معاشرے کیلئے عورت کی اہمیت کااندازہ نپولین کے اس قول سے ہوتاہے”تم مجھے اچھی مائیں دو،میں تمہیں اچھی قوم دوں گا” ۔ عورت کی گودمدرسے کی ما نندہے،یہاں انبیانے بھی پرورش پائی،صدیقین وشہدانے بھی،مجاہدجرنیلوں اورغازیوں نے بھی ….. جوتاریخ میں اپنانام سنہری حرفوں میں ثبت کرا گئے، اسی گودمیں پرورش پانے والوں نے چنگیزخان،ہلاکوخان اورہٹلربن کرتاریخ انسانی میں ظلم کے سیاہ باب رقم کئے۔
وہ خواتین جنہوں نے بعدمیں آنے والے تازہ ادوارمیں افغانستان،کشمیر،چیچنیا،بوسنیا،فلسطین اوراراکان میں محمودغزنوی، صلاح الدین ایوبی،محمدبن قاسم اورٹیپوسلطان جیسےلاکھوں”دشمن کوبچھاڑنے والے”پیداکئے،دشمن کواس فکرمیں مبتلاکر گئیں کہ اگر مسلم خواتین ایسے ہی شیردل تیارکرتی رہیں تودنیاسے ان کے مقاصدکابوریابسترگول ہوجائے گاچنانچہ انہوں نے مسلم معاشروں میں جال پھینکنے کاپلان بنایااورخواتین کواحیائے اسلام کے راستے سے دورکرنے کیلئے،انہیں خانہ داری، بچوں کی تعلیم وتربیت اورمجاہد صفت افرادتیارکرنے کے کاموں سے بیزارکرکے آزادیٔ نسواں کاشوشاچھوڑا۔ایسی تحریکیں وجود میں آئیں جوعورت کیلئے فطرت کے ودیعت کردہ کاموں کوعورت پرظلم اوراس کااستحصال قراردینے لگیں۔آزادیٔ نسواں کے نام پرتفریخ ونشاط کی محفلیں سجاناشروع کیں،انہیں فیشن پرستی،بے پردگی کے بعدعریانی کی راہ پرگامزن کرناشروع کیا،چادراورچاردیواری کودورِ قدیم کی علا مت قراردے کراس قیدوبندسے باہرآنے کی راہ سجھائی جانے لگی۔وہ علامتیں جو عورت کی صفت وعصمت کی نگہبان تھیں،تہذیب ِجدیدمیں عورت کی آزادی کے نعروں کے شورمیں ان پرخوب فقرے کسے گئے۔ان کوعورت کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ اوردقیانوسیت قراردے کرعورت کوان سے نفرت دلائی گئی،پھرمساواتِ مردوزن کازہرگھول کر،معاشی ذمے داریاں بھی ان کے نازک کاندھوں پرڈالنے کی کوششوں کاآغازہوا۔یہ تہذیبِ ابلیس کاجال تھاجس نے مسلم عورت کواپنے چنگل میں جکڑ لیااورپھرٹی وی،فلم اورڈش ایسے ہتھیارثابت ہوئے جن کی آمدکے بعدتہذیبِ جدید کے نعرہ مساوات ِ مرد و زن کوکھل کھیلنے کا موقع ملااورآج حال یہ ہے کہ اپنے ہاتھوں سے بوئی ہوئی فصل”میراجسم میری مرضی”ہمارے دامن کوخاکسترکرنے کیلئے تیارکھڑی ہے۔
ہماری ایک اوربدقسمتی جوعلم ودانش کے نام پرہمیں لوٹ رہی ہے وہ آئے دن ہمارے دانشوروں کے ہاتھوں ہورہی ہے جو غربت کاعلاج فائیویا سیون اسٹارز ہوٹلوں کے یخ یاگرم میزوں پربیٹھ کراپنی دھواں دھارتقریروں میں بتارہے ہوتے ہیں یاپھر یہی دانشورعلمی ڈھول بجاتے ہوئے اپنے علم کی ابکائیوں سے کررہے ہوتے ہیں۔ان دنوں کروناوائرس سےکہیں زیادہ خطرناک “میراجسم میری مرضی”کاوائرس تیزی سے پھیلانے کی سازش ہورہی ہے۔رہی سہی کسی پلاننگ کے نام پرڈھیروں کتابیں، رپورٹیں ،بروشرکے نام پرلکھے جارہے ہیں اوربیچ چوک میں اس ردّی کے ڈھیر کوہم نے بارہابکتے دیکھاہے۔دورنہ جائیں ،آپ نارکلی لاہورمیں مال روڈ کی طرف سے جب داخل ہوں توآپ کواس گندی اورغلیظ سڑک پربیش بہا قیمتی علم کے موتی چھپائے زبان حال سے اپنی فریادکرتی ہوئی سرسید،حالی،غالب،ابن سیناء،فارانی ،اقبال،قائداعظم پر لکھی ہوئی کتابیں نظر آئیں گی اوربالکل اس کے مقابل شوکیس میں سجے ہوئے جوتےبھی دکھائی دیں گے۔
ہمارے یہ دانشورعمل کے لحاظ سے اتنے کورے ہیں کہ قوم کوبتائے ہوئے فارمولوں پرخودجنبش تک نہیں کرتے اوراس قوم سے توقع کرتے ہیں کہ جب یہ اپنی سواریوں سے نیچے اتریں تواس کادروازہ کھولنے کیلئے میزبان قطارمیں کھڑے ہوں اور نعروں کی گونج میں ان کوجلسہ گاہ یاتقریرکے جوہردکھانے والے ہال کے اسٹیج پرپھولوں کے ہارپہناکربٹھائیں اورمیزبان تعارفی کلمات میں زمین آسمان کے قلابے ملادے ۔میں ایمانداری سے سمجھتاہوں کہ وہ علم جوکبھی نیت نہ بن سکا،وہ نیت جوارادہ نہ بن سکی،وہ ارادہ جوعزم نہ بن سکا،اوروہ عزم جوکسب نہ بن سکا،وہ کسب جوعمل نہ بن سکا،وہ عمل جونتیجہ نہ لاسکا،وہ نتیجہ جومحاسبہ نہ کراسکا،وہ محاسبہ جوتوبہ نہ کراسکا، ایسے علم کے بارے میں تومیرارب ببانگ دہل تنبیہ فرماتا ہے،” كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا” ان کی مثال گدھے کی سی ہے جن پر بڑی بڑی کتابیں لدی ہوں۔
مسلم عورت کوگھرسے باہرنکال کرشمع محفل بنانے اورمردکی برابری کی راہ سجھانے میں مغرب کاہاتھ تھا۔اس کاخیال تھاکہ جب تک مسلم معاشروں کی عورت کونہ بگاڑاجائے اُس وقت تک مسلم دنیاکااولاًخاندانی اورثانیاًمعاشرتی نظام نہ بگڑے گا اور جب تک مسلم دنیامعاشرتی زبوں حالی اورٹوٹ پھوٹ کاشکارنہ ہوگی اُس وقت تک”نیوورلڈآرڈر”کاخواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتاچنانچہ ابتدائی اقدام کے طورپر”خواتین کے حقوق وآزادی”کے درپردہ “خاتون بگاڑ”تحریکیں شروع کی گئیں اور مسلم خاتون کوبھی مغرب کی خاتون کی طرح استحصال کی راہ پرڈال دیاگیا۔اس آوازپر”روشن خیال”بیگمات نے لبیک کہا، عورت سے متعلق قوانین اسلامی پرتنقیدیں کی گئیں،اپنی مرضی کی تاویلیں ایجادکی گئیں،عورت پرعائداسلامی حدودو قیود(جوحقیقت میں صنف ِ نازک ہو نے کے ناتے،بعض ذمے داریوں سے اسے عہدہ براکرتے ہیں اوربعض احتیاطوں کاپابند بنا کراسے شر ف ومرتبہ عطا کرتے ہیں) کو عورت پرظلم قراردیاگیااوراسلامی لبادہ جوخودانہوں نے اتارکردورپھینک دیاتھا دیگر خواتین کوبھی اسے اتار پھینکنے کامشورہ دے کرمغرب کے اس پرو گرام کوبڑھ چڑھ کرکامیاب بنایا۔مغرب کی جس عورت کی پیروی کی راہ پرمسلم عورت کوگامزن کیاجارہاہے کیاوہ کامیاب ہے؟
یورپ کی خواتین کی آزادانہ سرگرمیوں سے متاثرہوکر،تہذیبِ جدیدمیں آزادیٔ نسواں اورمساوات،مردوزن کے نام پرعوت کوگھر چھوڑکرباہرکی راہ اختیارکرنے کی جوترغیب دلا ئی جارہی ہے وہ راہ مغرب کی عورت نے اُس وقت اختیارکی تھی جب وہاں صنعتی انقلاب برپاہوا۔اشیاکی قیمتیں بڑھیں توکم آمدنی والے افرادکیلئے گزارہ کرنامشکل ہوگیا۔اس عالم میں عورت کسبِ معاش میں مردکاہاتھ بٹانے کیلئے میدان میں نکل کھڑی ہوئی۔ابتدامیں اُس نے محسوس کیاکہ اسے پہلے کی بہ نسبت معاشرے میں حیثیت ومقام حاصل ہواہے۔اس نے معاشی کاموں سے مردکوسہارادیناشروع کیااوردوسری طرف معاشرتی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگی۔ابتداکے یہ خوشگوارنتائج جب انتہائی درجے کوپہنچے توان کی صورت انتہائی مسخ ہوچکی تھی،جب عورت نے گھربارچھوڑکرمعاش ومعاشرت کوترجیح دیناشروع کی تووہ انتہائی تلخ حقائق سے دوچارہوئی۔
اب فطرت کے عائدکردہ کام یعنی بچوں کی پرورش اورتعلیم وتربیت تواسے کرناہی تھے مگرجب مردکی برابری اختیارکرکے فطرت کی مشیت کی نفی کی اور معاش جیساکام بھی ازخوداپنے کاندھوں پراٹھایاتواسے معلوم ہونے لگاکہ اسے مردکی برابری کے دھوکے میں مردکے مقابلے میں دوہری ذمے داریاں اداکرناپڑرہی ہیں چنانچہ اس کے بعدوہ مادرانہ ذمے داریوں سے گریز کی راہ اختیار کرنے لگی جس کانتیجہ یہ برآمدہواکہ مغربی معاشرہ تتربترہو گیا۔اب مغربی گھرویران مگرسڑکیں، کلب،ہوٹل اور دفاتربارونق ہوگئے،بچے ماؤں کی ممتاسے محروم ہوکرجب بے بسی کی زندگی گزارتے ہیں تو وہ”بے حس” تیار ہوتے ہیں۔بیمار بوڑھے والدین ہمدردی کے دوبول کوترستے ہیں،مشرقی معاشروں کی طرح انہیں”تراشیدہ ہیرا”سمجھ کراہم خاندانی معاملات میں ان سے رائے طلب نہیں کی جاتی،نہ ان کو”قیمتی گوہر”کی حیثیت دی جاتی ہےبلکہ جوانی میں عیش ونشاط سے بھرپورزندگی گزارکرجب وہ بڑھاپے کی جانب گامزن ہوتاہے تواسےغیرضروری قراردے کر “اولڈ ایج ہومز”کی طرف دھکیل دیاجاتاہے۔
خاندانی نظام تلپٹ ہوگیاہے افرادِخانہ کے مابین محبت والفت کے جذبات کوئی معنی نہیں رکھتے۔گھرکے سکون کوٹھوکرمار کر جب عورت باہرنکلی تو ہزاروں ہولنا ک نگاہوں کاشکارہوئی۔بے حیائی عام ہوئی اورپھرایسی بے حیاتہذیب نے جنم لیا کہ شرافت کا لبادہ تارتارہوگیا۔مادی ونفسانی خواہشات کی دوڑسے بھرپورمگرالفت ومحبت سے عاری اس جرائم زدہ معاشرے کے بچوں میں خودکشی کی شرح بہت زیادہ ہے۔بچے اپنی تنہائیوں کاغم”منشیات”سے مٹاتے ہیں یاوالدین ان پریہ احسان کرتے ہیں کہ انہیں”چائلڈ کیئرسینٹرز”میں داخل کرکے اپنی خلاصی کرلیں۔عورت کسی بھی موقع پرہمدردی کی مستحق نہیں ہوتی۔مغربی مردآج بھی یہی چاہتے ہیں کہ عورت ہرمعاملے میں ان کاصادرکیاہواحکم تسلیم کرے اورہرحال میں گھریلواورمعاشی ذمے داریاں اداکرے۔
مغرب کی معاشرت کاحال یہ ہواکہ عورت نے مساوات کے فریب میں خوداپنے جسم وجان پرظلم کاباب کھولا،جی بھرکے اپنا استحصال کرایااورفطرت نے صنفِ نازک ہونے کی حیثیت میں جن ذمے داریوں سے اس کودوررکھاتھاخودہی ان کاہاراپنے کا ندھوں پراٹھایا۔آزادیٔ نسواں اورمردکی برابری کے نعرے نے مغربی معاشرے کوافراتفری وانتشارسے دوچارکیاہے اورعورت کو ظلم واستحصال کی منہ بولتی تصویربنادیاہے۔کیامغربی عورت اورمغربی معاشرے کی حالتِ زارایسی ہی قابلِ تقلیدہے کہ مسلم معاشروں کوبھی اسی رخ موڑدیاجائے؟اورمسلم عورت جومعاشرتی نظم وضبط،حیاکے فروغ، عصمت عفت کی حفاظت اور خاندانی نظام کے استحکام میں ذمہ دارکرداراداکررہی ہے اسے آزادیٔ نسواں کے نام پرتفریخ ونشاط،فیشن وبے پردگی، کسبِ معاش کاراستہ دکھایاجائے اورہوٹلوں،کلبوں،مخلوط محفلوں،تھیٹروں اورٹی وی کی اسکرین کی رونق بناکراستحصال کی راہ پر ڈال دیاجائے؟
حواکی بیٹی کوہرجگہ آزادی وبرابری کے دھوکے میں ظلم واستحصال کاتحفہ ملاہےمگراس کے باوجوداسے اس راہ پرچلانے کا عمل جاری ہے،آزادی وبرابری کے سفرپرحواکی بیٹی کوگامزن کرنے والوں کومغرب کے ٹوٹے پھوٹے معاشرے سے ضرور عبرت پکڑنی چاہئے،وہ معاشرہ جس میں خواتین کی آزادی کی پُرزورحمایتی خواتین،اپنے خیالات پرنظرثانی کرنے پرمجبورہو گئیں۔ بی ٹی فریڈن جومغرب میں خواتین کی آزادی کی پرجوش علمبردارتھیں اپنی کتا ب میں لکھتی ہیں:کیااولادسے نجا ت حاصل کرکے یاخاندان کے ادارے سے باہرنکل کرعورت حقیقی معنوں میں امن وسکون حاصل کرسکتی ہے؟آزادیٔ نسواں ومساواتِ مرد وزن کانعرہ لگانے والی ایک اورخاتون جرمن گریئرکہتی ہیں:ہمارے سب اندازے غلط ثابت ہوئے،ہمیں ملازمت سے زیادہ گھر کی ضرورت ہے۔
حال یہ ہےکہ اپنے حقوق کے لیے آواز تک نہیں اٹھا سکتے، چاہتےیہ ہیں کہ انقلاب آئے اور سب کچھ ان کے حق میں بدل جائے ۔ ایک چور کے دفاع کے لیے سڑکوں پہ نکل آتے ہیں،چاہتےیہ ہیں کہ عدل و انصاف کا بول بالا ہو۔ جانیں قربان کرتی اپنی ہی فوج کو دن رات گالیاں دیتے نہیں تھکتے،چاہتےیہ کہ انڈیا و امریکا سرنِگوں ہو جائیں۔ اپنے ملک کی ایجنسیوں پہ یقین نہیں کرنا،چاہتےیہ ہیں کہ عالمی سازشوں کا منہ توڑ جواب دیا جائے۔ دیتے ہوۓ امیدوار حال یہ ہےکہ ووٹ دیتے ہوئے امیدوارکی تعلیم اور کردار پہ نظر تک نہیں ڈالنی،چاہتےیہ ہیں کہ ملک سے جہالت کا خاتمہ ہو جائے ۔ حال یہ ہےکہ
دشمن ملک کی فلموں،گانوں پرکروڑوں روپے خرچ کر دیتے ہیں،چاہتےیہ ہیں کہ کشمیر و فلسطین آزادہوجائے۔انتخابات میں ووٹ لٹیروں کودیتے ہیں لیکن خواہش یہ ہے کہ حکمران حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ جیساہو۔ بائیس لاکھ مربع میل کے حکمران سے جب آمدن سے زائد ایک چادر پر سوال کیا گیا تھا تو آگے سے اس کی وضاحت پیش کی گئی اور اس کے جائز ہونے کا ذریعہ بتایا گیا تھا،تب تو کسی کو خلافت کے خلاف سازش نہ لگی اور وہ وقت مسلمانوں کے عروج کا تھا کہ بیت المقدس کی چابیاں بغیر لڑے آپ کے ہاتھ میں تھما دی گئیں۔
مہذب قومیں خوداپنااوراپنے حاکموں کا احتساب خود کرتی ہیں تبھی تاریخ انہیں عظیم قوموں کی فہرست میں جگہ دیتی ہے،مغرب کی نقالی کرنے والی والی قومیں خاندانی نظام کی پاکیزگی کی تناہی کے بعد ایک نہ ایک دن ضرور تاریخ کے کوڑا دان کی نظر ہو جاتی ہیں جس کااعتراف آج خودمغربی دانشورکر رہے ہیں۔اس لئے اپنی خواہشات پوری کرناہیں تو پہلے اپنے کرتوت بدلئے اوراپنے آپ میں یہ جرات پیداکیجئے کہ خواپنااوراپنے حکمرانوں کااحتساب کر سکو۔نہیں تو ہمیشہ کی طرح کسی عالمی سازش کا رونا روتے رہیے۔ویسے بھی اپنے کرتوتوں پر بہانے تراشنے کے ماہر تو ہم ہو ہی چکے ہیں۔
پس اے روشن خیال حضرات وبیبیو!مغرب کی نظروں کوخیرہ کرنے والی چمک دمک کی طرف مت لپکوکہ یہ توجھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے۔
رہے نام میرے رب کاجس نے عورت کوایک ممتازمقام عطاکیالیکن ہم نے دنیاداری میں اس کوبھلادیا!
زمانے والے جسے سوچنے سے خائف تھے
وہ بات اہل جنوں محفلوں میں کرتے رہے