پچھلے دنوں اچانک تحریک لبیک کے خلاف حکومتی اورریاستی اداروں کے مؤقف میں جس سرعت کے ساتھ تبدیلی آئی ہے اس پرعوام میں بے شمار افراد کویقیناحیرت ہوئی ہے کہ مؤقف ،پالیسی،حکمت عملی،اہداف اورطریقہ کارکی تبدیلی مگراس تیزی کے ساتھ مگربہت سارے ایسے بھی ہیں جو اس سریع الحرکت تبدیلی پرچنداں حیران نہیں ہیں ۔ایک طرف یہ منظرہے کہ جس تحریک لبیک کے ساتھ 3نومبرکوصرف ایک سال کے وقفے کے بعدحکومت پاکستان اورریاست پاکستان کے مقتداراداروں نے براہِ راست اوربالواسطہ طورپردو معاہدوں پردستخط کئے ہیں۔ایک ایسی سیاسی جماعت نے 2018ء کے عام انتخابات میں تقریباً25لاکھ ووٹ لیکرسب کوششدرکردیاجو انتخابات سے قبل ہی وجودمیں آئی جبکہ ملک میں دوسری مذہبی جماعتیں جوقیام پاکستان سے سیاست میں حصہ لے رہی ہیں ،وہ اس معراج تک نہیں پہنچ سکیں۔
آخرایساکیاہواکہ اس جماعت کے ساتھ فوراًیوٹرن نہیں بلکہ معاملہ اباؤٹ ٹرن کابھی شکارہوگیا اور 25نومبر2018ء کی رات سے شروع کئے گئے ایک بے رحمانہ آپریشن کے دوران بائیس ہزارسے زائدایسے افرادکی گرفتاری کی جاچکی ہے جوتحریک لبیک کے کسی بھی قسم کے عہدیداریا متحرک کارکن ہیں،یاپھرجن کے بارے میں امکان بھی ہے کہ کل کلاں عقیدۂ ختم نبوت اورتحفظ ناموس رسالت کیلئے بنے ہوئے قوانین کے حق میں خادم حسین رضوی وتحریک لبیک کے دیگر قائدین کی حراست کے خلاف سڑکوں پرنکل سکتے ہیں۔پولیس سمیت تقریباًتمام قابون نافذکرنے والے ادارے اس سلسلے میں مشترکہ آپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔یہ امکان نظراندازنہیں کیا جا سکتاکہ سپریم کورٹ میں ملعونہ آسیہ کی بریت کے خلاف دائر نظرثانی اپیل کے فیصلے کے بعد کئی دنوں اورہفتوں تک اس جاری آپریشن کے تحت گرفتاریاں ہوتی رہیں۔ملعونہ آسیہ مسیح کے کیس کی فاضل چیف جسٹس میاں ثاقب نثارکے نزدیک اس کی کیاحیثیت ہے ،اس بارے میں پہلے ہی وہ اپنے فیصلے میں کافی تفصیل سے لکھ چکے تھے لیکن حالیہ دورۂ لندن کے دوران انہوں نے برطانوی میزبانوں اورآسیہ کے مہربانوں کے سامنے جس طرح اپنادل کھول کررکھ دیااس کے بعدبہت کم امکان لگتاہے کہ سپریم کورٹ میں نظرثانی اپیل کافیصلہ کچھ ایساہو جوآسیہ کی بریت اوربیرون ملک محفوظ روانگی میں رکاوٹ بن سکے۔
یہ سوال اپنی جگہ پربہت اہم ہوسکتاہے کہ بین الاقوامی سطح پراتنی اہمیت اختیارکرجانے والے اس کیس کی نظرثانی اپیل کے فیصلے سے پہلے فاضل چیف جسٹس کوبرطانیہ کی پارلیمنٹ کے دورے پرجاناچاہئے تھاکہ اس دینی اعتبارسے بھی حساس کیس کے بارے میں اپنی عدالت سے ہی نہیں بلکہ ملک سے باہرجاکراس طرح کھلی باتیں کرنی چاہئے تھیں،بلاشبہ عدالتی اورآئینی تقاضوں کی بالادستی دوسری چیزہے اورجوکچھ ہواہے اس پر ہرطرف سے تیربرسائے جاسکتے ہیں بلکہ تنقیدبھی ہوسکتی ہے لیکن یہ بہرحال اہم ہے کہ فاضل چیف جسٹس ثاقب نثارکوجتنی پذیرائی لندن میں ملی ہے وہ اس سے پہلے ان کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا۔بلاشبہ ان کے اس فیصلے کی جس طرح برطانوی ،اطالوی پارلیمنٹ اوربلجیم پارلیمنٹ میں تحسین ہوئی ہے،یورپی یونین کے رکن ممالک نے جس محبت وپذیرائی سے فاضل چیف جسٹس ثاقب نثار کونوازاحتیٰ کہ خالصتاً ایک نجی دورۂ بھی فاضل چیف جسٹس کی غیرمعمولی مصروفیات کاذریعہ بن گیا۔یہ سارے ملک ،ان کے ادارے،ان کی مختلف نظریات کی کیمیونیٹیز،اگرآسیہ ملعونہ کی رہائی پراس قدرخوش وشاداں وخرماں ہیں تولامحالہ پاکستان میں پس پردہ آوازجواس فیصلے کے خلاف اٹھی ہے یااٹھ سکتی ہے ،اس کی پذیرائی نہ یورپ وامریکامیں ہوسکتی ہے اورنہ ہی پاکستان کی عدالتوں اوراداروں میں ممکن ہے۔
تحریک لبیک کی اٹھان ہی تحفظ ناموس رسالت اورعقیدہ ختم نبوت ۖکے عزم واعلان کے ساتھ ہوئی۔ ممتازقادری کوعدالتی حکم پردی گئی اچانک پھانسی اس کانکتہ آغازبنی،یوں تحریک لبیک اوراس کی تازہ ابھرتی قیادت کے بارے میں امریکااوریورپی ممالک کے سفارتی ذمہ دارلاکھ یہ دعویٰ رکھتے ہوں کہ ان کیلئے خادم حسین رضوی ہی نہیں ان کی جماعت تحریک لبیک اوراس کی ساری قیادت کسی بھی گوشے میں پسندیدہ اورقابل قبول نہیں ہوسکتی تھی۔اس لئے تحریک لبیک کی ایسی عدم پذیرائی کے ماحول کافائدہ اٹھاتے ہوئے سابق وزیراعظم نوازشریف نے ستمبر2017ء میں حلقہ این اے 120میں لندن میں ہی تحریک لبیک اورملی مسلم لیگ کانام لئے بغیرمنفی اندازمیں ذکرکیا تھا تاکہ وہ اپنے لئے آزمائش کی گھڑی میں عالمی طاقتوں اوریورپی برادری کوبتاسکیں کہ انہیں انتہاء پسندوں کامقابلہ کرناپڑرہاہے۔
تحریک لبیک کے ساتھ لگایاگیاانتہاء پسندی کاٹیگ پہلے دن سے ہی مغربی دنیااورامریکامیں بہتر داموں فروخت ہونے کی چیزہے لہنداخادم حسین رضوی کے خلاف پاکستان میں جوبھی کاروائی ہوگی یاڈیزائن ہوگی اس کے پس منظرمیں امریکااورمغربی ممالک کے دباؤ اورآشاؤں کونظر انداز نہیں کیاجاسکتاہے اس لئے اب بھی عملاًیہی صورتحال ہے کہ ایک جانب ملعونہ آسیہ مسیح کی بریت پرمغرب اورامریکامیں خوشی منائی جارہی ہے اور حدتو یہ ہے کہ ہالینڈسے تعلق رکھنے والابدبخت،بدقماش گستاخ گیرٹ وائلڈربھی خادم حسین رضوی کی گرفتاری پرغیرمعمولی خوشی اورمسرت کااظہار کررہاہے۔واضح رہے کہ اسی منحوس گیرٹ وائلڈرنے نبی آخرزماںۖ کے توہین آمیزخاکوں کے مقابلے کااعلان کیاتھا۔ہالینڈ کے اس ملعون نے دنیا بھرکے مسلمانوں کواذیت اور بے تحاشہ رنج دیاتھالیکن اب وہی ملعون پاکستان کی حکومت اوراداروں کے خادم حسین رضوی کے بارے میں ایک صفحے پربلکہ اپنے صفحہ پرآجانے پرشاداں اورفرحان نظرآرہاہے۔
امریکااوریورپی دنیاجونت نئے طریقوں سے پاکستان کی کلائی مروڑکراپنے مطالبات منوانے ،دباؤ میں لانے حتیٰ کہ پاکستانی ریاست کی خودمختاری اور رٹ کوچیلنج کاباعث بنتے رہتے ہیں۔جس طرح آسیہ مسیح ملعونہ کے بارے میں کئی برسوں سے فکر منداورمتحرک تھے ،یقینا وہ آسیہ کے خلاف اٹھنے والی ہرآوازکودبانے کیلئے بھی اپنے اثرات استعمال کرنے سے بازرہنے والے نہیں ہو سکتے تاہم یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ اس طرح کے معاملات کیلئے امریکااورمغربی حکام کادائرہ کاریااسلوب اورہے،برطانیہ بہادرکی ذمہ داریاں اور شعبہ دوسرا ہے،فرانس اورجرمنی کاطریقہ واردات اپناہے جبکہ سیکنڈے نیوین ممالک کے ذمہ داروں کادوسراہے لیکن یہ ساری جہتیں اورپرتیں امریکا اور مغربی ممالک کے درمیان ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت ڈیزائن کی گئی ہیں گویاایک طرح سے امریکااوریورپی ممالک نے باہم ایک شعبہ جاتی تقسیم کررکھی ہے۔ہرایک اپنے طریقے اور دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے کراداراداکرتاہے۔
پاکستان کی حکومت،اداروں اورمیڈیاکے توسط سے عوام پراثراندازہونے کی بھی کوشش کرتاہے لیکن بالآخراجتماعی ہدف سب کاایک ہوتاہے۔خادم حسین رضوی اوراس کی جماعت کے بارے میں جس طرح تیزرفتاری بلکہ عجلت میں پاکستان کے اندرسوچ اورحکمت عملی تبدیل کی گئی ہے اسے بلاوجہ قرارنہیں دیاجاسکتاہے،نہ ہی اس اہم اورحساس معاملے سے امریکاویورپی ممالک ،اعلیٰ سفارتکاروں حدیہ کہ ان ممالک کے میڈیاکوالگ الگ دیکھاجاسکتاہے،سب یکسواوریکجہت ہیں۔ ہرکوئی اپنے حصے کاکاکام کرہاہے جس کا نتیجہ 25نومبرکی رات ایک بڑے آپریشن کےشروع کئے جانے کی صورت سامنے آچکاہے۔اطلاعات یہ ہیں کہ یہ آپریشن ّئندہ دنوں میں بھی اسی شدت سے جاری رہے گا،نہ صرف یہ بلکہ اس کی قیادت، عہدیداروں اورعقیدہ ختم نبوت یاتحفظ ناموس رسالت کے قانون کیلئے نکلنے والوں کوبھی اسی طرح سخت گرفت میں لیاجائے گا۔
فطری طورپرجب آرمی چیف کی طرف سے یکے بعد دیگرے دومرتبہ یہ کہاگیاکہ مذہب اور لسانیت کی بنیادپرملک میں انتشارنہیں پھیلانے دیا جائےگااوراس کے بعدعقیدہ ختم نبوت کیلئے حالیہ عرصے میں سب سے زیادہ متحرک نظرآنے والی تنظیم تحریک لبیک کے خلاف ملک بھرمیں کریک ڈاؤن شروع کردیاگیاہے ۔اہم بات یہ ہے کہ میڈیانے بالعموم کامل فرمانبرداری اوریکجہتی کا ثبوت دیتے ہوئے اس کریک ڈاؤن کواسی اندازمیں پیش کیاہے جس اندازکی اس سے توقع کی جارہی تھی۔باہرکی دنیاکاآزادمیڈیابھی کم ازکم اس معاملے میں پاکستان کی ریاستی حکومتی پالیسی کامکمل پابندنظر آرہاہے اورجس سے کوئی ایک ایسی چیزبھی سامنے نہیں آتی جس سے منظم کریک ڈاؤن میںکسی بھی سطح پرکوئی رخنہ پیداہو بظاہراس کاجوازیہ بتایا جا رہاہے کہ انہوں نے ریاستی رٹ کوچیلنج کیاتھامگراس حقیقت سے بھی انکارنہیں کیاجاسکتاکہ ریاستی رٹ کواس سے کہیں زیادہ چیلنج پی ٹی ایم والامنظور پشین اوراس کے ساتھی مسلسل چیلنج کررہے ہیں لیکن ریاستی رٹ کی دھجیاں اڑانے والے منظورپشین اوراس طرح کے دیگرگروہ ابھی تک ایسے کسی بھی کریک ڈاؤن سے کاملاًمحفوظ ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ اس کے باوجودپی ٹی ایم کے لوگ بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کے ساتھ بھی رابطوں کومضبوط اورگہراکرچکے ہیں،ان رابطوں کے بعدپاکستان دہشتگردی کے کئی تکلیف دہ واقعات اورسانحات بھی پیش آچکے ہیں،نیزطاہرداوڑکااسلام آبادسے اغواءاورافغانستان میں شہیدہونا بھی پاکستان کی ریاستی رٹ کے خلاف کھلااوردہراچیلنج ہے لیکن بصداحترام یہ کہناپڑتاہے کہ ریاستی رٹ کامعاملہ یکطرفہ یہی چلایاجارہاہے اوروہ بھی پاکستان میں مذہبی حوالے سے سب سے بڑے طبقے بریلوی مکتبِ فکرکے حوالے سے سامنے آیاہے۔بلاشبہ ان کی شہرت حلوے مانڈوں کے حوالے سے زیادہ بنادی گئی ہے ،نیزبڑاطبقہ ہونے کے ناطے اس کے ٹکڑے یاگروہ بھی تعداد میں زیادہ اورمدافات میں بٹے ہوئے ہیں۔
مذکورہ منظرنامے کاایک اہم منظریہ بھی ہے کہ اہل مغرب میں جہاں آسیہ ملعونہ کی رہائی اور خادم حسین رضوی کی گرفتاری سے خوشی کے شادیانے بجائے جارہے ہیں وہیں اہل مغرب کیلئے مسرت وشادمانی کے وہ منتظرلمحات بھی ہیں جب ان کی ہیروملعونہ آسیہ سپریم کورٹ کے فوری فیصلے بعدان کے درمیان ہوگی۔اس یقین کے ساتھ ہی انہوں نے فاضل چیف جسٹس ثاقب نثارکو جو غیرمعمولی اورتاریخی پذیرائی بخشی ہے ،اس میں جہاں ان کے پہلے والے فیصلے کااعتراف ہے وہی آئندہ ان سے آسیہ مسیح کے حوالے سے توقعات ہیں کہ چیف جسٹس پاکستان اپنی مدت ملازمت میں آسیہ مسیح کوبری کرکے مقدمہ نمٹاکرجائیں گے اوراسی نوعیت کے دوسرے ہیروزکے ساتھ ایک مؤثریورپی طاقت کے طورپرموجود ہوں گے۔ آسیہ ملعونہ کیلئے یورپ میں انتظاراورپاکستان میں عاشقانِ رسولۖ کی گرفتاریوںپرمسلم مخالف لابیزمیں خوشی کے شادیانے بجائے جانے کاعمل یکساں جاری ہے۔
خوشی کے ان شادیانوں کومہمیزپاکستان کے چیف جسٹس کے لندن میں کھلے دل کے ساتھ کی گئی بات چیت سے بھی ملاہے جبکہ پاکستان کے اندر حکومت اورریاستی اداروں کی سطح پر مذکورہ بالاہردوموضوعات پریکسوئی بھی مغربی دنیااورامریکاکیلئے خوشگوارہے۔مزیدیہ کہ پی ٹی آئی حکومت کی بدترین مخالف نوازلیگ اوردوسری بڑی اپوزیشن جماعت پیپلزپارٹی بھی آگے بڑھ کر اس معاملے میںاپناپوراتعاون دے رہی ہے۔میڈیامیں بالعموم اسی دھن پردم ہلانے کاماحول ہے اس لئے پاکستان میں اس کے مضمرات اوراثرات کل کیاہوتے ہیں اس سے قطع نظرمغربی دنیااور پاکستان کی حکومت حالت اطمینان میں ہے۔اب گیندپاکستانی کی اعلیٰ عدلیہ سپریم کورٹ میں ہےکہ آسیہ ملعونہ کیس کے خلاف نظرثانی کی اپیل جسےیکم نومبرسے اب تک زیرسماعت لانے کی تاریخ مقررنہیں ہوئی ہے۔اس نظرثانی اپیل پر کتنی دیرمیں فیصلہ کیاجاتاہے اس حوالے سے کچھ کہناقبل از وقت ہوگالیکن بہرحال یہ کہاجاسکتاہے کہ اہل مغرب مطمئن ہیں کہ فیصلہ ان کے حق میں ہی آئے گا۔