Rotten Society

گلاسٹراسماج

:Share

ہاں میں ہی تواسے جانتاہوں اورکون جانتاہے اسے۔ وہ توخودکوبھی نہیں جانتا۔میرادوست ہے وہ ۔عمرمیں مجھ سے بہت چھوٹا۔اس دنیاکاباسی ہوتے ہوئے بھی یکسرمختلف ہے۔اس کاہرکام نرالاہے۔بالکل مرعوب نہیں ہے وہ اس سنسارسے۔نجانے کیاکیاکرتاپھرتاہے۔اس ہشت رخی سماج کا باغی ۔آپ اسے پیسے سے نہیں خریدسکتے،بالکل بھی نہیں۔گفتگوتووہ کرتاہی نہیں لیکن اگرکبھی بولنے پرآجائے توسکتے میں آجائیں گےآپ۔ خاموش ہوجائےتوآپ اسے کھول ہی نہیں سکتے۔ہاں وہ میری طرح ایک رشتے کومانتاہے،محبت کے رشتے کو۔انسانوں سے ہی نہیں،جانوروں، پرندوں،درختوں سے،دریاؤں سے،ندی نالوں سے، بپھرے سمندر سے، مفلوک الحال مچھیروں سے،خون تھوکتے مزدوروں سے،خاک بسر انسانوں سے جوبھی کچھ ہے محبت کا پھیلاؤہے۔

لنڈے کے کپڑے پہننے والامست ملنگ۔آپ کاخوشبومیں بساہواقیمتی لباس،اسے بالکل متاثرنہیں کرسکتا۔ہاں اگرآپ میں محبت کازمزمہ بہتاہو تب آپ اسے اسیرکرسکتے ہیں۔پھرتواسے کوئی بھی قیدکرسکتاہے۔ہنسنے ہنسانے والا،گنگنانے والا،چہچہانے والا،لوگوں کے کام آنے والا۔میرایہ پاگل دوست یاورہے،وہ واقعی جادوگر ہے۔دل موہ لینے والا۔وہ ایک مصورہے،مجسم مصور۔آپ اس کے کمرے میں داخل ہوجائیں تو خود کو کسی جادونگری میں پائیں گے۔سب کچھ مختلف،انوکھا اور منفرد ہے۔وہ ایک بڑے شاپنگ پلازہ میں لوگوں کی تصویریں بناتا ہے،لوگ لائنوں میں کھڑے اس کے اشارے کے منتظر رہتے ہیں لیکن وہ اپنا ماڈل خود منتخب کرتاہے۔کسی کی غلامی نہیں کرسکتا وہ۔میں جانتا ہوں لوگوں نے اسے معقول مشاہرہ پر کام دینے کی سر توڑ کوشش کی۔ایک زمانے میں اسے روزگار کی تلاش تھی اوراب روزگار اسے ڈھونڈ تا پھرتا ہے۔وہ کسی کی ملازمت کر ہی نہیں سکتا۔ آزاد بندہ جو لوگوں کی آزادی کا بھی خواہاں ہے۔وہ ٹیلی ویژن کے مختلف ڈراموں اور اسٹیج شوزمیں اپنی اداکاری کے جوہر دکھا چکاہے لیکن وہ اداکار نہیں ہے۔بہت معصوم سا بچہ اس کے اندرکلکاریاں مارتارہتاہے۔

چندسال قبل تھرمیں ہم نے پانی کاایک فلاحی پراجیکٹ شروع کیااوروہ بھی میرے ساتھ ہولیا۔میری زندگی کایہ پہلامگرانتہائی خوفناک وزٹ تھا جس نے مجھے زندگی اورموت کی حقیقت کواس قدرقریب سے دیکھنے کاموقع دیاکہ کس طرح پانی کے ایک کنسترکیلئے میلوں سفرکرناپڑتاہے اوروہ میلاگدلاپانی جس کوہم دیکھنے کے بھی روادارنہیں،جہاں جانوراورانسان ایک ہی جگہ پانی پینے پرمجبورہیں۔ہم اپنی بساط کے مطابق کیاکچھ کررہے ہیں،یہ ایک الگ داستاان ہے لیکن یاورکابراحال ہوگیا۔ اس نے وہاں کے مناظرکوایساپینٹ کیاکہ یہاں آتے ہی”پیاساتھر”کے نام سے اپنی درجنوں پینٹ کی نمائش کرڈالی۔سب کی یہی رائے ہےکہ یاورکی تصویریں موجودہ نظام کے خلاف چیختی اوربین کررہی ہیں۔اس کی تمام تصویریں ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو گئیں اوراس نے ساری رقم ہمارے ادارے کے حوالے کردی کہ تھرکے فلاحی کاموں میں لگادیں۔

وہ اب بھی اپنے برش اور کینوس کوپیاسے تھرکے فلاحی کاموں کیلئے وقف کرچکاہے اورتھرزندگی کے مسائل کواپنی تصویروں میں زندہ کرکے ان کی محرومیوں کودور کرنے میں اپناحصہ ڈال رہاہے لیکن کیامجال ہے کہ کبھی اس نے کسی اخباریاالیکٹرنک میڈیامیں اس کی تشہیربھی کی ہوبلکہ وہ ایسے موقع پرغائب ہوجاتاہے۔اس کولاکھ سمجھایاکہ کم ازکم میڈیامیں اس نیک کام کی تشہیرسے لوگوں کی توجہ بہتراندازمیں مبذول کروائی جاسکتی ہے لیکن وہ مسکرادیتاہے کہ مجھے صرف اپناوہ کام کرنا ہے جس کی میرے رب نے توفیق عنائت کررکھی ہے۔آج بھی اس کالباس،رہن سہن وہی ہے جوچندسال سے دیکھ رہا ہوں بلکہ ایک مرتبہ مجھے ملنے کیلئے آیا تو بارش میں شرابور تھا۔میں نے اسے فوری طورپر اپنے کپڑے دیتے ہوئے مشورہ دیا کہ انہیں پہن لوکہیں تم بیمارنہ پڑ جاؤ۔چندگھنٹوں کیلئے سوکھنے کیلئے لٹکا دو، پھردوبارہ اسی کوپہن لینا۔پہلے تووہ تھوڑاساکسمسایاپھرمان گیا۔پہلی مرتبہ میں نے اسے شلوارقمیض میں دیکھاتوبے حدپیارآیا۔میں نے انتہائی محبت سے اسے رکھ لینے کوکہاتواس سے انکارنہ ہوسکااوراب عیدودیگرتہوارپربڑے شوق سے پہن کر میرے پاس ضرورآتاہے۔

ایک زمانے میں ہم دونوں بہت ساتھ رہے ہیں۔ہائیڈ پارک کی جھیل کے ایک کنا رے پرمخصوص کونے میں بیٹھ کرکئی مرتبہ کافی کامزابھی لیتے رہے ہیں، دریائے ٹیمز کے کنارے ایک گوشے میں بیٹھ کر ایک دوسرے کو غزلیں سنائی ہیں۔انگریزی اور فرانسیسی ادب پر بات کی ہے لیکن ٹھہرئیے،یہ سب کچھ بھی اس کاکچھ نہیں بگاڑ سکا۔بالکل بھی نہیں۔مجھے یادہے ایک دن اس نے مجھے کہا:”میں شیطان کاکردارادانہیں کرسکتا۔” میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا”توکس نے کہاہے تمہیں شیطان کاکرداراداکرنے کو۔”وہ بہت ہنسااورکہنے لگا:

”اس دنیاکے لوگوں نے اورکس نے”بکواس بندکرو،سیدھی طرح بتاکیاچاہتاہے”۔اس نے اپنے مخصوص اندازمیں سرجھکایا اور کہنے لگا”آپ بھی ناں،دیکھئے ہمارے آس پاس منافقت ہی منافقت ہے۔آپ ہی توکہتے ہیں یہاں کوئی رشتہ نہیں ہے،سب تاجرہیں ،ہرشے کے دام ہیں،سب خودکی محبت کے اسیر ہیں۔محبت میں دیناہی دیناہے لیناکہاں ہے۔ہم سب ایک دوسرے کوبہت خلوص سے شیطان کا پیرو کار بننے کی تلقین کرتے ہیں۔ اس ہاتھ دو،اس ہاتھ لو۔ہم کہتے کچھ ہیں،کرتے کچھ ہیں۔یہ شیطانی کام نہیں تو اورکیاہے۔نہیں نہیں میں یہ کردارادانہیں کرسکتالیکن آپ اگرکوئی ایساڈرامہ لکھیں جس میں ہمارے معاشرے کے شیاطین کا ذکرہوتومیں اس کردارکوخوشی سے کروں گاکہ میں اب معاشرے کی ان شیاطین کوبخوبی سمجھ چکاہوں۔رات کے اندھیروں میں مجبور عصمتوں کی چیڑپھاڑکرنے والے یہ خوفناک درندے،دن کے اجالے میں میڈیااوربالخصوص ٹی وی پر کس قدر شرفاء کاروپ دھارے پندونصائح کے ساتھ اشک بہارہے ہوتے ہیں۔ملک میں فلاحی کاموں کے افتتاح پراپنے نام کی تختی لگاکر حکومت کے خزانے یا لوگوں کے چندے سے لاکھوں روپے ڈکارنے کے باوجودبلندہاتھوں سے دعامیں مصروف نظرآنے کی ایکٹنگ کررہے ہوتے ہیں۔

ہم ہرروزدیکھتے ہیں کہ ان کی کروڑوں روپے کی مالیت کی گاڑی کے ساتھ ساتھ ان کے متوالے اورجیالے بھاگتے ہوئے ان کی گاڑی کے اوپرپھولوں کی پتیاں نچھاورکررہے ہوتے ہیں جبکہ یہ عدالت میں ملک وملت کے کروڑوں روپے کرپشن کے مقدمے کیلئے حاضری کیلئے جارہے ہوتے ہیں۔ عدالت کے احاطے میں ان کی گاڑی توداخل ہوجاتی ہے لیکن پھول نچھاور کرنے والے متوالے بس دورسے ان کی ایک جھلک دیکھ کر”زندہ باد”کے نعرے لگاتے ہوئے اپنے خشک گلے کے ساتھ گر جاتے ہیں اورکئی دوسرے متوالے ان پرپاؤں رکھ کرگزربھی جاتے ہیں۔پچھلی سات دہائیوں سے ان کی تقدیرنہیں بدل سکی لیکن ان کی یہ رہنماءہرسال اپنی کروڑوں روپے کی گاڑیوں کے ماڈل ضرورتبدیل کرلیتے ہیں۔میں نے اسے مشورہ دیاکہ تم پاکستانی چینل مت دیکھاکروتواس نے فوری جواب میں کہاکہ”کیاآپ کے کالمزاورٹی وی پروگرامزپڑھنااوردیکھنابندکردوں؟

میں سوچتاہوں کہ وہ بہت عجیب ہے،بہت زیادہ۔مجھے یادہے کہ ایک زمانے میں جب لڑکیاں اس کے اردگردمنڈلاتی رہتی تھیں ،میں نے اس سے کہا ”یاور! تو شادی کیوں نہیں کرلیتا؟”آپ بھی ناں،میں انہیں افورڈہی نہیں کرسکتا۔ہردوسرے مہینے تویہ گاڑی بدل لیتی ہیں،مجھے بھی کبھی جلد بدل دیں گی۔ نہیں نہیں مجھے معاف کیجئے میں ایسے ہی بھلاہوں۔”پھراس کاقہقہہ گونجتا۔ بھرپورزندگی لئے ہوئے قہقہہ۔میں اس کے طنزکوجانتا ہوں۔

پھرہم دونوں،دونوں ہی کیاہم سب کے سب،جیتے جی دنیاکوپیارے ہوگئے۔زندگی سے لڑناکوئی آسان کام ہے بھلا۔اورپھرہم بددماغوں کادنیا سے لڑنا…ایب نارمل لوگ۔ہاں مجھے اقرارہے،میں اپنے رب کاشکراداکرتاہوں،میرے سارے دوست نارمل نہیں ہیں۔ پاگل ہیں،سب کے سب۔ میرے مولاتیراشکرہے تونے مجھے ایسے چریادوست دئیے۔میں اپنے دوستوں کی بات کر رہاہو،میرے شناساتوبہت ہیں،وہ سب انسان ہیں،نارمل انسان…لیکن میری ان سے دوستی کب ہے۔شناسائی ہے بس، شناسائی۔ یاورسے میری ملاقاتیں کم کم ہونے لگیں،کبھی کبھار،فون پراس کی آواز سنائی دیتی”آپ بھی ناں،کہاں غائب ہیں ؟ جب میں کہتا”توکہاں غرق ہوگیاہے؟”تب اس کاوہی قہقہہ گونجتا”آپ ہی توکہتے ہیں ہم جیتے جی مرگئے”!
چھ سات ماہ پہلے اس کابڑابھائی میرے پاس آیا”بھائی،یاورکوکیوں نہیں سمجھاتے؟آپ کی توبات سنتاہے،مانتاہے۔”میں نے پوچھاکیاہوا؟ ” “ہونا کیاہے،کب کرے گا شادی؟”میں نے ان کے سامنے یاورکوفون کیا۔”جی،جی،جی کیابات ہے آپ کی واہ واہ، آپ ہی کویادکررہاتھا،حکم کیجئے۔” ”توشادی کیوں نہیں کرتا؟” وہ بہت ہنسا’’سب لوگ ڈھونڈرہے ہیں لڑکی، جلد کرلوں گا،آپ کوبتاتاہوں،اس وقت راستے میں ہوں۔ تھوڑی دیربعدفون کروں گا‘‘۔اس کے بڑے بھائی کے چہرے پرمسکراہٹ آئی۔”ٹھیک ہے میں نے یاورسے کہہ دیاہے،انشاء اللہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔”ایک دن رات گئے اس کی بہن کافون آگیا”بھائی کیسے ہیں آپ؟””میں ٹھیک ہوں،خیریت توہے؟”آپ یاورکوسمجھائیں ناں،ہم سب اپنے گھروں کے ہوگئے،امی ابوہیں نہیں،ہماری یہ سنتانہیں، کچھ ہوگیاتو کون سنبھالے گااسے‘‘۔اچھاتم مطمئن ہوجاؤابھی اسے ٹھیک کرتاہوں۔

میں بہت غصے میں تھا،تھوڑی دیربعدمیں نے یاورکوفون کیااوراتنی سنائیں کہ اس کے چودہ طبق روشن ہوگئے۔خلاف معمول وہ خاموش تھا۔پھراس کی آوازآئی ”میں ابھی آرہاہوں آپ کے پاس،آپ جوکہیں گے،وہی کروں گا۔پہلے میری بات سن لیجئے گا۔وہ میرے پاس آیااورآتے ہی شروع ہو گیا۔”آپ کوکیا ہوا ہے،نہیں نہیں میں آپ سے ملنے آیاہوں لیکن یہ میرے سامنے آپ نہیں ہیں۔میں جن سے ملنے آیاہوں وہ کہاں ہیں۔نہیں نہیں یہ آپ نے اچھانہیں کیا۔بالکل بھی نہیں۔یہ سب میرے ساتھ زیادتی ہے۔،بالکل یہ زیادتی ہے۔”بہت مشکل سے میں نے اسے چپ کرایا۔

“ہاں یاوربول کیامسئلہ ہے۔کیوں نہیں کرتاشادی۔کیوں پریشان کررہاہے سب کو۔سیدھی طرح بات کرنا۔مجھے تمہاری بکواس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔”ہاں میں بہت تلخ تھا۔اس نے سرجھکایا”آپ ٹھیک کہتے تھے،میں نہیں مانتاتھا،اب میں مانتاہوں۔ یہاں ہم سب کے سب غلام ہیں۔ قیدی ہیں۔دنیاکے قیدی۔ہم نے عذاب خودخریدے،ہم نے اپنادوزخ خودبنایا۔”اپنافلسفہ میرے سامنے مت بگھار۔یہ میں تجھ سے زیادہ بگھار سکتا ہوں،سیدھی طرح بکواس کرو چاہتا کیا ہے۔

’’یہاں جیناکتنامشکل ہے۔ہمیں سنایاجاتاہے سادگی اختیارکرو،اسراف مت کرولیکن جب ہم سادگی اختیارکرتے ہیں تولوگ نجانے ہمیں کیاکیا کہتے ہیں،ہمیں انسان نہیں دوسرے سیارے کی مخلوق سمجھتے ہیں‘‘۔تواصل بات کیوں نہیں کرتا،مجھے تیرابیہودہ لیکچرنہیں سننا۔میں زچ ہوگیاہوں تمہاری گفتگوسے۔ ’’اچھا، ٹھیک ہے،میں شادی کرنے کیلئےتیارہوں لیکن بہت سادگی سے۔ کوئی مہندی نہیں،کوئی مووی نہیں، کوئی بکواس نہیں۔ بس سادگی سے نکاح کرناچاہتا ہوں۔مجھے بالکل بھی جہیزنہیں چاہئے‘‘۔ تواس میں کیامسئلہ پھر؟

’’ہاں یہی تومسئلہ ہے سب سے بڑا۔پچھلے آٹھ ماہ میں درجنوں لوگوں نے میرے انٹرویوکیے۔کسی کومیراکام پسندنہیں آتا۔کسی کومیراحلیہ پسندنہیں آتا۔چاچا،ماما، بہنوئی،خاندان بھرکے سامنے انٹرویودیتے دیتے تھک گیاہوں۔بہت کومیں پسندبھی آیاتووہ سادگی سے شادی پرتیارنہیں ہیں۔میں نے ایک بیوہ سے بھی اپنی بہن کے ذریعے بات کی تووہ بھی تیارنہیں ہے اور میں اس شادی کی خرافات اوربیہودہ رسموں کونہیں مانتا۔اصل تونکاح ہے ناں،آپ نے درجنوں نوجوانوں کے نکاح مسجدمیں خود پڑھائے ہیں اورمیرے علم کے مطابق سب خوشی سے اپنی زندگی گزاررہے ہیں۔میری عمر35سال ہوگئی ہے،میری کوئی ڈیمانڈ نہیں ہے۔ بس میں سادگی سے شادی کرناچاہتاہوں اورکوئی تیارنہیں ہے۔

اب میراقصوربتائیے۔آپ ہی توکہتے تھے یہاں شادی کیاموت بھی مشکل ہے۔مرنے پربھی کمرتوڑخرچ اٹھ جاتاہے۔میں بھی قرض لوں،لڑکی والے بھی قرض لیں،مووی بنے توکوئی نہ کوئی رشتے دارناراض ہوجاتاہے۔شادی کے بعدکوئی گھرآئے تواسے البم دکھاؤ۔مووی دکھاؤ۔لڑکے والے بھی پریشان کہ اب قرض کیسے چکائیں اورلڑکی والے بھی بیزارکہ اب کیسے حساب بے باق ہوگا۔ساری زندگی کاگورکھ دھندا رسوما ت ہی رسومات۔کسی غریب کاہاتھ نہیں پکڑیں گے ۔میں توسب کچھ قبول کرنے کوتیارنہیں ہوں۔آپ ابھی کہیں میں اسی وقت آپ کے ساتھ چلنے کوتیارہوں۔جوآپ کہیں گے میں کروں گا‘‘

میرے سامنے یاوربیٹھاتھا۔اس کے اندرکامعصوم بچہ اب بھی زندہ ہے۔وہ سماج کواس کی اصل شکل دکھانے کیلئےآئینہ لئے گھوم رہاہے۔سچ کہتاہےوہ، ہم سب منافق ہیں۔کہتے کچھ ہیں،کرتے کچھ ہیں۔ہم سب غلام ہیں،سماج کے غلام۔ہاں یہاں باغیوں کاکوئی مستقبل نہیں ہے۔ پاگل ایب نارمل لوگ۔ ہرطرف تاجر،دھوکا دہی دھوکا۔کوئی دینے والانہیں ہے،سب کے سب لینے والے۔کہاں ہے اس میں محبت،اخلاص،ایثار۔ہاں یہ لفظ گم ہوگئے ہیں۔ گلا سٹراسماج،اس کی بدبوسے سانس لینا دوبھرہوگیاہے۔ پھربھی ہم جی رہے ہیں۔سسکنے کوجیناکہتے ہیں۔ہم سب مرگئے ہیں۔
بدروحوں کے مسکن میں سسک رہے ہیں ہم سب۔زندگی توکب کی مرگئی ہے۔
کچھ بھی نہیں رہے گا۔بس نام رہے گا اللہ کا۔
وہ جوگیت تم نے سنانہیں،مری عمربھرکاریاض تھا
مرے دردکی تھی وہ داستاں جسے تم ہنسی میں اڑاگئے

اپنا تبصرہ بھیجیں