Road To Regret

پچھتاوے کی سڑک

:Share

ایک ماہ کی شدیدعلالت کے بعدربِّ کریم نے ایک نئی زندگی عطافرمائی،کمزوری ونقاہت تواب بھی ہے لیکن بوجوہ اصرارافطاری کی تقریب میں اس لئے چلاگیا کہ سب ہی محبت کرنے والوں سے ملاقات ہوجائے گی۔وہیں شاہ صاحب سے ملا قات ہوگئی،میزبان نے تعارف کروانے کی کو شش کی مگرشاہ صاحب نے بڑی گرمجوشی سے آگے بڑھ کرمجھے گلے لگالیا۔”آپ توایک دوسرے کو پہلے سے جانتے ہیں۔”میں نے جواباًعرض کیاکہ”میں شاہ صاحب کونہ صرف جانتاہوں بلکہ دل سے ان کی قدربھی کرتاہوں۔ان کا تعلق ان چند سیاستدانوں سے ہے جوکبھی اصول پرسمجھوتہ نہیں کرتے،جنہوں نے ہمیشہ ایمانداری،خلوص اورنیک نیتی کوزادِراہ جانا،جنہوں نے ہردورمیں سیاست کوکچھ نہ کچھ دیا،وصولی کی کوشش نہیں کی۔”شاہ صاحب میراہاتھ پکڑکر ایک کونے میں بیٹھ گئے۔شاہ صاحب اپناسیاسی اتار چڑھاؤبتانے لگے،انہوں نے سیاست کیسے شروع کی،الیکشن کیسے لڑا،کیسے وزیربنے،رشوت اورلوٹ کھسوٹ سے بچنے کیلئے انہیں کون کون سے پاپڑبیلنے پڑے ۔انہیں الیکشن میں کیسے ہروایا گیااورآخرمیں انہوں نے پارٹی کیسے چھوڑی،وغیرہ وغیرہ۔

میں نے ایک بارپھران کی ایمانداری کی تعریف کی،انہوں نے تڑپ کرمیری طرف دیکھااورٹھنڈے ٹھارلہجے میں بولے”میں اپنی اس ایمانداری،اس اصول پسندی اوراخلاص پرشرمندہ ہوں۔”میں نے انہیں حیرت سے دیکھا،وہ گویاہوئے”تجربے اوروقت نے ثابت کیااس ملک میں جن لوگوں نے کچھ کمالیاوہی صحیح رہے،جنہوں نے موقع کھودیاوہ پچھتاتے رہے،دیکھ لیں ایمانداری کاصلہ،آج میرے ہاتھ میں سیاست ہے نہ ہی مال”۔ہم دیرتک اس شرمندگی اورپچھتاوے پرگفتگوکرتے رہے۔شاہ صاحب نے بیسیویں مثالیں دیں ،لوگ کیسے خالی ہاتھ سیاست میں آئے،وقت اورموقع سے فائدہ اٹھایا، فرش سے عرش تک جاپہنچے اورآج عیش کررہے ہیں۔ احتساب کے درجنوں محکمے بنے،ان کے خلاف کیس اورریفرنس بھی دائرہوئے لیکن انہیں کوئی فرق نہیں پڑا،ان میں سے کچھ نے دے دلاکرجان چھڑالی اورکچھ مک مکاکرکے ایک دفعہ پھرایماندارسیاستدان کاتمغہ حاصل کرچکے۔چندایک حضرات قانون کے مورچے میں پناہ گزیں ہوئے لیکن بالآخرانہوں نے بھی وفاداریاں تبدیل کرکے جان اورمال بچالئے اورپیچھے رہ گئے ہم جیسے بے وقوف!جن کادامن خالی تھااورخالی ہے،وہ گھاٹ کے رہے اورنہ ہی انہیں گھرنصیب ہوا۔

میر صاحب ایک ریٹائرڈبیوروکریٹ تھے۔35سال اقتداراوراختیارکے کوریڈورمیں رہے،کس کس قیمتی پوسٹ اورکیسے کیسے سنہرے عہدے پررہے لیکن کیامجال کہ ایمان اورایمانداری کوہا تھ سے جانے دیاہولہنداجب ریٹائرہوئے توسرچھپانے کیلئے چھت تک نہیں تھی،جوپس اندازتھاوہ کواپریٹو بینک لے اڑا،اورزندگی انہوں نے پنشن اوردکھ میں گزاردی۔ہرصبح بیوی کے طعنوں اور اولاد کے شکوؤں سے آنکھ کھلتی اوررات کوحالات کے بوجھ اور ضروریات کی گرانی تلے بندہوتی،میر صاحب نے بھی آخری زندگی پچھتاوے میں گزاری،وہ بھی کہاکرتے تھے”نیکی بندے کووہاں کرنی چاہئے جہاں نیکی کی کوئی وقعت ہو،جس معاشرے میں ایمانداری کا دوسرانام بے وقوفی ہووہاں ایمانداری سے پرہیزلازم ہے،افسو س مجھے دورانِ ملازمت اس بات کااحساس تک نہ ہوا”۔

یہ شاہ صاحب ہوں یامیرصاحب،ہمارے معاشرے میں ایسے کرداربکھرے پڑے ہیں،ہم سب کی زندگی میں کوئی نہ کوئی شاہ صاحب،کوئی نہ کوئی میر صاحب ضرورہوں گے،یہ لوگ پہلے اکثریت میں ہوتے تھے لیکن اب اقلیت کی شکل اختیارکرتے جا رہے ہیں۔ہرآنے والادن ایسے لوگوں کی نعشوں پرطلوع ہورہا ہے،وہ لوگ جوکبھی ضمیرکوعدالت سمجھتے تھے،جنہیں محسوس ہوتاتھاسب آنکھیں بندہوجائیں توبھی ایک آنکھ انہیں مسلسل دیکھتی رہتی ہے،جویہ سوچتے تھے دنیا عارضی کھیل ہے اوراس کھیل میں سب کچھ ہاردینابے وقوفی ہے اورجویہ کہتے تھے اطمینان سے بڑی کوئی دولت اورسچائی سے بڑی کوئی طاقت نہیں،وہ لوگ اس معاشرے سے سمٹتے جارہے ہیں،یہ معاشرہ،یہ ملک ان لوگوں سے خالی ہوتاجارہاہے،اس ملک میں ایمانداری کی زمین بڑی تیزی سے سیم اورتھورکا شکار ہوتی جارہی ہے۔

ہمارے ملک میں جاری سیاست نے ایمانداری،سچائی اورخلوص کاجنازہ نکال کررکھ دیااوراب یہ اوصاف ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔ہرکسی نے ایوان اقتدار میں پہنچتے ہی ایسی کھلے عام لوٹ مچا ئی کہ الامان الحفیظ !الزمات اورانکشافات کی ایسی غلیظ تھیلی بیچ چوراہے میں رکھ دی گئی کہ قوم سکتے میں آگئی ۔ان الزامات اور انکشافات میں بھی کئی آدھے سچ اورجھوٹ شامل کرکے قوم کی توجہ ان خطرات سے ہٹادی گئی ہے جس کی آگہی سے عوام کواپنے وطن کے بارے میں اپنے دوستوں اوردشمنوں کی تمیزہورہی تھی۔ایک ہی وارمیں اپنے تمام مخالفین کوبدنام کرنے کی بڑے زوروشورسے مہم شروع کردی گئی ہے۔حیرت اس بات پرہے کہ اب ملک کے بڑے محترم ادارے کچھ ایسے سنگین الزامات اورانکشافات کی زدمیں ہیں کہ اگران کاکوئی فوری سدباب نہ ہواتوخاکم بدہن اس کے خوفناک نتائج ہوں گے۔

ہمارے ملک میں پہلے ہی ایمانداری،وفاداری اورخلوص ختم ہوتاجارہاہے۔یہ لوگ جوپچھتاوے کی سڑک پرقدم رکھ رہے ہیں ان کیلئے بھی کچھ نہ کچھ کرنا چاہئے۔ہم اگرانہیں کچھ دے نہیں سکتے توکم ازکم ان کاحوصلہ توضروربڑھاسکتے ہیں،ان کوعزت تو دے سکتے ہیں،ان کی نیکی اورایمانداری کااعتراف توکر سکتے ہیں،لوگ بجھتے چراغوں کی پھڑ پھڑاتی لوبچانے کیلئے اپنے ہاتھ جلابیٹھتے ہیں،ہم کیسے لوگ ہیں ہمارے سامنے زندگی کے بھانبھڑمیں برف کاشت کی جارہی ہے لیکن ہم خاموشی سے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔یادرکھئے!اگرہم نے بھی ایمان اورنیکی کے ان چراغوں کی حفاظت نہ کی تو ہماری اولادنیکی اورایمان کے الفاظ تک سے واقف نہیں ہوگی۔یہ معاشرہ یہ ملک”کامیاب”لوگوں کاملک،موقع سے فائدہ اٹھانے والے لوگوں کامعاشرہ ہوگا۔ہمیں فی الفور ان لکڑ ہاروں کامحاسبہ کرناہوگاجوہمارے ملک کے تمام درختوں کوکاٹنے کیلئے کندھے پرکلہاڑیاں لئے تیارکھڑے ہیں۔

یقین کیجئے!جب کلہاڑا(امریکا)جنگل میں درخت(مسلمانوں)کاٹنے آیا،تودرخت بولے:کلہاڑی کادستہ(مسلمان لیڈر)ہم میں سے ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں