This Oppression Has Also Been Seen | By The Eyes Of History

یہ جبربھی دیکھاہے تاریخ کی نظروں نے

:Share

مسائل وہاں سے شروع ہوتے ہیں جب ہم ایک دوسرے سے بات کرنے کی بجائے ایک دوسرے کے اوپرالزام تراشی شروع کر دیتے ہیں۔بلندیوں پر پہنچناآسان ہے لیکن بلندیوں پرقائم رہنامشکل ہے لیکن وہ بلندی کس کام کی….جس پرانسان قائم رہے اور انسانیت سے گرجائے اوراپنے محسنوں کونہ صرف بھول جائے بلکہ الزام تراشی میں اپنی تمام حدیں پارکرجائے۔

اپنے ایک انٹرویومیں بالآخرعمران خان نے تسلیم کرلیاکہ جنرل باجوہ کو2019 میں بطورآرمی چیف مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع دے کربہت بڑی غلطی کی تھی۔فوج میں کسی کوایکسٹینشن نہیں ملنی چاہیے۔تب بھی سوچتاتھامگرحالات ایسے بنا دیے گئے۔ان کادعویٰ ہے کہ جنرل باجوہ نے بطورآرمی چیف مدت ملازمت میں توسیع ملنے کے بعددوسری جماعتوں سے بات چیت شروع کردی تھی اورممکنہ طورپرجنرل باجوہ کی طرف سے اتحادی جماعتوں کوکوئی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔توسیع کیلئے جس طرح ن لیگ ودیگر نے ووٹ ڈالے اس کے بعدمجھے لگاکہ انہوں نے ن لیگ سے بھی بات چیت شروع کردی ہے۔ میرے خیال میں انہوں نے ن لیگ کوبھی کوئی یقین دہانی کرائی ہوگی۔وہ سب ہی کویقین دہانیاں کراتے رہتے تھے۔جنرل فیض کوہٹایا گیاتب کلیئرہوگیاکہ انہوں نے مجھے ہٹانے کافیصلہ کرلیاتھا۔بقول عمران خان،جتنی ڈبل گیم جنرل باجوہ نے کھیلی ہے،کسی کوکوئی پیغام جارہاہے کسی کوکوئی،آخریہ کیوں ہوا؟ایکسپوزتو ہوگئے۔ جو انہوں نے میرے ساتھ کیا،میں ایک ڈائری اٹھاکرنکلاتھا پی ایم ہاؤس سے،مجھے اس کے بعدبھی اللہ نے عزت دی۔

اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے تحریک انصاف کے ارکان اوراتحادیوں کوالگ الگ پیغام دیے جاتے تھے۔ساڑھے تین سال گزرنے کے بعدپہلی باراحساس ہواکہ اس(جنرل باجوہ)پراعتمادکرنامیری کتنی بڑی کمزوری ہے۔جوجنرل باجوہ کہتاتھا”ہمارے مفادایک ہی ہیں کہ ملک کوبچاناہے”۔مجھے یہ پتاہی نہیں تھاکہ کس طرح میرے ساتھ دھوکے کیے گئے،جھوٹ بولے گئے۔آخری دنوں میں جب ہمیں معلوم تھاکہ سازش چل رہی ہے،آئی بی کی رپورٹ آگئی تھی۔وہ بیچارہ مجھے لکھ کر نہیں خودآکربتاتاتھاکہ پتہ نہ چل جائے۔

عمران خان نے کہاکہ جب انہوں نے(سابق ڈی جی آئی ایس آئی)جنرل فیض کوہٹایاتوان کی گیم چل پڑی تھی۔(جنرل باجوہ)مجھے کہہ رہے تھے کہ کچھ نہیں ہے اورادھر(اتحادیوں)سے اور سگنل ملتے تھے۔جنرل باجوہ نے انھیں یقین دلایاتھاکہ تسلسل برقرار رہے گا۔سابق وزیراعظم نے دعویٰ کیاکہ اس سارے کے پیچھے ہینڈلرزتھے،عوام کوہمارے ساتھ دیکھ کرانہوں نے سات ماہ تک ہم پرتشدد کیا۔جومجھے آکرملتاتھا،ایجنسیاں ان کے پیچھے لگ جاتی تھیں۔ہمیں کرایے پرکوئی جہازنہیں دیتاتھا۔اگرامریکاسے آئے دوست کا جہازنہ ہوتاتومیں توسفرہی نہیں کرسکتاتھا۔

عمران خان کادھوکہ کھانے کاکوئی یہ پہلااعتراف نہیں ہے بلکہ درجنوں مرتبہ ماضی میں ایساہوچکاہے کہ موصوف پہلے تو خوب فائدہ اٹھاتے ہیں اورہمیشہ بعدازاں انہیں اس وقت دھوکہ یادآتاہے جب دوسرافریق ان سے مزیدتعاون سے انکارکردیتاہے۔ میں فی الحال چاراہم مثالیں دیکربات سمجھانے کی کوشش کرتاہوں:
(1)افتخارچوہدری پراعتمادمیری سب سے بڑی غلطی تھی(2) ریحام سے شادی زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی(3) نواز شریف کوباہرجانے دیناہماری سب سے بڑی غلطی تھی(4) اوراب باجوہ کومدت ملازمت میں توسیع دینابہت بڑی غلطی ہے۔

خیال رہے کہ مونس الہی نے کہاہےکہ جنرل باجوہ نے انہیں تحریک عدم اعتمادسے قبل عمران خان کاساتھ دینے کاپیغام دیاتھا۔ اگروہ بندہ(جنرل باجوہ) بُراہوتا توکبھی یہ نہ کہتاکہ آپ عمران خان کاساتھ دیں۔ان کے والدوزیراعلیٰ پرویزالٰہی تواس سے دس قدم آگے اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ جنرل باجوہ نے اس وقت عمران خان کی تائیدکرناکامشورہ دیاجب میں اورمیری پارٹی زرداری کی آفرقبول کرچکے تھے۔انہوں نے واضح طورپرعمران خان کے جنرل باجوہ کے متعلق نازیبا الفاظ پراپنے تحفظات کااظہارکرتے ہوئے ان سے گریزکامشورہ دیا۔پنجاب میں توعمران خان کی حکومت ہے اوروزیراعلیٰ اوران کے بیٹے توعمران خان کے حامی ہیں۔

اب آئیے عمران خان صاحب کے جنرل باجوہ کے بارے میں جوخیالات رہے،اسے من وعن تحریرکررہاہوں۔اس کی روشنی میں ملاحظہ کرتے ہیں کہ کیاواقعی عمران خان اتنے سادہ وبھولے ہیں کہ یہ بارباردھوکہ کھاجاتے ہیں:
1۔آرمی چیف قمرجاویدباجوہ کے شاندارکردارکی دنیامعترف ہے،ملک سے دہشتگردی کے خاتمے کاکریڈٹ انہی کوجاتاہے۔
2۔سوات،قبائلی علاقوں،وزیرستان میں دہشتگردی کے خاتمے کیلئے جنرل باجوہ نے بہت محنت کی اوردہشتگردوں کوختم کیا۔آج خیبرپختونخوا سمیت سارے ملک میں امن ہے اورلوگ پرسکون ہیں۔
3۔جب زلزلہ آیاتواس وقت بھی جنرل باجوہ کی قیادت میں فوج نے بہت کام کیا،ملک بھرکے متاثرہ علاقوں سمیت ہرجگہ فوج بروقت پہنچی۔جنرل باجوہ خود وہاں پہنچے۔
4-ان کی سماجی ودینی خدمات بے شمارہیں۔سعودی عرب نے دنیاکی سب بڑی تبلیغی جماعت پرغلط فہمی کی بناپرپابندی لگائی۔جنرل باجوہ نے پابندی ہٹوانے میں لیڈنگ کردار ادا کیا۔تبلغی جماعت کے اجتماعات میں جنرل باجوہ کی درازی عمراورپالیسیوں کے تسلسل کیلئے سب سے زیادہ دعائیں کی گئیں۔ ان کاکرداردین،ملک اورآئندہ آنے والی نسلوں کیلئے ایک مثال ہے۔ جس کیلئے میں انہیں خراج تحسین پیش کرتاہوں۔
5۔جنرل باجوہ نے ملک کی حفاظت،سلامتی اوربہتری کیلئے جتنے کام کیے وہ رہتی دنیا تک لوگ یادرکھیں گے۔
6۔پیچیدہ علاقائی صورتحال میں جنرل باجوہ کے قائدانہ کردارسے سکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے میں سمت کا تعین ہوا۔ان کے دورمیں سیاسی اورمثبت تبدیلیوں کے دور رس اثرات مرتب ہوئے جس سے حکومت چلانے میں بڑی مددملی۔
7۔ کورونا وائرس اوربدترین سیلاب سمیت مختلف بحرانوں میں جنرل باجوہ کی قیادت میں پاک فوج میں مثالی خدمات انجام دیں۔ دہشتگردی کے عفریت کوکچلنے کیلئے جنرل باجوہ کی قیادت میں آرمی نے بڑی شجاعت وبہادری سے کرداراداکیا، جنرل باجوہ نے تاریخ کے ایک مشکل مرحلے پرپاک آرمی کی قیادت کی۔ دفاع پاکستان کوناقابل تسخیربنانے میں انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔
یہ تمام بیانات خودعمران خان کے ہیں جوانہوں نے بہ ہوش وحواس اپنی تقاریرمیں ارشادفرمائےفیصلہ میں قارئین پرچھوڑتاہوں۔

عمران خان نے آئی ایس آئی کے سربراہ لفٹیننٹ جنرل ندیم انجم اورآئی ایس پی آرکے اس دعوے کوجھوٹاقراردیاجس میں ان کا کہناتھاکہ فوج گذشتہ ڈیڑھ سال سے سیاست میں مداخلت نہ کرنے کے مؤقف پرقائم ہے۔میں ساڑھے تین سال حکومت میں بیٹھا ہوں،مجھے پتاہے کیسے آپریٹ کیاجاتاہے۔ قارئین:مندرجہ بالابیانات کی روشنی میں اس بیان کی بھی قلعی کھل جاتی ہے کہ جس کی تعریفوں میں زمین آسمان کے قلابے ملائے جاتے رہے،اب یکدم اس کی رخصتی پریہ آنکھوں کے تنکے اچانک شہتیرکیوں بن گئے؟

انہوں نے لاہور میں پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ آخرعمران خان کواپنے چہیتے کو انٹرویو میں یہ بات کرنے کی کیا ضرورت تھی؟اگرباجوہ صاحب سےکوئی نقصان پہنچابھی ہے تووہ بھرپورزندگی اورملازمت گزا کراب جاچکے ہیں۔باجوہ صاحب نے قوم کے سامنے اعتراف کیاکہ سیاست میں ہمارا کردارایک غلطی تھی۔پچھلے سال انہوں نے سیاست سے الگ ہونے کافیصلہ کیااورسال پہلے عمران خان کوبھی اس سے آگاہ کردیاگیاجس کے بعد سے انہوں نے سیاست میں دخل نہیں دیا۔عسکری قیادت عوام سے کیے گئے وعدہ پرقائم ہے۔

آئی ایس آئی کے سربراہ نے انکشاف کیاکہ صدرپاکستان اوران کی موجودگی میں آپ نے باجوہ کوتاحیات توسیع دینے کی پرکشش آفربھی کی جس کوانہوں نے ٹھکرادیا۔ رات کے اندھیرے میں یہ چاپلوسی اورانکار پردوبارہ جلسوں میں اپنی مقبولیت بڑھانے کیلئے اپنی ہی اس فوج کے خلاف نازیباالفاظ استعمال کرنا،جس کی تعریف کے آپ خودہی پل باندھتے رہے،یہ دہرامعیارنہیں تو اورکیاہے۔خودآپ نے ایک بڑے جلسے میں یہ تسلیم کیاکہ “مجھے گھربھیجنے میں آپ کوکائی کردارنہیں لیکن آپ پی ڈی ایم کو روک سکتے تھے”۔اگرآپ کویادہوتوامریکی دورے سے واپسی پرجب آپ باجوہ صاحب کی مدت ملازمت میں توسیع کرنے جا رہے تھے تومجھ خاکسارنے اپنے کئی کالمز میں دلائل کے ساتھ ایساکرنے سے گریزکامشورہ دیاتھاجس پرآپ نے اپنی اگلی تقریرمیں ہم جیسے قلمکاروں کوبڑے تکبرکے ساتھ”ملک سے دفع ہوجانے”کامشورہ دیاتھا۔ انہوں نے ایک ہی سانس میں امریکاپر لگائے گئے الزام سے بھی یوٹرن لے لیا۔اب جبکہ باجوہ صاحب گھررخصت ہوچکے ہیں اورچوہدری مونس الہی اورپرویزالٰہی کے بیانات نے بھی اس کاکچاچٹھاکھول کررکھ دیا ہے،اس کے باوجوداپنی غلطیوں کوتسلیم کرنے سے جوملک کونقصان پہنچا ہے،اس کا ذمہ دارکون ہے اوراس کی تلافی کیسے ہوگی۔

اس سوال پرکہ آیاانہوں نے آرمی چیف جنرل عاصم منیراورنئی اسٹیبلشمنٹ سے امیدیں وابستہ کی ہیں،ان کاجواب تھاکہ ہم نے پیغام بھجوایاہے کہ کیا سات ماہ میں پارٹی ٹوٹ گئی ہے؟تحریک انصاف تواورمضبوط ہوگئی ہے۔میرے خیال میں نئے سیٹ اپ کو موقع دینا چاہیے۔ان کاکہناتھاکہ اگراتحادی جماعتوں کی حکومت مارچ2023کے اواخرتک انتخابات کیلئےتیارہیں توہم رک جائیں گے۔بجٹ کے بعدالیکشن کاسوال ہی پیدانہیں ہوتا۔پنجاب کے وزیراعلٰی پرویزالٰہی نے کہاہے کہ اگرعمران خان نے اُنہیں پنجاب اسمبلی توڑنے کاکہاتووہ فوراًایساکردیں گے ۔ادھرعمران خان نے عام انتخابات کیلئے اتحادی جماعتوں کی حکومت سے مذاکرات کی مشروط پیشکش کی ہے جسے حکومتی وزرانے مستردکیاہے۔

دریں اثناوزیرداخلہ نے کہاہے کہ عمران خان کی مذاکرات کی پیشکش پروزیراعظم اتحادی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کریں گے۔عمران خان نے بات کرنے کا کہا ہے تووزیراعظم اس سلسلے میں اتحادی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کریں گے۔۔پنجاب اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کرنی ہے یا نہیں اس پر تاحال فیصلہ نہیں ہوا۔مذاکرات سے انکارپارلیمانی جمہوریت کے خلاف ہے لیکن بدقسمتی سے ایک شخص کہتاہے کہ سیاسی مخالفین کوچھوڑوں گانہیں۔ اگرپنجاب اورخیبر پختونخواکی اسمبلیاں توڑی گئیں تووفاقی حکومت برقراررہے گی اوراگرپنجاب میں ضمنی یاعام انتخابات ہوئے توہم بہترپوزیشن میں ہوں گے۔اگرپنجاب اسمبلی توڑی گئی توصوبے کے الیکشن میں مسلم لیگ ن اکثریت حاصل کرے گی۔ضمنی یاعام انتخابات دونوں صورتوں میں انتخابی مہم کی قیادت نوازشریف کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ پرویزالٰہی سے کوئی بیک ڈوررابطے نہیں ہورہے۔مذاکرات کی بات ہوئی توعوام کے سامنے ہوگی۔

ملک کی دوبڑی جماعتیں مسلم لیگ ن اورتحریک انصاف اقتدارمیں آئیں اورگئیں۔اس دوران جنرل باجوہ کوپانچ وزرائے اعظم کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملاجن میں سے چارمنتخب اورایک نگران وزیراعظم تھے۔امریکا،چین اورسعودی عرب سے تعلقات، کرتارپورراہداری اورعالمی دوروں کے ذریعے فوجی سفارتکاری کاتصور بھی سامنے آیا۔”محکمہ زراعت”کی اصطلاح بھی اس دورکی ایجادہے جبکہ عمران خان کی حکومت جانے کے بعدایسے ناموں کاتکلف بھی جاتا رہااورفوج کوبراہ راست مخاطب کیاجانے لگا۔سابق ڈی جی آئی ایس پی آرمیجرجنرل آصف غفورکایہ فقرہ بھی مشہورہواکہ 2018تبدیلی کاسال ہے۔

میڈیامیں”فرینڈلی ایڈوائس”یعنی دوستانہ نصیحت اورمثبت رپورٹنگ کاچرچارہا۔جنرل باجوہ کے پہلے تین سال میں پانامہ کیس،ڈان لیکس،بلوچستان حکومت کی تبدیلی ،نوازشریف کی نااہلی اوردیگرمعاملات میں مسلم لیگ ن مشکلات کاشکاررہی۔دوسری طرف اسی عرصہ میں پسندیدہ تصورکی جانے والی تحریک انصاف نے 2022 میں وہ سفرایک ہی سال میں طے کرلیاجومسلم لیگ ن کو طے کرنے میں کئی سال لگ گئے تھے۔تحریک انصاف اورمسلم لیگ ن دونوں ہی ان چھ سال میں کبھی محبوب اورکبھی معتوب رہیں۔

2016میں جب جنرل باجوہ پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف بنے توان کی تقرری کسی سرپرائزسے کم نہیں تھی۔وہ سنیارٹی کے اعتبارسے چوتھے نمبرپرتھے اورانہیں فیورٹ نہیں سمجھاجاتاتھالیکن اس وقت کے وزیراعظم پاکستان نوازشریف نے خودانہیں اس عہدے کیلئے چناتھا۔ ان کی مدت ملازمت صرف نومبر 2019 تک تھی لیکن بعدمیں عمران خان نے انہیں تین سال کی توسیع دی جس کوآج وہ اپنی غلطی سے منسوب کررہے ہیں۔

ایک بچہ بارش کے سبب کیچڑمیں جارہاتھاتوایک بزرگ نے سمجھانے کے اندازمیں اسے محتاط چلنے کامشورہ دیاتواس بچے نے فوری جواب دیاکہ “جناب میں اگر پھسل گیاتوخیرہے،فوراًاٹھ کرکھڑاہوجائوں گا لیکن اگرآپ پھسل گئے توساری امت پھسل جائے گی۔عالمِ کی موت عالَم کی موت ہے”۔نصیحت کرنے والے بزرگ ایک ثقہ بندعالم تھے جواس نصیحت پرساری عمراس بچے کودعائیں دیتے رہے۔اسی طرح ایک قومی لیڈرکی غلطی کی سزاساری قوم کوبھگتناپڑتی ہے۔
یہ جبربھی دیکھاہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی

اپنا تبصرہ بھیجیں