Real Diamond

اصلی ہیرا

:Share

ہردن دنیاکی بے ثباتی،مہنگائی کارونا،اپنے اورغیروں کی زیادتیوں پرکڑھنے اوردیگرمصائب سے بھرپورزندگی کے آلام اورپھر سیاست دانوں کے شعلہ بھرے بیانات اورجواب میں حکومتی دہمکیوں اورتذلیل بھرے الزامات اوراس پرمستزاددنیامیں سپرپاور اوردیگر ممالک کی غریب ملکوں سے زیادتی کارونالکھتے لکھتے ہاتھ شل ہوتے جارہے ہیں۔اس لئے آج یہ ضروری سمجھاکہ ان موضوعات کوایک طرف رکھتے ہوئےاپنی انفرادی زندگی کے ہوشربا مسائل سے آنکھیں چراکراپنی اصلاح کی بات ایک چھوٹی سی کہانی سے شروع کروں، ممکن ہے دل پرپڑے بوجھ میں کمی آجائے۔

با دشاہ نے کانچ کے ہیرے اور اصلی ہیرے ایک تھیلی میں ڈال کر اعلان کیا “ہے کوئی جوہری جو کانچ اور اصلی ہیرے الگ کر سکے شرط یہ تھی کہ کامیاب جوہری کو منہ مانگا انعام اور ناکام کا سر قلم کردیا جائے گا ۔ درجن بھر جوہری سر قلم کروابیٹھے ۔ کیونکہ کانچ کے نقلی ہیروں کو اس مہارت سے تراشا گیا تھا کہ اصلی کا گمان ہوتا تھا ۔ ڈھنڈہورا سن کر ایک اندھا شاہی محل میں حاضر ہوا فرشی سلام کے بعد بولا کہ وہ ہیرے اور کانچ الگ الگ کر سکتا ہے ۔ بادشاہ نے تمسخر اڑایا اور ناکامی کی صورت میں سر قلم کرنے شرط بتائی ۔ اندھا ہر شرط ماننے کوتیار ہوا ۔ ہیروں کی تھیلی اٹھائی اور محل سے نکل گیا ۔ ایک گھنٹے بعد حاضر ہوا اس کے ایک ہاتھ میں اصلی اور دوسرے ہاتھ میں کانچ کے نقلی ہیرے تھے ۔ شاہی جوہریوں نے تصدیق کی اور اندھا جیت گیا ۔

بادشاہ بہت حیران ہوا اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ جو کام آنکھوں والے نہ کر سکے وہ کام ایک نابینا کیسے کر گیا ؟ بادشاہ نے اندھے سے دریافت کیا کہ اس نے اصلی اور نقلی کی پہچان کیسے کی؟ اندھا بولا یہ تو بہت آسان ہے “میں نے ہیروں کی تھیلی کڑی دھوپ میں رکھ دی پھر جو تپش سے گرم ہوگئے وہ نقلی تھے اور جو گرمی برداشت کر گئے اور ٹھنڈے رہے وہ اصلی تھے”۔ بادشاہ نے اندھے کے علم کی تعریف کی اور انعام اکرام سے نواز کر رخصت کیا ۔

اندھے شخص کی داناوبینانصیحت کایہ واقعہ پڑھ کرمیرا غصہ میری انا میرے دماغ کی گرمی بھی رخصت ہوگئی ۔ مجھےسمجھ آگئی کہ برداشت نرم مزاجی حلیمی متانت محبت ہی انسایت کی معراج ہے ۔ جو گرمی حالات کو سہہ گیا وہ ہیرا جو نہ سہہ سکا وہ کانچ ۔ میں جان گیا تھا کے اصلی اور نقلی میں صرف برداشت اور سہہ جانے کا فرق ہے ۔

لیکن ہمارے ہاں حالات کے مارے ہوئے لوگ تنگ آکرمایوسی کی حالت میں پوچھتے ہیں کہ انسان آخر کب تک برداشت کرے؟کب تک لوگوں کے طعنے سہے؟کب تک اپنے غصے کو پئے؟آخر برداشت کی کوئی حد ہوتی ہے”تواس کاسادہ جواب یہ ہے کہ اس وقت سہناہے جب تک ہیرانہ بن جائیں۔ پھر اس کے بعدہیرابننے کے بعدکوئی دبا ؤ کوئی آگ کوئی تپش اثرنہیں کرتی۔ جس طرح چکنے گھڑے پر پانی نہیں ٹکتا اسی طرح “اصلی” پر کوئی تیر کوئی نشتر کام نہیں کرتا ۔ بندہ جب بندے کے عشق میں مبتلا ہوجاتا ہے تو وہ دنیا کیلئےاور دنیا اس کیلئےبے ضرر ہوجاتی ہے ۔اس کے بعدذہن میں یہ سوال انگڑائیاں لینے لگتاہے کہ انسان کوانسان کے ساتھ کیاسلوک کرناچاہئے؟

اس کابہترین جواب درخت سے سیکھناچاہئے کہ جوپھل بھی دیتاہے اور سایہ بھی، لوگ آتے ہیں اس کے سائے میں سستاتے ہیں پھل کھاتے ہیں اور چلے جاتے ہیں ۔ درخت اسی جگہ کھڑا اگلے مسافر کا انتظار کرتا ہے اور ہر آنے والے کی آ ؤ بھگت کرتا ہے ۔ خاموش رہتا ہے کبھی شور نہیں کرتا اپنی عنایات کا اعلان نہیں کرتا ،جتاتا نہیں ۔ اسی طرح بندے کو ہونا چاہئے ۔ کسی آم کے درخت نے آج تک کبھی اپنا آم چوس کر نہیں دیکھاجس کودنیاپھلوں کابادشاہ گردانتی ہے۔سیب کے درخت نے کبھی اپناپھل نہیں کھایاجس کواس نے یخ کردینے والی سردی اورموسم کی شدت سے بچاتے ہوئے اپنے اوپرسہہ کراسے جوان کیااورآج اپنے حسن،تقویت اوردلکش رنگوں سے پھلوں میں اپنی زینت کاسبب بناہواہے۔ درخت نے دان کرنے کی یہ ادا ماں سے سیکھی ہے جو بچوں کو سکول بھجنے کے بعد چار گھنٹے لگا کر گوشت سبزی پیاز پودینے سے ہانڈی پکاتی ہے اور بچوں کے آتے ہی چار گھنٹے کی محنت ان کے سامنے رکھ کر خاموشی سے بچوں کو کھاتا دیکھ کر من ہی من میں خوش ہوتی ہے ۔ ماتھے کا پسینہ دوپٹے کے پلو سے صاف کرکے سلامت رہو تاقیامت کی دعا دیتی ہے ۔ ہم درخت اور ماں کو استاد مان کر سب کچھ سیکھ سکتے ہیں ۔

لیکن ہم کیاکرتے ہیں؟ میں جس درخت کے سائے تلے بیٹھا تھا وہ امرود کا درخت تھا میں نے پہلے ایک امرود توڑا وہ کچا تھا پھنک کر دوسرا توڑا وہ کھایا ، درخت نے مجھےکچھ نہیں کہا پھر میں نے درخت کا کندھا تھپتھپایا وہ خاموش رہا اس کے بعد میں نے درخت کو ٹھوکر ماری چوں تک کی آواز نہ آئی ۔ میں نے درخت کی کئی شاخیں توڑ ڈالیں مجال ہے جو کُسکا ہو ۔ اس کے پتے نوچ ڈالے کوئی شکوہ شکایت نہ کی اس نے ۔ میں نے رخصت ہوتے وقت سلام بھی کیا جواب نہ آیا ۔ میں نے درخت سے اپنے کئے کی معافی بھی مانگی درخت نے مجھے”جا ؤ معاف کیا “کہہ کر شرمندہ تک نہ کیا ۔کمال توتب ہوگااگرہم بھی درخت اورماں کی طرح گونگے ہوجائیں اورصرف پہلے چنددن کی بات ہے،پھراس عمل کی لذت سے آپ بخوبی واقف ہوجائیں گے اوراپنے گردوپیش میں مسکراہٹوں کاایک خوبصورت منظرمنتظرپائیں گے۔کریں گے ناں یہ کام !

رہے نام میرے رب کاجس نے آسانیاں تقسیم کرنے والوں سے اپنی محبت کااظہارفرمایا!

اپنا تبصرہ بھیجیں