ایک ہی کشتی کے سوار

:Share

کیادنیابھرمیں7/ارب80کروڑافراد کیلئےکوروناویکسین کی دستیابی ممکن ہے؟اب تک پوری دنیاسے صرف ایک بیماری چیچک کو مکمل طورپرختم کیاجاسکاہے۔حقیقت یہ ہے کہ پولیوکوپوری دنیاسے ختم کرنے کی کوشش علاقائی بنیادپرہی کامیاب ہوسکی ہیں۔ دنیابھرمیں پولیوکے کیس آج بھی سامنے آرہے ہیں۔کوروناوائرس کامعاملہ محض اخلاقی نوعیت کانہیں بلکہ یہ بہت حدتک عمومی تحفظ اورجیوپالیٹکس کاکیس بھی ہے۔چین اور روس نے کوروناوائرس سے بچاؤ کی ویکسین کواب سفارتی کرنسی کے طورپر استعمال کرنا شروع کردیاہے۔چین کوروناوائرس سے بچاؤ کی ویکسین کوسفارتی کرنسی قراردینے سے ذرابھی نہیں ہچکچارہااور اس نے تو’’ہیلتھ سِلک روڈ‘‘کے حوالے سے بھی بہت کچھ کہناشروع کردیاہے۔یورپ نے اب تک کوروناویکسین کے حوالے سے جوکچھ کیاہے وہ نیم دلانہ اورناکافی ہے۔وعدے اور دعوے توبہت کیے گئے ہیں مگریہ سب کچھ عمل کی کسوٹی پراب تک کھراثابت نہیں ہوسکاہے ۔ اس کے نتیجے میں یورپ کوشدید دھچکابھی لگ سکتاہے۔

پوری دنیاکوکوروناوائرس اوردیگربیماریوں کے وائرس سے بچانالازم ہے۔اس حوالے سے عالمگیرسطح پربیماریوں سے تحفظ فراہم کرنے کی مہم شروع کرنالازم ہے.اگریہ کام مکمل کرنا ممکن نہ ہوتب بھی کوشش توکرنی ہی ہے۔یورپ اس حوالے سے سست دکھائی دیاہے مگراب ایسالگتاہے کہ یورپی قائدین کوروناکے حوالے سے عالمگیرویکسی نیشن میں دلچسپی لے رہے ہیں۔حالیہ جی سیون سربراہ کانفرنس سے توکچھ ایساہی محسوس ہواہے۔کوروناوائرس کے حوالے سے عالمگیرسطح کی سوچ اپنانے کی ضرورت ہے۔یہ معاملہ اب عالمگیرہے۔پوری دنیامیں صحتِ عامہ کیلئےخطرات ابھرے ہیں۔ اگر اس مصیبت کاسامنااورتدارک کرناہے تومل جل کرہی کچھ کرناہوگا۔امیونائزیشن یعنی بیماریوں سے محفوظ رکھنے والے ٹیکوں اورویکسی نیشن کی مہم کامکمل کیاجانالازم نہیں۔روئے ارض پربسنے والے ہرانسان کی ویکسی نیشن ممکن ہی نہیں۔ہاں،آبادیوں کی واضح اکثریت کوویکسین دینایاٹیکے لگانا ممکن ہوسکتا ہے اوریوں بیماریوں کی روک تھام ممکن ہے۔

کیا دنیاکے ہرفردکیلئےکوروناویکسی نیشن ممکن ہے؟اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔پوری دنیاکی ویکسی نیشن تودورکی بات رہی، اب تک تمام بچوں کواس وائرس سے بچاؤکی ویکسین لگاناممکن دکھائی نہیں دے رہا۔ہاں،زیادہ سے زیادہ لوگوں کوویکسین فراہم کرنے کی کوشش ضرورکی جاسکتی ہے۔یورپ سمیت پورے مغرب نے اندازہ لگانے میں پھرغلطی کردی۔برڈفلواورسوائن فلوکے حوالے سے بھی مغرب نے غلط اندازے لگائے اورٹھوکرکھائی اورکوروناوائرس کے معاملے میں بھی یہی ہواہے۔2009ءمیں سوائن فلومیکسیکوسے پھیلااور200ممالک تک پہنچا۔اس وبانے 18ہزارسے زائد جانیں لیں۔کوروناوائرس کے حوالے سے مغرب کاخیال تھاکہ یہ ایشیاتک محدودرہے گا۔کوروناکی وباپرقابوپانے کیلئےعالمی سطح پرکی جانے والی کوششیں اب تک خاطرخواہ اثرات یقینی نہیں بناسکی ہیں تاہم ہمت ہاری نہیں گئی ہے۔کوویکس،ویکسین الائنس(گاوی) اور ایکٹ ایکسلریٹرکی لانچنگ کی گئی ہے،جس کامقصدویکسین کی دوارب خوراکوں اورٹیسٹ وغیرہ کابندوبست کرناہے۔کم آمدنی والے92ممالک میں کم وبیش چارارب افراد کیلئےکوروناویکسین کی فراہمی یقینی بنانے کی بھرپورکوشش کی جارہی ہے۔

یورپ چاہتاتوبہت کچھ ہے مگرکچھ زیادہ کرنہیں پارہا۔اب تک ویکسین کی تیاری اورفنڈنگ دونوں معاملات میں مشکلات کاسامنا رہاہے۔یورپی رہنمانے جوبائیڈن پرزوردیاہے کہ اپنی ویکسین کی پیداوارکاکم ازکم5فیصد افریقی ممالک کوفراہم کرے۔جوبائیڈن نے وعدہ کیاہے کہ امریکافوری طورپر2ارب ڈالراوردو سال کی مدت میں مجموعی طور پر4ارب ڈالرفراہم کرے گا۔جی سیون نے رواں سال انتہائی غریب ممالک میں20فیصد آبادی کی ویکسی نیشن کیلئےساڑھے سات ارب ڈالرفراہم کرنے کاوعدہ کیا ہے۔اگریہ وعدہ بھی ایفاہوجائے توکوروناکی عالمگیرویکسی نیشن کیلئےکم ازکم درکاررقم (20 ارب ڈالر)کانصف ہی حاصل ہوسکے گا۔

چین نے الزام لگایاہے کہ مغربی دنیانے کورونا ویکسین کی ذخیرہ اندوزی کرلی ہے۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی کہا ہے کہ مغرب کے10 ممالک نے75فیصدکی حدتک ویکسی نیشن کرلی ہے جبکہ130ممالک ایسے ہیں جنہیں اب تک کورونا ویکسین کی ایک خوراک بھی نہیں ملی۔ بعد میں آنے والے اعدادوشمارکے مطابق130میں سے56فیصد ممالک کواب تک کوروناویکسین کی ایک خوراک بھی نہیں مل سکی ہے۔

کوروناویکسین کامعاملہ اس لیے بھی پیچیدہ ترہوتاجارہاہے کہ پوری دنیاکواس وائرس سے بچانے کی بات ہورہی ہے۔وائرس کے نئے ورژن سامنے آئے ہیں۔ایسے میں ویکسین کی پیداواراورذخیرہ کاری اہمیت اختیارکرتی جارہی ہے۔حکومتوں کی پہلی ترجیح یہ ہے کہ کوروناویکسین سب سے پہلے اُن کے باشندوں کوملے۔اگرپسماندہ ممالک کے اربوں افرادکو یہ ویکسین بروقت نہ مل سکی توایک بارپھرکوروناوائرس کے دنیابھرمیں پھیل جانے کاخطرہ برقرار رہےگا۔عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹی او)کی پہلی خاتون سربراہ(افریقاکی)گونی اوکونجوآئیویالانے کوروناویکسین کی بنیادپر پائی جانے والی قوم پرستی سے خبردار کیاہے۔ان کاکہناہے کہ ان کی کوشش ہوگی کہ عالمی تجارتی تنظیم کی چھتری تلے معاملات درست ہو جائیں۔گونی اوکونجوآئیویالانے یہ تجویز بھی پیش کی ہے کہ کورونا ویکسین کی تیاری کے لائسنس فراہم کیے جائیں۔

چین اور روس نے اب کوروناویکسین کواپنے سفارتی مقاصد کیلئےبروئے کارلاناشروع کردیاہے۔چین’’سائنوویک‘‘کے زیرعنوان کوروناویکسین تیارکر رہاہے مگراُس نے کوویکس ویکسین کی ہوانہیں لگنے دی ہے۔روس بھی کوروناویکسین کوسفارتی وزن بڑھانے کیلئےاستعمال کرنے کی راہ پرگامزن ہے۔ اب یورپ کوبھی احساس ہورہاہے کہ ردِعمل ظاہرکرنے کاوقت آگیاہے۔اسپین کا ارادہ ہے کہ اپریل کے وسط میں آئبیروامریکاسربراہ کانفرنس میں کورونا ویکسین متوسط آمدن والے ممالک کوفراہم کرنے کا معاملہ اٹھایاجائے۔افریقا میں آبادی کابڑاحصہ نوجوانوں پرمشتمل ہے اس لیے وہاں کوروناویکسی نیشن کی فوری ضرورت محسوس نہیں کی جارہی۔یورپ کوکوروناوائرس سے محفوظ رکھنے کیلئےافریقامیں بھی ویکسی نیشن بہر کیف لازم ہے۔

ایک بارپھرناگزیرہے کہ کوروناوائرس کی روک تھام کیلئےویکسی نیشن اورعلاج سے متعلق کوششوں کومربوط کیاجائے۔یورپ نے ویکسین کی خریداری کومرکزی نظام کے تحت کرنے کی بات کرکے عالمگیراشتراکِ عمل کاڈول ڈالاہے۔یورپ نے کوروناکی وباسے نمٹنے کے معاملے میں ابتدائی مرحلے میں بُودے پن کامظاہرہ کیاتھامگراب وہ سنبھل چکاہے اوراہم اقدامات کررہاہے۔جی ٹوئنٹی نے پلان آف ایکشن تیارتوکرلیاتھامگراس پراب تک عمل نہیں ہوپایا۔کوروناوائرس کے نئے ورژن سامنے آئے ہیں جبکہ دوسری بیماریاں بھی ہیں جن سے بروقت نمٹنالازم ہے۔یہ تصورتیزی سے جڑ اورزورپکڑرہا ہے کہ ہم سب ایک ہی کشتی کے سوارہیں اورآپ تب ہی محفوظ ہوں گے جب ہرشخص محفوظ ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں