Outdated Democratic System

فرسودہ جمہوری نظام

:Share

پچھلے دوماہ سےپاکستان میں سیاسی ابتری نے ملک کی معاشی چولیں بھی ہلاکررکھ دیں ہیں اوریوں محسوس ہورہاہے کہ ہرآنے والادن مشکلات کاتھکادینے والا بوجھ ساتھ لیکرطلوع ہوتاہے۔بالآخرسپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس پرآئین پاکستان کے آرٹیکل 63 کی تشریح کرتے ہوئےاپنے اکثریتی فیصلے میں منحرف ارکان کے ووٹ کوشمار نہ کرنے کا حکم صادر کر دیاہ ے اور پارلیمان کو ایسے اراکین کی نااہلی کی مدت کے تعین کیلئے قانون سازی کا کام سونپا ہے۔ بظاہر وفاقی حکومت اس فیصلے سے کسی بھی طورپرمتاثرنہیں ہوتی کیونکہ شہبازشریف کووزیراعظم منتخب کرنے میں کسی تحریک انصاف کے ناراض یامنحرف رکن نے حصہ نہیں لیاتھالیکن اس فیصلے کے بعداب یہ بحث زورپکڑگئی ہے کہ کیاحمزہ شہبازجو197ووٹ حاصل کرکے وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے تھے،جس میں تحریک انصاف کے 25 منحرف اراکین کے ووٹ بھی شامل تھے،شہبازکام جاری رکھ سکیں گے یاپھرانہیں دوبارہ ایوان میں اکثریت ثابت کرناہوگی؟

خیال رہے کہ تحریک انصاف نے ایسے 25 اراکین جنہوں نے حمزہ شہبازکووزارت اعلیٰ کیلئےووٹ دیے تھے ان کی نااہلی کیلئےان کی جماعت نے الیکشن کمیشن کادروازہ کھٹکھٹارکھاہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے کوپاکستان تحریک انصاف کے رہنمااپنی جیت قرار دے رہے ہیں اورگذشتہ روزخیبرپختونخواکے شہرکوہاٹ میں جلسہ عام سے خطاب کے دوران پہلی مرتبہ سابق وزیراعظم عمران خان نے اس فیصلے پراعلیٰ عدلیہ کا”شکریہ”بھی اداکیاجبکہ اب تک وہ مسلسل اپنے تمام جلسوں میں عدلیہ پربھرپورتنقیدکرتے رہے اور انہیں یہ شکائت رہی کہ ان کی حکومت کوخوفزدہ کرنے کیلئے آدھی رات کوعدالتوں نے اپنے دروازے کھول کر ایک غلط تاثردیاجس کے جواب میں پی ٹی آئی کےسوشل میڈیاپرجوزبان استعمال کی گئی،وہ کسی طورپربھی پسندیدہ قرارنہیں دی جاسکتی۔

ملکی قانونی ماہرین کے مطابق25منحرف اراکین سے متعلق الیکشن کمیشن کافیصلہ اب اہمیت اختیارکرگیاہے کیونکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق یہ اراکین اسمبلی پارلیمانی پارٹی کی ہدایت کے خلاف ووٹ نہیں دے سکتے اوراگر وہ ایساکریں گے توپھران کا ووٹ شمارنہیں ہوگااورکمیشن انہیں ڈی سیٹ کر سکتاہے۔یہاں یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ ان اراکین نے الیکشن کمیشن کوبتایاکہ انہیں پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں بلایاگیااورنہ ہی ایسی کوئی ہدایات دی گئیں کہ ووٹ کسے دیناہے۔

قانونی ماہرین کایہ خیال ہے کہ اس معاملے میں یہ دیکھنابھی اہم ہے کہ کیاسپریم کورٹ کے اس فیصلے کااطلاق سابقہ کیسزپربھی ہو گایاپھراس فیصلے پرعملدرآمد مستقبل کے معاملات سے متعلق ہے۔فیصلے میں کہیں بھی یہ نہیں لکھاکہ اس کااطلاق ماضی پربھی ہو گاجبکہ اٹارنی جنرل نے توعدالت پریہ بات واضح کر دی تھی کہ صدارتی ریفرنس پرکی جانے والی اس تشریح کااطلاق مستقبل میں رونماہونے والے واقعات پرہوگا۔ان کے مطابق جب عدالت کے کسی فیصلے سے ماضی کے کسی عمل کوختم کرنامقصودہوتوپھراس کیلئےواضح طورپرہدایات دی جاتی ہیں۔

چندآئینی ماہرین یہ تنقید بھی کررہے ہیں کہ عدالت نے جہاں آئین کی تشریح کرناتھی وہاں نہیں کی اورجہاں آئین واضح تھاوہاں ابہام پیدا کردیاہے۔ان ماہرین کے مطابق پنجاب کے وزیراعلیٰ کواس فیصلے سے فوری طورپرکوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ابھی عدالت کی تشریح میں کنفیوژن پائی جاتی ہے جبکہ تفصیلی فیصلہ آنے میں وقت لگ سکتاہے۔خیال رہے کہ ابھی تک تحریک انصاف سمیت کسی بھی فریق نے حمزہ شہبازکے انتخاب کوکسی عدالت کے سامنے چیلنج نہیں کیاہے لیکن اس عدالتی فیصلے کے بعدمنحرف اراکین سے متعلق الیکشن کمیشن کافیصلہ اب انتہائی اہمیت کرگیاہے۔واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے بھی تحریک انصاف کے منحرف اراکین کی نااہلی سے متعلق ریفرنس پرسماعت مکمل کرلی ہے۔

تاہم پارلیمانی اورآئینی امورکے ماہرین کایہ مانناہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کردہ مختصرفیصلے میں یہ بات سامنے نہیں آئی ہے کہ کیااس قانون کی تشریح مستقبل کےکیسز پر لاگو ہو گی یا پھر صرف اس کیس پربھی اثرانداز ہو گی۔اس لیے اس سوال کا جواب عدالت کی جانب سے آنا ضروری ہے جس کے بعد ہی اس کے اثرات سامنے آئیں گے۔دوسری جانب مختصر فیصلے کے مطابق جو منحرف رکن ہو گا،اس کے اوپریہ قانون لاگوہوگا کہ اس کاووٹ شمار نہیں کیاجائے گا جبکہ کسی بھی رکن کومنحرف قرار دینا پارٹی کے سربراہ کا کام ہے،جس کی تصدیق الیکشن کمیشن کرتاہے۔اس کے بعدہی وہ منحرف قرار دیا جاتاہے اوراگرالیکشن کمیشن یہ کہے کہ یہ رکن منحرف نہیں ہے تواس رکن پریہ تشریح بھی لاگونہیں ہوگی۔

کنفیوژن کایہ عالم ہے کہ عدالتی فیصلے پرکچھ ماہرین یہ رائے بھی رکھتے ہیں کہ یہ فیصلہ آئندہ آنے والے کیسزپرلاگوہوگاکیونکہ پاکستانی قانون میں ہونے والی کوئی نئی چیزسابقہ کیسزپرلاگونہیں ہوتی ہے۔اس لئے یہ فیصلہ موجودہ پنجاب حکومت پر اثرانداز نہیں ہو گا۔اگر عدالت یہ کہتی ہے کہ یہ سابقہ کیسز پربھی لاگو ہو گاتو یہ ایک یہ منفردقسم کافیصلہ تصورکیاجائے گا۔عدالت کے اس فیصلے کے بعد اب یہ بحث زورپکڑگئی ہے کہ کیاملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں منحرف اراکین سے ووٹ لے کروزیراعلیٰ منتخب ہونے والے حمزہ شہبازکام جاری رکھ سکیں یاپھرانہیں دوبارہ ایوان میں اکثریت ثابت کرناہوگی۔ اگر الیکشن کمیشن تحریک انصاف کے منحرف اراکین کے خلاف فیصلہ دے دیتاہے تویہ سوال پیداہوتاہے کہ کیااس فیصلے کااطلاق خودبخودوزیراعلیٰ کے عہدے پرہو گایاپھرکسی کوجاکرپہلے وزیراعلیٰ کاالیکشن چیلنج کرناہوگا۔یہاں مسلم لیگ ق اورپی ٹی آئی کی جانب سے ایک غلطی یہ کی گئی ہے کہ انہوں نے ابھی تک پنجاب کے وزیراعلیٰ کاالیکشن چیلنج نہیں کیاہے۔اس معاملے پرپہلے ہی لاہور ہائی کورٹ یہ کہہ چکی ہے کہ ہمارے سامنے توالیکشن چیلنج ہی نہیں ہواہے جبکہ ہمارے سامنے یہ بات رکھی گئی ہے کہ وزیراعلیٰ کاحلف لیناصحیح نہیں ہے۔ابھی بھی ان کے پاس یہ موقع ہے کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے سے پہلے وہ اگروزیراعلیٰ کا الیکشن چیلنج کردیں تومعاملات الگ رُخ اختیارکرسکتے ہیں۔

چونکہ پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدارنے استعفیٰ دے دیاتھاتودوبارہ وزیراعلیٰ کاانتخاب ایک آئینی طریقہ کارکے تحت ہواتھا۔ان کے مطابق اگرالیکشن کمیشن منحرف اراکین کونااہل قراربھی دیتی ہے توپھربھی یہ بحث رہے گی کہ کیااب انہوں نے جوووٹ حمزہ شہباز کودیاتھاوہ واپس تصورہوگایانہیں۔ان کے مطابق عدالت کے فیصلے سے ابھی تشریح کی بجائے مزیدکنفیوژن پیداہوچکی ہے۔تحریک انصاف کیلئےاپنے منحرف اراکین کواسمبلی سے باہرکرنے سے بھی مشکل حل نہیں ہوگی۔اگرالیکشن کمیشن پی ٹی آئی کے منحرف ارکین کوڈی سیٹ کردیتاہے توپی ٹی آئی کے25ووٹ ختم ہوجائیں گے اوراگردوبارہ سے وزیر اعلیٰ کاالیکشن ہوتاہے توپھرپنجاب میں پی ٹی آئی کے پاس اکثریت نہیں رہے گی۔

واضح رہے کہ اس وقت پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کے اراکین کی کل تعداد183بنتی ہے۔اس میں25منحرف اراکین بھی شامل ہیں جبکہ ق لیگ کے اراکین کی تعداددس ہے۔دوسری جانب حکمراں جماعت مسلم لیگ ن کے اراکین کی تعداد166بنتی ہے،جن میں پارٹی سے ناراض چاراراکین بھی شامل ہیں۔ن لیگ کی اتحادی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کے اراکین کی تعدادسات ہے ۔سابق وزیر داخلہ چوہدری نثارسمیت آزاداراکین کی کل تعدادپانچ ہے، جن کے ووٹ بدلتی صورتحال میں انتہائی اہمیت اختیارکرگئے ہیں۔ایسی صورتحال میں اگروزیراعلیٰ کاالیکشن ہوتاہے اورکوئی امیدوار186ووٹ لینے میں کامیاب نہیں ہوتاہے توپھراسی وقت”رن آف الیکشن” ہوگا،جس میں کسی امیدوارکاایک بھی ووٹ زیادہ ہوگاتووہ وزیراعلیٰ منتخب ہوجائے گا۔

یہاں یہ بات بھی زیرغورہے کہ ابھی تک پنجاب میں باقاعدہ طورپرکوئی گورنرموجودنہیں ہے۔عمرچیمہ کوڈی نوٹیفائی کرنے کے بعد سپیکرپنجاب اسمبلی پرویز الہٰی قائم مقام گورنر بن گئے مگر انہوں نے ابھی تک گورنر کا حلف اس لئے نہیں اٹھایا کہ ان کے حلف اٹھانے پر گویا انہوں نے مرکز کی طرف سے عمرچیمہ کے ڈی نوٹیفائی کے حکم کوتسلیم کرلیاہے۔دراصل پرویزالہٰی کویہ بھی خوف ہے کہ اگروہ گورنرکاحلف اٹھائیں گے توڈپٹی سپیکر،قائم مقام سیپکر مقرر ہوجائیں گے ، جس کے بعدپرویزالہیٰ کے خلاف بطورسپیکرپنجاب اسمبلی تحریک عدم اعتمادپرووٹنگ کروائی جاسکتی ہے۔جس کے بعدوہ اپناسپیکرکاعہدہ کھوسکتے ہیں۔

دوسری صورت میں اگرالیکشن کمیشن اپنے فیصلے میں منحرف اراکین کوڈی سیٹ نہیں کرتاتواس کافائدہ پی ٹی آئی کوہوسکتاہے۔ کیونکہ اب کوئی شخص اگر فلور کراسنگ کرتاہے تواس کے معاملے کوسپریم کورٹ کے تازہ فیصلے کے مطابق دیکھاجائے گاجبکہ یہ امکان ہے کہ الیکشن کے دن منحرف اراکین فلورکراسنگ کی بجائے الیکشن کی کاروائی کے دن غیرحاضرہوجائیں۔سیاسی حلقوں میں یہ بات بھی زیر بحث ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ کہاگیاہے کہ”اگرکوئی رکن پارٹی کی پارلیمان اجلاس میں دی گئی ہدایات کے خلاف کسی کوووٹ دیتاہے تواس کاووٹ شمارنہیں ہوگاجبکہ پنجاب کے منحرف اراکین کی جانب سے یہ مؤقف اختیارکیاگیاتھاکہ “ہم توپارٹی کے ناراض اراکین تھے اورہم سے پارٹی نے کوئی رابطہ نہیں کیااورنہ ہی ہمیں پارلیمانی اجلاس میں بلاکرکوئی ہدایت کی گئی ۔”قانونی ماہرین کے مطابق ایسی صورت میں فیصلہ الیکشن کمیشن کودونوں فریقین کے ثبوتوں کودیکھتے ہوئے کرناہوگا۔

اس وقت پاکستان کودونوعیت کے شدیدمسائل کاسامناہے،ایک سیاسی عدم استحکام اوردوسرامعاشی بحران۔سابق وزیرِاعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتمادکی کامیابی کے بعداتحادی جماعتوں کی تشکیل پانے والی حکومت اوربعض سیاسی حلقوں کاخیال تھاکہ سیاسی معاملات ہموارطریقے سے آگے کی طرف بڑھیں گے مگرایساہوتانظرنہیں آرہاہے۔کچھ سیاسی وسماجی حلقوں کے مطابق عمران خان کایہ کہنا”حکومت سے باہرآکرزیادہ خطرناک ہوجاؤں گا”بظاہر درست ہوتادکھائی دے رہاہے اوراِن کے فوری انتخابات کے مطالبے کی بدولت سیاسی عدم استحکام پیداہواہے۔

سیاسی عدم استحکام میں مزید شدت معاشی بحران نے پیداکردی ہے۔اس وقت ڈالراُونچی اُڑان میں ہے۔اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں بھی اضافہ دیکھاجا رہا ہے اورشہبازشریف کی حکومت سخت فیصلے لینے سے گھبرارہی ہے حالانکہ شہباز شریف نے حکومت سنبھالتے ہی لاہورمیں صحافیوں سے گفتگوکرتے ہوئے اس بات کااظہارکیاتھاکہ ملک کومعاشی مشکلات کاسامناہے،اس کیلئےغیر معمولی فیصلے کرناہوں گے مگرشہبازشریف کی جانب سے اس طرح کے فیصلے تاحال نہیں ہوسکے ہیں۔بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کاخیال ہے کہ موجودہ صورتِ حال میں سب سے زیادہ مشکلات کاسامنامسلم لیگ ن کوہے کیونکہ مسلم لیگ ن کااسٹیک سب سے زیادہ ہے،اس لیے مسلم لیگ ن گھبراہٹ اورتذبذب کاشکاراورپریشان دکھائی دے رہی ہے۔

پریشانی کی ایک وجہ،عمران خان کوملنے والی عوامی پذیرائی بھی ہے۔اگرالیکشن جلدی ہوجاتے ہیں تواتحادی حکومت میں شامل پیپلزپارٹی اورایم کیوایم ودیگر جماعتوں کوزیادہ خطرہ نہیں۔پیپلزپارٹی سندھ میں اپنی پوزیشن برقراررکھے گی اوراگرالیکشن شفاف ہوتے ہیں توایم کیوایم بھی کراچی میں آٹھ نوسیٹیں نکال لے گی۔ادھرجیسے ہی پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کاخاتمہ ہوا، عمران خان نے پاکستان کے مختلف شہروں میں عوامی جلسوں میں موجودہ حکومت کو امریکی سازش قراردیتے ہوئے پوری شدت کے ساتھ فوری انتخابات کامطالبہ کرناشروع کردیاہے اوراس کے ساتھ ہی مک بھرمیں اپنے لاکھوں کارکنوں کواسلام آبادمیں جمع کرکےدھرنے کی دہمکی دے چکے ہیں۔

پاکستان تحریکِ انصاف کے فوری انتخابات کے مطالبے کو بھی مختلف انداز سے دیکھا جا رہاہ ے۔بعض حلقوں کا خیال ہے کہ عمران خان کی حکومت کاخاتمہ تو جمہوری اور آئینی انداز سے تو بالکل درست ہے لیکن جس اندازس ے عمران خان نے امریکی سازش کا خط لہراکر قوم کی ہمدردیاں سمیٹی ہیں،اس سے عوام کے اندر ہمدردی کا عنصر پیدا ہوا۔ لہٰذا اگر اب جلد انتخابات ہوتے ہیں تو اس جماعت کو عوام کی تائید کی صورت میں سب سے زیادہ فائدہ ہو گا جبکہ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ عمران خان جلد انتخابات کی صورت مبینہ طور پر”سلیکشن”چاہتے ہیں۔اس پہلوکا اظہاربلاول بھٹوزرداری کر چکے ہیں۔15مئی کوکراچی ایئرپورٹ پراستقبالی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بلاول نے کہاتھا”سلیکٹڈدوبارہ سلیکشن”کیلئےفوری انتخابات چاہتاہے۔

پی ٹی آئی کے اسدعمرسے جب یہ سوال پوچھاگیا”پاکستان تحریکِ انصاف فوری انتخابات کاانعقادمحض اس لیے چاہتی ہے کہ اس کو عوام کی بھرپورتائیدکا احساس ہوچکاہے؟”تواِن کاکہناتھا”فوری انتخابات کے انعقادکاہمارامطالبہ محض اس بنیادپرنہیں کہ ہم جیت جائیں گے بلکہ ہم فوری انتخابات اس لیے چاہتے ہیں کہ غیرجمہوری طریقے سے آئی حکومت کوتسلیم نہیں کرتے،اس لیے عوام میں جاکر عوامی فیصلہ چاہتے ہیں۔”جب اِن سے یہ پوچھاگیاکہ سیاسی جماعتیں موجودہ معاشی بحران کاحل نکالے بغیراگلے انتخابات کی طرف بڑھتی ہیں تومعاشی بحران دوچندنہیں ہوجائے گا؟توان کاجواب تھاکہ اس وقت ساری فیصلہ سازی منجمدہے اورحکومت سے پٹرول کی قیمت کافیصلہ تک نہیں ہورہا،توباقی مشکل فیصلے کیسے کرے گی۔لہٰذاہماراخیال ہے کہ نگران حکومت،موجودہ غیرجمہوری حکومت سے زیادہ بہتر فیصلے کرسکے گی۔

سوال یہ ہے کہ اگرعدم اعتمادکی تحریک کایہی عمل پی ٹی آئی کرتی تواسے یقیناًیہ ایک جمہوری عمل قراردیکراپنی فتح کااعلان کرتے لیکن اب یہ ان کے خلاف عدم اعتمادتحریک کامیاب ہوئی ہے تواسے غیرملکی سازش اورغیرجمہوری قراردیکروقتی طورپر تو قوم کودھوکہ دیاجاسکتاہے لیکن تاریخ اس کادرست فیصلہ کرے گی کہ کس نے جمہوری عمل کاقتل کیا۔اس لئے یہ بہت ضروری ہوگیاہے کہ قوم اس مرتبہ چہرے نہیں بلکہ نطام بدلے،اوراللہ سے کئے گئے اوفوبالعہد کی پاسداری کرتے ہوئے قرآن وسنت کواس ملک کاآئین قراردینے کیلئے ان افرادکومنتخب کرے جن کاماضی ہرقسم کی کرپشن سے پاک ہواورملک میں اسلامی نطام کے قیام سے قبل ان کے چھ فٹ جسم وکردارمیں مکمل اسلام نظرآئے۔یہ ملک ابھی بھی بانجھ نہیں ہوا،اوریقیناًایسے باکرداراورریاست کو چلانے والے ماہرین کی ایک کثیرتعدادہمیں میسرآسکتی ہے،بس جاری فرسودہ جمہوری نظام کے ڈھکوسلے کوتبدیل کرنے کیلئے ایک مخلص دھکہ کی ضرورت ہے وگرنہ اسی اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارتے اورسرٹکراتے ہوئے فناہوجائیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں