورآخرت پرمرجانے کی رسم اداکرگئے تاکہ زمین وآسمان ان کی موت پرآنسوبہائیں لیکن رب اپنے فرشتوں کی محفل میں خوش ہوکہ اس کابندہ اس کی بارگاہ تک آن پہنچا۔دراصل ان معصوم شہداء کاگھریہاں نہیں بلکہ اس دنیامیں تھا جوجسم وجاں کاتعلق ٹوٹتے ہی شروع ہوتی ہے۔ایسی دنیا جہاں خودرب اپنے بندوں کامنتظرہے کہ کون ہے جو دنیاکے بدلے آخرت اورآخرت کے بدلے اپنی دنیافروخت کرکے مجھ سے آن ملے۔جہاں فرشتوں کے قلوب بھی اللہ کے ہاں پکار اٹھیں گے کہ بارالہٰ…..!یہ ہیں وہ شہداء جوتیرے کلام کودل میں اتارتے رہے، جن کی زندگی تیرے عشق میں لٹ گئی ،یہ سب کچھ لٹاکرتیری دیدکوپہنچے ہیں،ان کے قلوب میں یہ بات راسخ ہوچکی تھی کہ راہِ حق میں ماراجاناہی دراصل تجھ تک پہنچنے کا ذریعہ ہے اورشہادت کے معنی ہی ہمیشہ زندہ رہناہے۔یہ توسب کچھ لٹاکراس یقین تک پہنچے ہیں۔
اورہاں!کتناقابل رشک ہے ان شہداء کایقیں اورایمان ،جن پرملائکہ ایسی گواہی دیں گے اورکس قدر رونے کے لائق ہیں ہمارے ایمان جن کیلئے ہمارے دل بھی گواہی دیتے دیتے کسی خوف سے چپ ہوجاتے ہیں۔کل جب میدان حشرمیں اشک ولہومیں نہائے ہوئے یہ بچے خداوندی لطف و اعزاز سے سرفرازکئے جارہے ہونگے،خداجانے ہم کہاں اورکس حال میں ہونگے!
سوال یہ پیداہوتاہے کہ شب وروزانسانیت کادرس دینے والے جواپنے ہاں کسی جانورکے مرنے پر بھی آسمان سرپراٹھالیتے ہیں،وہ اس وقت گونگے شیطانوں کاکردارکیوں ادا کر رہے ہیں؟کیاموم بتیاں جلانے والے لبرل اندھے اوربہرے ہوگئے ہیں؟مسلم حکمرانوں کی اکثریت کی زبانوں پر چھالے نکل آئے ہیں یامیرے رب نے ان منافقین سے یہ توفیق ہی سلب کرلی ہے۔آخرہم کب تک اپنے بچوں کی لاشوں کے ٹکڑے،کٹے پھٹے بدن اورگوشت کے لوتھڑے اسی طرح جمع کرتے ہوئے فریادوماتم کناں اورخون کے ان دریاؤں میں ڈوبتے مرتے رہیں گے؟ کب تک ہم اپنے ہی منافقین،رذیل ،بدبخت اورکروسیڈکے نامزدحکمرانوں کی غلامی برداشت کریں گے؟آخرکب تک؟
Load/Hide Comments