Recko Deck..Show Case Of Metals

ریکوڈک :معدنیات کاشوکیس

:Share

ریکوڈک ایران اورافغانستان سے طویل سرحدرکھنے والے صوبے بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع ہے۔بعض رپورٹس کے مطابق ریکوڈک کاشمارپاکستان میں تانبے اورسونے کے سب سے بڑے جبکہ دنیاکے چندبڑے ذخائرمیں ہوتاہے۔ریکوڈک کے قریب ہی سیندک واقع ہے جہاں ایک چینی کمپنی ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے تانبے اورسونے کے ذخائرپرکام کررہی ہے۔تانبے اورسونے کے دیگر ذخائر کے ساتھ ساتھ چاغی میں بڑی تعدادمیں دیگرمعدنیات کی دریافت کے باعث ماہرین ارضیات چاغی کومعدنیات کا”شوکیس” کہتے ہیں۔

حکومت بلوچستان نے یہاں کے معدنی وسائل سے استفادہ کرنے کیلئےریکوڈک کے حوالے سے 1993میں ایک امریکی کمپنی بروکن ہلزپراپرٹیزمنرلز(بی ایچ پی ایم) کے ساتھ معاہدہ کیا۔یہ معاہدہ بلوچستان ڈیویلپمنٹ کے ذریعے امریکی کمپنی کے ساتھ جوائنٹ وینچرکے طورپرکیاگیاتھا۔چاغی ہلزایکسپلوریشن کے نام سے اس معاہدے کے تحت25فیصد منافع حکومت بلوچستان کوملناتھا۔اس معاہدے کی شقوں میں دستیاب رعایتوں کے تحت بی ایچ پی ایم نے منکورکے نام سے اپنی ایک سسٹرکمپنی قائم کرکے اپنے حصص اس کے نام منتقل کیے تھے۔منکورنے بعدمیں اپنے شیئرزایک آسٹریلوی کمپنی ٹھیتیان کاپرکمپنی(ٹی سی سی)کوفروخت کردئیے۔نئی کمپنی نے علاقے میں دریافت کاکام جاری رکھاجس کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ریکوڈک کے ذخائرمعاشی حوالے سے سود مندہیں۔بعدمیں کینیڈااورچِلی کی دوکمپنیوں کے کنسورشیم نے ٹی سی سی کے تمام شیئرزکوخریدلیا۔اب سوال یہ ہے کہ ٹی سی سی اورحکومت بلوچستان کے درمیان تنازع کب پیداہوا؟

ریکوڈک کے حوالے سے بلوچستان کے بعض سیاسی حلقوں میں تحفظات پائے جاتے تھے۔ان حلقوں کی جانب سے اس رائے کااظہار کیاجاتارہاکہ ریکوڈک کے معاہدے میں بلوچستان کے لوگوں کے مفادکاخیال نہیں رکھاگیا۔اس معاہدے کوپہلے بلوچستان ہائی کورٹ میں چیلنج کیاگیامگرہائی کورٹ نے اس حوالے سے مقدمے کومستردکردیااوربعدمیں ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیاگیا۔سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخارمحمدچوہدری کی سربراہی میں ایک بینچ نے قواعدکی خلاف ورزی پرٹی سی سی کے ساتھ ہونے والے معاہدے کوکالعدم قراردے دیا۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعدٹی سی سی نے مائننگ کی لائسنس کے حصول کیلئےدوبارہ حکومت بلوچستان سے رجوع کیا۔اُس وقت کی بلوچستان حکومت نے لائسنس کی فراہمی کیلئےیہ شرط رکھی تھی کہ کمپنی یہاں سے حاصل ہونے والی معدنیات کوریفائن کرنے کیلئےبیرون ملک نہیں لے جائے گی۔حکومت کی جانب سے چاغی میں ریفائنری کی شرط رکھنے کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے حصے کوبھی بڑھانے کی شرط بھی رکھی گئی۔

سیندک پراجیکٹ سے کوئی خاطرخواہ فائدہ نہ ملنے کے باعث حکومت بلوچستان کی جانب سے یہ شرائط بلوچستان کوزیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے کیلئےرکھی گئی تھیں۔کمپنی کی جانب سے ان شرائط کوماننے کے حوالے سے پیشرفت نہ ہونے اورمحکمہ بلوچستان مائننگ رولز2002کی شرائط پوری نہ ہونے کے باعث معدنیات کی لائسنس دینے والی اتھارٹی نے نومبر2011میں ٹی سی سی کومائننگ کالائسنس دینے سے انکارکردیاتھا۔اس فیصلے کے خلاف ٹی سی سی نے سیکرٹری مائنزاینڈمنرلزحکومت بلوچستان کے پاس اپیل دائرکی تھی جسے سیکرٹری نے مسترد کردیاتھا۔یہاں یہ بتاناضروری ہے کہ ٹھیتیان کاپرکمپنی کینیڈاکی بیرک گولڈاورچلی کی انٹافگوسٹاکمپنی کاایک جوائنٹ وینچرتھا۔نواب اسلم رئیسانی کے دورحکومت(2008سے2013)میں مائننگ کالائسنس نہ ملنے پرٹی سی سی نے ثالثی کے دوبین الاقوامی فورمز سے رجوع کیاتھاجن میں سے انٹرنیشنل سینٹرفارسیٹلمنٹ آف انسویٹمنٹ ڈسپیوٹس(ایکسڈ)نے کمپنی کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے پاکستان کومجموعی طورپر6/ارب ڈالرکاجرمانہ عائدکیاتھاچونکہ اس خطیررقم کی ادائیگی پاکستان کی موجودہ معاشی حالات میں کسی طرح ممکن نہیں اس لیے حکومت نے ٹی سی سی کے شراکت داروں سے مذاکرات کاسلسلہ شروع کیاتھا۔ان مذاکرات کے دوران شراکت داروں میں سے بیرک گولڈبعض شرائط کے تحت دوبارہ منصوبے پرکام کرنے کیلئےآمادہ ہواجبکہ دوسری کمپنی اس کیلئےتیارنہیں۔یہاں اس کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ بیرک گولڈکن شرائط پرآمادہ ہوااوراس سے پاکستان کوکیاریلیف ملے گا؟ ممبران اسمبلی کودی گئی بریفنگ کے مطابق جرمانے کے6/ارب ڈالر میں سے تین،تین ارب ڈالردونوں شراکت داروں کے حصے میں آنے تھے۔انٹافوگسٹاکمپنی چاہتی ہے کہ اسے اس کے جرمانے کی رقم کی ادائیگی کی جائے چونکہ اس رقم کی ادائیگی بھی ممکن نہیں جس پربیرک گولڈسے کہاگیاکہ وہ نئے معاہدے کے تحت دوسرے شراکت دار کے حصے کی رقم کی ادائیگی اپنے ذمہ لے کہ بیرک گولڈاپنے حصے کی جرمانے کی رقم نہیں مانگے گی اوردوسرے شراکت دارکی3/ارب ڈالرکی ادائیگی اپنے ذمے لینے پرآمادگی کااظہارکیاتاہم اس کے نتیجے میں حکومت پاکستان سے ٹیکسوں کی مدمیں رعایتیں مانگی ہیں۔

بلوچستان اسمبلی کے اراکین کی جانب سے یہ شرط سامنے آئی ہے کہ بلوچستان کے جوٹیکسزبنتے ہیں ان میں کوئی رعایت نہیں دی جائے تاہم وفاقی حکومت اپنی ٹیکسوں میں رعایت دے۔منصوبے میں50فیصدسرمایہ کاری کی بنیادپرمنافع میں سے50فیصدبیرک گولڈ کوملے گا۔اگرحکومت بلوچستان سرمایہ کاری کابقیہ50فیصددینے پرآمادہ ہوئی تومنافع کابقیہ50فیصدحکومت بلوچستان کاہوگااگر حکومت بلوچستان کیلئےسرمایہ کاری ممکن نہیں ہوئی توبقیہ50فیصدکی سرمایہ کاری وفاقی حکومت کرے گی۔دوسری صورت میں کسی سرمایہ کاری کے بغیربقیہ50فیصدمنافع میں سے25فیصدبلوچستان اور25فیصدحصہ وفاقی حکومت کاہوگا۔معاملہ آگے بڑھانے سے قبل یہ جانناضروری ہے کہ نئے معاہدے کے تحت بلوچستان کوریکوڈک سے مجموعی طورپرکتنی آمدن ملنے کی توقع ہے؟

بلوچستان کومنافع میں سے25فیصدملے گاوہاں اس کے علاوہ بلوچستان کورائلٹی کی مدمیں پانچ سے چھ فیصد ملنےکی توقع ہے ۔ مقامی کمیونٹی کوسہولیات کی فراہمی کی مدمیں آمدن میں سے ساڑھے تین فیصدملے گاجبکہ بلوچستان ریونیواتھارٹی بھی مختلف مد میں6فیصدتک آمدن اکٹھاکرکے دے گی۔اگران سب کوملایاجائے توبلوچستان کی مجموعی آمدنی39فیصدتک ہوگی۔

اب معاملہ پھرسے ایک مشکل حل کی طرف بڑھ رہاتھاکہ29دسمبرکواچانک عمران خان کے ایک ٹویٹ نے اسے ایک موڑدے دیا ہے۔ایک ٹویٹ میں اعلان کیاکہ”حکومت بلوچستان کی خاطروفاقی حکومت ریکوڈک پراجیکٹ پراٹھنے والا تمام مالی بوجھ اٹھائے گی” اس ٹویٹ کے آنے کے بعدفوری طورپرایک منصوبے کے تحت وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجونے وزیراعظم کے اس اعلان کاخیرمقدم اپنے ایک جوابی ٹوئیٹرمیں جاری کردیاکہ”وزیراعظم کاریکوڈک منصوبے میں بلوچستان کامالی بوجھ اٹھانے کااعلان تاریخی ہے۔یہ فیصلہ بلوچستان کے عوام کیلئےامن،خوشحالی اوراستحکام کاآغازثابت ہوگا۔”یادرہے کہ وزیراعظم کی جانب سے یہ ٹویٹ ایک ایسے وقت میں کی گئی ہے جب بلوچستان میں ریکوڈک کاموضوع زیرِ بحث ہے اور اس کی وجہ بنی تھی پیر27 دسمبر کوہونے والا صوبائی اسمبلی کاوہ”اِن کیمرااجلاس،جس میں اراکین اسمبلی کواس پراجیکٹ کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی گئی۔اس اجلاس میں شامل بلوچستان اسمبلی کوآگاہ کیاگیاہے کہ پاکستان کو6/ارب ڈالرکی ادائیگی سے بچانے کیلئےاس منصوبے کاایک شراکت داربعض شرائط پرمعاہدے پرآمادہ ہے۔

ایک رکن اسمبلی کے مطابق صوبے میں سونے اورتانبے کے سب سے بڑے ذخائرریکوڈک منصوبے کے حوالے سے حکومت پاکستان6/ارب ڈالر کے جرمانے کی ادائیگی سے بچنے کیلئےٹھیتیان کاپرکمپنی(ٹی سی سی) کے دو شراکت داروں میں سے ایک شراکت دارسے دوبارہ معاہدہ کرنے کی تجویززیرغور ہے ۔اراکین بلوچستان اسمبلی اوربالخصوص حزب اختلاف کے مطالبے پر بلوچستان اسمبلی کے اراکین کواسی مجوزہ معاہدے کے بارے میں بریفنگ دی گئی تھی مگراسے خفیہ رکھاگیاتھاجوکہ بلوچستان اسمبلی کی تاریخ میں پہلی بارہواتھا۔مجوزہ معاہدے کے نکات کے حوالے سے ایک حکومتی رکن نے ریکوڈک کے سوال پربات کرنے سے معذرت کی جبکہ دوسرے نے بھی تبصرہ کرنے سے انکارکیا۔تاہم ایک حکومتی رکن سمیت تین دیگراراکین نے مجوزہ معاہدے کے نکات کی تصدیق کرتے ہوئے کہاکہ انہیں آگاہ کیاگیاہے کہ ٹی سی سی کے ایک شراکت دارنے ان شرائط کے تحت کام کرنے پر آمادگی ظاہرکی ہے۔

ان حقائق کی روشنی میں سوال یہ ہے کہ وہ کون سے خفیہ ہاتھ تھے جنہوں نے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت بیرونی ممالک کی ان کمپنیوں کے ساتھ ڈیل کی؟کیااس بات کی تحقیق ہونی ضروری نہیں کہ اس سودے میں بیک ڈورچینل پرکن کن افرادنے کمیشن لیکرارضِ وطن کوخطیرنقصان پہنچایا؟سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس کے پاس یہ مقدمہ اس وقت کیوں نہیں لایاگیاجب اس معاہدے پردستخط ہورہے تھے؟اس پراجیکٹ پرکام کرنے والی کمپنیوں نے اس قدرعجلت میں اپنے حصص دوسری غیرملکی کمپنیوں کوکس کی اجازت سے فروخت کئے جبکہ عالمی تجارتی معاہدوں کے قوانین کی روسے وہ اس کی مجازنہیں تھیں اورایساکرنے کیلئے انہیں مجوزہ اتھارٹی سے اجازت مطلوب تھی تواس مجوزہ اتھارٹی میں کن افرادنے ایساکرنے کی اجازت دی؟وہ کون سے خفیہ ہاتھ اور قوتیں ہیں جوبلوچستان میں دریافت شدہ تیل کے ذخائرکی کھدائی میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں؟ہمارے ملک کے مایہ نازسائنسدان نے تومیڈیاپرانہی گیس کے ذخائرکوقیمتی ڈیزل میں تبدیل کرنے کے کامیاب تجربے کاعملی مظاہرہ بھی قوم کے سامنے پیش کرکے دکھادیا لیکن ان کواس عمل کوبڑھانے کیلئے کن قوتوں نے سختی سے روک دیااورمزیدفنڈنگ کاراستہ روک دیاگیا؟جبکہ سرحدپاربھارت نے اسی علاقے سے اس تیل کے بہائوکواپنی طرف موڑتے ہوئے کامیابی سے اس کااب تک فائدہ اٹھارہاہے۔

آج رک ڈیک کے معاملے پرایسے بلوچ قوم پرست نے جوایک طرف توحکومت سے اپناکمیشن کھراکرنے کیلئے اپنے حواریوں سے بلوچستان کی حق تلفی کانعرہ بلندکرکے اپناکرداراداکرتے ہیں اوردوسری طرف اگلے متوقع انتخابات پران کی نظرہے۔بلوچستان میں حقیقی تبدیلی کاسویراتواس دن طلوع ہوگاجب اس صوبے کوسرداروں سے نجات ملے گی جس کیلئے ایک بہت بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ جونہی اس تبدیلی کی طرف کام شروع ہوتاہے تویہ گروہ جس کو باقاعدہ غیرملکی طاقتوں کی آشیربادحاصل ہے،وہ در پردہ اپنی کاروائیوں کو تیزکردیتے ہیں۔کیاہم بھول گئے ہیں کہ مشرف کے زمانے میں جب شپنگ کاوفاقی وزیر ایم کیوایم کاغوری تھا ،اورافغانستان کیلئے امریکی کمک کے کنٹینرزکاروٹ تبدیل کرکے براستہ بلوچستان کردیاگیاتھااوراسی روٹ کی آڑمیں پانچ سالوں کے دوران امریکی دوہزارکے قریب کنٹینرزغائب ہوگئے تھے۔ہماری تمام ایجنسیوں کواس روٹ سے دوررہنے کاحکم دے دیاگیاتھا لیکن جب معاملہ اس حد تک بگڑگیاکہ کہ چار امریکی سینیٹرزنے بلوچستان علیحدگی کی کھل کرنہ صرف حمائت کی بلکہ ایک قراردادبھی سینیٹ میں پیش کی گئی جس کے بعد پاکستان کی پانچ بلین کی وہ مددروک لی گئی جس کوپاکستان نے ایک امریکی معاہدے کے تحت علاقے میں خرچ کیاتھااورآج تک امریکانے اس کی ادائیگی نہیں کی اوراپنے تحریری معاہدے کی بھی دھجیاں اڑادیں۔

اس کے بعد26نومبر2011ءکورات2بجے قبائلی ضلع مہندمیں پاک افغان بارڈرپرسلالہ چیک پوسٹ پرپاکستان فوج کے موجودسپاہیوں پربمباری کی وجہ سے ہمارے 24جوان شہیداور13زخمی ہوگئے تھے۔سلالہ اس پہاڑکانام ہے جس پریہ دو”آتش فشاں”اور”بولڈر”نام سے چیک پوسٹیں قائم تھیں۔ امریکی جنگی جہاز پاکستان کی حدود میں تقریباً دوکلومیٹرتک داخل ہوگئے تھے اورانہوں نے سلالہ کے مقام پردو پاکستانی فوج کی چوکیوں پرحملہ کیا۔پاکستانی فوجی تحقیق کاروں کے مطابق پاکستان کے خلاف اس حملے کی سازش افغان اوربھارتی انٹیلی جنس کی ایماءپرتیارکی گئی۔ پاکستان اورامریکاکے سفارتی تعلقات میں یہ پہلی مرتبہ ہواتھاکہ کسی امریکی حملے میں اتنے زیادہ تعدادمیں پاکستانی سکیورٹی اہلکارہلاک ہوئے تھے اوراس پرپہلی مرتبہ پاکستان کی جانب سے بہت سخت اور غیرمعمولی ردِّعمل آٹھ ماہ تک نیٹوسپلائی کی بندش افغانستان میں جاری جنگ کے دوران سب سے بڑا تعطل پیداکردیاتھا۔پینٹاگون نے روس،قازقستان، ازبکستان اورتاجکستان کے ذریعے متبادل راستے تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن یہ پاکستان سے گزرنے والے راستوں سے زیادہ طویل،مہنگے اورکم مؤثرثابت ہوئے ۔روس کے ذریعے نیٹوکی سپلائی لائن پہلے ہی میزائل دفاعی منصوبوں پرکشیدگی کی وجہ سے بندہونے کے خطرے سے دوچار تھی۔پاکستان نے احتجاجاً بون میں افغانستان کے مستقبل سے متعلق کانفرنس میں بھی شرکت سے بھی انکارکردیاتھا۔جس کے بعد امریکی کمک پرپابندی لگادی گئی۔باآخر8 مہینے کی پابندی کے بعدجب امریکا کی کے کانوں سے دھواں نکلنے لگا تو نیٹو نے اس واقعے پراپنی غلطی کااعتراف کرتے ہوئے افسوس کااظہارتوکیامگرپاکستان سے غیر مشروط معافی مانگنے سے گریزاں رہے۔ صدر اوبامان ے اس حملے کو المیہ قراردیتے ہوئے تعزیت کی اور پینٹاگون کایہ مؤقف رہا کہ تعزیت اورافسوس اب آگے بڑھنے کیلئے کافی ہے لیکن بعدازاں امریکاکی سیکریٹری آف سٹیٹ ہیلری کلنٹن نے ذاتی طورتوپرحملے کی معافی مانگ لی لیکن امریکی ریاست کی طرف سے کوئی معافی نامہ نہیں آیا ۔گویاایک ڈھیلاڈھالامعافی نامہ جاری کیاگیا۔تقریبا آٹھ ماہ کے بھرپورپاکستانی جواب کے بعد12 جولائی2012 کوطورخم اور چمن کے راستے نیٹوسپلائی دوبارہ بحال ہوئی اوراسی حملے کے بعدپاکستانی حکومت نے امریکاکے زیرنگرانی پاکستان میں چلنے والاشمسی ائیربیس بھی خالی کروالیا۔

حالات وواقعات اس بات کے شاہدہیں کہ امریکااورنیٹوجوکودکودنیاکے آقاومالک سمجھتے ہیں،وہ ان رسوائیوں کوبھولتے نہیں بلکہ اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے وقتی طورپرسمجھوتہ کرنے میں کوئی عارنہیں سمجھتے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وہ اپنی ان سازشوں کوعملی جامہ پہناتے ہوئے کڑی سزادینے سے بازنہیں آتے۔ میں یہ نہیں کہتاکہ اپنے حکمرانوں کی غلطیوں،کرپشن اوردیگرحماقتوں کاالزام بھی امریکااورمغرب پرڈالاجائے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں ہرآنے والاحکمران امریکاکی نظرالتفات کوہی اپنے لئے ایک بڑااعزازسمجھ کرساری قوم کوبھیڑبکریوں کاریوڑسمجھ کرفروخت کرنے کیلئے ہمہ وقت تیارہوتاہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں