نفرت واحترام کامعیار

:Share

تقریباًدوہزارسال قبل یونان کے شہرایتھنزکے لوگ اپنے حاکم خود منتخب کرتے۔آرٹ ادب فکراورفلسفہ ان کااوڑھنااور بچھونا تھا۔ شہرکی ایک اسمبلی تھی جہاں لوگوں کے مسائل زیربحث آتےلیکن404 قبل مسیح،سیارٹاکے جرنیل لینڈرنے وہاں کے چندآمریت پسندلوگوں کواکسایا،ان کی مددکی اورایتھنزپرجمہوریت،عوام اوراسمبلی کی جگہ چندآمروں کی بادشاہی قائم کردی گئی۔عدالت جرنیل لینڈرکے سامنے جھک گئی اورروزاس عدالت سے ذاتی اورسیاسی مخالفت کی بنیادپرلوگوں کو پھانسی کی سزادلوائی جانے لگی۔اس عدالت میں تاریخ کاایک ناقابل فراموش کردارسقراط پیش ہوا۔سقراط پر لوگوں کوعلم وآگہی کی تعلیم دینے اورنوجوانوں کوگمراہ کرنے کامقدمہ قائم تھا۔جرنیل کی نامزداس مجبور عدالت نے اسے موت کی سزا سنادی۔سقراط نے صرف اتناکہا،میں موت سے مغلوب ہورہاہوں اورتم بدی سے۔اسے تیس دن جیل میں رکھاگیا،پھر اسے زہر کاپیالہ دیاگیاجواس نے سکون اوراطمینان سے ہونٹوں سے لگالیا۔میں نے تاریخ کے صفحات کی ورق گردانی کی،مجھے جرنیل لینڈرکانام ملا، سرکاری طورپرالزامات لگانے والے میلتس کانام ملالیکن تاریخ نے گوارانہ کیاکہ اس جج کانام محفوظ کرے جس نے ضمیرکی بجائے خوف کے زیراثرفیصلہ دیاتھا۔

1411ءمیں فرانس کے ایک گاؤں میں ایک لڑکی ژاں وارک پیداہوئی جوعہدجوانی تک اپنی پاکبازی کی وجہ سے مشہور تھی۔ کسے خبرتھی کہ صرف 17سال کی عمرمیں یہ لڑکی فرانس کی آزادی کی ایک مشعل بن کرابھرے گی۔اس کی قیادت شکست خوردہ فرانسیسی فوجیوں کوجمع کرے گی اورانگلستان کی فوج پسپاہونے لگے گی مگرفرانس کے آمربادشاہ چارلس ہفتم کواس لڑکی میں آزادی اورحریت کے جراثیم نظرآنے لگے۔اسے ساحراورجادوگرکہہ کرگرفتارکرلیاگیا۔احتساب کی عدالت میں اس پر مقدمہ چلایاگیااورعدالت کوحکم دیاگیاکہ فیصلہ جلدسنایاجائے۔فیصلہ سنایاگیااور30 مئی1431ء کورون کے بازارمیں اسے زندہ جلادیاگیا۔تاریخ احتساب کی عدالت کے اس جج کانام بھی نہیں بتاتی جس نے فیصلہ سنایاتھا۔

1588ءمیں پیداہونے والے برونونے جب جاہل معاشرہ کے سامنے کہاکہ زمین سورج کے گردچکرلگاتی ہے توقیامت کھڑی ہو گئی۔اس کے اپنے شہرنیپلزمیں اس پرمقدمہ چلاتووہ بھاگ گیا۔کئی سال بعدوینس آیاتو1592ء میں اسے گرفتارکرلیاگیا اور واپس روم کی آمریت کے حوالے کیاگیا اور پھراحتساب کی عدالت کے سپردکردیاگیا۔جج نے اسے موت کی سزاسنائی تواس نے کہا،میرے جج موت کی سزاسناتے ہوئے مجھ سے زیادہ خوفزدہ ہیں ۔ آگ تیارہوئی اوروہ بے خوف وخطرآگ میں کود گیا ۔انتہائی کوشش کے باوجودمجھے اس جج کانام بھی تاریخ کے صفحات پرنہ مل سکاجس نے حکومت وقت کے کہنے پربرونو کو موت کی سزاسنائی تھی۔

گیلیلیوکانام کون نہیں جانتا۔1608ءمیں اس نے دوربین کے ذریعے جب چاندکودیکھاتووہ اسے بدنمالگا۔اس نے جب چاندکی گھاٹیوں اورپہاڑوں کے بارے میں لوگوں کوبتایاجوچاندکودیوتاسمجھتے تھے توہنگامہ کھڑاہوگیا۔بس پھرکیاتھاگرفتارہوا، جج نے کہاوہ آئندہ ایسے تجربے نہیں کرے گا۔وہ سولہ سال خاموش رہاپھراس نے اظہارکے بوجھ سے مجبورہوکراجرام فلکی پراپنی کتاب شائع کر دی۔جج کے سامنے دوبارہ پیش ہوااوراب معافی نہ مل سکی۔اسے اپنی زندگی کے آخری دس سال ایک تنگ وتاریک قیدخانے میں گزارنے پڑے۔ گیلیلیوپرکئی کتابیں لکھی گئیں مگراس شخص کاکہیں تذکرہ نہیں ملتاجس نے اس وقت کے آمروں کی منشاپوری کرنے کیلئے سچ کاساتھ نہ دیااورگیلیلیوکوسزاسنائی

سوئٹزرلینڈمیں سروئیس کواس کی کتابوں میں علم کی روشنی،انسان کی عظمت کاذکرکرنے اوربادشاہت اورآمریت کے خلاف لکھنے پرپکڑاگیااور1533 ء میں جج نے فیصلہ سنایاکہ اسے زندہ جلادیاجائے۔ایک آگ روشن کی گئی جس کے شعلے پورے شہر میں دکھائی دیتےتھے۔اس میں سروئیس اوراس کی کتابوں کوپھینک دیاگیا۔وہ جج جواس آگ کے قریب کھڑااپنے حکم کی تکمیل دیکھ رہا تھا،تاریخ اس کے نام سے بھی آشنانہیں۔

جب فرانس کی ظالم،آمریت صفت بادشاہت کسانوں پرمقدمات بنارہی تھی تومادام رولاں ان کی حمایت کیلئے اٹھ کھڑی ہوئی۔وہ آمریت کے خلاف واحدآوازتھی۔گرفتارہوئی،مقدمہ چلا،بادشاہ کے مقررکردہ جج نے پھانسی کی سزاسنائی۔جب اسے پھانسی پرلے جایاجارہاتھاتووہ آزادی کے مجسمے کے سامنے سے گزری۔اس نےکہا”اے آزادی تیرے نام پرکیاکیاظلم کیےجاتے ہیں”۔مادام رولاں آج بھی فرانس میں زندہ ہےلیکن فیصلہ سنانے والے جج کاکوئی نام تک نہیں جانتا۔

برطانیہ کی پارلیمنٹ میں ایک شخص کی تصویرآج بھی آویزاں ہے جسے جمہوریت،آزادی اورانسانی حقوق کاعلمبردار کہا جاتا ہے،لاتمیرمگرشاہی مزاج کویہ سب اچھانہیں لگتاتھا۔اسے قیدکردیاگیا۔لندن ٹاورکےاندھیرے کمرے میں اس نےکئی سال گزارے۔پھرایک اورسنگدل بادشاہ آگیا۔اسے ٹاورسے نکال کرایک عدالت کے سامنے پیش کیاگیا۔اس کے ہمراہ اس کاایک ساتھی ریڈے بھی تھا۔عدالت نے حکم دیا،دونوں کوزندہ جلادیاجائے۔ آکسفورڈ کالج کے سامنے آگ روشن ہوئی۔دونوں کو زنجیرسے باندھ کرلایاگیا۔لاتمیرنے صرف اتناکہا”ریڈے بہادربنو،آج ہم انگلستان میں ایسادیاروشن کررہے ہیں جوکبھی نہیں بجھےگا”۔بادشاہ میری ٹیوڈرجس کےاشارے پرجج نےلاتمیرکوسزاسنائی،اس کانام توپھربھی نفرت کے طورپرزندہ ہےلیکن جس جج کے قلم نے یہ فیصلہ لکھا اس کانام مورخ کے قلم کی روشنائی لکھناتک گوارانہیں کرتی۔

میں نے صرف چندمثالیں پیش کی ہیں ورنہ دنیاکاکوئی خطہ ایسانہیں رہاجہاں ظالموں،آمروں،جابروں،چنگیزخانوں،نمردوں اور فرعونوں کی حکومتیں نہ رہی ہوں اورعدالتیں ان کے ابروکے اشارے پرنہ چلتی ہوں لیکن کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں حضرت ابراہیم،حضرت موسیٰ اورسقراط جیسے لوگوں نے حق کی مشعلیں نہ روشن کی ہوں۔دونوں کے نام تاریخ میں زندہ ہیں ایک کا نفرت کے ساتھ اوردوسرے کامحبت کے ساتھ،ایک کے حصے میں احترام آیااور دوسرے کے حصے میں ذلت ورسوائی لیکن کتنے بدنصیب تھے وہ لوگ جن کے قلم نے ایسے فیصلے کیے جوبادشاہوں،آمروں،ڈکٹیٹروں اورفرعونوں کی خواہش کی تکمیل کرتے تھے لیکن تاریخ نے انہیں اس قابل بھی نہ سمجھاکہ ان کانام نفرت وحقارت کے طورپرہی محفوظ کرلیاجائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں