Pakistan spiritual grace of Prophet

پاکستان……… حضورﷺکاروحانی فیض

:Share

یہ میرے رب کی کوئی خاص حکمت عملی ہے یاکوئی آزمائش ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعدجلدہی اوراس کے باسیوں کوقوم کی پشتیبانی فرمانے والوں کی جدائی اوریتیمی کاغم برداشت کرناپڑگیا اورہمیں حالات کے طوفان بلاخیزکی متلاطم لہروں کامقابلہ کرنا پڑگیااور باوجود لاکھ کوتاہیوں کہ صفرسے آغاز کرنے والی یہ قوم ترقی کرتے کرتےجوہری طاقت بن چکی ہے۔ہاں!یہ بات ضرور ہے کہ ہم ابھی تک اسے صحیح معنوں میں نہ تواوفوبالعہدکی پاسبانی کر سکے اورنہ ہی قائداعظمؓ کاپاکستان بناسکے اوراپنی قومی زندگی کے مختلف شعبوں کوبانی پاکستان کے نظریات و تصورات کے مطابق استوارنہیں کرسکے۔ دوقومی نظریہ کی بنیادپر پاکستان کی بنیادہی اسی لئے رکھی گئی کہ ہم ارضِ وطن کوایسے کہف میں تبدیل کردیں جہاں ایمانی استقامت اوردجالی فتنوں سے بچنے کیلئے ہمیں پناہ ملے۔

محمدعلی جناحؒ نے اس مملکت کوحضوراقدسﷺکاروحانی فیضان قراردیاتھالہٰذابارگاہ رسالت مآبﷺسے عطاکردہ اس نعمت کی قدر ومنزلت اور حفاظت ہرپاکستانی پرواجب ہے۔اس کی ناقدری اورخیانت کرنے والے نہ صرف دنیابلکہ آخرت میں بھی رسواہوگئے وجہ اس کی یہ ہے کہ بابائے قوم جب قائداعظمؒ حصولِ آزادی کیلئےمصروف تھے توان کے ذہن میں ایک آزاداسلامی مملکت کا جوتصوّرتھا، وہ مسلمانانِ برصغیر کے سوادِاعظم کی آرزوؤں اورامنگوں کاترجمان تھا۔ان کے ذہن میں ایک ہی بات نقش تھی کہ برصغیرپاک وہندمیں مسلمان اپنی ایک ایسی اسلامی،فلاحی اورجمہوری مملکت قائم کریں جہاں وہ حضورِپاک ؐکے عطا کردہ آئین کی روشنی میں زندگی گزاریں۔

اس امرکوایک المیے سے ہی تعبیرکیاجاسکتاہے کہ ایک طرف ہم نے من حیث القوم اوردوسری طرف برسرِاقتدارطبقے اورحاکمانِ وقت نے قائداعظمؒ کے تصورات کوعملی جامہ پہنانے میں مجرمانہ غفلت وکوتاہی کامظاہرہ کیا۔ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قیامِ پاکستان کے مخالفین اوردینِ اسلام کے ناقدین نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس ملک میں لادینی نظریات کو فروغ دینے کی مہم چلائی۔یہی وجہ ہے کہ ہم آج اپنی سیاسی ابتری کے ایسے بھنورمیں غوطے لگارہے ہیں جہاں منزل دورہوتی جا رہی ہے۔ قیامِ پاکستان سے پہلے اور بعدکے دورمیں قائداعظمؒ کے ایسے متعدد بیانات موجود ہیں جن میں بڑی صراحت سے بیان کردیاکہ پاکستان میں نظامِ حکومت صرف اورصرف دینِ اسلام اورقرآن کی روشنی میں وضع کیا جائے گا۔

13جنوری1948ءکواسلامیہ کالج پشاورمیں خطاب کرتے ہوئے ارشادفرمایاتھا: “ہم نے پاکستان کامطالبہ ایک زمین کاٹکڑاحاصل کرنے کیلئےنہیں کیاتھابلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرناچاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کوآزماسکیں”۔ بابائے قوم کی تقاریروبیانات سے یہ امرروزِروشن کی مانندواضح ہوجاتاہے کہ وہ پاکستان میں اسلامی نظریہ حیات کے اصولوں پر مبنی ریاستی اورسماجی ڈھانچے کی تشکیل کے خواہش مندتھے اورمسلمانانِ برصغیر کیلئےمحض ایک آزاد مملکت کاقیام ہی ان کا مقصودنہ تھابلکہ اصل مقصدیہ تھاکہ مسلمان وہاں آزادی کے ساتھ اپنے ضابطہ حیات اپنی تمدّنی روایات اوراسلامی قوانین کے مطابق زندگی بسرکرسکیں۔آزاد مملکت میں آئین وحکومت کے حوالے سے بھی قائداعظمؒ کے تصورات بڑے واضح تھے۔ایک مرتبہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں آپ سے دریافت کیاگیاکہ پاکستان کاآئین کس طرح کاہوگاتوآپ نے جواب میں فرمایا:میں کون ہوتاہوں آپ کوآئین دینے والا،ہماراآئین توہمیں آج سے تیرہ سوسال پہلے ہی ہمارے عظیم پیغمبرؐﷺنے دے دیاتھا۔ہمیں تو صرف اس آئین کی پیروی کرتے ہوئے اسے نافذکرناہے اوراس کی بنیادپراپنی مملکت میں اسلام کاعظیم نظامِ حکومت قائم کرناہے اوریہی پاکستان ہے”۔

قائداعظمؒ کے نزدیک دینِ اسلام نہ صرف مسلمانوں کی نجی زندگی کے رہنمااصول فراہم کرتاہے بلکہ اپنے پیروکاروں سے اپنی پوری اجتماعی زندگی کو سیاسی،معاشی،معاشرتی اور بھی اسلامی نہج پراستوارکرنے کاتقاضاکرتاہے۔قائداعظمؒ پاکستان کوایک اسلامی ریاست بنانے کے متمنی تھے نہ کہ ایک سیکولرریاست جیساکہ آج کل ہمارے کچھ نام نہاددانشوراوربزعم خویش مؤرخ ثابت کرنے کیلئےایڑی چوٹی کازورلگارہے ہیں۔بابائے قوم نے اغیارکی پھیلائی ہوئی بدگمانیوں کودورکرنے کیلئےبارہااپنی تقاریر میں واضح کیا کہ پاکستان میں اسلام پرنظامِ حکومت کے سواکسی دوسرے نظریے یااِزم کی کوئی گنجائش نہ ہوگی لیکن صدافسوس کہ اس مرتبہ انتخابات میں کسی بھی سیاسی لیڈرنے اپنے منشوریاتقریرمیں اس کاتذکرہ تک نہیں کیا تاہم قائد نے پاکستان کی اقتصادی پالیسی کے بارے میں اپنی تقاریروبیانات سے یہ امرواضح کردیاکہ آپ جاگیرداروں اورسرمایہ داری نظام کو سخت ناپسند فرماتے تھے اورپاکستان میں غرباءکیلئےمعیارِمعیشت بلند کرنےکےخواہاں تھے اورپاکستان کے اقتصادی نظام کواسلام کے غیرفانی اصولوں پرترتیب دیناچاہتے تھے یعنی ان اصولوں پرجنہوں نے غلاموں کوتخت وتاج کامالک بنادیاتھا۔

11/اگست1947ء کواپنے خطاب میں فرمایا:”اگرہم اس عظیم مملکت کوخوشحال بناناچاہتے ہیں توہمیں اپنی پوری توجہ لوگوں اوربالخصوص غریب طبقے کی فلاح وبہبودپر مرکوزکرنی پڑے گی”۔اس لئے ایوان اقتدارمیں سستانے والوں کویہ خبرہوکہ سیاست ٹھہرے ہوئے پانی کانہیں بلکہ اس کی روانی کا نام ہے۔اپنی عقل و فراست کے ساتھ اس کے بندمضبوط بنانے کی ضرورت ہے ورنہ اس روانی کوبندکرنے میں کسی قسم کی مروت کامظاہرہ نہیں کیاجاتا ۔اوپرکی سطح پرتبدیلیاں ہی تبدیلیاں اورنیچے؟کیااب بھی وہی ہم اوروہی غم ہوں گے۔چہرے بدلنے سے کبھی مقدرنہیں بدلتے۔تبدیلی کاعمل جب تک نچلی سطح تک نہیں جائے گا،عوام کے احساسات وجذبات اسی طرح سلگتے رہیں گے۔مہنگائی،لوڈ شیڈنگ اورآئے دن ایک دوسرے پرکرپشن،بدانتظامی اوردیگرالزامات کے ذکرپرانہیں ڈرائیں اوردوڑائیں نہ،وہ توپہلے ہی بہت ڈرے ہوئے اور تھکے ہوئے ہیں۔حالات وواقعات نے انہیں اس قدرٹچی بنادیا ہے کہ سوئی کی آوازبھی انہیں کسی دھماکے سے کم نہیں لگتی۔رہی سہی کسرموجودہ انتخابات کے نتیجے میں قوم کے اندرتقسیم درتقسیم نےعوام کوادھ مواکردیاہے۔

اس کیلئے موجودہ سرکارکوعوام کیلئے اللہ سے”کاروبار”کرناہوگاپھرکہیں جاکران کابازارچلے گا۔ان کی مسکراہٹ سے کسی خوش فہمی میں مبتلانہ ہوجائیں ۔ مسکراتے ہوئے چہروں کے دل بہت اداس ہوتے ہیں،ان کے توخواب بھی کسی عذاب سے کم نہیں ہوتے۔ ہررات کوشب برات سمجھنے والوں کویادوں کی بارات کا کیاپتہ،انہیں اس کاپہلے سے اندازہ ہوجائے تووہ آنکھ بندکرنے سے ہی توبہ کرلیں۔بہت سے لوگوں کی آنکھیں کھلی ہوئی ہوتی ہیں مگران کے ضمیرسورہے ہوتے ہیں۔ایسابھی ہوتاہے کہ آنکھیں ہمیشہ کیلئے بندہوجاتی ہیں مگران کی تعبیر جاگتی رہتی ہے۔بہت سے خواتین وحضرات کو آنکھوں کی”چہل قدمی”’کابڑاشوق ہوتاہے،انہیں اس سے کوئی مطلب نہیں ہوتاکہ آنکھیں بھٹک جائیں یاکہیں اٹک جائیں۔اسی شوق چشم میں وہ بہت سے روگ بھی لگا جاتے ہیں۔ دوسروں کے گھروں میں”نظراندازی”کرنے والوں کواپنی چادروچاردیواری کے اندربھی دیکھناچاہئے کہ اس تاک جھانک سے دل پرکیا گزرتی ہے۔من کاویسے بھی دھن سے کیارشتہ ہے،اسی لئے کہتے ہیں کہ دل نہ بھریں،یہ بھرگیاتوبہت سے سیلاب جسم کوڈبودیں گے۔سیاست میں یہی سیلاب سونامی بن جاتے ہیں ۔

نجانےایک واقعہ یادآگیا،سوچاوہ بھی قارئین کی نذرکردوں۔
ایک بادشاہ نے ایک عظیم الشان محل تعمیرکروایاجس میں ہزاروں آئینے لگائے گئے تھے۔ایک مرتبہ ایک کتاکسی نہ کسی طرح اس محل میں جاگھسا۔رات کے وقت محل کارکھوالامحل کادروازہ بندکرکےچلاگیالیکن وہ کتامحل میں ہی رہ گیا۔کتے نے چاروں جانب نگاہ دوڑائی تواسے چاروں طرف ہزاروں کی تعدادمیں کتے نظرآئے۔اسے ہرآئینے میں ایک کتادکھائی دے رہاتھا۔ اس کتے نے کبھی اپنے آپ کواتنے دشمنوں کے درمیان پھنساہوانہیں پایاتھا ۔ اگرایک آدھ کتاہوتاتوشائدوہ اس سے لڑکرجیت جاتالیکن اب کی باراسے اپنی موت یقینی نظرآرہی تھی۔کتاجس طرف آنکھ اٹھاتااسے کتے ہی کتے نظر آتے۔اوپراورنیچے چاروں طرف کتے ہی کتے تھے۔کتے نے بھونک کران کتوں کوڈراناچاہا،دھیان رہے کہ دوسروں کوڈرانے والا دراصل خودڈرا ہوا ہوتا ہے ورنہ کسی کو ڈرانےکی ضرورت ہی کیاہے؟جب کتے نے بھونک کران کتوں کوڈرانے کی کوشش کی تووہ سینکڑوں کتے بھی بھونکنے لگے۔ اس کی نس نس کانپ اٹھی۔اسے محسوس ہواکہ اس کے بچنے کاکوئی راستہ نہیں کیونکہ وہ چاروں طرف سے گھرچکاتھا۔صبح چوکیدارنے دروازہ کھولاتومحل میں کتے کی لاش پڑی تھی۔اس محل میں کوئی بھی موجودنہ تھا،جواسے مارتا۔محل خالی تھالیکن کتے کے پورے جسم میں زخموں کے نشان تھے۔وہ خون میں لت پت تھا۔اس کتے کے ساتھ کیاہوا ؟؟؟؟خوف کے عالم میں وہ کتا بھونکتا، جھپٹا دیواروں سے ٹکرایااورمرگیا۔

ہمارے سبھی تعلقات،سبھی حوالے آئینوں کی مانندہیں۔ان سب میں ہم اپنی ہی تصویردیکھتے ہیں۔نفرت سے بھراآدمی یہ دیکھ رہا ہوتاہے کہ سب لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں۔لالچی آدمی کویوں معلوم ہوتاہے کہ سب اس کولوٹنے کے منصوبے بنارہے ہیں۔وہ اپنے لالچ کی تصویردنیاکے آئینہ خانے میں دیکھتاہے۔شہوانیت کامریض سوچتاہے کہ ساری دنیااسے جسم پرستی کی دعوت دے رہی ہے۔فقیرکہتاہے کہ ساری دنیاایک ہی اشارہ کر رہی ہے کہ چھوڑدوسب کچھ بھاگ جاؤدنیاسے۔ہم جوکچھ بھی ہیں وہی کچھ ہمیں اپنے چاروں طرف دکھائی پڑتاہے۔ساراجگ آئینہ ہے جس میں ہمیں اپناآپ ہی دکھائی پڑرہاہوتاہے۔

اپنے اردگردکے آئینوں کواپنے عمل،کرداراوراخلاق کے ساتھ صاف رکھنے کی کوشش کریں کیوںکہ ہماراآئینہ ہمارے لئے راہِ نجات بھی ہے اورباعث پکڑبھی۔میرے خیال میں کہانی کا مقصد اپنے اردگردکے آئینے کواپنے عمل،کرداراوراخلاق سے صاف رکھنے کی کوشش کرناہے کیونکہ ہماراآئینہ بھی ہماری نجات اورہماری گرفت کاسبب ہے۔پھر آج کیوں نہ اس پرعمل کریں۔

یادرہے کہ پیارے پاکستان میں بہت سے سیاستدان اقتدارکے بغیرنہیں رہ سکتے اوراسلام آبادان کے بغیرنہیں رہ سکتا۔ہماری بربادی میں ان لوگوں کی آبادی کاسب سے بڑاہاتھ ہے۔اس لئے یہ ضروری ہوگیاہے کہ عوام کی آراءکااحترام کرتے ہوئے مستقبل کے فیصلوں میں ایساماحول پیداکیاجائے جہاں قوم کے بڑھتے اضطراب کامداواہوسکے۔اگرہم بلوچستان میں پائیدارامن کیلئے گلزار شنبے اوران جیسے دیگرافرادجنہوں نے میڈیاکے سامنے ہمارے سینکڑوں فوجیوں اورعوام کے قتل کااعتراف کیاہے،قومی مفاد سلامتی کیلئے ان کومعافی دے سکتے ہیں تو9مئی کے واقعات پرکم ازکم ان گرفتار افرادکی رہائی کااعلان ضرورکیاجائے جو باقاعدہ اس گناہ میں شریک نہیں اورجن کے خلاف ٹھوس شواہداورثبوت ہیں توان کومزیدکسی تاخیرکے مقدمات کی سماعت کرکے کسی انجام تک پہنچایاجائے۔

ہمارے کچھ مہرباں لوگوں کی سوچ ہے کہ مذہب کی آڑمیں اس قدربزدل بنادوکہ وہ محرومیوں کوقسمت اورظلم کوآزمائش سمجھ کرصبرکرلیں۔ حقوقکیلئے آواز اٹھاناگناہ سمجھیں،غلامی کواللہ کی مصلحت قراردیں اورقتل کوموت کادن معین سمجھ کرچپ رہیں ۔غلام قومیں بدکرداروں کوبھی دیوتامان لیتی ہیں اورآزادقومیں عمربن خطاب جیسے بے مثل حکمرانوں کابھی محاسبہ کرتی ہیں۔ جس دن ہم نے اپنے بچوں کویہ ذہن نشین کرادیاکہ ہمارے ہیرووہ نہیں جوجنگ وجدل اورخون بہانے کی دہمکیاں دیتے رہتے ہیں بلکہ جس دن ہم نے انہیں یہ سکھاناشروع کردیاکہ ہمارے ہیروتووہ ہیں جوانسانی وحیوانی زندگی کااحترام اپنے رب کے خوف کا حکم سمجھ کرخود پرفرض کر لیتے ہیں،اوران کی راتیں اللہ کے خوف سے سجدوں میں جھکی رہتی ہیں اوریہ ہیرو ہمارے سائنسدان،اعلیٰ تعلیم یافتہ افرادہمارے استادبنیں گےتوپھرہی معاشرے سے ہمارے بچے جرائم اورتشددسے نفرت کرناسیکھیں گے۔ اس لئے اپنے بچوں کوحق اورباطل میں فرق سمجھاتے ہوئے ایسی زندگی سے محبت سکھائیں جوہمیشہ کی اخروی زندگی کازادِہ راہ بن سکے۔

یہ بھی ذہن نشیں رہے کہ ارض وطن کی معاشی بدحالی اورسیاسی انتشارکافائدہ اٹھاتے ہوئے بیرونی دباؤکی وجہ سے استعمارسے جلددوستی کی بیماری اب وباکی شکل اختیارکرگئی ہے۔جب تک فلسطین اورکشمیرکامسئلہ حل نہیں ہوگا،اس کیلئے چاہے جتنے مرضی الفاظ جمع کرلیں،”کاغذکورا”ہی رہے گا۔لوگ تویہ بھی کہتے ہیں کہ محبت صرف ایک بارہوتی ہے اوراس کے بعد سمجھوتے ہی چلتے ہیں،جب تک جان ہے،جہان داری تونبھانی ہی پڑے گی،جس میں ہارجیت چلتی رہتی ہے۔ جیتنے والوں کویہ بات یادرکھنی چاہئے کہ قوم دکھوں سے ہاررہی ہے اور آپ مخالفین کوقابوکرنے کی تعریفیں سن کرنہال ہو رہے ہیں۔آئے دن بھوک کے ہاتھوں دلبرداشتہ ماں اپنے معصوم بچوں سمیت خودکوٹرین سے کٹواکرہمارے سسٹم کوکاٹ کررکھ دیتی ہے ۔ہمارے ہاں زندہ لوگوں کاحساب نہیں لیاجاتاتومرے ہوئے کس کھاتے میں آئیں گے۔امیرشہرکاتواپنایہ حال ہے:
امیرشہرغریبوں کاخیال کیاکرتا
امیرشہرکی اپنی ضرورتیں تھیں بہت

ہمارے ملک میں واقعی”اچھی گفتگو”کاخوفناک قحط ہے،آپ ملک کے کسی حصے میں چلے جائیں کسی فورم،کسی گروپ کاحصہ بن جائیں،آپ کوسیاسی افواہوں،سیاسی لطیفوں اورسیاسی گپ شپ کے علاوہ کچھ نہیں ملے گااورآپ اگرکسی طرح سیاست سے جان چھڑابھی لیں توآپ کوکسی مذہبی گفتگو کے تالاب میں دھکادے دیاجائے گااوروہ ساری بات چیت بھی سیاسی گفتگو کی طرح غیر مصدقہ واقعات پرمشتمل ہو گی۔بدنصیبی یہ ہے کہ ہماراپوراملک بولنے کے خبط میں مبتلاہے،ہم میں سے ہرشخص روزانہ تین چارکروڑلفظ بول کرسوتاہے۔بعض لوگوں کی اس میں بھی تسلی نہیں ہوتی چنانچہ یہ نیندمیں بھی بڑبڑاتے رہتے ہیں لیکن آپ جب اس گفتگوکاعرق نکالتے ہیں تواس میں سے شخصیت پرستی اورسیاست کے علاوہ کچھ نہیں نکلتا،ہم میں سے ہر شخص اندھادھندبولناچاہتاہے اوریہ اس میں کوئی کسرنہیں چھوڑتا۔اس کی گفتگومیں سیاست اورمذہب کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا اوریہ بھی سنی سنائی اور غیرمصدقہ باتیں ہوتی ہیں۔

انسان”حیوان نطق”بولنے والاجانورہے،یہ اظہارکرتاہے اوراظہار کیلئےآئیڈیازچاہیے ہوتے ہیں اورآئیڈیاز کیلئےمعلومات اورعلم درکارہوتاہے۔علم اورمعلومات کیلئےپڑھنا،گھومنااورگھومنے اور پڑھنے والے لوگوں کی صحبت میں بیٹھناپڑتاہےاورہم یہ کرتے نہیں ہیں لہٰذا پھرہم کیاسنیں اورکیاسنائیں گے؟ہم کیاگفتگوکریں گے؟نیاخیال،نیاآئیڈیاکہاں سے آئے گا؟ہم کیاگفتگوکریں گے؟اس لئے اس معاشرے میں علم،معلومات،اچھی گفتگونئے آئیڈیازکی کمی ہے چنانچہ اس کمی نے ہمارے معاشرے میں ایک اچھی گفتگوکابحران پیداکردیاہے۔ اچھی گفتگو کیلئےضروری ہے کہ خوشامداورتحسین میں فرق رکھاجائے،خوشامد،جھوٹی بات اورتحسین پرخلوص بات میں بڑافرق ہوتاہےلوگوں کے ساتھ بات کریں توان کی ضرورتوں پربات کریں اور اس کی تکمیل کا راستہ بنایاجائے،ہمیشہ دوسروں کے نقطہء نظرکوسمجھنے کی کوشش کریں،لوگوں میں سچی دلچسپی لیں۔

یہ آفاقی سچائی ہے کہ ہروہ آدمی جس سے آپ ملتے ہیں،اپنے آپ کوکسی نہ کسی طرح آپ سے بہترخیال کررہاہوتاہے اوراس کے دل میں گھرکرنے کایہ بہترین طریقہ ہے کہ اسے باور کرائیں کہ آپ اس کوایک اہم شخصیت مانتے ہیں،حجت بازی سے ہمیشہ پرہیزکریں،کبھی کوئی بحث وتکرارسے نہیں جیت سکا۔دوسروں کے نقطہ نظر سے چیزوں کو دیکھنااوراس کے منہ سے ہاں کہلوانا بہت نفع بخش اوردلچسپ بات ہے۔ ہمیشہ دوسرے شخص کوزیادہ سے زیادہ بات کرنے کاموقع دیں،اپنے کارناموں کاتذکرہ کم سے کم کریں اوراعتدال پسندی سے کام لیں،اس دنیامیں ہم سب کوجوآوازاچھی لگتی ہے وہ ہمارے نام کی ہے،کسی آدمی کانام اس کیلئےسب سے میٹھی اوراہم آوازہے،یہی وجہ ہے کہ جب بھی ہم نیاپین لیتے ہیں تو سب سےپہلےاس سے اپنانام لکھتے ہیں،لہٰذا لوگوں کو اچھے ناموں سے پکاراکریں اس سے معاشرے میں بہتری بھی آئے گی اورآپ بھی مطمئن زندگی گزاریں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں