آنکھیں کْھلی اورضمیرچوکنا

:Share

دسمبر2017ءمیں سری لنکا نے چین کوہمبنٹوٹہ پورٹ اوراس سے ملحق پندہ ہزارایکڑاراضی ننانوے سال کیلئے لیزپردے دیاتھا۔ بھارت نے اس پورٹ پر چین کے کنٹرول کے حوالے سے شدیدتحفظات کا اظہار کیا کہ چین اس بند رگاہ کو بھارت پردباؤ بڑھانے کیلئے فوجی اڈے کے طور پر استعمال کرے گا، جس کافی الحال ایساکوئی امکان نظرنہیں آرہالیکن سوال یہ ہے کہ سری لنکااورچین کے مابین یہ کیسے ہوا؟مہیندا راجہ پکاسا 2005ء سے 2015ء تک سری لنکاکے صدررہے۔اس سے پہلے وہ وزیراعظم کے عہدے پربھی متمکن رہ چکے تھے۔وہ سری لنکامیں چین کے حامی تصورکیے جاتے ہیں۔چین نے سری لنکا کی27سالہ خانہ جنگی کے خاتمے میں بھرپور مدد کی اوراس کے خاتمے کے بعدبھی صدر مہیندا کے دور میں سری لنکا کا چین پر معاشی انحصارمسلسل بڑھتارہا۔
اپنے پہلے دورِصدارت میں مہیندا راجہ نے سری لنکا کے جنوبی صوبے کے اہم شہر ہمبنٹوٹہ میں ایک پورٹ کے منصوبے کیلئے بھارت اورچین سے قرض کی درخواست کی۔اس پورٹ کے منصوبے کوخودسری لنکن اوربھارت دونوں کے ماہرین نے ناقابل عمل اورناکام منصوبہ قرار دیا اوراسی بنیادپر بھارت نے سری لنکاکوقرض دینے سے انکارکردیالیکن چین نے ان منفی رپورٹس کونظراندازکرکے قرض دینے کی حامی بھرلی اوریوں اْس کے فراہم کیے گئے قرض سے تعمیر کاآغازہوا۔
لیکن جیسے جیسے تعمیری کام آگے بڑھااورمزید قرض کی ضرورت پڑی توچین کی شرائط سخت اورسود کی شرح میں بھی اضافہ ہوتاگیا۔ منصوبہ مکمل ہونے کے بعداندازے درست ثابت ہوئے کہ یہ ہمبنٹوٹہ پورٹ،کولمبو پورٹ کے ہوتے ہوئے سری لنکاجیسے چھوٹے ملک کیلئے انتہائی اضافی اورغیر منافع بخش پورٹ ثابت ہوگی۔پورے سال میں مشکل سے 34جہاز اس پورٹ پر لنگر انداز ہوئے۔ ایک طرف منافع نہیں تھا دوسرا قرضوں اورسود کی ادائیگیوں کابوجھ بڑھتاگیااوراسی دوران2015ء میں صدرمہینداصدارتی انتخاب ہارگئے اورشدیدمالی بحران نئی حکومت کاسردرد بن گیا۔صدرمہینداکے اقتدارسے باہرہونے کے بعد جب اس غیرضروری پورٹ کیلئے حاصل کیے گئے قرضے کی تفصیلات سامنے آئیں تو اس کے مطابق قرض کاپیسہ صدرمہیندا کی انتخابی مہم میں ان کی ذاتی تشہیرپربے دردی سے خرچ کیاگیاتھا۔
سری لنکاکی نئی حکومت نے قرض کی ادائیگی کیلئے بھی چین سے مزید پانچ بلین ڈالرکا قرض لیا ۔2017ء تک سری لنکا نئے اورپرانے تمام قرض ملا کرچین کاٹوٹل پونے دس بلین ڈالرکا مقروض تھا۔حکومت نے چین سے قرضے اورسودکی ادائیگی اورمدت بڑھانے کیلئے دوبارہ مذاکرات شروع کیےلیکن چین قرضے کی شرائط میں نرمی پرآمادگی ظاہر کرنے کے بجائے بندرگاہ کے مالکانہ حقوق میں شراکت داری بڑھانے پرسختی سے مصررہا ۔ بالآخر حتمی معاہدے کے مطابق سری لنکاکوجوواحداختیاردیاگیاوہ یہ تھاکہ سری لنکا،دوچائنیزکمپنیوں چائناہاربرانجینئرنگ یاچائنامرچنٹ میں سے اپنی پسند کی کسی ایک کمپنی کوپورٹ حوالے کرسکتاہے اورطویل مذاکرات کے بعدسری لنکانے دسمبر2017ءمیں پورٹ کوچین کے حوالے کر دیاامریکاجوچین کی بڑھتی ہوئی عالمی معاشی برتری سے خوفزدہ اورچین کامقروض بھی ہے،وہ چین کی طرف سے عالمی خطرے کی گھنٹی کو کچھ زیادہ بڑھاچڑھاکرپیش کرکےواضح طورپرخم ٹھونک کرمیدان میں اترآیاہے۔
یہی وجہ ہے کہ سری لنکااورچین کے مابین اس معاہدے کے بعدنیویارک ٹائمزنے عالمی طورپریہ تاثردیناشروع کردیاہے کہ ہمبنٹوٹہ پورٹ کیس چین کی مالی طور پرکمزورملکوں پر قرضوں اورامدادکے ذریعے اثرورسوخ بڑھانے کی واضح مثال ہے۔چین اپنے روڈ اینڈ بیلٹ پروگرام کے ذریعے دنیا کے 35سے زیادہ ممالک کومالی امداد دے رہاہے۔ان قرضوں کی سخت شرائط میں صرف چینی کمپنیوں اورچینی لیبر فورس سے ہی کام لینے کی شرط نمایاں ہے۔تاہم یہ کمزوردلیل اس لئےکامیاب نہیں ہوسکےگی کہ دنیاکے تمام مالیاتی ادارے بشمول امریکااورمغرب بھی تیسری دنیاکے ممالک کو قرضہ دیتے وقت اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے ایسی کڑی شرائط ضرورعائدکردیتے ہیں بلکہ امریکاکیلئے تومشہورہے کہ وہ قرضہ دیتے وقت اپنے جن مشیران کی تعیناتی کرتاہے ،قرضہ کا25فیصدان کی تنخواہوں پرخرچ ہوجاتاہےاور آئی ایم ایف،ورلڈبینک اورایشیائی ترقیاتی بینک کا تویہ حال ہے کہ قرض خواہ ملکوں کے بجٹ تک میں ان کے احکام کی تعمیل ضروری ہوتی ہے۔
ادھرراجہ پکاسا کے اقتدارسے باہرہونے کے بعد جب نئی حکومت نے چینی قرضے ادا کرنے کیلئے آئی ایم ایف سے مزید قرضے کی درخواست کی، تو آئی ایم ایف نے ان سے پراجیکٹ کی دستاویزات تک رسائی کا مطالبہ کیا جس کے بعد سری لنکا اور چین کے درمیان معاہدے کی تفصیلات سامنے آئِیں کہ کس طرح سابق صدر نے اپنے آدھے خاندان کے ساتھ سری لنکن عوام کو دھوکے میں رکھ کربنا کسی احتساب کے خوف سے بے نیاز ہو کر بے دریغ دولت لٹائی اور جمع کی۔
پاکستان کی سابق حکومت سی پیک کا کریڈٹ لیتی ہے کہ ،سی پیک کا منصوبہ پاکستان کی قسمت بدل دے گا لیکن ابھی تک پاکستان چین کے درمیان معاہدوں کی تفصیلات منظر عام پر نہیں آئی ہیں مگرعمران خان کی حکومت کے مشیرتجارت نے سی پیک کے بارے میں ایک متنازعہ بیان دیکر چونکا دیاجس کوبرطانوی اخبارفنانشل ٹائمزنے جلی سرخیوں سے شائع کردیاکہ پاکستان سی پیک پرنظرثانی کیلئے اگلے ایک سال کیلئے سی پیک پرکام روک دینے کے بارے میں سوچ رہاہےجس کی بعدازاں ہلکی سی یہ تردیدتوآئی کہ بیان کوسیاق وسباق سے ہٹ کرشائع کیاگیاہے لیکن کم ازکم ان کے بیان سے بلی تھیلے سے ضرورباہرآگئی۔
ان دنوں سابقہ حکومتوں کی کرپشن اورخزانہ خالی ہونے کاتواترسےاعلان ہورہا ہے۔ دراصل سابقہ حکومت کے دورمیں عمران خان برملااعلان کیا کرتے تھے کہ وہ کسی بھی قیمت پرغیرملکی قرضہ نہیں لیں لیکن عمران خان نے آج لاہورمیں ایک پریس کانفرنس میں ملکی مہنگائی کاسبب بھی سابقہ حکومت کوگردانتے ہوئےآئی ایم ایف کے پاس جانے کاعندیہ دے دیاہے اوریقیناً آئی ایم ایف سی پیک معاہدے کی تفصیلات ضرور دریافت کرے گا۔ کیاآئی ایم ایف سے قرضہ لینے کیلئےعمران خان ان دستاویزات کومنظرعام پرلائیں گے ؟
تلوار یاقرضوں کے ذریعے کسی قوم کو محکوم بنایاجاسکتا ہے۔ اب امریکادوسرا آپشن ضرور استعمال کرے گالیکن ہمیں دشمنی میں اپنے ہوش و حواس نہیں گنوانے چاہییں۔معاہدوں پر دستخط کی چڑیابٹھاتے وقت آنکھیں کْھلی اورضمیرچوکنا رہے تواچھاہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں