Respect For Women I In Islam

حُرمتِ نسواں

:Share

کائنات میں اللہ رب العالمین نے زندگی کا نظام چلانے کیلئےمردکے ساتھ عورت کو بھی پیدا کیا،ان کا دائرہ کار متعین کیا اور پھراس نظام زندگی کوچلانے کیلئے مرد اورعورت کے حقوق وفرائض متعین کئے جس میں ہرایک صنف اپناحصہ وصول کرنے کے ساتھ ساتھ دوسری صنف کے فرائض بھی اداکرنے کاپابند ہے تاکہ کسی ایک میں بھی احساس محرومی اورردّعمل پیدانہ ہو۔انسان اورانسانی تہذیب جہاں اپنی فطری کمزوری کے سبب افراط وتفریط کاشکارہوتی ہے وہاں سے معاشرے میں بگاڑپیداہوناشروع ہوگیا۔قدیم جاہلیت نے سارا زورمرد کی برتری ثابت کرنے پرلگادیااورجدیدجاہلیت نے ردِّعمل کاشکارہوکرعورت کوبرابری کی دوڑ میں شریک کرناچاہالیکن وہ اپنی حیثیت سے ایسےآگے نکلی کہ اب اسے بالمقابل کھڑا مردسست لگ رہاہے۔

تاریخی اعتبارسے دیکھاجائے تواسلام میں بنیادی حقوق کاتصوراتناہی قدیم ہے جتناانسان کاوجود۔خالقِ کائنات نے جس طرح طبعی زندگی کے اسباب ہوا،پانی اورخواراک پیدائش سے پہلےعطاکردئیے تھے،اسی طرح ضابطہءحیات سے آدم ؑاورنسل آدم کوبذریعہ وحی آگاہ کرنے کاسلسلہ بھی شروع کردیاتھاجوآدم ؑ سے شروع ہوکرمحمدﷺپرختم ہوا۔یہ اسلام ہی تھاجس نے بیٹیوں کوزندہ درگور کرنے والی قوم میں عورت کوایسی فضیلت بخشی جواس سے پہلے کسی بھی تہذیب نے اس کاتصورتک بھی نہیں کیاتھا۔ان ادوارکے درمیان دورِاسلام کواگرہم دیکھتے ہیں تووہاں سورةالتکویر کی آیت ہمارے سامنے آجاتی ہے: اورجب اس لڑکی سے جوزندہ دفنادی گئی ہوپوچھاجائے گاکہ وہ کس گناہ کے جرم میں ہلاک کی گئی۔(التکویر:8-9) اس آیت کی صدا سے جو مقدمہ اللہ کی عدالت میں درج ہوتاہے اس کے جواب میں اسلام میں کائنات پرعورت کی عظمت اوراس کا مقام ہر مرد کا جزو لاینفک بنا کر دونوں کے درمیان حقوق و فرائض کاجو متوازن نظام تشکیل دیاوہ قابل عمل بنایا گیاجو آج بھی بھٹکی ہوئی انسانیت کیلئے رہنما اصول ہیں۔کیونکہ اسلام ایک مضبوط پائیدارمعاشرہ کی بقاء چاہتاہے۔اس کیلئے خاندان کا استحکام،معاشرہ کااستحکام اورخاندان کی بربادی معاشرہ کی بربادی ہے۔

یونانیوں اوررومیوں نے تہذیب وتمدن اورعلوم وفنون میں اس قدرترقی کی کہ اس بنیادپربہت سی تہذیبیں اوربہت سے علوم وجودمیں آئے لیکن ان کے ہاں عورت کا مقام بہت ہی بے وقعت تھا،عورت کو انسانیت پر بار سمجھتے تھے اور اس کا مقصدان کے نزدیک سوائے اس کے کچھ نہیں تھا کہ خادمہ کی طرح گھر والوں کی خدمت کرتی رہے۔اہل یونان اپنی معقولیت پسندی کے باوجودعورت کے بارے میں اپنے تصورات رکھتے تھے،ان کاقول تھا: آگ سے جل جانے اور سانپ کے ڈسنے کاعلاج ممکن ہے لیکن عورت کے سترکامداوا محال ہے۔

اسی طرح منفی تعلق دوتہائیوں کے درمیان حرکت کرتارہا۔ایک مرتبہ صرف اسے حیوانی تعلق سمجھاگیا،پھرشیطانی گندگی اور نجاست خیال کیاگیااور پھر دوبارہ حیوانی تعلق خیال کیاگیا۔یہ سب کچھ ہوامگرمغرب کے جاہلی نظام ہائے حیات میں کبھی اس مسئلہ میں ایسا کوئی معتدل رویّہ اختیارنہیں کیاگیاجوانسان کی فطرت کے مناسب ہو۔ان کے یہاں عورت کے بارے میں یہ تصورکبھی بھی نہیں ابھراکہ عورت نفس انسانی کاایک حصہ،جنس بشری کی خالق،بچوں کے کاشانہ زندگی کی محافظ اورانسان کے عناصروجودکی امانت دارہے اورکسی نظام اورعمل کی بہتری کی بجائے اسے انسان کی فلاح وبہبودکے فرائض انجام دیناہے۔

افلاطون نے بلا شبہ مرد اور عورت کی مساوات کا دعویٰ کیا تھالیکن یہ تعلیم محض زبانی تھی عملی زندگی اس سے بالکل غیر مؤثرتھی۔ازدواج کامقصدخالص سیاسی رکھا گیایعنی یہ کہ اس سے طاقتور اولاد پیدا ہو جو حفاظت ملک کے کام آئے اور یونان کے قانون میں تو یہ تصریح موجود تھی کہ کمسن وضعیف شوہروں کو اپنی بیویاں کسی نوجوان کے حبالہءعقدمیں دے دینا چاہیے تاکہ فوج میں قوی سپاہیوں کی تعداد میں اضافہ ہو۔

یونانیوں کے بعد جس قوم کودنیامیں عروج نصیب ہواوہ اہل روم تھے،عورت کامرتبہ رومی قانون نے بھی ایک عرصہ درازتک نہایت پست رکھا ۔افسر خاندان جوباپ ہوتایاشوہراسے اپنے بیوی بچوں پرپورااختیارحاصل تھااوروہ عورت کوجب،جیساچاہے گھرسے نکال سکتاتھا۔جہیزیادلہن کے والدکونذرانہ دینے کی رسم کچھ بھی نہ ہوتی اورباپ کواس قدراختیارحاصل تھاکہ جہاں چاہے اپنی لڑکی کوبیاہ دے،بلکہ بعض دفعہ تووہ شادی کرکے توڑسکتاتھا۔زمانہ مابعدیعنی دورِ تاریک میں یہ حق باپ کی طرف سے شوہرکی طرف منتقل ہوگیااوراب اس کے اختیارات یہاں تک وسیع ہوگئے کہ وہ چاہے توبیوی کوقتل کرسکتاتھا۔ 520ءتک طلاق کا کسی نے نام بھی نہ سنا۔

تاہم گزشتہ صدی میں معاشرے کیلئےعورت کی اہمیت کااندازہ نپولین بوناپارٹ کے اس قول سے ہوتاہے”تم مجھے اچھی مائیں دو،میں تمہیں اچھی قوم دوں گا”۔عورت کی گودمدرسے کی مانندہے،یہاں انبیانے بھی پرورش پائی،صدیقین وشہدانے بھی،مجاہدجرنیلوں اور غازیوں نے بھی….. جوتاریخ میں اپنانام سنہری حرفوں میں ثبت کراگئے،اسی گودمیں پرورش پانے والوں نے چنگیزخان،ہلاکوخان اورہٹلربن کر،تاریخ انسانی میں ظلم کے سیاہ باب رقم کئے۔

وہ خواتین جنہوں نے بعدمیں آنے والے تازہ ادوارمیں افغانستان،کشمیر،چیچنیا،بوسنیا،فلسطین اوراراکان میں محمودغزنوی،صلاح الدین ایوبی،محمدبن قاسم اورٹیپو سلطان جیسےلاکھوں”دشمن کوبچھاڑنے والے”پیداکئے،دشمن کواس فکرمیں مبتلاکرگئیں کہ اگرمسلم خواتین ایسے ہی شیردل تیارکرتی رہیں تودنیاسے ان کے مقاصد کابوریابسترگول ہوجائے گاچنانچہ انہوں نے مسلم معاشروں میں جال پھینکنے کاپلان بنایااورخواتین کواحیائے اسلام کے راستے سے دورکرنے کیلئے،انہیں خانہ داری،بچوں کی تعلیم وتربیت اورمجاہد صفت افراد تیارکرنے کے کاموں سے بیزارکرکے آزادیٔ نسواں کاشوشاچھوڑا۔ایسی تحریکیں وجود میں آئیں جوعورت کیلئےفطرت کے ودیعت کردہ کاموں کوعورت پرظلم اوراس کااستحصال قراردینے لگیں۔آزادیٔ نسواں کے نام پرتفریخ ونشاط کی محفلیں سجانا شروع کیں،انہیں فیشن پرستی،بے پردگی کے بعدعریانی کی راہ پر گامزن کرناشروع کیا، چادر اور چاردیواری کودورِ قدیم کی علامت قراردے کراس قیدو بند سے باہرآنے کی راہ سجھائی جانے لگی۔وہ علامتیں جوعورت کی صفت وعصمت کی نگہبان تھیں،تہذیب ِجدید میں عورت کی آزادی کے نعروں کے شورمیں ان پرخوب فقرے کسے گئے۔ان کوعورت کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ اوردقیانوسیت قراردے کرعورت کوان سے نفرت دلائی گئی،پھرمساواتِ مردوزن کازہر گھول کر،معاشی ذمے داریاں بھی ان کے نازک کاندھوں پر ڈالنے کی کوششوں کاآغاز ہوا۔یہ تہذیبِ ابلیس کاجال تھا،جس نے مسلم عورت کواپنے چنگل میں جکڑلیااورپھرٹی وی،فلم اورڈش ایسے ہتھیارثابت ہوئے جن کی آمدکے بعدتہذیبِ جدیدکے نعرہ مساوات ِمردوزن کوکھل کھیلنے کاموقع ملا۔

مسلم عورت کوگھرسے باہرنکال کرشمع محفل بنانے اورمردکی برابری کی راہ سجھانے میں مغرب کاہاتھ تھا۔اس کاخیال تھاکہ جب تک مسلم معاشروں کی عورت کونہ بگاڑاجائے اُس وقت تک مسلم دنیاکااولاًخاندانی اورثانیاًمعاشرتی نظام نہ بگڑے گااورجب تک مسلم دنیا معاشرتی زبوں حالی اورٹوٹ پھوٹ کاشکار نہ ہوگی اُس وقت تک”نیوورلڈآرڈر”کاخواب شرمندہ تعبیرنہیں ہوسکتاچنانچہ ابتدائی اقدام کے طورپر”خواتین کے حقوق وآزادی”کے درپردہ”خاتون بگاڑ”تحریکیں شروع کی گئیں اورمسلم خاتون کوبھی مغرب کی خاتون کی طرح استحصال کی راہ پرڈال دیاگیا۔اس آوازپر”روشن خیال”بیگمات نے لبیک کہا، عورت سے متعلق قوانین اسلامی پر تنقیدیں کی گئیں ،اپنی مرضی کی تاویلیں ایجادکی گئیں،عورت پر عائد اسلامی حدود و قیود (جوحقیقت میں صنف ِنازک ہونے کے ناتے، بعض ذمے داریوں سے اسے عہدہ براکرتے ہیں،اوربعض احتیاطوں کاپابندبناکراسے شرف ومرتبہ عطاکرتے ہیں)کوعورت پرظلم قرار دیاگیا،اوراسلامی لبادہ جوخود انہوں نے اتارکردورپھینک دیاتھادیگرخواتین کوبھی اسے اتارپھینکنے کامشورہ دے کرمغرب کے اس پروگرام کوبڑھ چڑھ کر کامیاب بنایا۔مغرب کی جس عورت کی پیروی کی راہ پرمسلم عورت کوگامزن کیاجارہاہے کیاوہ کامیاب ہے؟

یورپ کی خواتین کی آزادانہ سرگرمیوں سے متاثرہوکر،تہذیبِ جدیدمیں آزادیٔ نسواں اورمساوات،مردوزن کے نام پرعوت کوگھرچھوڑ کرباہرکی راہ اختیارکرنے کی جوترغیب دلائی جارہی ہے وہ راہ مغرب کی عورت نے اُس وقت اختیارکی تھی جب وہاں صنعتی انقلاب برپاہوا۔اشیاکی قیمتیں بڑھیں توکم آمدنی والے افراد کیلئےگزارہ کرنامشکل ہوگیا۔ اس عالم میں عورت کسبِ معاش میں مردکاہاتھ بٹانے کیلئے میدان میں نکل کھڑی ہوئی۔ابتدامیں اس نے محسوس کیاکہ اسے پہلے کی بہ نسبت معاشرے میں حیثیت ومقام حاصل ہوا ہے ۔اس نے معاشی کاموں سے مردکوسہارادیناشروع کیااوردوسری طرف معاشرتی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کرحصہ لینے لگی ۔ابتدا کے یہ خوشگوارنتائج جب انتہائی درجے کوپہنچے تو ان کی صورت انتہائی مسخ ہوچکی تھی،جب عورت نے گھربارچھوڑکرمعاش ومعاشرت کوترجیح دینا شروع کی تووہ انتہائی تلخ حقائق سے دوچارہوئی ۔

اب فطرت کے عائد کردہ کام یعنی بچوں کی پرورش اورتعلیم وتربیت تواسے کرناہی تھے مگرجب مردکی برابری اختیارکرکے فطرت کی مشیت کی نفی کی اور معاش جیساکام بھی ازخوداپنے کا ندھوں پراٹھایاتواسے معلوم ہونے لگاکہ اسے مردکی برابری کے دھوکے میں مردکے مقابلے میں دوہری ذمے داریاں ادا کرناپڑرہی ہیں چنانچہ اس کے بعدوہ مادرانہ ذمے داریوں سے گریزکی راہ اختیارکرنے لگی جس کانتیجہ یہ برآمدہواکہ مغربی معاشرہ تتربترہوگیا۔اب مغربی گھرویران مگر سڑکیں،کلب،ہوٹل اوردفاتربارونق ہو گئے،بچے ماؤں کی ممتاسے محروم ہوکرجب بے بسی کی زندگی گزارتے ہیں تووہ”بے حس”تیارہوتے ہیں۔بیماربوڑھے والدین ہمدردی کے دوبول کوترستے ہیں،مشرقی معاشروں کی طرح انہیں”تراشیدہ ہیرا”سمجھ کراہم خاندانی معاملات میں ان سے رائے طلب نہیں کی جاتی،نہ ان کو”قیمتی گوہر”کی حیثیت دی جاتی ہے،بلکہ جوانی میں عیش ونشاط سے بھرپورزندگی گزارکرجب وہ بڑھاپے کی جانب گامزن ہوتا ہے تواسے غیرضروری قرار دے کر”اولڈایج ہومز”کی طرف دھکیل دیاجاتاہے۔

خاندانی نظام تلپٹ ہوگیاہے،افرادِخانہ کے مابین محبت والفت کے جذبات کوئی معنی نہیں رکھتے۔گھر کے سکون کو ٹھوکر مار کر جب عورت باہر نکلی تو ہزاروں ہولناک نگاہوں کا شکار ہوئی۔بے حیائی عام ہوئی اورپھرایسی بے حیاتہذیب نے جنم لیاکہ شرافت کالبادہ تار تارہوگیا۔ماد ی ونفسانی خواہشات کی دوڑسے بھرپور مگرالفت ومحبت سے عاری اس جرائم زدہ معاشرے کے بچوں میں خودکشی کی شرح بہت زیادہ ہے۔بچے اپنی تنہائیوں کاغم”منشیات”سے مٹاتے ہیں یا والدین ان پریہ احسان کرتے ہیں کہ انہیں”چائلڈکیئرسینٹرز”میں داخل کرکے اپنی خلاصی کرلیں۔عورت کسی بھی موقع پرہمدردی کی مستحق نہیں ہوتی ۔مغربی مردآج بھی یہی چاہتے ہیں کہ عورت ہرمعاملے میں ان کاصادرکیاہواحکم تسلیم کرے اورہرحال میں گھریلواورمعاشی ذمے داریاں اداکرے۔

مغرب کی معاشرت کاحال یہ ہواکہ عورت نے مساوات کے فریب میں خوداپنے جسم وجان پرظلم کاباب کھولا،جی بھرکے اپنا استحصال کرایااورفطرت نے صنفِ نازک ہونے کی حیثیت میں جن ذمے داریوں سے اس کودوررکھاتھاخودہی ان کاہاراپنے کاندھوں پراٹھایا۔آزادیٔ نسواں اورمردکی برابری کے نعرے نے مغربی معاشرے کوافراتفری وانتشارسے دوچارکیاہے اورعورت کوظلم و استحصال کی منہ بولتی تصویربنادیاہے۔کیامغربی عورت اورمغربی معاشرے کی حالتِ زارایسی ہی قابلِ تقلیدہے کہ مسلم معاشروں کو بھی اسی رخ موڑدیاجائے؟اورمسلم عورت جومعاشرتی نظم وضبط ،حیاکے فروغ،عصمت وعفت کی حفاظت اورخاندانی نظام کے استحکام میں ذمہ دارکرداراداکررہی ہے،اسے آزادیٔ نسواں کے نام پرتفریح ونشاط،فیشن وبے پردگی،کسبِ معاش کاراستہ دکھایا جائے اورہوٹلوں،کلبوں،مخلوط محفلوں،تھیٹروں اورٹی وی کی اسکرین کی رونق بناکراستحصال کی راہ پرڈال دیاجائے؟

حوا کی بیٹی کوہرجگہ آزادی وبرابری کے دھوکے میں ظلم واستحصال کاتحفہ ملاہے مگراس کے باوجود اسے اس راہ پرچلانے کا عمل جاری ہے،آزادی و برابری کے سفر پر حوا کی بیٹی کوگامزن کرنے والوں کومغرب کے ٹوٹے پھوٹے معاشرے سے ضرورعبرت پکڑنی چاہئے،وہ معاشرہ جس میں خواتین کی آزادی کی پُرزور حمایتی خواتین،اپنے خیالات پر نظرثانی کرنے پرمجبور ہو گئیں۔بی ٹی فریڈن جومغرب میں خواتین کی آزادی کی پرجوش علم بردارتھیں اپنی کتا ب میں لکھتی ہیں: “کیااولادسے نجا ت حاصل کرکے یا خاندان کے ادارے سے باہرنکل کرعورت حقیقی معنوں میں امن و سکون حاصل کر سکتی ہے؟ “آزادیٔ نسواں ومساواتِ مردوزن کا نعرہ لگا نے والی ایک اورخاتون جرمن گریئرکہتی ہیں:”ہمارے سب اندازے غلط ثابت ہوئے،ہمیں ملازمت سے زیادہ گھرکی ضرورت ہے۔”

احترام ِآدمیت اورنوع ِبشرکی برابری کے نظام کی بنیادڈالنے کے بعداسلام نے اگلے قدم کے طورپرعالم ِانسانیت کومذہبی،اخلاقی، معاشی ،معاشرتی اور سیاسی شعبہء ہا ئے زندگی میں بے شمارحقوق عطاکیے۔انسانی حقوق اورآزادیوں کے بارے میں اسلام کا تصورآفاقی اوریکساں نوعیت کاہے جوزمان ومکاں کی تاریخی اور جغرافیائی حدودسے ماوراءہے۔اسلام میں حقوقِ انسانی کامنشوراللہ کا عطاکردہ ہے اوراس نے یہ تصوراپنے آخری پیغمبرنبی کریمﷺکی وساطت سے دیا ہے ۔اسلام کے تفویض کردہ حقوق اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک انعام کے طورپرعطاکیے گئے ہیں اوران کے حصول میں انسانوں کی محنت اورکوشش کا کوئی عمل دخل نہیں۔دنیا کے قانون سازوں کی طرف سے دیئے گئے حقوق کے برعکس یہ حقوق مستقل بالذات،مقّدس اورناقابل تنسیخ ہیں ان کے پیچھے الٰہی منشا و ارادہ کار فرما ہے اس لیے انہیں کسی عذر کی بناء پر تبدیل،ترمیم یامعطل نہیں کیا جا سکتا۔ایک حقیقی اسلامی ریاست میں ان حقوق سے عام شہری مستفیض ہو سکیں گے۔اورکوئی ریاست یافرد ِواحدان کی خلاف ورزی نہیں کرسکتااورنہ ہی وہ قرآن و سنّت کی طرف عطاکردہ بنیادی حقوق کومعطل یا کالعدم قراردے سکتاہے۔

پس اے روشن خیال حضرات وبیبیو!مغرب کی نظروں کوخیرہ کرنے والی چمک دمک کی طرف مت لپکوکہ یہ توجھو ٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے۔ بییٹاں قوم کی عزت ہوتی ہیں اورجوقوم اپنی بیٹی کوعزت نہیں دے سکتی،وہ ترقی نہیں کرسکتی ۔مغربی معاشرے میں عورت کاکوئی مقا م نہیں،18ملین بچے امریکامیں اپنی شناخت سے محروم ہیں،12.5ملین خواتین ڈپریشن کاشکارہیں،خواتین کواغواکرنا ،انہیں قیدکرنا،اس کواپنے بچوں سے ملنے سے محروم کرنا امریکا کادہرا معیارہے۔ مغربی تہذیب کی دلداد ہ آنٹیاں ڈالرزاورمراعات کے عوض مغرب کی آلہ کاربن رہی ہیں،اورمسلم معاشرے کے خلاف علم بغاوت بلند کررہی ہیں،گویااپنے ہی ہاتھوں اپنے آنگن کوآگ دکھا رہی ہیں۔انہیں معلوم نہیں کہ اسلامی خاندانی نظام کاتحفظ ہی مسلمان خاتون کی آبروکی ضمانت ہے۔
رہے نام میرے رب کاجس نےعورت کوایک ممتازمقام عطاکیالیکن ہم نے دنیاداری میں اس کوبھلادیا!
زمانے والے جسے سوچنے سے خائف تھے
وہ بات اہل جنوں محفلوں میں کرتے رہے

اپنا تبصرہ بھیجیں