Remembrance Of The Past Is Doom

یادِ ماضی عذاب ہے یارب

:Share

ملک کی سمت کیاہے،کوئی نہیں جانتا۔1971میں پا کستان کے تمام ادارے،وسائل اورآبادی کاایک بڑاحصہ ملک کے ساتھ تھایااس کے کنٹرول میں تھا۔قوم پر پوری طرح واضح تھا کہ دشمن کون ہے اور کتنا طاقتور ہے۔مسئلہ صرف یہ تھا کہ اس دشمن سے کیسے نمٹا جائے۔ٹارگٹ واضح ہونے کے با وجود بدنیتی اورغیر ملکی قوتوں کے ایجنٹوں کی وجہ سے ہمیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔آج 2022 میں دوبارہ وہی صورتحال آن پڑی ہے لیکن اب نمٹنے کی بات تو ایک طرف یہی طےنہیں ہورہا کہ ہمارا اصل دشمن ہے کون؟ وہ اندر ہے کہ باہر ،کب وار کرے گا اورکیسے کرے گا؟

ملک اس وقت کس راستے پرچل نکلاہے،موجودہ حکومت کااختیارکردہ راستہ ہمیں کس سمت لیکرجارہاہے؟ہما ری حکومت کایہ بحری جہازکہاں لنگرڈالے گا؟ دبئی، لندن یاسیدھاامریکا کی کسی بندرگاہ پر !اس بحری جہازکاناخداوہاں کی کھلتے موسم کی چمکتی دھوپ میں قصرسفیدکیعطاکئے ہوئے کسی کونے میں آفتابی غسل کی تیاری میں مصروف ہوگا؟ایساکیوں محسوس ہو رہاہے کہ ملک کی معیشت کاطیارہ مہنگائی کے کڑکتے بادلوں میں کسی انجانی منزل کی طرف گامزن ہے جہاں اس طیارے کاکپتان اس کا”آٹوپائلٹ”کابٹن دباکرتمام مسافروں کی زندگیوں سے غافل موت جیسی گہری نیندسوگیاہے یاپھرایساکیوں محسوس ہورہاہے کہ ہما ری موجودہ حکومت اوراپوزیشن کی حالت ایک ایسے ادھ موئے گھوڑے جیسی ہو گئی ہے کہ جس کی صرف آنکھوں کی پتلیاں حرکت کررہی ہیں اوراستعماری گدھ اس کے جسم کابڑی بے دردی سے گوشت نوچ رہے ہیں اوربے کس اورلا چارعوام ایک کمزورچھڑی سے دور سہمے ہوئے ہش ہش کررہے ہیں کہ شائدیہ استعماری گدھ ان پر ترس کھاکردورہٹ جا ئیں!

بلوچستان کسی چوک پرکھڑاوہ لاوارث بچہ ہے جس کے بے حس والدین اسے چھوڑکراپنی شاپنگ میں مصروف ہیں اورکراچی تو وہ کیک ہے جوکسی راتب کے طورپر کسی للچا ئی بھوک کا شکارہونے کامنتظرہے۔اندرون سندھ اس چٹیل میدان کی طرح ہے جہاں مالکان اپنے اپنے کتوں اورمرغوں کی لڑائی کامیلہ سجانے کیلئے چل پڑے ہیں۔کشمیراورشمالی علاقہ جات وہ چراگاہ ہے جس میں گڈریے کوبس یہ فکرہے کہ اس کی بھیڑبکریاں چرتے چرتے ہمسایوں کی لگائی ہوئی زہریلی باڑھ کومنہ نہ مارلیں۔پنجاب وہ بیٹا ہے جس کی ماں اپنے دودھ اور باپ اس کواپنی جاں کی قسم دیکردوسرے اوباش بیٹے کے سا منے خاموش رہنے کاحکم جاری کر دیں۔ ایٹمی پروگرام زمین کاوہ قیمتی ٹکڑاہے جس پراپنااپناحق ثابت کرنے کیلئے تمام برادری والے بھرے بازارمیں ایک دوسرے کے کپڑے تارتارکردیں اورامریکاکے ھکم پرعالمی مالیاتی ادارے وہ سودخورہیں جوقسط کے عوض اب گھرکی چاردیواری کی اینٹیں تک لیجانے کیلئے ٹریکٹر ٹرالی لے آئے ہیں اورمالک مکان زیرلب بڑبڑارہا ہے کہ”مائی باپ!ایک موقع اورعنائت فرمادیں حضور”اوربھارت اپنی سازش کی کامیابی پردوانگلیاں منہ میں ڈال کرسیٹی بجاتے ہوئے اس نو ٹنکی سے نہ صرف لطف اندوزہورہاہے بلکہ اپنے خوں آشام دانتوں کو تیزکرکے گیدڑکی طرح شکارکے گردبے تابی کے ساتھ چکرلگارہاہے۔

یہ سارامنظرنامہ صرف ان مظلوم اوربے کس محب وطن افرادکی خاموش دلخراش آرزؤں کاپتہ دیتی ہیں جن کے اکابرین اور بزرگوں نے اس ارض پاک کیلئے اپناتن من دھن قربان کرکے رمضان المبارک کی ستائیسویں رات کواپنے خالق اورپالن ہارکے سا تھ یہ وعدہ کیاتھا کہ اس عطاکردہ ارض پاک پر تیرے نام اورتیرے احکام کی تعمیل ہوگی۔محسن انسا نیت کے ذریعے تیری بتائی ہوئی شریعت کانفاذہوگالیکن تاریخ کی یہ ستم ظریفی بھی سب نے دیکھی کہ قصرسفیدکانامزد،ایک بدعنوان مفرورجواس ارض پاک پرغیرمنتخب وزارت داخلہ کامنصب سنبھالے ہوئے تھا،اس نمرودکی بستی میں آکرعالمی ذرائع ابلاغ کے سامنے برملاتیرے ما ننے والوں کو دہمکی دینے لگا”ہے کو ئی مائی کا لال توشریعت عدالت قا ئم کرکے دکھائے توہم اس کوسبق سکھادیں گے”اور اس کایہ فرعونی نعرہ کامیاب رہاورکسی کوواقعی جرأت نہیں ہوئی کہ شرعی عدالت قائم کرسکے۔

ایک طرف قصرسفیدکافرعون اپنی تما م ترتکبراورطا قت کے اظہارکی دہمکیوں کے گولے برسانے کے باوجودرسواہوکرایڑیاں رگڑتاہواواپس لوٹ گیا لیکن دوسری طرف اب بھی ہندو بنیااکھنڈبھارت کے خواب اپنی مکروہ آنکھوں میں لئے اپنی تمام ترمکاریوں کے سا تھ اس ارض پاک پراپنے کارندوں کومسلسل کمک پہنچا رہا ہے۔موجودہ وزیر اعظم پاکستان اپنے منصب کوپوری طرح سمجھنے سے قاصر اورپی ڈی ایم کے پٹواری کی مانندخدمات بجالانے میں دن رات مصروف ہیں۔دونوں اطراف سے ایک دوسرے کی کردارکشی نے ساری قوم کوتقسیم کرکے رکھ دیاہے۔قصرسفیدکے فرعون کوپا کستانی عوام کی جذبا تیت کابخوبی اندازہ ہے۔1965کی جنگ،کشمیرمیں زلزلہ کے بعدعدلیہ کی بحالی کی تحریک اورلانگ مارچ میں عوام کاپرجوش وجنوں کودیکھ چکےتھے۔اس ملک میں18فروری کے انتخابات کامنظر بھی دیکھا توقصر سفیدکافرعون بخوبی جان گیاکہ پاکستانی عوام کوآزادعدا لتیں میسرآگئیں تومشرف جیسوں کواٹھاکر باہر پھینک دیں گی۔ہم جیسوں نے جس آزادعدلیہ کا خواب دیکھاتھا،ان کوجزوی طورپرمثبت تعبیرتوملی لیکن ایک مرتبہ پھرمایوسی میں اضافہ ہوتاجارہاہے۔

بھا رت کے بنئے اوراسرائیلی توسیع پسندیہودیوں کوپاکستان کی ایٹمی طاقت کسی صورت برداشت نہیں جبکہ امریکااورمغرب کی آنکھ میں بھی ہماراایٹمی طاقت ہونا بری طرح کھٹکتا ہے۔ اس کے علاوہ بھارت کے بنئے کی یہ بہت دیرینہ خواہش ہے کہ پاکستان کے شمالی علاقوں کوپاکستان سے کاٹ کراپناحصہ بنالے۔ایک توپورے کشمیرکامسئلہ حل ہوجائے گا، شب وروزنیندحرام کرنے والاسی پیک جیسے تجارتی اورمعاشی جن سے نجات مل جائے گی، دوسرا پاکستان کااپنے نہائت مخلص دوست چین سے رابطہ ختم ہوجائے گااورتیسراواخان کے راستے روس کی ریاستوں سے سیدھابراہ راست زمینی رابطہ قائم ہوجائے گا۔اس کیلئے امریکاکی مکمل آشیرآبادبھی حاصل ہے اورامریکابھی اس مددکی آڑمیں بھارت کومستقبل کی بڑی طا قت بناکرچین کے مقا بلے کیلئے تیار کررہاہے تا کہ روس کی با لادستی کوختم کرنے کے بعد اب صرف چین ہی ایساملک رہ گیاہے جس کی فوجی اورمعا شی قوت امریکاکیلئے خطرہ بن سکتی ہے۔ روس نے برسوں کے بعددوبارہ انگڑائی لی ہی تھی کہ یوکرین میں اسے الجھادیاگیا۔

یادماضی کی بات ہورہی تھی…… قصر سفیدکے فرعون نے بڑی مہارت اوراپنے ایجنٹوں کے ذریعے یہ پہلے ہی ا نتظام کرلیاتھاکہ اب مشرف کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت کے بعداس کا کوئی دوسرانعم البدل بھی تیارکیاجائے۔عوام نے ووٹ کی صورت میں مشرف کے خلاف اپنی بھر پورنفرت کا کھل کر اظہار کر دیاتوامریکاکی ضرورت آصف زرداری کی صورت میں ایک جمہوری آمرکی شکل میں میسرآگئی۔بے نظیربھٹوآٹھ برس کی خودساختہ جلا وطنی کے بعدبدنام زمانہ معا ہدے”این آراو”کے تحت ایک خصوصی پروگرام لیکرجب پا کستان پہنچی تو انہوں نے فوری بھانپ لیاکہ پاکستان کے لوگوں کی سوچ تبدیل ہوچکی ہے اورلوگ سمجھدارہوچکے ہیں۔امریکی پا لیسی کی بودورسے محسوس کرلیتے ہیں۔بی بی کے امریکامیں مختلف اداروں میں تقاریرجس میں قبائلی علا قوں میں امریکاکو اسامہ بن لادن ،ایمن الظواہری کی تلاش کا براہ راست اجازت نامہ اور قومی ہیرو ڈاکٹر قدیر کو تفتیش کیلئے ان کے حوالے کرنے کی با تیں پاکستان کے لوگوں کے دلوں میں گہری تشویش کا باعث بن چکی تھیں۔بے نظیربھٹو کے ترجمان فرحت اللہ بابرنے جب ٹی وی چینل پرآ کر بی بی کے ان بیانات سے انکار کیا تواس ٹی وی چینل نے فوری طور پر اپنے ناظرین کو بی بی کی تقاریرکے وہ مناظر دکھا دیئے جس کے بعدبے نظیربھٹوکے ترجمان کوکافی خفت کاسامناکرناپڑا۔بی بی ایک زیرک اورذہین سیاستدان تھیں اس لئے انہوں نے ملک میں آتے ہی عوام کی آوازمیں اپنی پارٹی کی بقاسمجھی۔ججوں کی بحالی کاجھنڈااٹھالیااوراپنی تقاریرمیں عوام کی خواہشات کو پوراکرنے کاعہدکیا۔پاکستان کی ایٹمی قوت کے تحفظ پرجب اپنی پالیسی اعلان کیاتوتاریخ اس بات کی شاہدہے کہ لیاقت علی خان سے لیکربے نظیربھٹوتک ہروہ لیڈرجوامریکاکی پالیسی سے منحرف ہوا،اسے راستے سے ہٹادیاگیا۔

بے نظیربھٹوکولیاقت آبادکے کامیاب جلسے کے بعدپوری پلاننگ کے ساتھ راستے سے ہٹادیاگیالیکن پاکستانی عوام نے بے نظیرکی ہمدردی میں اس پارٹی کومسند اقتدارتک پہنچادیا لیکن شنیدیہ بھی ہے کہ آصف زرداری کی طرف سے مکمل یقین دہانی کروائی گئی کہ امریکاکے ساتھ ایفائے عہدمیں کوئی کسرنہیں چھوڑی جائے گی جس کے بعدان کی حکومت نے اس پربتدریج عملدرآمدکیلئے اقدامات بھی شروع کردیئے۔کیونکہ نیوکلیئرپروگرام کی مکمل تیاری و حفاظت فوج کے ہاتھ میں تھی اوراس کی حفاظت کیلئے آئی ایس آئی بھی ہروقت سرگرم رہتی ہے اورپیپلزپارٹی کے اقتدارسنبھالتے ہی جونئیربش کے حضور کورنش بجالانے کاحکم ہواتویوسف رضاگیلانی نے پہلی ملاقات میں خوشنودی حاصل کرنے کیلئے عین ایک دن قبل فوری طورپرآئی ایس آئی کواپنے وزیرداخلہ رحمان ملک کے تحت کام کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیاجس کاانتہائی سخت ردِعمل دیکھنے کوملااوریوسف رضاگیلانی کواپنایہ نوٹفکیشن فوری واپس لیناپڑا،جس کے بعداداروں کوایٹمی پروگرام کیلئے زیادہ محتاط ہوناپڑگیا۔

اس کی دوسری خطرناک مثال اس وقت سامنے آئی جب آصف زرداری نے ملک کے صدرکاعہدہ سنبھالاتوانہوں نے ایک امریکی اخبارکوانٹرویودیتے ہوئے سوبلین ڈالرکے عوض ایٹمی پروگرام سے دستبرداری کی خواہش کااظہارکردیا۔گویایہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ امریکی حکام کے کہنے پرجواین آراوملاہے،اس کی بہرحال قیمت اداکرناہوگی اوراسی سلسلے میں بعدازاں میمو گیٹ سکینڈل بھی سامنے آیاجس کاڈانڈے پاکستانی فوج کوغیرمؤثرکرنے کیلئے باقاعدہ مددطلب کی گئی۔ حسین حقانی کی بطور امریکامیں سفیر خاص تقرری اسی مشن کے تحت کی گئی۔حسین حقانی سپریم کورٹ سے ضمانت لیکر حکومت کے توسط سے اپنے بیرونی آقا امریکاکی گودمیں آج تک بیٹھااب بغض پاکستان میں ہمارے ازلی دشمن بھارت کی لابی کاسب سے بڑاہرکارہ بنا ہوا ہے۔

تاریخ اس بات کی بھی شاہدہے کہ پا کستان کے غیر بھٹووزیراعظم یوسف رضاگیلانی نے امریکاکی زبان استعمال کرتے ہوئے بیان داغ ڈالاکہ”قبائلی علاقوں میں غیرملکی موجود ہیں اورانہیں خطرہ ہے کہ نائن الیون جیساکوئی واقعہ دوبارہ نہ ہوجائے”لیکن محب وطن یہ جان گئے تھے کہ غیرملکی قبائلی علاقوں میں توموجودنہیں تھے بلکہ اسلام آبادکی کرسیوں پرقا بض ہوگئے جوامریکاو لندن میں رہتے ہیں،غیرملکوں میں ان کے اثاثے ہیں،اولادیں بھی ملک سے باہرہیں مگرقصرسفیدکے فرعون کی بدولت پاکستان میں حکمرانی کرتے ہیں۔ بدنصیبی کایہ سلسلہ ہنوزجاری وساری ہے۔

سال کے آغازمیں ہی پاکستانی سیاست میں بے چینی میں اضافہ شروع ہوگیاجس کیلئے اختلاف میں بٹی حزب اختلاف تقسیم کو خیربادکہتے ہوئے ایک صفحے پر اکھٹی ہوکرعمران خان کے خلاف عدم اعتمادکی کامیاب تحریک سامنے لے آئی۔عمران خان کے تین سالہ دورحکمرانی سے اکتائی اورناکامی کابوجھ اتارنے کی کوشش کرتی عسکری اشرافیہ نے جونہی”غیر سیاسی”ہونے کااشارہ دیاتوسیاسی جماعتوں نے ہاتھ آئے موقع کوغنیمت جانااورتاک کرکامیاب نشانہ لگایا۔ یوں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار آئینی طریقے سے حکومت ختم ہوئی، حزب اختلاف حامل اقتدارہوئی مگرانتقال اقتدارکاکٹھن مرحلہ پاکستان کی تاریخ کا ناقابل فراموش باب بن گیا۔

ملک کی اعلی عدالت نے صدر،وزیراعظم اورسابق ڈپٹی اسپیکرقاسم سوری کے اسمبلی توڑنے کے عمل کوغیرآئینی قدم قراردیا اورسپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اقتدارشہباز شریف کومنتقل ہوگیا۔طویل ڈرامائی صورتحال شایدہی کبھی سیاست میں رہی ہوجو2022کے حصے میں آئی۔سائفرکہانی، امریکی سازش اور اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ گلیوں سے ہوتا ہواباجوہ مخالف مہم پر منتج ہوایعنی”پہنچی وہیں پرخاک جہاں کاخیمرتھا”۔اب ایک مرتبہ پھر صوبائی اسمبلیاں توڑنے و جوڑنے کے نعرے لگ رہے ہیں اورفریقین اس سلسلے میں عدالتوں کارخ بھی کرچکے ہیں۔پاکستان کی سیاسی ابتری کے کے ساتھ معاشی حالات دیوالیہ کے بم کے ساتھ شب وروزکی نیندیں حرام کرچکی ہیں۔مہنگائی سے عوام کی چیخیں آسمان کونہ صرف چھورہی ہیں بلکہ رب کے ہاں فریادکناں بھی ہیں کہ ہماری بداعمالیوں کی بنا پرہم پرمسلط کئے گئے ان تمام سیاستدانوں سے ہمیں نجات عطافرمالیکن پاکستان کی قیادت،سیاست نجانے کس قیامت کی منتظرہے۔حالات سنگین صورت اختیارکرچکے ہیں اورروڈمیپ بھی تیارہو چکے ہیں البتہ بگل بجنے کی دیر ہے۔ہم حقیقتًا ایک ایسی بدنصیب قوم ہیں جسے ہمیشہ نمازکے بعدوضو یاد آتاہے اورتدفین کے بعد غسل!
اک موت کادھندہ ہے باقی،جب چاہیں گے نمٹالیں گے
یہ تیرا کفن، وہ میرا کفن، یہ میری لحدوہ تیری ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں