دو سال پہلے سعودی عرب،متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر نے قطر سے سفارتی تعلقات ختم کر نے کااعلان کیاتھااور ساتھ ہی قطر کازمینی،سمندری اورفضائی بائیکاٹ بھی کردیاتھا۔مستقبل قریب میں خلیجی ممالک کے اس بحران کے ختم ہونے کا کوئی امکان نظرنہیں آرہا۔خلیجی تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ تعلقات اب کبھی بحال نہیں ہوسکیں گے۔قطر میں ہونے والے ’’تیرہویں الجزیرہ فورم‘‘سے بات چیت کرتے ہوئے تجزیہ کاروں نے کہا کہ قطراوردوسرے خلیجی ممالک کوابھی بھی سعودی عرب اور امارات کی طرف سے سخت ردعمل کاخطرہ لاحق ہے،جس کے نتیجے میں پابندیاں جاری رہیں گی۔
جارج ٹاؤن یونیورسٹی دوحہ کے پروفیسر نے بتایا کہ تعلقات کی بحالی کی شرائط اب بھی وہی ہیں،جو 2017ء سے پہلے تھیں۔ پروفیسرملر نے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خلیج کے دوسرے چھوٹے ملکوں کی نسبت قطر نے اپنی آزادانہ خارجہ اور داخلہ پالیسی بنا کر سعودی اثرورسوخ کا ڈٹ کر مقابلہ کیاہے۔ ہائیڈروکاربن کے ذخائر کی مدد سے قطر نے ملک کی معاشی صورتحال کو مستحکم رکھا ہے، جدید طرز کی سٹرکیں اورٹر یفک کانظام بنایا اور شہریوں کا طرز زندگی بلند کیاہے، پوری دنیا میں قطر کے شہریوں کا طرزِ زندگی سب سے بلند ہے کوئی بھی دوسری خلیجی ریاست ابھی تک یہ بلند ترین ہدف نہیں حاصل کرسکی ہے۔
خارجہ پالیسی کے تحت قطر کی آزادانہ علاقائی پالیسی نے عرب دنیا کے اس وقت کے مقبول مطالبہ “جمہوریت” کی حمایت کی ہے، خصوصاً اس وقت بھی یہ حمایت جاری تھی جب عرب بہار کے تحت شمالی افریقا اور عرب ریاستوں میں بغاوتیں عروج پرتھیں۔ ملر نے قطرا ور اس کے ہمسا یوں کے تعلقات بگڑنے کی دو وجوہات بیان کیں، پہلی یہ کہ خطے میں سیاسی اور سیکورٹی تبدیلیاں جوکہ عرب بہار کا باعث بنیں، دوسری سعودیہ اور ابوظہبی میں اقتدار میں نئی نسل کا آنا جو کہ جارحانہ اور پرعزم تو ہے لیکن اپنے بزرگوں کی طرح محتاط نہیں ہے۔ سعودیہ اور ابوظہبی کے حکمراں قطر کی مخالف پالیسیوں کو دیکھتے ہوئے خطے کی پالیسی مرتب کر رہے ہیں۔ سیاسی علوم کے ماہرین کے مطابق سعودیہ اورا مارات عرب حکومتوں کے اتحاد کی قیادت کر رہے ہیں، جس کے ذریعے وہ عرب بہار کے اثرات زائل کر کے ایک بار پھر بادشاہی نظامِ حکومت خطے میں قائم کریں گے۔ خلیجی ممالک کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ وہ سعودیہ سے بہت محتاط رہتے ہیں کیونکہ سعودی ریاست پورے خلیجی خطے پر غلبہ پانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
قطر کے مخالفین قطر پرایران کے ساتھ مل کر خطے میں دہشتگردی کاالزام لگاتے ہیں، جبکہ قطراس الزام کی تردیدکرتا رہاہے ۔سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق سعودی و امارات اتحاد ٹرمپ کی موجودگی میں اپنے ایجنڈے کو خطے میں نافذ کرنا چاہتا ہےکیونکہ موجودہ حالات میں انھیں ٹرمپ کی حمایت بھی حاصل رہے گی۔مشرق وسطیٰ میں کوئی بھی ریاست اگرجمہوری نظام چاہتی ہے تو وہ سعودی عرب اور امارات کے نشانے پرہوگی۔انہی خطرات کے پیش نظر قطر خطے میں اصلاحات کے لیے اپنی ’’سوفٹ پاور‘‘، بین الاقوامی ذرائع ابلاغ اور سفارت کاری کو استعمال کررہا ہے اور یہی بات سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کوگوارانہیں ہے۔
قطراور خلیج کی چھوٹی ریاستیں بحرا ن کے دہانے پر ہیں اور سیاسی طور پر غیر مستحکم ہیں حالانکہ پابندیاں لگنے کے بعد قطر نے اپنی قوت ارادی کے بل بُوتے پراپنی طاقت کاثبوت دیاہےجبکہ عرب ممالک قطر پر پابندیاں لگانے کے بعدہفتے کے اندر اندر قطرمیں شدید بحران کی آس لگائے بیٹھے تھے۔خلیجی ممالک کے اتحادی اور بین الاقوامی برادری دونوں ہی بہت غور سے خلیج میں اٹھنے والے تنازعات کو دیکھ رہے ہیں۔ خلیج کے تجزیہ کاروں کے مطابق خلیج تعاون کونسل اب مکمل طور پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ہاتھوں میں کھیلے گی جب کہ قطر اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے خطے کے دوسرے ممالک اور بین الاقوامی برادری میں اپنے دوست تلاش کرے گا جن کی سیاسی اور سیکورٹی مفادات یکساں ہوں۔
تاہم سعودی عرب اور امارات کو جب بھی محسوس ہوا کہ خلیج تعاون کونسل ان کے مفادات کی حفاظت نہیں کر پا رہی تو وہ اس فورم کو ختم کرنے کی کوشش کریں گےلیکن فی الحال ایساہوتانظرنہیں آرہا۔دوسری طرف قطر کے لیے یہ آسان ہے کہ وہ خطے کے دیگر ممالک اوردنیابھرمیں مختلف ممالک سے اپنے تعلقات کومضبوط کرے۔ قطرکے حکمران کاحالیہ دورہ پاکستان اورمالی تعاون کے علاوہ ہونے والے دیگرمعاہدات بھی ان کی نئی خارجہ پالیسی کامظہرہیں۔کیاسعودی عرب اورامارات پاکستان اورقطرکی اس نئی دوستی کے عہدوپیماں کوٹھنڈے پیٹ قبول کرلیں گے؟پاکستان کی وزارتِ خارجہ کیلئے یہ ایک کڑا امتحان ہوگا!