ہمیشہ یہ ضرب المثل سنتے اورپڑھتے آرہے ہیں کہ خواب دیکھنے پرنہ توکوئی پابندی ہے اورنہ ہی کچھ خرچ اٹھتاہے لیکن اب ہمارے ملک کے معاشی حالات نے اس ضرب المثل پربھی ایسادھاوابول دیاہے کہ روزمرہ کے مصائب نے رات کی نیندہی حرام کردی ہے توپھر خواب کیسے؟نیندآئے گی توکوئی خوش کن خواب ان آنکھوں کی زینت بنے گالیکن یہاں توتصوارت کی دلکش اورحسین دنیابھی ہم سے چھین لی گئی ہے اورخیالی پلاؤبھی ساتھ چھوڑگئے ہیں جبکہ ان پربھی کسی غریب کاکچھ صرف نہیں ہوتاتھا۔جاری معاشی مشکلات نے گھرکاجہاں سکون بربادکرکے رکھ دیاہے وہاں روز مرہ کی ضروریات زندگی کا حصول مشکل ہی نہیں ناممکن بن کررہ گیاہے۔ٹیکسوں،بے روزگاری،غربت،مذہب اور طاقتورحلقوں کے ستائے عوام کے دُکھ کی روٹی اورسُکھ کے سالن سے لاعلم فرانسیسی ملکہ کاانتہائی سادگی سے وہ تاریخی جملہ ذہن میں گھوم جاتاہے کہ روٹی نہیں توکیاہواعوام کیک اورپیسٹری کھاکرپیٹ کی آگ بجھا کیوں نہیں لیتے؟پاکستانی عوام کوکبھی ایک روٹی کھانے کی نصیحت کی جاتی ہے،کہیں چائے سے نجات کامشورہ دیاجاتاہے لیکن اس اشرافیہ سے کوئی یہ نہیں پوچھتاکہ تمہاری بھاری بھرکم تنخواہوں،مراعات اورپروٹوکول پراب تک پابندی کیوں عائد نہیں ہوسکی۔
کیاہماری اعلیٰ عدلیہ کے انصاف مہیاکرنے والے قاضی صاحبان خودہی اپنی مراعات پرنظرثانی کرنے پرغورفرماکرایک ایسی مثال قائم کریں گے جس کے بعدملک کے ان تمام بھاری بھرکم تنخواہ لینے والے اورمراعات یافتہ طبقے ان کی پیروی کیلئے مجبورہوجائیں آخران افرادکے سالانہ لاکھوں لٹرپٹرول پر پابندی کیوں عائدنہیں کی جاتی جبکہ ایک معمولی کلرک اپنے موٹر سائیکل میں اپنی جیب سے یہ سفری اخراجات برداشت کرتاہے۔ہمارے تمام سیاسی رہنماءاب بھی درجنوں گاڑیوں کے جلوس کے ساتھ اس ستائی ہوئی قوم کوکس منہ سے غربت ختم کرنے کاوعدہ کرکے ووٹ مانگتے ہیں،کیاہیلی کاپٹرپر سفرکرکے فضاؤں سے عوام کے ہجوم کودیکھ کراپنی سرشاری محسوس کرنے والے کب تک اس زمینی مخلوق کاتماشہ دیکھیں گے؟
میں یہ کیسے مان لوں کہ بڑے بڑے محلات اورتین سوکنال کے گھروں میں رہنے والے اپنے فانوس کی روشنی میں اپنے غریب اورکمترووٹرکی جھونپڑی کے جلتے بجھتے دیئے کے غم سے واقف ہیں؟دنیابھرکی تمام آسائشوں سے لطف اندوزہونے خالی بھوکے پیٹ سے نڈھال بچوں کی آنتوں کی آہیں کیسے سن سکتے ہیں جبکہ ان کے اپنے بچے کبھی بھی ان کے کسی بھی انقلابی جلوس یاجلسے میں نہیں آتے یاپھربیرونِ ممالک میں مقیم عیش وعشرت کی زندگی گزاررہے ہیں۔میں کس طرح یقین کرلوں کہ یہ جھوٹے وعدے کرنے والے رہنمابچوں کی سچی خواہشوں کوجھوٹی تسلیوں سے بہلانے والے والدین کے دردکا احساس سمجھتے ہیں؟
میرایہ خوف دن بدن بڑھتاجارہاہے کہ کہیں بھوک سے بلبلاتی ہوئی بچوں کی چیخیں،دواداروسے محروم بیماروں کی کسمپرسی اورلاچارعوام نےاگراپنی زندگی کامداوا “ماردواورمرجاؤ”میں ڈھونڈنے کافیصلہ کرلیاتوپھرمعاشی بحران کے ذمہ دارچاہے سول ہوں یاخاکی،مستقل ہوں یاعارضی،ماضی قریب کے حکمران ہوں یابعید کے،رائے ونڈکے محلات ہوں،ہربڑے شہرمیں بلاول ہاؤس ہو یابنی گالہ،سرکاری محلات ہوں یا عوام کے حقوق کولوٹ کر بیرون ملک میں بڑی بڑی جائیدادوں،فارم ہاؤسزکی ملکیت کاتفاخر ،ان کوسرچھپانے کیلئے چندفٹ زمین بھی نہ مل سکے گی۔سوال یہ ہے کہ دن بہ دن کمزورمعیشت نیوکلئیرریاست کے باسیوں کو انجانے معاشی خوف کے ساتھ ساتھ دیگرخدشات کاشکاربنانے والوں کاکب محاسبہ ہوگا؟
انقلاب فرانس کی بات توسب ہی کرتے ہیں لیکن یہ بھی ایک پتھرسے شروع ہوا۔امراء اورپادریوں کی بے جابندشوں اورعوام کی فلاح سے منہ موڑنے پر فرانس کی بادشاہت کوعوامی غیض وغضب کاسامناکرنا پڑا، نتیجے میں قتل وغارت گری،لوٹ ماراورلاقانونیت نے کئی برسوں تک اپنااثرجمائے رکھاجونپولین بونا پارٹ کی آمدکے بعد ختم ہوااور جدید فرانس کی ابتداء ممکن ہوسکی۔فرانس کی اشرافیہ اورکلیسانے آپس میں گٹھ جوڑکر رکھاتھااورتمام زمینوں پر قابض تھے-خودٹیکس نہیں دیتے تھے پرآئے روزعوام پرنیا ٹیکس لگادیتے اورقانون کایہ حال تھا کہ”پروانہ گرفتاری”پرشخص کا نام، مدت اورقیدخانہ لکھ کر پولیس کے حوالے کردیاجاتا ۔لوگوں کوبغیروجہ بتائے گرفتار کرکے قیدکرلیاجاتا۔
فرانس کا خزانہ خالی ہوچکاتھا،مہنگائی آسمان کوچھورہی تھی،غریب غریب تراوراشراف امیرترین ہوتے جارہے تھے لہذافیصلہ کیاگیاعوام پرمزید ٹیکس لگائے جائیں ۔5مئی 1789کوٹیکس کے نفاذ کیلئے پارلیمان کااجلاس بلایاگیا- پارلیمان کے3حصے تھے ایک حصہ امرا،دوسراحصہ کلیسااورتیسراحصہ عوام کاتھاجو97 فیصدتھا۔عوام کے نمائندوں کے اختیارات محدودتھے وہ اشرافیہ سے دبے دبے رہتے تھے،مگرآج ان کی آوازیں اونچی ہونے لگیں انہوں نے ٹیکس کے نفاذکے خلاف بھرپوراحتجاج کیامگر بادشاہ نے ان کا اختلاف ماننے سے انکارکردیاتوجون1789میں عوام کے نمائندوں نے اپنانام قومی اسمبلی رکھ کراپنااجلاس پارلیمان کے باہر منعقدکرلیا۔
بادشاہ نے پولیس اورفوج کوانہیں وہاں سے ہٹانے کاحکم دیامگرانہوں نے حکم ماننے سے انکارکردیابالاخرڈیڑھ ماہ بعدغیرملکی سپاہیوں کی مدد سے انہیں وہاں سے منتشرکرکے قیدکرلیاگیا۔بادشاہ مطمئن ہوگیامگراس سے اگلے روزعوام کاہجوم“بستیل” قیدخانے پرحملہ آورہوکرتمام لوگوں کوآزاد کرواکر جیل میں موجودتمام اسلحہ ساتھ لے گئے،اس حملے کے نتیجے میں بادشاہ کی حکومت پرگرفت کمزورہوگئی-دیہات میں بھی بغاوت نے سراٹھایا،بالآخرجون 1791 میں بادشاہ اورملکہ بھیس بدل کرملک سے فرارہونے لگے توعوام نے پکڑکرقیدکرلیا،عوام کی اسمبلی نے جمہوری دستوربنایا،عوامی عدالتیں لگیں جنہوں نے ہراس شخص کاسرقلم کر دیاجس کے ہاتھ نرم یاکالرصاف تھے کیونکہ یہ اشرافیہ کی نشانی سمجھی جاتی تھی-بادشاہ اورملکہ کے سربھی قلم کر دیے گئے ۔1793سے 1794 تک تقریبا40ہزارافرادکوقتل کیاگیا۔
یہ بات اپنی جگہ درست کہ آگے بڑھنے کیلئے پیچھے مُڑکردیکھناضروری ہے کہ آخرہم نے خودکے ساتھ کیا ظلم کیاہے؟ہم اپنی بربادی کا نوحہ پڑھتے ہوئےاپنی ذمہ داری کا احاطہ بھی کرناہوگا۔ اس کا ادراک اب کرناہوگاکہ پیچھے مڑکردیکھنے سے اپنے عیوب پرسنگ زنی کاخدشہ کہیں ہماراراستہ نہ روک لے۔ پھر اُس کیلئے ستربرس پیچھے جانے کی قطعاًضرورت نہیں۔صرف دودہائیوں کی پالیسیوں کااحاطہ کافی ہے۔ جغرافیائی مجبوریوں کوبہانہ بناکرکہاں کہاں معاشی خودمختاریوں کاسوداہوا ، کہاں کہاں مفادات کے تحفظ کیلئے ذاتی سودابازی کی گئی جوآج بھی جاری ہے۔کب کب بندکمروں میں بیٹھی اشرافیہ عوام کے فیصلے کرتی رہی،کیسے کیسے طاقتورادارے عوامی خواہشات کوکُچلتے رہے،عوام کے نام پرخواص منتخب کیے جاتے رہے اورہائبرڈ نظام کے ذریعے ملک تجربہ گاہ اور عوام لیباریٹری کے بے بس،بے اختیار بے زبان بنادیے گئے۔اس سچائی کاادراک اب کرناہوگا۔
جناب!اس سے پہلے کہ بھوکے عوام محلوں پرٹوٹ پڑیں،سیاسی اورطاقتور اشرافیہ الزامات کی سیاست سے نکل کرعملی معاشی پالیسی ترتیب دے،عوام کو عزت دینے کیلئے چہرے نہیں نطام بدلناہوگا۔