ہماری غلط پالیسیوں،سیاسی ومعاشی بدحالی نے پہلے ہی ملک کوادھ مواکررکھاہے اوراس کے باوجوداب گذشتہ چند ہفتوں سے سوات اورخیبرپختونخوا کے سرحدی علاقوں سے آنے والی اطلاعات نے مزیدپریشان کردیاہے۔چنددنوں میں مقامی سیاسی رہنماؤں، صحافیوں اورسماجی کارکنوں کے ذریعے ملنے والی اطلاعات جہاں حیران کُن ہیں وہاں ٹرانسجینڈرقانون نے قوم میں ہیجان پیدا کردیاہے۔سوات میں ہونے والے دھماکے اوراُس کے نتیجے میں پڑنے والے گڑھے کے حجم اوربارودکی مقدارسے اندازہ ہو گیا ہے کہ بات حدوداورقیودسے باہراوروہ خدشات حقیقت کاروپ دھارچُکے ہیں جن کاتذکرہ ان کالموں میں ہوچکاہے۔اگراس کا بروقت تدارک ہوجاتاتوآج ہمیں ان دائروں کے سفرسے نجات مل جاتی جومسلسل موت کے کنویں میں دائروں کی شکل میں پیش آتی ہیں۔ ہم یہ کیوں ہمیشہ بھول جاتے ہیں کہ اگرتماشائی تالیاں بجانے کی بجائے سنگ باری پراترآئیں آئےتوکھیل کاانجام کس قدرخوفناک ہوسکتا ہے۔
ہردس سال بعدآخرایساکیوں ہوتاہے کہ کھیل وہیں سے شروع ہوجاتاہے جہاں پرختم ہواتھا؟آخرکیوں ہم وہیں آکھڑے ہوتے ہیں جہاں سے سفرکاآغازہوتاہے؟ کبھی فرقہ ورانہ تصادم کی فلم چل پڑتی ہے،کبھی طالبانائزیشن کاڈرامہ،کبھی لشکروں،داعشوں اوربالآخر جیشوں کی کہانیاں!بیش بہاقربانیوں کے بعدوقت بدل جاتاہے لیکن امن وسکون کادورانیہ سانس بھی نہیں لے پاتاکہ یہ پُراسرار ہیولے آن دہمکتے ہیں اوروہی اپناتاتاریوں جیساظلم وستم شروع ہوجاتاہے۔ہم نے کبھی سوچاکہ کہ ہردس سال کے بعد ہم بازگشت کیوں بن جاتے ہیں؟اورکانوں کے پردے پھاڑدینے والی آوازیں ہمارامحاصرہ کرلیتی ہیں،سائے گہرے ہوجاتے ہیں،ہیولے حقیقت بن کرواپس آتے ہیں،ہم جنگ لڑتے ہیں اورپھرجنگ ہم سے ہی لڑپڑتی ہے۔ہم پالیسیاں بناتے ہیں اورعملی تصویرکوئی اورپیش کر دیتاہے۔مجاہدین سے لیکر”کی بورڈ واریئرز”تک ہرکام اُلٹاپڑتاہے،پراجیکٹ افغانستان سے پراجیکٹ عمران تک سب تدبیریں الٹی پڑجاتی ہیں؟
ضیا الحق کے دورکی پالیسیوں سے جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں توفرقہ واریت روپ بدل کرسامنے آجاتی ہے؟مشرف کی بظاہرروشن خیالی یوٹرن لیتی ہے توطالبانائزیشن خوفناک بھوت بن کرسامنے آکھڑی ہوتی ہے،گویاہم ایسے دائرے کے گردگھوم رہے ہیں جوہردس سال بعدہمیں گذشتہ دہائی کے سرے پرلا کھڑا کرتاہے۔ہماری ناکام خارجہ پالیسی کایہ حال ہے کہ برسلزکاانٹرنیشنل کرائسس گروپ جب پاکستان میں خوفناک فرقہ ورانہ تصادم سے متعلق خدشات کا اظہارکررہا تھاتواس وقت دنیاکواس کی حقیقت بتانے کیلئے کوئی موجودنہ تھا۔رپورٹ کے مطابق پنجاب کے سینے میں پلتی مذہبی تنظیمیں ایک جانب ہیں تو دوسری جانب پشاور،ڈیرہ اسماعیل خان،کوہاٹ اورکرم میں فرقہ وارانہ تصادم کیلئےآستینوں میں چھپی نا جانے کون کون سی انتہاپسند تنظیمیں ریاست کویرغمال بنانے پرتُلی ہیں۔ خیبرپختونخواکے سیٹلڈ علاقوں میں ماضی میں دہشتگردی اورانتہاپسندی کے شکارعوام اب پھرخوف کاشکارہیں،گزشتہ دورکے خونی واقعات آنکھوں میں واپس آگئے ہیں،خدشات سراُٹھاچکے ہیں اورسوالات،جوابات سے بے نیازغصے میں بدل رہے ہیں لیکن عمران خان اپنی صوبائی حکومت کی ناقص انتظامیہ کی خبرلینے کی بجائے وفاق کوفتح کرنے کاطبل جنگ بجارہے ہیں۔
کابل پرطالبان کے قبضے کے بعدوجودمیں آنے والی حکومت نے غلامی کی زنجیریں توڑیں یانہ توڑیں مگرہماری ریاست کے پاؤں میں بیڑیاں ضرورڈال دی ہیں ۔ شیخ رشیدکایہ اعتراف کہ امریکی انخلاکے بعد کئی کالعدم تنظیموں کے جنگجوپاکستان میں داخل ہوچکے ہیں لیکن اس چونکادینے والی خبردینے کی بجائے شیخ صاحب نے بطوروزیرداخلہ اپنے فرائض سے غفلت کیوں برتی؟اس وقت ان کی حکومت اورایجنسیاں کہاں مصروف تھیں؟بجٹ منظور کروانے کیلئے سیاسی جوڑتوڑکویقینی بنا رہی تھیں۔ افغان طالبان کے ساتھ مزاکرات کاجوسلسلہ گذشتہ دورمیں شروع ہوا،اُس عمل میں کون کون شریک تھااوریہ عمل کس کس کی یقین دہانی کے ساتھ چلتارہا؟امن معاہدے کیوں ٹوٹتے رہے اورزیتون کی شاخ کن ضمانتوں کے عوض پیش کی گئی؟افغان طالبان نے تحریک طالبان پراپنااثرورسوخ کیوں استعمال نہ کیااورکتنے لوگوں نے اسلحہ پھینک کرپاکستان کے آئین کے سامنے خودکو سرنڈرکیا؟پارلیمان کے اجلاسوں میں سیاسی جماعتوں نے تویہ سوال پوچھے مگر حکومت غائب رہی اورریاست خاموش۔توآج کس کے ہاتھوں پرپاکستان کی پریشانیوں کاخون تلاش کریں؟
جوں جوں نومبرمیں جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ قریب آرہی ہے،نقاب پوش چہروں کی حرکات میں اضافہ ہوتاجارہاہے اوردوسری طرف فیصلہ ہوچکاہے کہ اونٹ کوگرانے اورقابومیں کرنے کیلئے دروازوں اوردہلیزکےنقصان کاجواندیشہ ہے،اس پرہوم ورک مکمل کرلیاجائے اوراس وقت تک بڑی محنت سے تیارکردہ ہرروزنئی کہانی کے پلاٹ میں جتنے سقم پائے جائیں گے،اتناہی اس ڈرامے کےفلاپ ہونے میں آسانی رہے گی بلکہ یہ کہانی اپنے ہی بوجھ سے دھڑام سے زمین بوس ہوجائے گی۔یہی وجہ ہے کہ ہرآئے دن ایک نئی پراسرارکہانی کانامکمل حصہ اپنے حواریوں کوسنادیاجاتاہے تاکہ وہ اپنی مرضی کاآغازاورانجام منسوب کرکے دائرہ انتشارکاحصہ بنے رہیں اورمن گھڑت کہانی کاتخلیق کاراپنے حواریوں کی بیان کردہ کہانیوں کے بوجھ سے بھی آزادرہے۔ تخلیق کارہرروزیہ دعویٰ لیکر میدان میں اترتاہے کہ اس نے طوطے کوقابومیں کرلیاہے جس میں اس خطرناک جن کی جان پوشیدہ ہے اوروہ جب چاہے اس کی گردن مروڑدے یااس سے پہلے اس کی ٹانگیں مروڑکراس جن کواپاہج کردے لیکن حقیقت تویہ ہے کہ اقتدارکی لالچ نے ایسابدحواس کردیاہے کہ اصلی طوطااپنی طبعی زندگی کے آخری سانس لے رہاہے اورکہانی کے تخلیق کارکو اس بات کااحساس ہی نہیں کہ اب اس کے اقتدارکاساراکھیت توچڑیاں چگ گئی ہیں اوروہ نہ صرف خالی ہاتھ اورخالی ذہن کے ساتھ اپنے ہی دامن کواس طرح تارتارکردے گاکہ رفوکی حاجت تک نہیں رہی۔
اس جادوئی کہانی کاسرارہی یہی ہے کہ یہاں واپسی کاراستہ مفقودکردیاگیاہے اوراب ان بھول بھلیوں کی غلام گردشوں میں جتنا مرضی سرپٹک لو،اپنی ہی بازگشت کے جنگل کے پرخارراستے بالآخرجان لیواثابت ہوں گے۔کہانی کاتخلیق کارہرروزاپنی سانسوں کومجتمع کرکے چندآخری ہتھکنڈوں کواستعمال کرنے میں اس لئے جان کی بازی لگانے کوتیارہے کہ اس کوسمجھ آگئی ہے کہ “اگراب نہیں توپھرکبھی نہیں”۔آخرکب تک یہ پتلیوں کاتماشہ جاری رہے گا۔جس تماشہ گرکے ہاتھوں میں ہلانے کی ڈوریاں ہیں وہ بھی جانتے ہیں کہ خطے میں اپنی بقاء کیلئے اب کلائمیکس کی طرف جلدی سے بڑھناہوگاوگرنہ ڈرامے کے شائقین جن کی برسوں تربیت کی گئی ہے،وہ کہیں اس ڈرامے سے بورہوکرکہیں چینل بدل کرکسی اورڈرامے کے سحرمیں نہ کھوجائیں اوراب تک اس ڈرامے کی بھاری لاگت اورخسارہ ہمیں ناکامی کی ایسی دلدل میں نہ پھینک دے جہاں بلک بلک کرموت کی وادی اپنی آغوش میں جکڑلے اوردیکھنے والے کہانی ختم پیسہ ہضم کے انجام سے دوچارکردیئے جائیں۔
اب اس ڈرامے کی آخری مگرنتیجہ خیزقسط کاآغازہوگیاہے جس کیلئے فریقین اس کہانی کاانجام چاہے کتناہی پراسرارکیوں نہ ہو، اپنے حق میں کرنے کیلئے مدمقابل کوحیران کرنے کیلئے جان کی بازی لگانے کابھی سوچ رہے ہیں کہ اگرہم نہیں توپھرکچھ بھی نہیں اورکہانی کے تخلیق کارنے پہلے ہی دن اپنے پہلے سے کامیاب ڈراموں کے انجام پراپنے مقاصدکے حصول کیلئے جن ہتھکنڈوں کواستعمال کیاہے،وہ اسی کویہاں پوری قوت کے ساتھ استعمال کرنے میں اپنی پوری قوت صرف کررہے ہیں۔میڈیا، الیکٹرانک میڈیااورسوشل میڈیاکے تمام خطرناک ہتھیاروں پرروزانہ کی بنیادپرکروڑوں کاخرچ اٹھ رہاہے ۔ ان کی پریشانی بڑھتی جارہی ہے کہ ہم نے اپنے بیشترڈراموں میں”عرب بہار”میں انہی خطوط پرکام کرکے کامیابی حاصل کرے لیبیا،تیونس،عراق،شام کوکھنڈرات میں تبدیل کرنے کیلئے ان کے تمام حفاظتی اداروں کوپہلے پروپیگنڈہ کے ہتھیاروں سے بے بس کیااوربعدازاں اندرہی سے لگڑبگھڑکے خون آشام دانتوں کوکھلی چھٹی دے دی جس نے سارے ملک کوبھنبھوڑکررکھ دیالیکن یہاں ایک عرصہ درازسے یہ ڈرامہ اپنی پہلی چندقسطوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑدیتاہے لیکن اگلی نتیجہ خیزاقساط میں سسٹم کی بجلی غائب ہوجاتی ہے اورفلاپ ڈرامہ ہماری ناکامی کاسندبن کردنیابھرمیں ہماری رسوائی کاساماں بن جاتاہے۔
اپنی رسوائی کوعام ہونے سے بچنے کیلئے ہمیں انہی سے درخواست کرنی پڑتی ہے کہ ہمیں اس کمبل سے جان چھڑانے کیلئے آپ کی مددکی ضرورت ہے اور ساری دنیاکے اسی میڈیاکے سامنے ذلت ورسوائی اورجان بخشی کے معاہدوں پردستخط کرکے اپنے آخری کردارکورات کے اندھیرے میں نکال لینے میں عافیت سمجھی جاتی ہے لیکن مکاری کایہ عالم ہے کہ اپنے رستے ہوئے زخموں کوچاٹنے سے ابھی فرصت نہیں ملتی کہ دوبارہ اپنے محسنوں کے گردن زنی کیلئے اگلے نئے ڈرامے کاآغازکردیا جاتاہے جس کیلئے ڈرامے کے کرداروں کالوکل انتخاب کیاجاتاہے۔خزانے کے منہ کھول دیئے جاتے ہیں اوران ڈراموں کی اقساط میں جان ڈالنے کیلئے اپنے جن کوہدایات دی جاتی ہیں کہ اس مرتبہ پروگرام کاآغازپہلے سے زیادہ خوفناک اندازمیں شروع کیا جائے جہاں اپنے مدمقابل کویہ یقین دلایا جائے کہ ان کے شب وروزکی کوئی حرکت ہم سے پوشیدہ نہیں۔
ان اقساط میں اس مرتبہ یہ پیش کیاجائے گاکہ اب اگرہماراڈرامہ ناکام بھی ہوجائے،ہم اپنے مقاصدمیں ہاربھی جائیں توبازی مات نہیں۔اس مرتبہ شائد یہ آخری سیزن ہوگاجس کے چونکادینے والےکلائمیکس کاآغازمقتدرحلقوں کی آڈیولیک سے شروع کردیاگیاہے۔ اس سے قبل آنے والی آڈیوز اوراس آڈیومیں فرق یہ ہے کہ اس میں وزیراعظم آفس سمیت تمام اہم افسران کوغیرمحفوظ دکھاکریہ پیغام دیاگیاہے کہ ہم طاقت کااصل مرکزہیں۔اب یہ پیغام کون دے سکتا ہے اس پرکسی قیاس آرائی سے بہترہے کہ وہ چندسوالات جوہرکسی کے حرزجاں بنے ہوئے ہیں،وہ پوچھ لئے جائیں:
کہ وزیراعظم کے آفس،گھر،سیکریٹری یااُن کی کابینہ کے فون غیر محفوظ اورسائبرحملوں کی لپیٹ میں کیسے آگئے اوراس کافائدہ کس کوہے اورنقصان کس کاہوسکتاہے ؟ان دفاترکی سکیورٹی کن کن کے ہاتھ رہی ہے یاتاحال ہے؟اگرہیکرزکے پاس گھنٹوں کی ریکارڈنگ موجودہے توکون کون ساموادہیکرزکے ہاتھ لگاہے جس کی وہ بولی لگارہے ہیں؟ہم ایک نیوکلیئرریاست ہیں،اگروزیر اعظم ہاؤس محفوظ نہیں تو۔۔۔؟ دُنیابھرمیں اس پربھی سوال اُٹھائے جاسکتے ہیں اوردوست ممالک بھی رازداری سے گریزکریں گے۔
کیاواقعی خطرہ اب اندرسے اس قدربڑھ گیاہےکہ باہروالوں کاکام آسانی سے ہورہاہے۔دشمن کہیں یہیں آستینوں میں ہیں جبکہ ہم اُنہیں سرحدپار ڈھونڈ رہے ہیں؟ اگر،مگر،چونکہ،چنانچہ،لیکن،یہ سب الفاظ اس پراسرارکھیل میں بے معنی ہیں،اصل جواب”کیونکر”میں چھپاہواہے جس کوڈھونڈنا لازم ہے اوراسی میں نئے جن کے طوطے کی جان ہے،اس طوطے تک رسائی ہی اس بے قابوجن کواس کے آئندہ خطرناک عزائم کاناکام بناسکتی ہے۔دلچسپ امریہ ہے کہ یہ تمام آڈیو خان صاحب کے علم میں ہیں جولیکس ہوچکی ہیں اوروہ بھی جوابھی تک منظرعام پرآئی ہی نہیں۔آخروہ کون سے ذرائع ہیں جو ڈارک ویب پرآڈیو ڈالنے سے پہلے خان صاحب کوآگاہ کررہے ہیں کہ اُنہیں توشہ خانہ کیس میں نااہل کیاجارہاہے؟اوراس ناااہلی کومزیدمضبوط کرنے کیلئے فارن فنڈنگ کیس میں نااہلی کوبھی انتخاب سے قبل عمل میں لایاجائے گا۔معاملہ یہاں ختم نہیں ہوگابلکہ مالم جبہ اوردیگراس سے جڑے ہوئے تین دیگرمقدمات کے تاریخی فیصلے بھی اوپرتلے نااہلی کی دیوارکومزیدمضبوط کرنے میں معاون ثابت ہوں گے۔
تاہم اہم اداروں کیلئے یہ بات باعث تشویش تویقیناًہوگی لیکن یہاں اس بات کاکھوج لگاناانتہائی اہم ہے کہ آخروہ کون ہے جواس ڈرامے کےاندھے کرداروں کے جال میں ڈالی گئی آوازوں کوجان دے سکتا ہے،جوبروقت یاوقت سے پہلے اُنہیں خبردارکرتاہے۔۔۔ کیایہ سب محض اتفاق ہے؟کیااسی کی بُنیادپر عمران خان کوبھی شامل تحقیقات کیاجاسکتاہے؟عمران خان اپنے جوشِ خطابت میں3وکٹیں گرانے کانعرہ لگاناشروع کردیاہے۔دوکاتووہ نام لیکرللکارتے ہیں لیکن تیسری نامعلوم وکٹ کاوہ نام نہیں لیتے۔یقیناًان کا اشارہ آرمی چیف ہیں تووہ کس بل بوتے پرگرانے کادعویٰ کررہے ہیں،اُن کے پاس ایساکون ساآئینی اختیار ہے جس کووہ استعمال کرکے تیسری وکٹ کوگرائیں گے؟البتی یہ طے ہے کہ وہ اپنی مقررہ مدت پوری کرکے نئے آرمی چیف کی تقرری کے بعدرخصت ہوجائیں گے لیکن ان سے یہ بھی توپوچھاجاناچاہئے کہ آخرعمران خان نے ان کوجب مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع دی اوراپنے اس عمل کی تائیدمیں انہوں نے گھنٹوں تعریفوں کے پل کیوں باندھے اوراپنی آئینی رخصتی کے بعدانہوں نے اپنے ہروزبیانئے میں جس طرح کی زبان استعمال کی،اوراگلے ہی دن منت سماجت کابیانیہ جاری کرنے کے عمل کوکیاکہاجائے گا؟کیااب بھی تیسری وکٹ کوگرانے کیلئے کسی ایسے ہاتھوں کے منتظرہیں جودوبارہ ان کے سرپراقتدارکاتاج سجائے گا؟
“آخری سیاسی خودکش حملے”کا ایک مطلب یہ بھی نکالاجاسکتاہے کہ یاتوحملہ کامیاب ہوجائے گایاحملہ آورمضبوط شکنجے میں ک سدیاجائے گا۔عمران خان یہ سیاسی خودکش حملہ ذومعنی خطاب میں کرتے ہیں اوراپنے چاہنے والوں کے دل جیتنے کیلئے اس منت سماجت کاذکرنہیں کرتے کہ لیڈرکی بزدلی اورخود غرضی کاپتہ چل سکے تاہم آڈیولیکس کامعاملہ انتہائی سنگین ہے،اس کیلئے چھپ کر حملہ کرنے والوں کاسراغ لگاناانتہائی ضروری ہے کہ یہ ایک نیوکلئیر ریاست کی رازداری کااہم معاملہ ہے،اس کومنطقی انجام تک پہنچانابہرحال ریاستی اداروں کی اہم ذمہ داری ہے۔یہ تجسس بھری سیریزکوانجام تک پہنچاناہوگاورنہ طاقت کے مرکزپر تو سوالات کارخ ایک غلط سمت پرچل نکلاہے۔