Quad: Dangerous Intentions

کواڈ:خطرناک عزائم

:Share

2017ء میں جب جاپانی وزیراعظم شانزوایب نے بھارت،آسٹریلیااورامریکاکے حکام کومنیلامیں ملاقات کی دعوت دی تواس خبرمیں ایساکچھ نہیں تھاجوچین کیلئے پریشانی کا باعث بنتا۔اس وقت چینی وزیرخارجہ وانگ وائی نے طنزکرتے ہوئے اس محفل کے بارے میں کہا تھا کہ (اس گروپ کوکواڈکانام دیا گیا تھا) کایہ اجتماع صرف ذرائع ابلاغ میں سرخیوں میں آنے کی ایک کوشش ہے۔ ان کاکہناتھا کہ یہ بحرالکاہل یابحرہندکی اس جھاگ کی طرح ہے جوتوجہ چاہتی ہے لیکن پھرخودبخودبیٹھ جاتی ہے۔ایسابیان دینے کیلئے بیجنگ کے پاس ٹھوس وجہ بھی تھی۔چینی ماہرین کاخیال تھاکہ کواڈکے ارکان ممالک کے مفادات ایک دوسرے سے بہت زیادہ متصادم ہیں اس لیے ان سب کاکسی مشترکہ حکمت عملی یا منصوبہ بندی تک پہنچناتقریباناممکن ہے۔ویسے بھی اس طرح کے اتحادکاتجربہ ایک دہائی قبل بھی کیاجاچکاہے جس کے کوئی خاطرخواہ نتائج سامنے نہیں آئے تھے۔تاہم نومبر 2017 کے اس اجتماع کے چندسالوں میں ہی چین کو اپنی پہلے بیانات پر ازسر نو غور کرنا پڑا۔اس سال مارچ میں جبکواڈ ممالک کے سربراہان سطح کاپہلااجلاس منعقدہوا اور اس کی پریس ریلیز جاری کی گئی تب سے چینی حکام نے اس اتحادکو تشویشی نظر سے دیکھنا شروع کر دیا۔اس سربراہی اجلاس کے بعد چینی ماہرین نے یہ اخذ کیا کہ آنے والے سالوں میں چینی عزائم کے سامنے یہ اتحاد ایک چیلنج کے طور پر سامنے آئے گا۔

چین کے ساتھ تزویراتی مقابلہ واشنگٹن میں ایک ایساایشوبن گیاہے،جس پروہاں کی دونوں سیاسی جماعتیں ایک جیساموقف رکھتی ہیں اوروہاں کی دونوں جماعتوں میں بہت کم ہی کسی ایشوپراتفاق رائے ہوپاتاہے۔اس خطرے کوبھانپتے ہوئے چینی صدرنے کہاتھا کہ مستقبل کے عالمی نظام میں چینی بالادستی کیلئے اگرہمیں کسی سے مقابلہ کرناہوگاتووہ امریکا ہو گاکیونکہ امریکاچینی بالادستی کی راہ میں رکاوٹ بنے گا۔صدرژی کاخیال ہے کہ اب سے لیکر2035تک چین کے پاس یہ موقع ہے کہ وہ معاشی،ٹیکنالوجی اورفوجی لحاظ سے دنیا کے تمام ممالک سے آگے نکل جائے۔اس کیلئے وہ خاص طورپر ایشیائی ممالک پرزورڈال رہا ہے کہ دنیامیں چینی بالادستی اب یقینی ہے اوران کیلئے اس کے علاوہ کوئی دوسراآپشن نہیں کہ وہ چینی مطالبات کوتسلیم کریں۔اس سے چین بغیرگولی چلائے عالمی نظام کواپنی مرضی کے مطابق چلانے کے قابل ہوجائے گااوربغیرگولی چلائے وہ دنیامیں قائدانہ کردارسنبھال لے گا۔

چین کی نظرمیں کواڈ کی اہمیت اس لیے بڑھ رہی ہے کیوںکہ یہ واحداتحادہے جوچین کے خلاف مزاحمت کرنے والے تمام ممالک کوایک ساتھ جمع کرنے کی کوشش کررہاہے۔یہی وجہ ہے کہ چینی حکام اس اتحادکے مقاصداورپیش قدمی میں رکاوٹ ڈالنے کی بھرپورجدوجہدکررہے ہیں اورچین کولگتاہے کہ اگریہ اتحادکامیاب ہواتوہماری بالادستی کی جدوجہدمیں خلل ڈالنے کاباعث بنے گا۔

جاپانی وزیراعظم ایب نے کواڈلانچ کرنے کی پہلی کوشش2004میں کی تھی،جب آسٹریلیا،بھارت،امریکااورجاپان نے مل کر سونامی جیسی آفت سے نمٹنے کیلئے کوششیں کی تھیں۔ ایب نے چاروں ممالک کی مشترکہ سکیورٹی چیلنجزسے نمٹنے کیلئے مل کرکام کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کیلئے کواڈکے قیام کاآئیڈیا پیش کیا تھا۔تاہم بقیہ دارالحکومتوں نے کسی خاص گرم جوشی کامظاہرہ نہیں کیا۔

امریکی صدرجارج بش کوخدشہ تھاکہ ایک ایسے وقت میں جب دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اسے چین کی ضرورت ہے،اس اقدام سے چین اپنے آپ کوتنہامحسوس کرے گااور ہوسکتاہے کہ جواب میں وہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں تعاون سے پیچھے ہٹ جائے۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد جب وکی لیکس سامنے آئیں تواس میں پتاچلاکہ امریکی انتظامیہ کی طرف سے خفیہ طورپرعلاقائی طاقتوں کو یہ یقین دلایاگیاتھاکہ کواڈکبھی حقیقت کاروپ نہیں دھارسکے گا۔دہلی میں من موہن سنگھ نے کواڈسے کسی بھی قسم کے فوجی تعاون کوخارج ازامکان قراردے دیاکیونکہ بھارت کاخیال تھاکہ چین سے بہترتعلقات ہماری ضرورت ہیں۔ادھرکینبرامیں جان ہارورڈکی قدامت پسندحکومت نے چین کے ساتھ فائدہ مندمعاشی تعلقات کی بنیادپرایسے کسی بھی اقدام کی مخالفت کردی اورآسٹریلیا نے تو سہ فریقی اتحادمیں بھارت کی شمولیت کی بھی کھل کرمخالفت کی۔

جنوری2007میں آسٹریلیانے سرکاری طورپربیجنگ میں اس اتحادسے علیحدگی کااعلان کردیا۔اس اتحا دکے بانی شانزوایب نے جب نومبر2007میں غیر متوقع طورپراپنے عہدے سے استعفٰی دے دیاتوان کے جانے کے ساتھ ہی کواڈکاآئیڈیااپنی موت آپ ہی مرگیا۔جب ایک دہائی بعدایب نے ان ممالک کودوبارہ اکٹھاکیاتواس وقت تک تزویراتی حالات میں ڈرامائی تبدیلیاں رونماہوچکی تھیں۔سالہاسال سے امریکاچین بڑھتی ہوئی کشیدگی،جنوبی اورمشرقی چین کے سمندروں میں چین کاجارحانہ رویہ اورچین اوربھارت کے مابین متنازع زمین پرباربارکی جھڑپوں نے ان ممالک کے دارلحکومتوں میں چین کے خلاف تزویراتی حکمت عملی کے حوالے سے کان کھڑے کردیے تھے۔تاہم بیجنگ کااب بھی خیال تھاکہ متضاد مفادات کی وجہ سے یہ ممالک اکٹھے نہیں ہوسکیں گے ۔حالانکہ کواڈممالک کے سفارتکاروں نے”ایسٹ ایشیا”کانفرنس کے موقع پرایک میٹنگ کی،جس کی کوئی مشترکہ پریس ریلیزتوجاری نہ کی جاسکی تاہم سب سفارت کاروں نے اپنے اپنے بیانات دیے اورکہاکہ مفادات کے حوالے سے ابھی اختلافات موجودہیں۔ستمبر2019میں نیویارک میں کواڈکے وزرائے خارجہ اجلاس کے موقع پربھی چین بڑی حدتک لاتعلق ہی رہاتاہم اس اجلاس کے اختتام پروزرائے خارجہ نے مل کرکام کرنے پراتفاق کیااور کواڈکے مقاصد کابھی اعلان کیاجس میں سب سے اہم”آزاداورکھلے بحرالکاہل ”کیلئے جدوجہدتھا۔پھرجون2020میں بھارتی اور چینی فوج کے درمیان سرحدی پٹی پر جھڑپیں ہوئیں،جس کے نتیجے میں20بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے۔اس کے بعدوہی نئی دہلی جو کواڈاتحادمیں کوئی خاص دلچسپی نہیں لیاکرتاتھا،اسے اپنی تزویراتی ترجیحات کاازسرنوتعین کرنا پڑااوراب اسے چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کے سامنے اپناتوازن برقراررکھنے کی جلدی تھی۔

اکتوبر2020میں کواڈممالک کے وزرائے خارجہ کاجب ٹوکیومیں دوبارہ اجلاس ہواتوبیجنگ نے اس اتحادپرتوجہ دیناشروع کی۔ امریکی سکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے بہت واضح الفاظ میں کہاکہ ہمارامقصدتھا کہ”کواڈ”کوادارے کی شکل دے کراس کے ذریعے ایک مکمل سیکورٹی فریم ورک بنایاجائے اوروقت آنے پراس اتحادکووسعت دی جائے تاکہ چینی کمیونسٹ پارٹی کی طرف سے ہمیں جن چیلنجزکاسامناہے ان کامقابلہ کیاجاسکے۔مائیک پومپیو اس سے پہلے نیوزی لینڈ ،ویت نام اورجنوبی کوریاکومعاشی، ٹیکنالوجی اورسپلائی چین کے حوالے سے اکٹھاکرکے ایک اجلاس کرچکے ہیں جس کو”کواڈپلس” کانام دیاگیاتھا۔اس اجلاس کے بعد بھارت نے آسٹریلیاکواپنی بحری مشقوں(مالابار)میں شرکت کی دعوت دی،جوکہ جاپان اورامریکاکے ساتھ مل کر جاری تھیں۔یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ بھارت نے اس سے پہلے ان مشقوں میں آسٹریلیاکوشریک کروانے سے منع کردیاتھا کیوںکہ وہ چین کی ناراضی مول نہیں لیناچاہتاتھا۔جون میں ہونے والی سرحدی جھڑپوں نے بھارت کیلئے فیصلہ سازی میں آسانی پیداکردی۔

پہلے پہل توحکمت عملی بنانے والے چینی ماہرین کاخیال تھاکہ اس مسئلے کاسادہ ساحل ہے کہ ”گاجراورچھڑی”کااستعمال کیاجائے، یعنی کواڈرکن ممالک کے معاشی اوردفاعی مفادات کے درمیان ایک لکیرکھینچ دی جائے،یعنی ان ممالک کوان کے معاشی اورسلامتی کے مفادات پرتقسیم کردیاجائے کیونکہ ان میں سے بیشترممالک چین کی بڑی کنزیومر مارکیٹ سے منسلک ہیں اس لیے ان پردباؤڈال کرکواڈکوتقسیم کیاجاسکتاہے۔اکتوبر2020کے سالانہ اجلاس میں پھرمالا بار کی بحری مشقوں کے بعدچینی وزیرخارجہ کے لہجے میں واضح تبدیلی دیکھی گئی۔ انہوں نے”کواڈ”پرتنقیدکرتے ہوئے اسے انڈو پیسیفک کانیٹوقراردیتے ہوئے کہاکہ کواڈکی انڈوپیسیفک حکمت عملی ایک فاش غلطی ثابت ہوگی اور اسے خطے کیلئے سکیورٹی رسک قراردیا۔اس کے ساتھ ہی بیجنگ نے چھڑی کے استعمال کیلئے اپنے ہدف کاانتخاب بھی کرلیا۔چینی روایات ہیں کہ سیکڑوں کوڈرانے کیلئے کسی ایک کوماردو۔اس صورت حال میں بھارت اورجاپان کوڈرانے کیلئے اس نے آسٹریلیاکو ہدف بنانے کافیصلہ کیا۔

بیجنگ اس سے قبل کینبراسے تعلقات بہتربنانے کی حکمت عملی پرعمل پیراتھا،تاہم اچانک ہی چین نے بغیرکسی وضاحت کے آسٹریلوی کوئلے کی درآمدپر پابندی لگادی۔اس کے بعد آسٹریلیا سے گوشت، کپاس، اون، جو، گندم، لکڑی، تانبا، چینی، لابسٹر اور شراب پربھی پابندی لگا دی گئی۔بیجنگ کا خیال تھا کہ کواڈ ممالک میں سے سب سے چھوٹاملک آسٹریلیا ہے،اس لیے اس کومعاشی طورپردبا ؤ میں لینانسبتاآسان ہوگااوروہ اپنی جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے چین کیلئےکسی بڑے خطرے کاباعث بھی نہیں بن سکتا۔اسی دوران چین نے بھارت اورجاپان سے تعلقات میں بہتری لانے کاکام شروع کردیا۔آنے والے برسوں میں چینی صدرژی چن پنگ کے جاپان کے دورے اورجاپانی وزیراعظم سے ملاقات کی کوشش بھی کی گئی۔اس کے علاوہ بھارت سے کشیدگی کم کرنے کی کوششیں بھی جاری رہیں اورمذاکرات کے ذریعے اپنے فوجی کی رہائی ممکن بنانے کی سرتوڑکوششیں کی گئیں تاکہ ملک میں قوم پرستوں کے غصے سے بچاجا سکے

تاہم بیجنگ کواڈممالک کے باہمی اتحادکاصحیح اندازہ نہیں لگاسکا،اس کے سارے اقدامات کواڈاتحادپرکوئی خاطرخواہ اثرنہ ڈال سکے۔ٹوکیومشرقی چینی سمندرمیں بیجنگ کے جارحانہ اقدامات اورہانگ کانگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بیجنگ سے پہلے سے بھی زیادہ ناراض ہوگیا۔اسی طرح نئی دہلی بھی سرحدی جھڑپوں کے بعداگرچہ مذاکرات سے مسئلے کوٹھنڈاکرنے میں تو دلچسپی ظاہرکرتارہاتاہم بھارتی وزیرخارجہ نے واضح الفاظ میں کہاکہ ان سارے حالات کے بعدہمیں اندازہ ہوگیاہے کہ قومی سلامتی کے امورپرہمیں مزید جامع حکمت عملی ترتیب دینی ہوگی اورواشنگٹن کے ساتھ اپنے تعلقات کومزیدمستحکم کرناہوگا تاکہ ہم چیلنجزکا مقابلہ کرسکیں۔اس سال کے اوائل تک چین کواندازہ ہوگیاتھاکہ کواڈکو نظراندازکرنے سے یاپھراسے تقسیم کرنے کی کوشش کرنے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا،توچین نے تیسرے آپشن پرکام شروع کیا،تیسراآپشن تھاکہ اس اتحادپربڑے پیمانے کا سیاسی حملہ کیاجائے۔

مارچ میں ہونے والے کواڈسربراہ اجلاس نے چین کے بڑھتے ہوئے خدشات کوصحیح ثابت کردیا۔جوبائیڈن نے اپنے دورصدارت کے آغازمیں ہی کواڈ ممالک کے سربراہان کو اکٹھاکرکے(ورچوئلی)یہ اشارہ دے دیاکہ انڈوپیسیفک کے حوالے سے ان کی پالیسی میں اس اتحادکامرکزی کردارہوگا۔اتحادکی تاریخ میں پہلی مرتبہ اجلاس کے بعدمشترکہ اعلامیہ جاری کیاگیا،جس میں کہاگیاکہ بین الاقوامی قوانین کے تحت ایک آزاد عالمی نظام کے فروغ کیلئے کوششیں کی جائیں گی،اور علاقائی سالمیت اورجمہوری روایات کا تحفظ کیاجائے گا ۔اعلامیہ میں یہ بھی کہاگیاکہ کواڈ ممالک کروناکی ایک ارب خوراکوں کی مشترکہ پیداوار کریں گے اورخطے میں تقسیم کریں گے۔مودی نے فورم سے خطاب کرتے ہوئے وہ بات کہی جس کاخدشہ چینیوں کوتھا۔مودی نے کہاکہ کواڈاپنے ابتدائی سالوں سے نکل آیاہے اب یہ اتحادخطے میں استحکام کاباعث بنے گا۔

اس کے بعدسے توچین کی جانب سے مذمتوں کانہ ختم ہونے والاسلسلہ شروع ہوگیا۔چین کا کہناتھاکہ چندممالک کے اس چھوٹے سے گروہ نے خطے میں ایک نئی سردجنگ کاآغاز کردیا ہے۔مئی میں چینی صدرژی نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ کثیرالجہتی کی اصطلاح کواستعمال کرکے چھوٹے چھوٹے گروہ تشکیل دیے جارہے ہیں،تاکہ نظریاتی اختلافات کو ہوادی جائے۔چین نے اپنے آپکوکثیرالجہتی اوراقوام متحدہ کے قوانین پرعمل کرنے والے ملک کے طورپرجارحانہ طریقے سے پیش کرناشروع کردیا۔چینی صدر اوردیگرحکام نے عالمی طاقتوں کی ذمہ داریوں اوراپنے آپ کوذمہ دارعالمی طاقت کے طورپیش کرنے کی تکراربڑھا دی۔اسی طرح چین نے خطے کے دیگر فورم پراپنی موجودگی اورفعالیت میں اضافہ کردیااوراس کے ساتھ ساتھ یورپ سے اپنے تجارتی معاہدوں کیلئے بھی بڑھا دی۔اسی طرح چین نے خطے کے دیگر فورم پراپنی موجودگی اورفعالیت میں اضافہ کردیااوراس کے ساتھ ساتھ یورپ سے اپنے تجارتی معاہدوں کیلئے بھی تگ ودوتیزکردی۔چین کویقین ہے کہ وہ کواڈکوتجارتی اورسفارتی ذرائع استعال کرکے عالمی سطح پراسے تنہائی کاشکارکر سکتا ہے۔

چین کی کواڈ کے خلاف جارحانہ حکمت عملی کے باوجودکواڈکی اہمیت میں مستقل اضافہ ہوتاجارہاہے۔جوبائیڈن کے جون میں یورپ کے دورے اوروہاں بھارت اورآسٹریلیاکی جی سیون اجلاس میں شرکت اوروہاں چین کے معاملے پرہونے والی بات چیت نے ظاہرکردیاہے کہ کواڈایک بڑاچین مخالفاتحادبننے جارہاہے۔ادھرامریکانے جنوبی کوریاکوبھی اس اتحاد میں شامل کروانے کی کوشش کی،تاہم جنوبی کوریاچین کے خلاف کسی اتحادکاحصہ بننے سے کتراتاہے۔ پھربھی اس نے امریکاکے ساتھ مل کرکواڈکی تعریف ضرورکی۔چین کے پاس اس طرح کی پیش رفت سے پریشان ہونے کی ٹھوس وجوہات ہیں،اسے اندازہ ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے علاقائی اورعالمی سطح پراس کیلئے کیاامکانات پیداہوسکتے ہیں۔مثال کے طورپراگردفاعی نقطہ نظرسے دیکھاجائے توکواڈکی بڑھتی ہوئی فعالیت نے چین کی آبنائے تائیوان،جنوبی بحیرہ چین اورکچھ حدتک شمالی بحیرہ چین میں مختلف منظر ناموں سے نمٹنے کیلئے چین کی سوچ کوتبدیل کر دیاہے۔چین اب یہ سمجھتاہے کہ ان علاقوں میں امریکاکے ساتھ کسی بھی تنازع کی صورت میں آسٹریلوی،بھارتی اور جاپانی فوج بھی امریکاکے پشت پرنظر آنے کاامکان بڑھ گیاہے۔اس کے ساتھ تائیوان کے گھیراؤکی چینی حکمت عملی میں کواڈممالک اثراندازہوسکتے ہیں۔خاص طورپراگرتائیوان کے دفاع کیلئے یہ ممالک اپنی سرزمین پراسلحے کی تنصیب کی اجازت دے دیتے ہیں تو چین کیلئے خاصی مشکلات پیش آسکتی ہیں۔اسی طرح ایک خدشہ اس بات کاہے کہ اگرکواڈ اورفائیوآئی ممالک کے درمیان خفیہ معلومات کے تبادلے کاکوئی معاہدہ طے پاجاتاہے توچین کی تزویراتی حکمت عملیاں بڑی حدتک ایکسپوزہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے

چین کے نقطہ نظرسے بدترین صورت حال یہ ہوسکتی ہے کہ کواڈایک بڑے چین مخالف اتحادکی بنیادبن جائے۔اس اتحادمیں اگر مزیدیورپی اورایشیائی ممالک شامل ہوگئے توبین الاقوامی عزائم کونقصان پہنچ سکتاہے۔چین کوڈرہے کہ اگریہ اتحاداپنارخ تبدیل کر کے معاشی،کسٹم اوردیگراسٹینڈرڈکی طرف جاتاہے اور نئے قوانین متعارف کرواتاہے توچین کیلئے خطے میں بہت سی مشکلات کھڑی ہوجائیں گی۔چین کیلئے مثبت پہلویہ ہے کہ آسیان اپنے آپ کوواشنگٹن اوربیجنگ کیمپ کی کشمکش سے دوررکھے گاکیونکہ وہ پہلے بھی ایسے میں غیرجانبداررہنے کوہی ترجیح دیتاہے۔اس کے علاوہ چین کواس بات کابھی اندازہ ہے کہ واشنگٹن اور نئی دہلی چینی معاشی مارکیٹ کے حوالے سے تحفظ پسندانہ حکمت عملی اختیارکرتے ہیں کیونکہ دونوں ممالک جانتے ہیں کہ چین کی مارکیٹ اوراس کی کمپنیاں ان کیلئے کتنی اہمیت کی حامل ہیں۔چین کی مستقل معاشی ترقی اورعالمی معیشت میں بڑھتاہواشیئروہ تزویراتی عوامل ہیں جن کونظرانداز کرنادنیاکیلئے آسان نہیں ہو گا ۔

چین روس کے ساتھ اپنے تزویراتی اورفوجی تعاون کوبھی دوگناکردے گا۔ماسکواوربیجنگ پہلے ہی دوطرفہ ایٹمی توانائی کے تعاون کوبڑھانے کیلئے پرعزم ہیں اور ژی کے ساتھ مئی کی ملاقات میں پیوٹن نے چین اور روس کے تعلقات کو تاریخی قرار دیا۔چین کے نقطہ نظر سے،کواڈ کے حوالے سے روس ایک مفید فوجی شراکت دار کے طور پرکام آ سکتاہ ے،وہ چین کے اسٹریٹجک آپشنزکے میدان کوجغرافیائی طورپروسعت دینے میں اہم کرداراداکرسکتاہے۔مثال کے طورپر روس کی جاپان سے رقابت اورجاپان کے شمالی علاقہ جات پراس کامسلسل قبضہ،ٹوکیو کو چین کے خلاف کسی بھی امریکی مہم جوئی میں شرکت سے پہلے کئی مرتبہ سوچنے پرمجبورکرے گا۔

کواڈ کی بڑھتی ہوئی طاقت چین کو اپنے فوجی اخراجات میں اضافہ پرمجبو ر کر دے گی۔اگرچہ کچھ چینی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ کواڈ جب تک کوئی ٹھوس شکل اختیارنہیں کر لیتا یعنی کسی خطرناک اتحادکی صورت اختیارنہیں کرلیتا اس وقت تک ہمیں اسلحہ کی دوڑمیں شامل نہیں ہونا چاہیے۔دوسری طرف چین کی فوجی اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ ہمیں بدترین صورت حال کیلئے تیار رہنا چاہئے اورہمیں سوویت یونین والی غلطی سے سبق حاصل کرنا ہو گا جہاں انہوں نے اپنی آمدن کو جنگی جنون میں جھونک دیا تھا تاہم اگر چین کو یہ محسوس ہوا کہ امریکی فوج اور اس کے اتحادی اپنی فوجیں مضبوط کر کے اس کے گھیراؤ کی کوشش کر رہے ہیں تو مجبوراً چین کوبھی اپنی فوج کوکواڈجیسے خطرے سے نمٹنے کیلئے تیاررکھنا پڑے گا۔سب سے اہم سوال یہ ہے کہ یہ ساری پیش رفت صدرژی کیلئے کیااہمیت رکھتی ہے؟ایک ایسے وقت میں جب2022میں پارٹی کی کانگریس کااجلاس ہوگاتوژی کواس بات کی پوری امیدہے کہ وہ اس اجلاس سے اپنے سیاسی غلبے کے حصول کوممکن بنالیں گے۔ایک ایسے وقت میں کواڈکوایک بڑاخطرہ بتاکر قوم کویہ احساس دلائیں گے کہ چین کے دشمن سب اکٹھے ہوکر ہماراگھیرا ؤ کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور ایسے مشکل وقت میں ژی کااقتدارمیں رہناملک کیلئے بہت ضروری ہے ۔

24ستمبر2021کوایک غیررسمی سٹریٹجک فورم جس میں امریکا،آسٹریلیا،جاپان اورانڈیا شامل ہیں،امریکی صدرجوبائیڈن نے شرکت کرکے یہ طے کیا تھاکہ ایشیامیں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کاہرصورت توڑکیاجائے گا۔وائٹ ہاوس کے مطابق جاپانی وزیراعظم یوشی ہیدی سوگا،انڈین وزیراعظم نریندرمودی اور سٹریلوی وزیراعظم سکاٹ موریسن واشنگٹن میں امریکی صدر جو بائیڈن سے مل کر”ایک آزاداورکھلے انڈوپیسیفک کی حمایت”کے بارے میں مؤثراقدامات اٹھانے پراتفاق کیا۔یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی جب امریکاکی ایشیاسے متعلق پالیسی میں بہت بڑی تبدیلی واقع ہوچکی ہے۔اس وقت امریکا اس خطے میں اپنے سفارتی روابط بڑھارہاہے جبکہ جاپان چین کے بڑھتے ہوئے عسکری رسوخ کے خلاف سخت مؤقف اپنائے ہوئے ہے۔

دوسری جانب امریکاکے آسٹریلیااوربرطانیہ کے ساتھ نئے دفاعی معاہدے سے بھی یہ بات عیاں ہے کہ امریکاایشیاکے بارے میں کافی دلچسپی اورسنجیدگی سے اقدامات کررہاہے۔ اس نازک موڑپریہ دیکھنابہت اہم ہے کہ یہ”کواڈ”آگے جاکرکیاکرتاہے۔یقینا”سی پیک”کواڈکی نظروں میں بہت کھٹک رہاہے جس کی بناپرپاکستان کیلئے خطرات میں بھی اضافہ ہوگا۔آسٹریلوی سٹریٹجک پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے سینیئرتجزیہ کارمیلکم ڈیوس کے مطابق کواڈکی ابتدائی جڑیں بش انتظامیہ کے دورمیں رکھی گئیں۔یہ”کم اہمیت کے حامل سیاسی اورمعاشی مکالمے”کے فورم سے آگے بڑھ کراب ایشیاپیسیفک خطے کاایک بہت اہم کھلاڑی بن چکاہے۔کواڈایشیائی نیٹونہیں ہے لیکن ساتھ ہی یہ واضح طورپرکوآپریٹوسکیورٹی اپروچ کی سمت میں آگے بڑھ رہاہے۔

”کواڈ”نامی یہ اتحاد ابتدائی طورپر2007میں تجویزکیاگیاتھالیکن اسے ایک دہائی کیلئے روک دیاگیا۔پھراسے ٹرمپ کے دورمیں چین کی اقتصادی اورعسکری سپرپاور بننے کی خواہش کوروکنے کیلئے کیاگیالیکن اب افغانستان سے امریکی انخلا کے بعدکواڈنے پہلے سے کہیں زیادہ زیادہ اہمیت حاصل کرلی ہے۔اپریل 2020میں آسٹریلیااورچین کے درمیان تعلقات میں اس وقت تنزلی آئی جب آسٹریلوی وزیراعظم نے کووڈ19وباکے آغازکی آزادانہ تحقیقات کامطالبہ کیاتھا۔اس کے بعد بیجنگ نے آسٹریلوی اشیاپرتجارتی پابندیاں لگاکرجوابی کارروائی کرکے اپنے ردِّ عمل کااظہارکردیا۔

واشنگٹن اوراس کے اتحادیوں کی طرف سے غیرمعمولی اقدامات کے بعدلبرل بین الاقوامی آرڈرکوخطرہ لاحق ہوگیاہے،چین کی اس گروپ بندی پرگہری نظر ہے۔ ماہرین کے نزدیک بیجنگ بھی ایسا سیکورٹی گروپ قائم کرسکتاہے بلکہ وہ انسداددہشتگردی اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے عالمی چیلنجزپرتوجہ رکھے گا۔ ادھر بیلا روس کے انسٹی ٹیوٹ برائے اسٹریٹجک ریسرچ کے تجزیہ کاریوری یارمولنسکی(بھارت میں بیلاروس کے سابق سفیر)نے ایک مضمون میں لکھاکہ بیجنگ کواڈ کا مقابلہ کرنے کیلئے روس،پاکستان، وسطی ایشیائی ممالک، ایران،ترکی اورافغانستان پرمشتمل ہمالیہ کواڈ تشکیل دے سکتاہے۔چین پہلے ہی متعدد ہمالیائی ممالک کے ساتھ سلامتی اورتزویراتی(اسٹریٹجیک)تعاون پرکام کررہا ہے،اب اس شراکت داری کوباقاعدہادارہ ساز ی میں تبدیل کیاجاسکتاہے۔چین پہلے ہی نیپال ،پاکستان اورافغانستان کے ساتھ سلامتی اوراسٹریٹجک تعاون پرشراکت دارہے۔ نیپال کوبیجنگ سے براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری اورمعاشی امدادموصول ہوتی ہے، چین نے نیپال میں پیراملٹری پولیس فورس کیلئے ایک تربیتی اکیڈمی بھی کھولی ہے جوتبت کے ساتھ اپنی سرحدکی حفاظت کرتی ہے۔دونوں ممالک کی فوجوں نے ماضی میں بھی انسداددہشتگردی کی مشقیں کیں۔نیپال ہمالیہ میں چین اوربھارتی علاقائی تنازع کے تناظرمیں ایک مضبوط گڑھ ہے۔

سنکیانگ میں سلامتی کویقینی بنانے اوراستحکام کو برقرار رکھنے کیلئے افغانستان ایک اہم عنصر ہے جس کے ساتھ اس کی76 کلومیٹر طویل سرحد مشترک ہے اور طالبان کی یقین دہانی کے بعدچین نے افغانستان کوبھی سی پیک کے فوائدمیں شامل کرکے اپنے بھرپورتعاون کایقین دلایاہے اورافغانستان کی دفاعی اور انسداد دہشتگردی کی کوششوں کی ہرقسم کی حمایت کااعلان بھی کیاہے۔ایران کے ساتھ چین نے بروقت 460بلین امریکی ڈالرکی سرمایہ کاری کامعاہدہ کرکے بھارت کومکمل طورپرفارغ کردیاہے۔تاہم بحیرہ جنوبی چین میں فوجی مداخلت، تائیوان کی آزادی کی حمایت،جیسی سرخ لائنیں عبورہونے کی صورت میں یہ بلاک فوری ایک حقیقت بن سکتاہے۔ تیزی سے بدلتے حالات ان خطرات کی طرف بگٹٹ بھاگ رہے ہیں کہ دنیابالآخردوخطرناک بلاک میں تقسیم ہوکر رہے گی اوراب یوکرین کی جنگ نےتیزی سے حالات کوتبدیل کردیاہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں