ڈھائی برس قبل جمال خاشقجی نے اپنی ترک منگیترسے شادی کیلئے کچھ کاغذات حاصل کرنے کیلئے استنبول کے سعودی قونصل خانے میں قدم رکھا،جہاں سے وہ کسی چھلاوے کی طرح غائب ہوگئے۔وہ وہاں صرف اپنی طلاق کی رسمی کارروائی پوری کرنے گئے تھے،ان کے قریبی دوستوں نے انہیں قونصل خانے جانے سے منع کیاتھا،پھربھی جمال خاشقجی نے ان کی بات کونظرانداز کردیا،کیوںکہ وہ جانتے تھے کہ سعودی سفارتخانے میں کام کیسے ہوتاہے۔ ترکی اورواشنگٹن میں ان کامستقبل محفوظ تھا،مہینوں گومگواورتنہائی میں رہنے کے بعدجمال نے اپناذہن بنالیا،جب وہ لندن سے استنبول واپس آئے توکسی بھی دوست سے رابطہ نہیں کیابلکہ وہ سیدھے قونصل خانے گئے،جس کے بعد سات منٹ کے اندران کی موت ہو گئی۔ قرون وسطی کے مظالم کی یاد تازہ کرتے ہوئے ان کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے گئے۔انہیں قتل کرنے والوں کے پاس کوئی جواب نہیں تھاکہ اب اس مسئلے سے محمدبن سلمان کی جان کون چھڑائے گا۔خاشقجی کے قتل نے ولی عہدکی حیثیت کوہی تبدیل کردیا،جس کے بعدولی عہد نے خود کو بہت مشکل صورتحال میں پایا۔
امریکااورسعودی عرب کے درمیان تیل کی حفاظت کاسمجھوتہ ختم ہوچکاہے۔سعودیہ کے دو بڑے آئل ٹرمینلزپرحملہ کوسابق امریکی وزیرخارجہ مائیک پامپیوکی طرف سے ایران جنگی اقدام قراردینے کے باوجودٹرمپ اس معاملے سے دوررہے۔ولی عہدکی وحشیانہ مہم نے یمن کوتباہ وبرباد کرکے رکھ دیا ہے،سعودی عرب کااہم اتحادی متحدہ عرب امارات بھی اس معاملے میں ساتھ چھوڑچکاہے۔وہ یمن کودوحصوں میں تقسیم کرکے حوثیوں کو شمال میں محدودکرناچاہتے ہیں۔کچھ ماہ قبل حوثیوں نے بڑے پیمانے پرحملہ کرکے سعودی اتحادکے 2 ہزار فوجیوں کوپکڑنے کا دعویٰ کیا،جس میں سعودی بھی شامل ہیں،اس خبرنے سعودی سلطنت کے دل میں تباہی مچادی ۔انہی دنوںایران کے صدرحسن روحانی نے انکشاف کیا تھا کہ انہیں عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی کے ذریعے سعودی عرب کاخط موصول ہواہے،میں نہیں جانتاکہ اس خط میں کیالکھاہے لیکن یہ توواضح ہے کہ خط میں اعلانِ جنگ نہیں کیا گیا۔
ولی عہدہرمحاذسے پسپائی اختیارکررہے ہیں لیکن محمدبن سلمان اب بھی گھرمیں کوئی رعایت دینے کوتیار نہیں۔دینی اسکالر سلمان العودہ پر مقدمہ چلایاجا رہاہے، جس میں انہیں سزائے موت بھی دی جاسکتی ہے۔ولی عہدمیں مغرب کیلئے کشش ختم ہوچکی ہے،انہیں اب انتہائی امیر اورماڈرن شہزادے کے طورپرنہیں دیکھاجاتا،نوجوان ولی عہد بہت جلدی میں ہیں، نیویارک ٹائمزکے کالم نگارتھامس فریڈمین جیسے لکھاریوں نے انہیں بہترین مصلح قراردیاتھا ۔ امریکامیں ان کانام بدنام ہوچکاہے، کوئی بھی کھلے عام ولی عہد کی حمایت نہیں کرتا،اب ان کے ساتھ کام کرنے کیلئے لوگوں کی قطاریں نہیں لگیں،اب کوئی اڑنے والی ٹیکسی،روبوٹ اورصحرامیں نئے شہروں کی تعمیرکی بات نہیں کرتا،ان سب ناکامیوں کیلئے خاشقجی براہ راست ذمہ دارہیں۔ ویسے قابل ذکر بات یہ ہے کہ خاشقجی نے محمدبن سلمان کے اصلاحی ایجنڈے کی حمایت کی تھی،انہوں نے سعودی عرب میں ہونے والی تبدیلیوں کوتسلیم کیاتھا،بس تنقیداس بات پرتھی کہ اصلاحاتی عمل کس طرح آگے بڑھاناہے۔
بدقسمتی سے ولی عہد کے ذاتی محافظوں کی نگرانی میں خاموشی سے خاشقجی کوقتل کردیاگیالیکن تاریخ نے اس واقعہ کو پوری تفصیل کے ساتھ محفوظ کرلیاہے ۔سعودی عرب نے قتل کے شواہد کوختم کرنے کی ہرممکن کوشش کی۔ انہوں نے ترک انٹیلی جنس کے سربراہ کوریاض آنے کی دعوت دی اوردعویٰ کیا کہ اس پورے معاملے کوایک بیٹھک میں نمٹایاجاسکتاہے،ترکی نے پیشکش مستردکردی۔اردگان کورشوت دینے کی پیش کش میں بھی ناکامی کاسامناکرناپڑا، فرانزک ثبوت کوختم کرنے کابھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔سی آئی اے نے اپنے ٹیلیفون ریکارڈکی بنیادپریہ نتیجہ اخذکیاکہ خاشفجی سعودی حکومت کاحصہ ہونے کی وجہ سے بہت سے رازوں سے واقف تھے اس لئے محمدبن سلمان ہرمخالف آوازکوخاموش کرنے کیلئے خاشفجی کے قتل کاحکم دیا۔
خاشقجی کے قتل کاخلافِ توقع اثرہوا،اکتوبرکے اس خونی دن کے بعدسے ہی محمد بن سلمان قتل کے اثرات سے نہیں نکل سکے،حتی کہ سی آئی اے کی ڈائریکٹر جیناہاسپل اور واشنگٹن نے ولی عہدکے خلاف جانے کافیصلہ کرلیا،جس کے بعدسے ولی عہد کی مشکلات ختم ہونے کونہیں آرہی ہیں۔انہوں نے قتل کے اثرات سے نمٹنے کیلئے ایک ہنگامی کمیٹی تشکیل دی،جس نے انتہائی عجیب مشورے دیے،جس میں سے ایک ولی عہداوراسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے درمیان کیمپ ڈیوڈمیں ملاقات تھا،جس سے خطے کی پوری سیاست بدل کررہ جائے گی لیکن کچھ بھی نہیں ہوپایا۔پھرولی عہدنے امریکاکے مقابلے کیلئے چین سے تعلقات بڑھانے کی کوشش کی،اس کابھی کوئی فائدہ نہیں ہوا،جب بھی محمدبن سلمان نے یہ سوچا کہ خاشقجی کے بھوت سے جان چھوٹ گئی ہے،وہ ان کوڈھونڈتاہواان کے گھرتک پہنچ گیا۔
کچھ دنوں سے اس نوعیت کی خبریں گردش کررہی ہیں کہ خاشقجی کومغربی طرزکی جمہوریت سے کچھ خاص غرض نہ تھی اوریہ کہ وہ سیکولرازم کودشمن گردانتاتھا۔سعودی نوازسوشل میڈیااور انتہائی دائیں بازوکے مبصرین نے جوکچھ لکھاہے،اس کی روشنی میں امریکا کیلئے ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ وہ خاشقجی کے معاملے میں بہت آگے بڑھنے سے پہلے یہ سوچ لے کہ خاشقجی کو جتناآزادخیال تصورکیاجارہاہے،وہ اس سے کہیں کم آزاد خیال تھا۔مزید یہ کہ خاشقجی ایک انتہاپسندتھااورجولوگ اس کے قتل کی مذمت کررہے ہیں وہ دراصل امریکااورسعودی عرب کے درمیان تعلقات کشیدہ کرنے سے متعلق ایرانی ایجنڈے کی تکمیل میں مصروف ہیں۔میں اس حوالے سے کسی نظریہ سازش پرتوبات نہیں کروں گامگرایسی افواہوں کوجن نکات سے تقویت مل رہی ہے،ان کے بارے میں کچھ نہ کچھ کہنے کی کوشش ضرورکی جاسکتی ہے۔
٭ جی ہاں،اخوان المسلمون میں خاشقجی کے بہت سے دوست تھے۔اس کے دوست اورمعروف تجزیہ کارڈیوڈاگنیشیس نے بھی لکھاہے کہ اس نے اٹھتی جوانی میں اخوان سے وابستگی اختیارکی تھی اوربعدمیں وہ اس سے الگ ہوگیاتھا۔جوبھی خاشقجی کواچھی طرح جانتاہے وہ ایسی کسی بھی بات سے زیادہ حیرت زدہ نہیں ہوگا۔ ماضی میں خواہ کچھ ہواہومگراس حقیقت کوکسی بھی طورنظراندازنہیں کیاجاسکتاکہ اظہارِ رائے کی آزادی کے حوالے سے کام کرنے پر خاشقجی کو اغواکرنے کے بعدقتل کردیاگیا۔اس حقیقت سے بھی کوئی انکارنہیں کر سکتا کہ مغرب میں جو لوگ اظہارِرائے کی آزادی کیلئے جدوجہد سے وابستہ رہے ہیں،وہ اس نکتے پرزوردیتے ہیں کہ کسی کے سیاسی نظریات سے قطعِ نظراظہارِرائے کی آزادی سے متعلق اس کے حق کی حفاظت کی جانی چاہیے۔یہ معاملہ موجودہ سیاسی نظام کے خلاف غیرمقبول نظریات کی حفاظت کے حوالے سے انتہائی دائیں بازو کیلئے ایسڈٹیسٹ کادرجہ رکھتاہے۔اگرہم ایک لمحے کیلئے فرض بھی کرلیں کہ خاشقجی اخوان کارکن تھااورعرب دنیاکواسلامی رنگ میں رنگاہوادیکھناچاہتاتھا تب بھی اس بات کی شدید مذمت کی جانی چاہیے کہ اسے اپنی بات کہنے کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتاراگیا۔
٭سرگوشیوں پرمبنی ایک مہم یہ بھی چل رہی ہے کہ سردجنگ کے دورمیں جب سابق سوویت یونین کی افواج نے افغانستان پرلشکرکشی کی، تب جن مجاہدین نے سوویت افواج کے آگے بندباندھاان کی جدوجہدکی رپورٹنگ بھی خاشقجی نے کی اوراس نے اسامہ بن لادن کوبھی کورکیا۔اب اس نکتے پر زوردیاجارہاہے کہ مجاہدین کی سرگرمیوں کی کوریج کومغرب مخالف تصورکیاجاناچاہیے۔معاملہ یہ ہے کہ اس دورمیں خاشقجی سعودی عرب کے ایک اخبار کانمائندہ تھااوراپناکام کررہاتھا۔سعودی عرب کی حکومت افغانستان پرسوویت لشکرکشی کی مخالف تھی اوراس نظریے سے خاشقجی بھی متاثررہاہوگا ۔ایسے میں خاشقجی کواگرمغرب مخالف تصورکیاجائے تومغربی دنیاسے تعلق رکھنے والے میڈیاکے ان نمائندوں کے بارے میں کیاکہاجائے گاجو افغانستان پرسوویت لشکرکشی اوراس کے خلاف مجاہدین کی سرگرمیوں کی کوریج کرتے رہے؟کیایہ حقیقت نہیں کہ ریگن انتظامیہ کے تحت کانگرس بھی افغانستان پر سوویت لشکرکشی کوناکامی سے دوچار کرنے کیلئے فعال رہی اوراس حوالے سے سعودی عرب سے غیرمعمولی اشتراکِ عمل کیاگیا؟دونوں نے مل کرمجاہدین کی حمایت اورمددکی تاکہ سوویت افواج کوافغانستان سے نکالاجا سکے۔ڈیوڈ اگنیشیس نے لکھاہے کہ خاشقجی کے دل میں اسامہ بن لادن کیلئے نرم گوشہ ضرورتھامگربعدمیں جب اس نے معاملات کی خرابی دیکھی توخیالات میں تبدیلی رونماہوئی۔جب اس نے دیکھاکہ اسامہ بن لادن مغرب کے خلاف جارہاہے تووہ اپنی رائے بدلنے پرمجبورہوااوروہ اس خیال کے بھی حامل تھے کہ نائن الیون کے حوالے سے اسامہ بن لادن کوذمہ دارقراردینے کے معاملے میں سعودی عرب کودوٹوک مؤ قف اپناناچاہیے تھا۔
سعودی عرب کی نظرمیں آج اخوان المسلمون دہشتگردتنظیم ہے،یہ تبدیلی نئی ہے۔عشروں تک سعودی عرب نے اپنے ملکوں میں اذیت کاسامنا کرنے والے اخوان المسلمون کے ارکان کاخیرمقدم کیااورمددبھی کی۔شام،عراق اورمصرمیں اخوان المسلمون کے کام کرنے والوں کوسعودی عرب عشروں تک اپناسمجھتارہا کیونکہ تب اسے عرب دنیامیں اپنااثرو رسوخ برقراررکھنے کیلئے اخوان جیسی تنظیموں کی حمایت درکارتھی۔سعودی عرب نے اسلام کے حوالے سے جونظریہ اپنارکھاہے،اسے اخوان کی حمایت حاصل تھی کیونکہ اخوان کی قیادت کابنیادی تصوریہ تھاکہ ہراس حکومت کی حمایت کی جانی چاہیے،جو اسلامی تعلیمات کو نافذکرنے میں لیت ولعل سے کام نہ لے۔یوں اخوان کی نظرمیں سعودی حکومت قابلِ قبول اورقابلِ احترام تھی۔بقول خاشقجی سعودی عرب میں اخوان کے ارکان کاخیر مقدم ہی نہیں کیاجاتاتھابلکہ ان کی تعلیمات اورسرگرمیوں پربھی کوئی قدغن نہ تھی کیونکہ سعودی حکومت کاخیال تھا کہ اخوان اسلامی تعلیمات کے فروغ کے ذریعے لوگوں کاذہن اصلاح کی طرف موڑرہی ہے جس کے نتیجے میں بہت بڑے پیمانے پرمعاشرتی اصلاحات کی راہ ہموارکی جا سکتی ہے۔سب سے اہم نکتہ یہ تھاکہ اس پورے عمل میں کسی بھی مرحلے پرسعودی حکومت یاسعودی حکمراں خاندان کی اتھارٹی کوچیلنج کرنے والی کوئی بات نہ تھی۔
سعودی عرب میں اصلاحات کے حامی اسلام پسند حلقوں کے ابھرنے،ترکی میں اردگان کے برسراقتدارآنے اورپھرعرب دنیامیں بیداری کی لہردوڑنے سے خطے میں تمام مطلق العنان حکومتوں کواپنے وجودکی فکرلاحق ہوئی۔سعودی عرب،متحدہ عرب امارات اوردیگرریاستوں کے حکمراں خاندانوں نے محسوس کرناشروع کیاکہ اب ان کے وجودکوغیرمعمولی خطرہ لاحق ہے کیونکہ مصراورتیونس کے عام انتخابات میں اخوان المسلمون اوراس کے حمایت یافتہ امیدواروں نے نمایاں کامیابی حاصل کرکے خطرے کی گھنٹی بجائی۔اس بدلی ہوئی صورتِ حال میں سعودی عرب اوراس کی حلقہ بگوش تمام ریاستوں نے اخوان کواپنے وجودکیلئے حقیقی خطرہ تصورکرناشروع کیااوریوں ان تمام ریاستوں میں اخوان المسلمون کیلئے مشکلات بڑھتی گئیں۔سعودی عرب اورمطلق العنان حکومت والی دیگرعرب ریاستوں میں شہری آزادیوں کویقینی بنانے پرزیادہ زورنہیں دیاجاتا۔یہی سبب ہے کہ جب اخوان نے عوام کے حقوق کی بات کی اورشہری آزادی یقینی بنانے پرزوردیاتواسے دوبارہ دہشتگردتنظیم کے طورپرپیش کرنے کی باضابطہ مہم شروع کی گئی۔یہی سبب ہے کہ سعودی عرب نےمصرمیں اخوان کی منتخب حکومت اورمنتخب صدرمحمدمرسی کاتختہ الٹنے میں جنرل عبدالفتاح السیسی کی حمایت اورمددکی۔جب السیسی نے مصرمیں کریک ڈا ؤ ن کیاتوسعودی عرب نے اس کی بھرپورحمایت کی۔اس کریک ڈاون میں 800سے زائدسیاسی مخالفین یعنی اخوان المسلمون کے ارکان کو موت کے گھاٹ اتاراگیااورہزاروں افراد کوپابندِسلاسل کردیاگیا۔اخوان کو 2013میں سعودی عرب کی بھرپورحمایت وامدادکے تحت اقتدارسے محروم کیاگیا مگراب خودسعودی حکومت نے اخوان دہشتگردتنظیم قرار دےدیا۔
٭سعودی عرب اگراخوان المسلمون کواپنے وجود کیلئے خطرہ قراردیتاہے تویہ بھی محض وقتی وعارضی تبدیلی ہے کیونکہ سعودی عرب کے قریب ترین حلیفوں کے ہاں اخوان سے تعلق رکھنے والی شخصیات سیاسی عمل کاغیرمعمولی حصہ رہی ہیں اوراب بھی معاملہ زیادہ تبدیل نہیں ہوا۔ بحرین اورکویت کی پارلیمان میں اخوان المسلمون کی طرف واضح جھکا ؤرکھنے والوں نے سیاسی عمل میں بھرپورحصہ ہی نہیں لیابلکہ حکمراں سیٹ اپ کاحصہ ہیں۔اردن میں اخوان سے تعلق رکھنے والے سیاستدان ایک مدت سے سیاسی عمل اوراقتدارکاباضابطہ حصہ ہیں۔یہی حال مراکش کاہے جہاں اخوان سے تعلق رکھنے والی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی دوادوارسے حکومتی اتحادکاحصہ ہے۔یہ تمام ریاستیں سعودی عرب اورامریکاکی دوست ہیں اوران سب نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکاکاساتھ دیاہے۔ایسے میں یہ بات انتہائی حیرت انگیزہے کہ سعودی عرب نے ان کے ہاں تواخوان کا وجود برداشت کررکھاہے مگر اپنے ہاں نہیں کیا۔سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات کے حکام کی یہ بات حلق سے نہیں اترتی کہ ہرعرب ملک اپنی خارجہ پالیسی اپنے مفادات کوذہن نشین رکھتے ہوئے آزاد فیصلے کرتاہے۔ اگران تمام ریاستوں کی نظرمیں اخوان المسلمون واقعی دہشتگردتنظیم ہوتی تووہ اسے کسی بھی حال میں اپنے سیاسی نظام اورایوان اقتدارکاحصہ بنانے پرراضی نہ ہوتے۔
تاریخ ایک بارپھرنیاموڑلے رہی ہے، مطلق حکمران اورفوجی آمرتاریخی طورپرغلط جگہ کھڑے ہیں،خاشقجی کوئی انقلابی نہیں بلکہ جدیدسوچ رکھنے والی شخصیت تھے۔خاشقجی کوکبھی بھلایانہیں جاسکے گا،ایک ایساشخص جس نے اپنے ملک میں آزادی اظہارکیلئے اپنے کالموں کے ذریعے بے مثال صحافتی طاقت کا مظاہرہ کیااوراس کیلئے اپنی جان بھی دے دی،محمد بن سلمان نے خاشقجی کی قسمت نہیں بلکہ اپنی قسمت پرہمیشہ کیلئے مہر لگادی ہے۔