Pakistani Nuclear And Secret US Documents

ایٹمی پاکستان کی کہانی،امریکی خفیہ دستاویزات کی زبانی

:Share

امریکی خارجہ پالیسی سے متعلق افشاکی جانے والی ہزاروں دستاویزات میں سے ایک خفیہ یادداشت سے پتہ چلاہے کہ جب امریکاانڈیاکے جوہری تجربے کے بعدپاکستان پرجوہری ہتھیارنہ بنانے کیلئے ذوالفقار علی بھٹوپردباؤڈالنے میں ناکام ہوگئے توانہوں نے انڈین وزیرِخارجہ یشونت راؤچوان سے ایک ملاقات میں اُس دباؤکے پس منظرمیں اس کااعتراف کیاکہ”اگرمیں پاکستان کاوزیر اعظم ہوتاتووہی کرتاجو(ذوالفقارعلی) بھٹوکررہے ہیں۔نیویارک میں8/اکتوبر1976کی صبح ہونے والی اس ملاقات میں کسنجرنے مزیدکہا:عجیب بات یہ ہے کہ پاکستان روایتی ہتھیاروں کاتوازن قائم نہیں کرسکتا۔اگرانہیں15،10جوہری ہتھیارمل جائیں تواس سے انڈیااورپاکستان میں برابری ہوجائےگی۔آپ کے جوہری آلات کے حصول نے ایک ایسی صورتحال پیداکردی ہے جس میں ایک بارپھرایسی مساوات ممکن ہے جوروایتی ہتھیاروں سے ممکن نہیں تھی”۔مگریہ سب کچھ ماننے کے باوجودجوہری ہتھیاروں کے حصول کے حوالے سے امریکی رویہ پاکستان کے بارے میں سخت رہا۔

کسنجرنے انڈین وزیرخارجہ کومزیدکہاکہ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ وہ(پاکستان)اس خیال کوترک کردیں۔میں نے پاکستانیوں سے کہاہے کہ اگروہ اپنے جوہری منصوبوں کوترک کرنے کیلئےتیارہوں،توہم انہیں روایتی ہتھیاروں کی فراہمی بڑھادیں گے۔انڈیااور پاکستان کی جوہری پیش قدمی قریباًپچاس برس سے زائدپرپرمحیط ہے۔اس نصف صدی سے متعلق افشاکی جانے والی ہزاروں امریکی دستاویزات سے علم ہوتاہے کہ جوہری صلاحیت سے ہتھیاروں کے حصول کے سفرمیں واشنگٹن نے ہمیشہ انڈیا کیلئےتو قدرے نرم گوشہ رکھامگرپاکستان کیلئےدباؤ،امدادکی بندش اوردیگرپابندیوں جیسے اقدامات کیے گئے ۔حکومت بھٹوکی تھی یااُن کاتختہ الٹ کرآنے والے جنرل ضیاالحق کی،اِن مشکلات سے چھٹکاراصرف تب ملاجب جب امریکاکوپاکستان کی ضرورت پڑی۔

انڈیانے اپناپہلاریسرچ ری ایکٹر1956میں کینیڈاکی مددسے اورپہلاپلوٹونیم ری پروسیسنگ پلانٹ1964میں بنایاجبکہ پاکستان نے اٹامک انرجی کمیشن1956میں اس خیال سے قائم کیاتاکہ وہ آئزن ہاورانتظامیہ کے اعلان کردہ ایٹم فارپیس پروگرام میں حصہ لے سکے۔1960میں بھٹو،ایوب خان کی کابینہ میں وزیرمعدنیات اورقدرتی وسائل بنے توڈاکٹرعشرت ایچ عثمانی کواٹامک انرجی کمیشن کاچیئرمین مقررکیاگیا۔ عثمانی نے بہت سے اہم پروگرام شروع کیے اوراداروں کی بنیادرکھی۔ اُن کے اہم کاموں میں سے ایک وہ تربیتی پروگرام تھا جس کے تحت ذہین نوجوانوں کو منتخب کر کے بیرون ملک تربیت کی غرض سے بھیجا گیا۔ 1965ء کے وسط میں بھٹونے قوم سے عہدکیاکہ انڈیا بم بناتاہے توہم گھاس یاپتے کھالیں گے،بھوکے بھی سوجائیں گے لیکن ہمیں اپنابم بناناہوگاکہ ہمارے پاس کوئی دوسراراستہ نہیں ہے۔مگرپھراسی برس پاکستان کوہتھیاروں کی فراہمی پرپابندی عائدکرنے کے بعدصدرجانسن نے پاکستان انڈیاجنگ کےتناظرمیں پاکستان کودی جانے والی امریکی فوجی امدادبھی بندکردی اوریہ سلسلہ اگلے16برسوں،1982ءتک جاری رہا۔9ستمبر1965ءکوامریکی خارجہ سیکریٹری ڈین رسک نے صدرجانسن کویہ یادداشت بھیجی کہ پاکستان، انڈیاتلخی دونوں ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات رکھناغیرمعمولی طورپرمشکل بناتی ہے۔اگرہمیں ان میں سے کسی ایک کاانتخاب کرناپڑاتوانڈیا اپنی بہت بڑی آبادی،صنعتی بنیاد،جمہوریت اوردیگرصلاحیتوں کی وجہ سے بہترہوگاتاہم ہم کبھی انڈیایاپاکستان کے پالیسی اہداف کی مکمل حمایت نہیں کر سکتے۔

بھٹو نے1969 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب دی متھ آف انڈیپینڈینس میں لکھاہ ے کہ پاکستان کیلئےجوہری ہتھیاروں کا حصول ضروری ہے۔بھٹو مشرقی پاکستان کے بنگلادیش بننے کے تین دن بعد یعنی20دسمبر1971کو صدر بنے۔جوہری موضوعات پرلکھنے والے کیری سبلیٹ کے مطابق24 جنوری 1972کو صدر ذوالفقارعلی بھٹونے ملتان میں سرکردہ سائنسدانوں کی ایک خفیہ میٹنگ میں پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے حصول کااعادہ کیا۔بھٹونے سائنسدانوں سے براہ راست خطاب میں انہیں جوہری ہتھیاروں کے بارے میں اپنے تصورکی ایک جھلک پیش کی۔

اسی دوران امریکی دستاویزات کے مطابق انڈیامیں امریکی سفارتخانے نے امریکی محکمہ خارجہ کو21جنوری1972کوبتایاکہ امریکی حکومت یابین الاقوامی برادری فی الحال جوہری میدان میں انڈین پالیسی کی سمت پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔3/اگست1972ء کی امریکی انٹیلیجنس کی ایک دستاویز کے مطابق امکانات اس بات کے ہیں کہ انڈیاایک تجربہ کرے گااوراسے پُرامن دھماکہ قرار دے گا۔چار اکتوبر1973 کی تجزیاتی یادداشت میں لکھاگیا اگر انڈیانے انتخاب کیاتو، پلوٹونیم کے موجودہ ذخیرے کااستعمال کرتے ہوئے درجن بھر یا اس سے زیادہ اضافی جوہری ہتھیار بنا سکتاہ ے۔انڈیا نیوکلیئر کلب میں داخلے کو بین الاقوامی سطح پرزیادہ بااثر کردار حاصل کرنے کے ایک ذریعہ کے طور پر دیکھے گا اوربلآخر 18مئی 1974کو انڈیانے جوہری تجربہ کر دیا۔

23مئی1974کی ایک یادداشت کے مطابق پاکستان کے وزیرمملکت برائے دفاع اورامورخارجہ عزیزاحمدنے صدررچرڈنکسن سے ملاقات کی جس میں انڈین جوہری تجربے پرتبادلہ خیال کرتے ہوئے اندراگاندھی کے پرامن دہماکے پراپنی تشویش کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ سوویت یونین انہیں جوہری ہتھیاربنانے میں مکمل مددکرے گا جس کے جواب میں صدرامریکانے جواب دیاکہ”ہمیں ہندوستانی جوہری ہتھیاروں کے مضمرات کے بارے میں ایک جائزے کے ساتھ آغازکرناچاہیے۔آپ کوبھی ایک جائزہ لیناچاہیے۔ہم آپ کواپنے تجزیے سے آگاہ کرتے رہیں گے۔میں فکرمندہوں۔ہم وہ وعدہ نہیں کرناچاہتے جوہم پورانہیں کرسکتے”۔گویایہ مذاکرات ناکام ہوگئے۔

دھماکے کے مضمرات پر18مئی کوکسنجرنے ایک انٹرایجنسی ورکنگ گروپ پیپرکی تیاری کاکہاجس کاخلاصہ یہ تھایہ ہماری (جوہری ہتھیاروں کے) عدم پھیلاؤکی کوششوں کوایک دھچکاہے۔اس دھماکے کے شملہ(امن)عمل پربھی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔جون1974میں واشنگٹن میں عزیزاحمدنے امریکی خارجہ سیکرٹری سے ملاقات کی جس میں کچھ یہ بات ہوئی۔
عزیزاحمد:انڈین کہتے ہیں کہ یہ ایک پرامن دھماکہ ہے پھران سے کہاجائے کہ وہ بین الاقوامی تحفظات کوقبول کریں تاکہ یہ یقین ہوکہ ان کی پیش رفت پرامن رہے گی۔
سیکرٹری:یہ پرامن دھماکہ نہیں ہے۔ایٹمی دھماکےکوپرامن طریقے سے استعمال کرنے کاراستہ کسی کونہیں ملا۔ہم نے دھماکے کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں کہا۔مجھے امریکی وقارکاپوراوزن ایک کامیاب حقیقت کے خلاف ڈالنے سے سخت الرجی ہے۔
احمد:لیکن خطرہ ہمیں ہے۔
سیکرٹری:ہم پاکستان کی آزادی اورعلاقائی سالمیت کےحق میں بیان دیں گے۔پاکستان کے خلاف جوہری ہتھیاروں کااستعمال بہت سنگین معاملہ ہوگا۔

12جون1974کے ایک ٹیلی گرام میں پاکستان میں امریکی سفیربائیروڈنے یہ تجویزکیاکہ امریکی خارجہ سیکریٹری پاکستان اور انڈیاکے اپنے آنے والے دورے میں بھٹوکومناسب یقین دہانیاں فراہم کریں۔ہندوستانی عزائم پربھٹوکے اپنے تحفظات سے بالکل ہٹ کر،انہیں مجموعی طورپرعوام اورخاص طورپرمسلح افواج کے مورال کامسئلہ درپیش ہے۔واشنگٹن میں5فروری1975کو وزیر اعظم بھٹواورانڈرسیکریٹری جوزف جے سسکوکی ملاقات ہوئی جس میں کچھ یوں بات چیت ہوئی۔

بھٹو:عدم پھیلاؤکے معاہدے پرہمارے اعتراضات اخلاقی بنیادوں پرہیں۔بھارت نے دستخط نہیں کیے۔یقیناًبھارت دستخط کرے توہم دستخط کریں گے۔
سسکو:ہم نے جاناہے کہ پرامن دھماکے اورہتھیاروں کی ٹیکنالوجی میں فرق کرنے کاکوئی طریقہ نہیں ہے۔میں ہمیشہ ہندوستانیوں سے کہتاہوں،جب وہ اپنے پرامن دھماکے کی بات کرتے ہیں،کہ یہ بکواس ہے۔

اسی سال 28اکتوبرکو جنرل اسمبلی کے ایک اجلاس میں پاکستان نے انڈیا کو جنوبی ایشیا میں ایٹمی ہتھیاروں سے پاک علاقے کے قیام کی تجویز پیش کی جس کے بعد فروری1975میں امریکانے پاکستان کے خلاف10سال سے جاری اسلحے کی پابندی ختم کردی۔30ستمبر1975کونیویارک میں عزیزاحمدنے ہنری کسنجرسے ملاقات میں بتایاکہ:”ہم نے آپ کواُن ہتھیاروں کی دوفہرستیں پیش کی ہیں جن کی ہمیں ضرورت ہے”جس کے جواب میں کسنجرنے کہاکہ”مجھے امیدہے کہ جوہری ہتھیاردوسری فہرست میں ہیں”۔

مارچ 1976میں فرانس اورپاکستان نے چشمہ میں پلوٹونیم پرمبنی نیوکلیئرری پروسیسنگ پلانٹ کی فراہمی کیلئےایک باہمی معاہدہ پر دستخط کیے تاہم یہ معاہدہ امریکا اوردیگرعالمی طاقتوں کے دباؤکی زدمیں آیا،اس دباؤکی ابتدامعاہدے سے پہلے ہی ہوچکی تھی۔19فروری1976کے ایک ٹیلی گرام کے مطابق انڈرسیکریٹری برائے سیاسی امورسیسکونے پاکستان کے سفیریعقوب خان کو فرانس سے نیوکلیئرری پروسیسنگ پلانٹ اورجرمنی سے بھاری پانی کے پلانٹ کی مجوزہ خریداری پرامریکی تشویش کے اظہار کیلئےبلایا۔

11مارچ1976کوکسنجرنے فرانسیسی وزیرخارجہ جین سووگنارگس کولکھاکہ پاکستانی ری پروسیسنگ کی صلاحیت کے حصول کوروکاجائے یااس میں تاخیر کی جائے۔16 مارچ کے اپنے جواب میں،سووگنارگس نے دلیل دی کہ مجوزہ فروخت ان اصولوں کے مطابق تھی جو1975کے لندن نیوکلیئرسپلائرز میٹنگ سے سامنے آئے تھے اوریہ کہ فرانس نے امریکاکوپاکستان کے ساتھ اپنے مذاکرات سے آگاہ رکھااورامریکاکے پاس پاکستان کے ساتھ اس معاملے پربات چیت کیلئےتقریباًایک سال کاوقت تھا۔یوں انہیں مقررہ تاریخوں یعنی اس ہفتے میں مطلوبہ معاہدوں پردستخط نہ کرنے کی کوئی وجہ نظرنہیں آتی۔

19مارچ1976کوصدرفورڈنے وزیراعظم بھٹوکوخط لکھاجس میں امریکامیں جوہری ٹیکنالوجی کے دنیابھرمیں پھیلاؤپرکافی خدشے کاانتباہ تھا۔اپریل میں سفیریعقوب خان نے وزیراعظم بھٹوکی طرف سے سیکرٹری آف سٹیٹ کسنجرکوایک خط پہنچایاجس میں تجویزکیاگیاتھاکہ ایران کے ساتھ ملٹی لیٹرل نیوکلیئرپروسیسنگ کی سہولت قائم کی جائے جوپاکستان کے ساتھ جوہری ری پروسیسنگ پلانٹ خریدنے پرسمجھوتہ کرے۔9جولائی1976کی شام ہونے والے اس اجلاس میں ایک اوریادداشت کے مطابق پاکستانی ری پروسیسنگ کامسئلہ پربات ہوئی:

ایتھرٹن(اسسٹنٹ سیکریٹری الفریڈ ایل ایتھرٹن،جونیئر):ہمیں اس پروجیکٹ کوختم کرنے کیلئےجوکچھ ہم کرسکتے ہیں،وہ کرناہے۔ سیکرٹری:میں یہ ضرورکہوں گاکہ مجھے اس میں بھٹوسے کچھ ہمدردی ہے۔ہم روایتی اسلحے کے حوالے سے ان کی مددکیلئے کچھ نہیں کررہے،ہم دہماکے کے بعدبھی انڈیاکوایٹمی ایندھن بیچ رہے ہیں اورپھراس چھوٹے سے منصوبے پرہم ایک ٹن اینٹوں کی طرح ان(پاکستان)پرگررہے ہیں۔

قومی سلامتی کونسل کے عملے کی طرف سے صدرکے معاون برائے قومی سلامتی امور(سکوکرافٹ)کو12جولائی1976کو بھیجی گئی یادداشت میں کہاگیا:اب جبکہ بھٹونے صدرکی اس درخواست کومستردکردیاہے کہ پاکستان فرانسیسی نیوکلیئرری پروسیسنگ پلانٹ کے حصول کوترک کردے،بھٹو کوبتایاجائے کہ جب تک پاکستان ری پروسیسنگ پلانٹ کامعاہدہ منسوخ نہیں کرتا تب تک فوجی امدادکی کسی درخواست پرغورنہیں کیاجائے گا۔

8/اگست1976کوسیکریٹری کسنجرنے شاہ ایران سے تہران میں ملاقات کی۔کسنجرکاکہناتھا:میں نے شاہ کے ساتھ اس تجویزکا احاطہ کیاجومیں وزیر اعظم بھٹوکوپیش کرنے کاارادہ رکھتاہوں کہ ہم پاکستان کوفرانس کاری پروسیسنگ پلانٹ حاصل کرنے کے خیال کوترک کرنے کے بدلے میں اے سیون طیارے فراہم کرسکتے ہیں۔شاہ نے محسوس کیا کہ یہ ایک اچھی تجویز ہے اور بھٹو کیلئے اسے قبول کرنا دانش مندی ہوگی۔اس کے بعد کسنجر نے اگست1976 میں لاہور کا دورہ کیا۔کسنجر نے11 ستمبر 1976 کو سفیر یعقوب خان سے ملاقات میں بتایا کہ وہ روایتی ہتھیاروں کے بارے میں کچھ کرنا چاہیں گے۔

یعقوب:میں اس کی تعریف کرتاہوں۔اگرمیں کھل کربات کروں توآپ کے اعتراضات اس وقت سامنے آئے جب ہم نے فرانس کے ساتھ معاہدے پردستخط کردیے تھے۔
کسنجر:یقیناًآپ جانتے ہیں کہ یہ اخباری بحران(سمنگٹن ترمیم پرتنازع کاحوالہ دیتے ہوئے)تیارکیاگیاتھا۔میں نے سمنگٹن ترمیم کبھی نہیں پڑھی تھی۔

کسنجرنے فرانس کے وزیرخارجہ لوئی ڈی گیئرن گاؤڈکو17جنوری1977کوایک خط لکھا:نئی انتظامیہ کے ساتھ اس معاملے کا جائزہ لینےکے بعد،ان کے ری پروسیسنگ پروجیکٹ کوغیرمعینہ مدت تک موخرکرنے کیلئےہم نے وزیر اعظم بھٹو سے رابطہ کیاہے۔بھٹونے اس بات پرزوردیاکہ کسی بھی صورت میں،انتظام میں غیرمعینہ مدت کیلئےالتواشامل ہوگانہ کہ معاہدہ منسوخ کرنا۔ دوسری طرف،ہم خفیہ بنیادوں پرپاکستان کے التواکوقبول کرنے کی ترغیبات بڑھانے کیلئےجوکچھ کرسکتے ہیں کرنے کی تیاری کررہے ہیں۔

رچرڈنکسن اورجیرالڈفورڈکی حکومت میں خارجہ سیکریٹری رہنے والے کسنجرکے بعداگلی انتظامیہ جمی کارٹرکی تھی جس میں 20جنوری 1977سے 28اپریل1980میں سائرس وانس نے وزارت خارجہ کاقلمدان سنبھالا۔وانس نے3فروری1977کوفرانس کے وزیرخارجہ کوخط لکھا:فرانس اورپاکستان کی طرف سے پاکستان کے ری پروسیسنگ پلانٹ کوغیرمعینہ مدت تک موخرکرنے کے مشترکہ فیصلے اورفرانسیسی ری ایکٹرز،ایندھن اور شایدفیول فیبریکیشن پلانٹ کے متبادل کے فارمولے سے اس مسئلے کے کامیاب حل میں مددملے گی۔

17فروری1977کے ایک ٹیلی گرام میں،سفیربائروڈنے محکمہ خارجہ کوبتایا:بھٹونے یقیناًانڈین دھماکے پرہمارے ردِّعمل کوغور سے دیکھاتھا۔ہم نے نہ صرف کچھ نہیں کیاتھا(میں یہ نہیں کہہ رہاہوں کہ ہم بہت کچھ کرسکتےتھے)بلکہ ہم نے سوالوں کے جوابات کے علاوہ کوئی عوامی پوزیشن بھی نہیں لی تھی۔کسنجرکے چندماہ بعدنئی دہلی کے دورہ میں،جب انہوں نے برصغیرمیں انڈیا کی غالب پوزیشن کوتسلیم کیا،توتقریباًیقینی طورپربھٹوکے اس تاثرکی تصدیق ہوگئی کہ امریکاکونہ صرف انڈیا کی جوہری صلاحیت سے کوئی مسئلہ نہیں ہے،بلکہ ممکنہ طورپروہ انڈیاکابہت زیادہ احترام کرتاہے۔

3مارچ1977کے ایک خط میں صدرکارٹرنے وزیراعظم بھٹوسے کہا:مجھے ذاتی طورپرجوہری ہتھیاروں کے ممکنہ پھیلاؤپر تشویش ہے۔یہ سوال واضح طورپرپاکستان کومتاثرکرتاہے۔عدم پھیلاؤکیلئےحکمت عملی بناتے ہوئے،دیگراقوام کے ساتھ قریبی تعاون میں، میں پاکستان کے مفادات کوواضح طورپر ذہن میں رکھناچاہتاہوں۔

24 مارچ کواسلام آبادسے ٹیلی گرام میں،بائیروڈنے بھٹوکی24مارچ کوایٹمی مسائل پربات چیت شروع کرنے کی پیشکش کی اطلاع دی تو2/ اپریل 1977 ءکے ایک میمورنڈم میں قائم مقام خارجہ سیکریٹری کرسٹوفر ن ے صدر کارٹر سے کہا: ہمیں،جتنا جلد ممکن ہو،بھٹو کی بات چیت کیلئے آمادگی کا جواب دینا چاہیے۔ صدر کے معاون برائے امورقومی سلامتی(برزینسکی)کی طرف سے صدرکارٹرکو9 اپریل1977کی یادداشت میں کہاگیا: سفیربائروڈکوہدایت کی جائے کہ وہ آپ کے تحفظات پرزوردیتے ہوئے انتہائی سخت لہجے میں بات کریں،اورمراعات کی طرف تب ہی جائیں جب انہیں یقین ہوکہ بھٹونہیں جھکیں گے،اورمراعات آہستہ آہستہ پیش کریں،بجائے کہ ایک پیکج کے طورپر۔پیشکشوں کی ترتیب،مثال کے طورپر،یہ ہوگی:توانائی اورزمینی اوربحری آلات میں مدد،ایف فائیواوراے فورطیارے اوراقتصادی امداد۔اے سیون سے بھٹوکوصاف انکارکردیناچاہیے۔

وانس نے صدرکارٹرکوپیرس سے31مئی1977کوشام کی رپورٹ میں پاکستانی وزیرخارجہ عزیزاحمدسے اپنی ملاقات کااحوال لکھا۔انہوں نے(کچھ جوازکے ساتھ)نشان دہی کی کہ امریکانے پراجیکٹ کی مخالفت ظاہرکرنے میں(پراجیکٹ شروع ہونے کے تین سال بعد)1976تک انتظارکیا۔ انہوں نے کہ اکہ امریکا اور پاکستان کے تعلقات ایک دوراہے پر ہیں۔اگر انتخاب تصادم کاہ ے،تو انہوں نے سینٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن سے پاکستان کے نکلنے،سوویت آپشن کی طرف رجوع، اور بھٹو کی امریکا مخالف مہم کے تسلسل کی پیش گوئی کی۔میں نے واضح کیا کہ ہماری ترجیح تعاون پر مبنی تعلقات کو آگے بڑھاناہےلیکن کوئی وعدہ نہیں کیا۔

11جون1977کے ٹیلی گرام میں،پاکستان میں سفارت خانے نے محکمہ خارجہ کوبتایاکہ10جون کوقومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم بھٹونے اعلان کیاکہ پاکستان فرانس کے ساتھ اپنے جوہری ری پروسیسنگ معاہدے کوکبھی منسوخ یاملتوی نہیں کرے گامگر5پانچ جولائی1977کوجنرل محمدضیاالحق نے اقتدارپرقبضہ کرلیا ۔10جولائی1977ءکےٹیلی گرام میں پاکستان میں امریکی سفیرہمل نے محکمہ خارجہ کوضیاسے اپنی ملاقات کے بارے میں بتایا:مجھے اتنایقین نہیں ہے کہ ضیاکسی بھی طرح سے فرانس،پاکستان معاہدے کوتبدیل کرنے کیلئےتیارہیں۔

12/اکتوبر1977کوصدرکے معاون برائے قومی سلامتی امور(برزینسکی)نے صدرکارٹرکوبتایاکہ پاکستان فرانس کے ساتھ اپنے معاہدے کی حفاظت کیلئےسفارتی مہم میں مصروف ہے۔14/اکتوبرکواسلام آبادسے ٹیلی گرام میں،سفارت خانے نے اطلاع دی کہ چونکہ فرانس کی جانب سے پاکستان کونیو کلیئر ری پروسیسنگ آلات کی سپلائی روک دی گئی ہے،اس لیے پاکستان کوگلین ترمیم کے تحت رکی امدادکی فراہمی دوبارہ شروع کردینی چاہیے لیکن26/ اکتوبر 1977ءکے ٹیلی گرام میں محکمہ خارجہ پاکستان میں سفارتخانے کوبتایاکہ ہمیں فی الحال اپنی امدادکاالتواجاری رکھناچاہیے۔

24 اگست1978کوواشنگٹن پوسٹ نے رپورٹ کیا:پاکستان نے کل اعلان کیاہے کہ فرانس اسے ایٹمی ری پروسیسنگ پلانٹ فراہم کرنے کے معاہدے سے دستبردارہوگیاہے۔جنرل ضیاالحق نے راولپنڈی میں ایک پریس کانفرنس میں یہ اعلان کیاکہ انہیں مطلع کیا گیاہے کہ فرانس صدرویلری گیسکارڈڈی ایسٹانگ کے ایک انتہائی شائستہ خط کے ذریعے معاہدے سے دستبردارہورہاہے۔کارٹرانتظامیہ نے1977سے غیررسمی طورپرپاکستان کودی جانے والی خوراک کے علاوہ تمام امداد بند کررکھی تھی۔امریکی محکمہ خارجہ نے فرانس اوربرطانیہ میں سفارت خانوں کیلئےیکم نومبر1978کو ٹیلی گرام لکھاکہ پاکستان حساس جوہری تنصیبات کے حصول کیلئےآگے بڑھ رہاہے،بشمول ری پروسیسنگ اورافزودگی کی صلاحیت کے۔

واشنگٹن میں30نومبر1978کے پالیسی جائزہ کمیٹی کے اجلاس میں کہاگیاکہ یہ واضح ہے کہ پاکستانی ایٹمی دھماکہ کرنے کی صلاحیت کے طریقے تلاش کرتے رہتے ہیں اوراگران کی سرگرمیوں پرنظرنہ رکھی گئی توبالآخرہمیں اپنی اقتصادی امداداور فوجی فروخت بند کرنے پرمجبورکردیں گے۔پاکستان میں سفارتخانے نے محکمہ خارجہ کو30اپریل1979کے ٹیلی گرام میں بتایاکہ پاکستان نے جوہری افزودگی کی سرگرمیوں کومنجمدکرنے کی ہماری تجاویزکو مستردکردیاہے۔ضیاکاخیال ہے کہ انہیں ہمارے ساتھ ایسے حل پربات کرنے کی ضرورت نہیں ہے جوپاکستان کی سلامتی اورجوہری پھیلاؤکے بارے میں ہمارے خدشات دورکرے۔ہم آئی اے ای اے،جوہری سپلائرزاوردیگرمتعلقہ ممالک بشمول سوویت یونین،چین اوربھارت کی حمایت حاصل کرنے کی تجویز کرتے ہیں۔

9جون کونائب سفیرپیٹرکانسٹیبل کوجوہری عدم پھیلاؤکی یقین دہانی کرواتے ہوئے کہیں کہہ دیاکہ وہ لکھ کردینے کوتیارہیں۔18 جولائی کومحکمہ خارجہ نے ہمل کوہدایت کی کہ وہ ضیاکی پیشکش کی پیروی کریں۔ہمل نے29جولائی کوضیاکے ساتھ ہونے والی بات چیت کی اطلاع دی۔صدرکے معاون برائے قومی سلامتی امور (برزینسکی)نے31جولائی1979کوصدرکارٹرکواسی ملاقات کے حوالے سے ایک یادداشت بھیجی۔ہچکچاتے ہوئے اورکسی حدتک متضاداندازمیں،صدرضیانے پاکستان کےایٹمی پروگرام کے پرامن مقاصدکی تحریری یقین دہانی فراہم کرنے پررضامندی ظاہرکی۔ضیانےکہاکہ “باربار زبانی یقین دلانے کے بعدلکھ کردینے کی اُن کی پیشکش محاورتاًتھی”۔بہرحال انڈیا1974میں اورپاکستان1998میں ایٹمی طاقت بن گئے۔

امریکی دفترتاریخ سے وابستہ مؤرخ سیٹھ اے روٹرمیل کاکہناہے کہ دسمبر1979کے آخرمیں افغانستان پرسوویت حملہ جنوبی ایشیا کے ساتھ امریکی تعلقات میں ایک بڑی تبدیلی کاباعث بنا۔کارٹرنے پاکستان کے ساتھ قریبی تعلقات کی کوشش کی کیونکہ ان کی انتظامیہ کوسوویت توسیع کااندیشہ تھااور کارٹرکوضیاکی شکل میں افغانستان پرسوویت قبضے کی مخالفت کرنے کیلئےایک آمادہ (اگرچہ متضاد)ساتھی مل گیا۔امریکاپہلے ڈیڑھ سال تک افغانستان کے معاملے میں بڑاتذبذب کاشکار رہالیکن جب جنرل ضیاء نے سوویت یونین کوافغان توڑے داربندوقوں کے ساتھ روکے رکھاتوامریکاکے تمام”پلانرز” گویاآنکھیں جھپکنابھول گئے اوراس کے بعد باقاعدہ افغانستان جہادمیں شامل ہونے کاعندیہ دیاتوجنرل ضیاء نے بڑے طنزکے ساتھ”امریکی امدادکو مونگ پھلی سے تشبیہ دیتے ہوئے لینے سے انکارکردیاکیونکہ جمی کارٹرکی ذاتی آمدن کاانحصاراس کی زرعی اراضی پرمونگ پھلی تھا۔اس کے بعدوہی امریکاجوانڈیاکی خوشی کیلئے پاکستان کے ایٹمی پروگرام پرہرطرح سے نہ صرف قدغن لگارہاتھابلکہ کیسنجرکی طرف سے وزیراعظم بھٹوکوایک مثال بنانے کی دہمکی بھی دے چکاتھا،اب ہرروزاعلیٰ پیمانے کے وفودہرقسم کی براہ راست امداددینے کیلئے بیتاب تھے لیکن یہاں بھی جنرل ضیاء نےافغانوں کوبراہ راست اندادفراہم کرنے کی پیشکش کوٹھکرادیااوریہ ساراکام پاکستانی ادارے کے ذریعے کرنی کی ذمہ داری قبول کی۔

اسی اثناء میں ذوالفقارعلی بھٹونے جس ادارے کی بنیادرکھی،اس کی تکمیل جنرل ضیاءکے دورمیں ہوئی۔یقیناًضیاء الحق کوپاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بڑی بھاری قیمت چکانی پڑی اوران کے جہازکوبھاری عسکری تجربہ کارافسران کے ساتھ ہوامیں تحلیل کردیاگیا۔افغانستان میں سوویت یونین کی اس فاش غلطی نے اسے جہاں کئی ٹکڑوں میں تقسیم کردیاوہاں امریکاکودنیاکی واحدسپرطاقت کااعزازبھی حاصل ہوگیا۔اسی تکبرمیں قصرسفیدکے فرعون بش جونئیرنے نائن الیون کی آڑمیں نئے ورلڈآرڈرکی تکمیل کیلئے افغانستان پرحملہ کردیالیکن”ہائے اس زودپشیماں کاپشیماں ہونا”کے مصداق افغان مجاہدوں نے اپنی تاریخ دہراتے ہوئے دنیاکی تیسری قوت سرزمین افغانستان کوقبرستان بنادیا۔دراصل اسی شکست کابدلہ لینے کیلئے جوبائیڈن نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف نازیبازبان استعمال کی ہے جس کافی الحال پاکستان کے وزارت خارجہ کی زبان میں جواب دینے کے ساتھ ساتھ اپنے ایٹمی پروگرام کے تحفظ کیلئے تمام سیاسی اختلافات کوبھلاکرسیسہ پلائی دیواربن کرجواب دیناہوگا۔یادرکھیں کہ ملک کی سلامتی اورآزادی کیلئے اللہ کی نصرت کے بعدہماری ایٹمی قوت ہی ہماراسب سے بڑاسہاراہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں