Prosperity Or Loss

خوش حالی یاخسارہ

:Share

یہ جوپیسہ ہے ناں کسی کے دماغ میں سماجائے تومسئلہ کرتاتوہے لیکن اتنانہیں کرتالیکن اگرکوئی دن رات اسی کے خواب دیکھنا شروع کردے اورمایاکاحصول دماغ میں گھس جائے توبس مت پوچھیں۔وہ ایساہی ہے جیسے شیشے کے گھرمیں بھینسا گھس جائے۔پھر ہوتاکیاہے اسے کیابیان کرنا،آپ توبہت سمجھ دار ہیں،داناہیں بیناہیں۔

وہ میرے ساتھ کالج میں پڑھتاتھا۔میں توانجیئرنگ کے مضامین سے دل لگابیٹھالیکن وہ کامرس میں چلاگیاکہ اس کاساراخاندان کاروبار میں ڈوباہواتھا۔اس نے مجھے بھی اپنے ساتھ گھسیٹناچاہالیکن میں اس لیے کامرس پڑھ نہ سکاکہ یہ حساب کتاب میرے بس کاروگ نہیں۔ اللہ جی بندے کوخوب جانتے ہیں ناں … …. اس نے مجھے آج تک بچائے رکھاہے۔یہ حساب کتاب بہت جی دارلوگوں کاکام ہے۔ایسے لوگوں کاجن میں تحمل ہو،برداشت ہو،صبرہو،ٹک کر بیٹھنے اورلگ کرکام کرنے کی خوہو۔الحمدللہ میراان سب سے دورپارکابھی واسطہ نہیں۔اچھے اچھے ذہن اس کے سامنے کچھ نہیں بیچتے تھے۔پڑھائی کا کیڑا ہر وقت ہندسوں کا جوڑ توڑ۔بہت کم گو اور بہت سادہ۔ میں اکثر اس سے پوچھتا: یہ کیا بیماری ہے تمہیں ہروقت ایک ہی دھن اوراس کاایک ہی جواب:کام کرنے دو،پیسہ کماناہے مجھے اوروہ بھی بہت سارا۔

کالج سے لاہورچلا گیا، جامعہ پنجاب سے ایم بی اے کیا پھر امریکا چلا گیا اوربس یہی سے راستے بدل گئے۔پھر ایک دن اچانک شا دی کی ایک تقریب میں ملاقات ہوگئی۔تھوڑی دیرکے بعد پتہ چل گیا کہ کچھ نہیں بدلا تھا… پیسہ پیسہ اور پیسہ۔لاکھ سمجھایا:او بے وقوف سب کچھ تو پیسہ نہیں ہے لیکن وہ مسکراتا اور پھر کہتا تجھ جیسے غریب کیا جانیں پیسہ کیا ہوتاہے،تیرے آگے پیچھے تو کوئی ہے نہیں،مجھے تو بہت کچھ کرناہے۔اس کی شادی بھی ایک عذاب سے کم نہ تھی ۔ ظاہرہے جب اتنا لکھا پڑھا لڑکا ہو اور کماؤ بھی،خوبصورت بھی تو ہمارا سماج تو بس یہی دیکھتاہے ناں، اور تو کوئی خوبی نہیں دیکھتا۔سب خوب سیرت ،خوب صورت لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہوگئے لیکن اس کے دماغ میں کچھ اور ہی سمایا ہوا تھا۔

بہت رشتے آئے اس کے لیکن اس کے معیارپرکوئی نہیں اترا۔باپ تواس کابچپن میں ہی فوت ہوگیاتھالیکن اب اس کی ساری کائنات اس کی والدہ ہی تھی۔ ماں نے بہت کوشش کی کہ اپنے بھائی کی بیٹی کواپنی بہوبنالے لیکن یہ نہ مانا کہ اس نے اپنے ننہیال سے بہت زخم کھائے تھے۔پھر اللہ اللہ کرکے اس کی شادی تو ہو گئی لیکن پہلے چندہفتوں میں پتہ چل گیا کہ دونوں کے مزاج اور سوچ میں زمین آسمان کا فرق ہے لیکن ماں کی محبت کے سامنے اپنے دل کی بات کہنے کی گستاخی نہ کر سکا اور سوچ لیا کہ ساری عمرنبھا کرکے دکھاؤں گا کہ ماں کوکسی کے سامنے شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔ملک سے باہرچلاگیا۔ دوستوں نے خبر دی کہ ایک امریکی بین الاقوامی فرم میں اعلیٰ عہدے پر فائزہ ے اور بڑی خوشحال زندگی گزار رہاہ ے۔سن کراطمینان ہواکہ شکرہے جیسامیں سوچ رہاتھامعاملہ اس سے بالکل مختلف ہے۔

کبھی کبھاردل میں اس کی یادستاتی تو ذہن کو جھٹک دیت اکہ جب اس نے ملنے کی کوئی کوشش نہیں کی توپھرمیں اس کوکیوں یادکروں؟ لیکن پتہ نہیں دل کے کسی کونے سے یہ آوازضرورسنائی دیتی تھی کہ ایک دن وہ اچانک سامنے مسکراتاہوا میرے گلے میں بانہیں ڈال کرمجھے آ دبوچے گا۔چینلز کی یلغاراور بہتات نے بھی ایک عجیب تماشہ کھڑا کردیاہے کہ کسی ایک چینل پرہاتھ رکتا ہی نہیں۔ریموٹ کنٹرول نے ویسے بھی بڑی آسانی پیدا کردی ہے کہ انگلیوں کے ہلکے اشارے ساری دنیا کی سیر پرمامور ہیں۔ایک دن جونہی ٹی وی آن کیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک پاکستانی چینل پراپنی خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ مغرب کی ترقی سے مرعوب زمین آسمان کے ایسے قلابے ملا رہا تھا کہ مغرب کی ایسی تعریف میں نے توکسی سے نہیں سنی حالانکہ میں خودبھی پچھلی پانچ دہائیوں سے اس معاشرے کے شب و روزکو بہت قریب سے دیکھ رہا ہوں ۔

“مغرب نے ایسی عظیم الشان ترقی کی ہے کہ انسانیت نہال ہو گئی ہے،ان کی معیشت مضبوط ہے،ان کے ادارے عظیم ہیں ان کی تہذیب شاندارہے۔ اس کی نقالی کرتی ہے دنیا، وہاں کوئی بھوکانہیں سوتا،امن کی فاختہ اترائے پھرتی ہے۔ہرطرح کی آزادی ہے،آخرکوئی تو وجہ ہوگی کہ ہمارے لوگ وہاں کارخ کرتے ہیں۔ ہماراریجن بالآخر ویسٹ کی ٹرین میں بیٹھے گالیکن سب سے آخری ڈبے میں،اس لیے کہ اس میں اپیل ہے۔ہماری دنیاکی ساری خوبصورتی مغرب کی دین ہے۔کمپیوٹرکوئی معمولی ایجادہے کیا؟اور یہ ساری رعنائی یہ ساری ترقی انہوں نے اس لیے کی ہے کہ وہ مذہب کوچھوڑبیٹھے ہیں۔وہ مذہب کوہرجگہ نہیں لاتے،مذہبی جبرنہیں ہے وہاں۔ ہم اس لیے ترقی نہیں کرسکے کہ ہم نے ہرجگہ مذہب مذہب کی گردان لگائی ہوئی ہے،مذہب ترقی کاسب سے بڑادشمن ہے،مذہب انسانیت کی فلاح میں رکاوٹ ہے،مذہب غلامی سکھاتاہے،آزادی کاویری ہے مذہب…”.اورنجانے کیاکیا۔

ذہین اینکرنے سوال تو بہت اچھا اٹھایا تھا کہ اگرمغرب نے اتنی ترقی کرلی ہے،وہاں سب کچھ دستیاب ہے جو تعمیر انسانیت کیلئےاز بس ضروری ہے تو پھر وہاں اتنی تنہائی کیوں ہے؟اتنا خلا کیوں ہے؟جنسی آزادی کے باوجود زنا کی کثرت کیوں ہے؟وہاں پھر چھیناجھپٹی کی اتنی وارداتیں کیوں ہوتی ہیں،خودکشی فیشن کیوں بن گئی ہے؟توجواب میں ارشاد فرمایا:یہ سب انفرادی معاملات ہیں۔وہاں پردہشتگردی کی وارداتیں غیرملکی کرتے ہیں،وہاں انسانیت آزاد ہے ، وہاں اولڈ ہاؤسز ہیں۔اینکرنے بالآخران کی باتوں سے اتفاق کرتے ہوئے یہ مان لیا کہ ہمیں ان کی اچھی چیزیں تو ضرور اپنانی چاہئیں جیسے اولڈ ہاؤسزتو اس نے مسکراتے ہوئے فوری کہا:ان کے اولڈ ہاؤسز کو دیکھئے توآپ کادل چاہے گا کہ جوانی میں ہی اولڈ ہاؤسز میں داخل ہوجائیں۔

پروگرام ختم ہواتومیں سوچ رہاتھاکہ اس نے مغرب کی صفات کاجوذکرکیاہے اس میں ایسا کوئی مبالغہ بھی نہیں لیکن اینکرکے چبھتے ہوئے سوالوں نے بھی تصویر کادوسرارخ صحیح دکھایاہے۔خوب سے خوب ترکی تلاش میں انسان اسی طرح بھٹکتارہتاہے اورآخرمٹی کے ڈھیرمیں جاکرمٹی ہوجاتاہے۔میں نے اس کے چہرے کی بشاشت اورلہجے کی طمانیت سے یہ اندازہ لگالیاکہ اس نے زندگی سے معاہدہ کرکے بالآخرپیسے کے بل بوتے پراپنی دنیاوی منزل پالی ہے لیکن نجانے کیوں کسی انجانی قوت نے مجھے مجبورکردیاکہ اس چینل پرفون کرکے اس کااتہ پتہ معلوم کروں۔میں نے جونہی اس کوایک خصوصی نام سے بلایاتو ٹیلیفون پراس کی آوازبھراگئی اوراس نے فوری طورپرمجھ سے ملنے کی خواہش کااس طرح ذکرکیاکہ میں باوجودمصروفیت کے تمام کام چھوڑکراس کابے تابی سے انتظار کرنے لگا۔

وہ اس قدرجذباتی ہوکرملاکہ ہم دونوں ایک دوسرے سے اپنی آنکھوں کے سمندرچھپانے کی کوشش کررہے تھے۔ایک دوسرے کے حال احوال سننے سنانے میں کئی گھنٹے بیت گئے لیکن اس ملاقات میں پتہ چلا کہ میں نے اس کے بارے میں جو سوچ رکھا تھا وہ بالکل اس کے الٹ نکلا۔اپنی ازدواجی زندگی کی ناکامی پربہت دل گرفتہ تھا۔ایک ہی سانس میں ڈھیرساری باتیں اس نے اگل دیں جیسے وہ ایک مدت سے میرامنتظرتھا۔معلوم ہوا کہ وہ جلدہی مزاج کے اختلاف کی بناءپرایک دوسرے کی شکل سے بھی بیزارہو گئے،جیسے وہ اپنی گفتگوکابھی حساب کتاب رکھتے تھے۔ یہ کیابات ہوئی بھلا……ایساہی تھا۔ پھرچاربیٹے اللہ نے عطافرمادیئے۔ایک بڑاسامکان،پیسہ ہی پیسہ لیکن بچوں کی دیکھ بھال پرعدم توجہ کی بناءپراختلاف میں شدت پیداہوگئی۔چاروں بچے حالات کے رحم و کرم پر اور وہ خود پیسہ کمانے کی مشین بنا ہوا تھا۔بچوں کے اچھے اسکول کالج کیلئے اخراجات کی تو کوئی فکرنہیں تھی لیکن بیگم کوفیشن اورشاپنگ سے ہی فرصت نہیں ملتی تھی۔اکثرشام ڈھلے دونوں گھرپہنچتے،چائے اورکھانے پرملاقات اوربس ہیلو ہائے۔پھراگلے دن کی میٹنگزکی تیاری۔یوں معلوم ہوتاتھاکہ کسی ہوٹل میں قیام ہے جہاں خودہی اپنے تمام احوال کاخیال رکھناہے۔

بسااوقات ہفتوں ملاقات نہ ہوتی بھلاگھرکے باہمی معاملات کیسے حل ہوتے۔بچوں کی تعلیم وتربیت پرمشورہ کرنے سے بھی قاصر۔ اسکول کے ہیڈ ٹیچر کا فون آیا کہ وہ میرے بڑے بیٹے کے متعلق کوئی اہم بات کرناچاہتاہے جس کیلئے مجھے اسکول آناپڑے گا۔اہلیہ کو فون کیا تو پتہ چلاکہ اسی نے ہیڈٹیچر کو میرافون دیکر بلانے کا کہا تھا کیونکہ اسے اپنی ایک خاص سہیلی کی شادی میں شرکت کیلئے جاناہے۔میں نے بیٹے کے مستقبل کاجب احساس دلایا تواس نے بڑے تلخ اندازمیں جوابی وارمیں مجھے بھی اپنی اولادکے ان گنت فرائض یاددلادیئے۔اس کج بحثی سے بچنے کیلئے فوری طورپراپنے سارے کام چھوڑکرسینکڑوں میل دورسے بھاگا ہواپہنچاکہ بڑے بیٹے کے مستقبل کامعاملہ تھاجن کیلئے میں شب وروزاپنی جان کھپارہاتھا۔

بالآخرہیڈٹیچرسے ملاقات پرعندیہ کھلاکہ بڑابیٹاپڑھائی میں دل لگانے کی بجائے زیادہ ترخاموش اورکھویاہوارہتاہے اورتعلیمی ٹیسٹ میں بھی عدم دلچسپی کی بناء پر نتائج غیرتسلی بخش کی طرف گامزن ہیں جبکہ اس سے پہلے وہ کلاس میں ہونہاربچوں میں شمارہوتاتھا اب اسکول کی سپورٹس سے بھی جی چراتاہے اوریوں محسوس ہوتاہے کہ یہ کسی انجانے خوف کی وجہ سے پریشان ہے۔کیاآپ کے گھرمیں کوئی ایسامعاملہ چل رہاہے جس کی بناء پراس بچے کی یہ حالت ہوگئی ہے؟ ہیڈٹیچرکی گفتگومجھے کسی اندھے غارمیں دھکیل رہی تھی اورمیری حالت ایسی تھی کہ کاٹوتوجسم میں لہونہیں۔میری حالت غیرہوتے دیکھ کرٹیچرنے میرے سامنے پانی کاگلاس بڑھادیااورباوجودمیراگلاسوکھ رہاتھالیکن میں خودمیں اتنی طاقت محسوس نہیں کررہاتھاکہ گلاس کواپنے لبوں تک لاسکوں۔میں جوخودکوبڑی سی بڑی مشکل کوچندمنٹوں میں حل کرنے کافن جانتاتھا،میٹنگزمیں اپنے کلائنٹس کواپنی گفتگوسے مسحورکرکے اپنی مرضی کے شیشے میں اتارلیتاتھا،یہاں میرے الفاظ میرے حلق سے باہرنہیں آرہے تھے کیونکہ میں اپنے بیٹے کے استادکواپنے گھرکے حالات سے کیسے آگاہ کرتاکہ اس بربادی میں اس بچے کانہیں بلکہ بے جوڑشادی کے بعدماں کااس مغربی کلچرکافائدہ اٹھاناہے کہ یہاں کی مادر پدرآزادی نے اسے اس قدردلیرکردیاہے کہ بات بات پربچوں کے سامنے الجھنا اس کامحبوب مشغلہ بن چکاہے اوراپنی بیجافرمائشوں اورنت نئے ماڈرن فیشن کیئے اسے ہرمہینہ ایک وافررقم درکارہوتی ہے۔اگراسے اخراجات پرنظرثانی کیلئے کہاجائے توآسمان سرپر اٹھالینااس کاوطیرہ بن چکاہے اورمجھے بچوں کے سامنے ہونے والی لڑائی سے بچنے کیلئے مجبوراًاس کے مطالبات پرسرجھکانا پڑتاہے اوراسی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آج حالات اس نہج پرپہنچ گئے کہ میرابیٹے کامستقبل تباہی کی طرف چل نکلاہے۔

میں نے ہیڈٹیچرکاشکریہ اداکرتے ہوئے اس سے وعدہ کیاکہ میں خوداپنے بیٹے سے بات کرکے اس شکائت کاحل نکالوں گا۔اس کے بعدمیں نے حتی المقدور اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزارنے کی کوشش کی کیونکہ میں جانتاتھاکہ برابیٹاگاڑی کے انجن کے مصداق ہوتاہے اورباقی اس کے چھاٹے بھائی اس گاڑی کی بوگیوں کی مانندہوتے ہیں۔اگرخرابی پرقابونہ پایاگیاتوزندگی کی کامیاب ٹرین پٹری سے نہ صرف اترجائے گی بلکہ ناقابل تلافی نقصان پہنچائے گی۔میں اس بات کااقرارکرتاہوں کہ بیوی کولاکھ سمجھانے کے باوجود اس کے مزاج میں کوئی خاطرخواہ تبدیلی لانے میں کامیاب نہ ہوسکالیکن بچوں پرمیری پوری توجہ ان کی تعلیم وتربیت اپنے سیدھے ٹریک پرآگئی۔

دوران ملازمت کبھی میں ملک سے باہرتوکبھی بیگم اپنے رشتہ داروں اوردوستوں کے ساتھ دوسرے شہرچلی جاتی،یہ تھی زندگی۔ کسی کوبخارہے،کسی کوکھانسی ہے،کسی کی سالگرہ کادن گزرگیااوروہ انتظارکرتارہ گیا،اکثرشکایت کرتے:اسکول کی تقریب تھی لیکن ممی پپاآپ دونوں نہیں آئے۔جوں جوں بچے بڑے ہوئے ،تواب انہوں نے ہم سے شکائت کرناہی چھوڑدیابلکہ ہم سے کوئی بات ہی نہیں کرتے تھے۔تنہائی کا شکارمعصوم بچے۔وقت توکبھی نہیں رکتا۔بہتا دھارا ہے وقت۔پل گزرگیابس گزرگیاآپ اسے امرکرسکتے تھے، نہیں کیا۔کتنا خسارہ ہوگیا، ایساخسارہ جس کا گوشوارہ بھی نہیں بن سکتا۔ہم پاگل لوگ جذبات کو بھی ڈیبٹ کریڈٹ کرتے رہتے ہیں۔ان کی بھی جمع تفریق کرتے رہتے ہیں……نہیں وقت کبھی نہیں رکتا۔ماں نے بھی اپنے رب کے پاس جانے میں بہت جلدی کی اورمیرے پاس رونے کیلئے نہ ہی کوئی کندھااورنہ کوئی گودبچی جہاں اپنے دکھ غم کوہلکاکرسکوں۔بس وہ دن آن پہنچاکہ ہمارے درمیان قانونی طور پرعلیحدگی ہوگئی اور میں خالی ہاتھ اس گھر سے اس طرح رخصت ہواکہ ماسوائے تن کے دوکپڑوں کے اورکچھ میرے پاس نہ تھا۔

لیکن ٹی وی پرمغرب کی جوتعریف…….اس نے میرے بات کاٹتے ہوئے کہا”مجھے میری زندگی کے اصولوں نے ایسا دھوکہ دیاہے کہ اب اس تصنع کے دھوکے ہی زندگی کاسرمایہ بن گئے ہیں۔میرے پاس دھن دولت کی اب بھی کمی نہیں لیکن مغرب میں مجھ جیسے بہت سے لوگ دھن دولت ہونے کے باوجود قلاش ہیں۔ چھوڑیں باقی باتیں میرے کانوں میں ایک جملہ سیسے کی طرح اتر گیا”یاربچے توسب اعلیِ تعلیم حاصل کرکے اپنے بہترین مستقبل کی طرف گامزن ہیں لیکن زندگی کاسب سے بڑاخسارہ یہ ہواہے کہ اب توبچےہمیں اپنے ماں باپ ہی نہیں سمجھتے،میں نے کیاکچھ نہیں کیاان سب کیلئے”۔ تم نے بھی تو سب کچھ پیسے کوسمجھ لیاتھاناں……میں اس کی بھیگی ہوئی پلکیں اب تک نہیں بھول پایا۔ مجھے آپ سے کچھ نہیں کہناکہ مغرب کی ایک یہ تصویربھی آپ کو دکھاناتھی۔کچھ بھی تو نہیں رہے گا بس نام رہے گا میرے رب کا۔
جوجھوٹ بول کرمطمئن کرتاہے سب کو
وہ جھوٹ بول کرخودمطمئن نہیں ہوتا

اپنا تبصرہ بھیجیں