پانامالیکس…..حقیقت یاسازش

:Share

(آخری قسط)

شنیدیہ ہے کہ برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈکیمرون نے پہلی مرتبہ اپنے دفاعی بجٹ میں جوکٹوتیاں کی ہیں ،امریکاکواس پرشدید اعتراض تھاکہ اس سے عالمی امریکی استحصال میں برطانیہ نے بالآخرامریکاکاساتھ دینے سے انکارکردیا۔چین اورروس کے ساتھ امریکاکے بغض کے بہت سے معاملات دنیاکے سامنے ہیں ،اب آئس لینڈکے وزیراعظم نے بھی پہلی مرتبہ امریکی تابعداری سے انحراف کی پالیسی شروع کی تھی اوراسی طرح اسپین کے وزیرتجارت نے امریکی سرمایہ داروں کی بے لگام پالیسیوں پر قدغن لگانی شروع کی جس کی بناء پریہ سب پاناما لیکس کاشکارہوگئے۔
دراصل گوادر پراجیکٹ امریکا کی موت ہے جس کے لیے وہ پاکستان پر جنگ بھی مسلط کر سکتا ہے!امریکی معیشت اس حد تک تباہ ہوچکی ہے کہ وہ چین سے قرض لینے پر مجبور ہے۔ امریکا چین سے بانڈز کی شکل میں قرض لیتا ہے جس پر وہ سود دیتا ہے۔ ایک اندازہ ہے کہ اگر امریکا کو چین اپنے قرضے بند کر دے تو صرف دو یا تین ہفتوں میں امریکی معیشت جواب دے جائے گی ۔اب تک امریکا چین کا تین ہزاربلین ڈالر سے زائد کا مقروض ہو چکا ہے یاد رہے کہ پاکستان پرکل قرضوں کا حجم ۷۷بلین ڈالر ہے لیکن چین امریکاکو قرضے دینے پر مجبور ہے کہ چین میں تیل نہیں ہے اور جن بحری راستوں سے چین اپنے ملک میں تیل سپلائی کرتا ہے وہ امریکا اور انڈیا کنٹرول کر رہے ہیں ۔ چین کو اپنی تیز رفتار بڑھتی ہوئی معیشت کے لیے تیل کی سخت ضرورت ہے،اگر ان راستوں کی ناکہ بندی کر کے چین کو تیل کی ترسیل روک دی جائے تو چینی معیشت دھڑام سے نیچے آگرے گی!
گوادر کو اگر آپ نقشے میں دیکھیں تو یہ ان خلیجی ممالک کے بالکل سامنے آتا ہے جہاں سے چین اپنی تیل کی ضروریات پوری کر سکتا ہے اس طرح چین امریکااور انڈیا کو بائی پاس کر لے گا نیز یہاں سے پاکستان اور چین مل کر انڈیا اور جاپان سمیت اس خطے کی ساری تجارت کو کنٹرول کر لیں گے کیونکہ کھلے سمندر میں۲۰۰کلومیٹر تک کا علاقہ پاکستان کا ہے اور یہ علاقہ دنیا کی ساری آبادی کو دوحصوں میں تقسیم کرتا ہے۔جنرل راحیل شریف نے پاکستان کی سمندری حدود میں پچاس ہزار مربع کلومیٹر کا مزید اضافہ کر لیا ہے جس کے بعد یہ حدود بڑھ گئی ہیں۔چین کو یہ روٹ مل جائے تو وہ کسی بھی وقت امریکا کو قرض دینابندکرسکتاہے!
اس خطرے کو محسوس کر کے ایک بار امریکا افغانستان میں شاہراہ ریشم کے قریب میزائلز بھی فٹ کرنے کا پروگرام بنا چکا تھا جس پرپرویز مشرف نے فورا ًاعلان کیاتھا کہ چونکہ پاکستان میں بجلی کی کمی ہے لہذا پاکستان ترکمانستان سے بجلی درآمد کرے گا بجلی کی وہ ٹرانسمیشن لائن امریکا کی ممکنہ میزائل سسٹم کے اڈے کے قریب سے گزرنی تھی ساتھ ہی اعلان کیا کہ چونکہ افغانستان کے حالات محفوظ نہیں لہذا پاکستان اپنی ٹرانمیشن لائن کی حفاظت کے لئے وہاں پاک فوج تعینات کرے گا امریکامشرف کی اس چال کو سمجھ گیا اوراپنامنصوبہ ترک کردیا!
یادرہے کہ ٹی ٹی پی کے پہلے امیر عبد اللہ محسود نے گوانتانا موبے سے رہائی کے فورا بعد سب سے پہلے گوادر پراجیکٹ پر کام بندکروانے کی کوشش کی تھی۔گوادردنیا کی سب سے گہری بندرگاہ ہے اوریہاں جہاز کو بیچ سمندر میں لنگر انداز کرنے کے بجائے عین کنارے پر لنگرانداز کیاجاسکتا ہے۔ جو ایک بہت بڑی سہولت ہے۔پاکستان کے لیے یہ ایک بیش بہا فائدہ مند منصوبہ ہے۔ اس کے لیے آنے والی۴۶/ارب ڈالر کی سرمایہ کاری محض چٹکی ہے اس کے مقابلے میں جو آنے والے دنوں میں پاکستان یہاں سے حاصل کر سکتا ہے۔ ایران کی گیس یہاں سے ہوتے ہوئے چین جاسکتی ہے۔ روس اوروسطی ایشائی ممالک کے لیے بھی یہ ایک اہم ترین بندگار بن سکتی ہے اور پاکستان ان ممالک کو بھی بذریعہ سڑک یا ریلوے لائن گوادر سے ملاسکتا ہے۔ چین کی سالانہ کئی سو ارب ڈالر کی ٹریڈ میں سے بہت بڑا حصہ یہاں سے ہوکرجائےگا۔ ان سارے ممالک کی اس تجارت کاایک فیصد بھی پاکستان کوملے توپاکستان فوری طورپرتمام معاشی بحرانوں سے نکل آئے گا۔ ایران،روس اور چین جیسی طاقتیں سٹرٹیجکلی پاکستان پر انحصار کریں گی۔
گودار بھی آمریت ہی کا تحفہ ہے۔ یہ۱۹۵۸ء کے آمرانہ دورمیں عمان سے خریدا گیا۔ بعد میں اس کوصوبہ بلوچستان کاحصہ بنا دیا گیا۔ اس پراجیکٹ کو باقاعدہ انداز میں شروع کرنا بلاشبہ مشرف حکومت کا کارنامہ تھا جس سے بعد میں آنے والی جمہوری حکومت نے مجرمانہ غفلت برتی۔ زرداری کے پانچ سالہ دور اس پر کام رکا رہا ۔ نواز شریف کی آمد تک اس پر خاموشی رہی بلکہ نواز شریف نے گوادر پراجیکٹ کے لیے ایران سے آنے والی گیس پائپ لائن منصوبے پر کام بند کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔
راحیل شریف جب آرمی چیف بنے توانہوں نے چند ماہ بعد یکدم گوادرپراجیکٹ اور اس کے لیے قائم کی جانی والی راہداری پر نہایت جارحانہ انداز میں کام شروع کردیا۔اس سلسلے میں راحیل شریف نے بلوچستان میں ایک وسیع آپریشن کر کے نہ صرف اس منصوبے کے خلاف ہونے والی سازشوں کا قلع قمع کیا بلکہ جب انڈیا نے گوادرکوغیرمحفوظ قرار دیتے ہوئے ایران کی چاہ بہار کوچین کے سامنے پیش کرناشروع کیاتوجنرل راحیل شریف نے معاشی رہداری پربغیرسیکورٹی کے سفرکر کے دکھایا اورفوری طورپر چین کادورہ کر کے اس کے تحفظات کوبھی دورکیا۔
گوادر پراجیکٹ کیلئے قائم کی جانے والی رہداری پربلوچستان میں پاک فوج کے زیرنگرانی کام نہایت تیزی سے جاری ہے لیکن پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں سیاسی قیادت میں موجود اختلافات کی وجہ سے اس پر کام کی رفتار کافی سست ہے۔نواز شریف نے منصوبے کی تفصیلات چھپاکراس کومشکوک کیا توعمران خان اورفضل الرحمن وغیرہ نے اس پرکام ہی بند کروانے کاعندیہ دے دیا۔ اللہ عمران خان اورمولانا صاحب کوعقل سلیم دے۔ اس منصوبے کیلئےوہ جن اضافی روٹس پراعترضات کررہے ہیں وہ اب بھی کم ہیں۔ یہاں جتنی بھاری ٹریفک متوقع ہے شائد یہ تین روٹس بھی اس کے لیے کم پڑجائیں۔اس پراجیکٹ کو ہر حال میں اورنہایت تیزی سے مکمل کیاجانا چاہئے۔ اس میں شک نہیں کہ عمران خان کے دھرنے کی وجہ سے چینی صدرکو دورۂ پاکستان ملتوی کرناپڑااوراس پراجیکٹ کوآٹھ ماہ کیلئے ملتوی کرناپڑا،تاہم جتنا وقت ضائع ہوچکا وہ بھی ناقابل تلافی ہے۔ بعض سیاست دانوں اورنام نہادلیڈروں کی گوادرپراجیکٹ کی مخالفت سے ان کی حب الوطنی،امریکاسے وفاداری اور ان کے سیاسی شعورکااندازہ کیاجا سکتا ہے!آئی ایم ایف سے بھاری قرضے لینے کے بعدگوادر اوراس کیلئے قائم کی جانے والی راہداری پر خاموشی،گوادر پراجیکٹ تباہ کرنے کے مشن پر آئے ہوئے کلبھوشن پرخاموشی موجودہ حکومت پرایک سوالیہ نشان ہے!
اس ہنگامہ ہاؤ میں ایک سادہ بات ناقابل فہم بناکررکھ دی گئی ہے کہ وہ سیاسی زعماء جوعقل کل بنے پھرتے ہیں وہ پاناما لیکس کانام باربار لئے جارہے ہیں لیکن عوام کویہ نہیں بتاتے کہ اس ادارے نے کسی نہ کسی سطح پرہونے والی بدعنوانی اصل ناسور(کرپشن)ہی کوبے نقاب کیاہے۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے پاکستان کی ہرحکومت کوہمیشہ یہ مشورہ دیاکہ کرپشن کی روک تھام کیلئے وہ مزیداصلاحات کرے،مؤثراصلاحات سے کرپشن کی شرح میں کمی کی جاسکتی ہے۔ انسداد بدعنوانی کیلئے ضروری ہے کہ صوابدیدی اختیارات ختم کردیئے جائیں،نیزشفاف فیصلوں اوربے لاگ احتساب کے عمل کی حوصلہ افزائی کی جائے ۔جہاں تک پانامالیکس کاتعلق ہے اس حوالے سے لمبی چوڑی بحث میں پڑنے اورکنفیوژن پھیلانے کی بجائے تمام سیاستدان سرجوڑکر بیٹھیں اورباہمی مشاورت سے ایک متفق علیہ تحقیقاتی ادارے کوتحقیقاتی ذمہ داریاں اداکرنے کااذن عطافرمائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں