اس میں شک نہیں کہ اس وقت پاکستان کی معاشی ابتری سے ملکی سلامتی کیلئے کئی خدشات نے جنم لے لیاہے۔نئی حکومت کوابھی چھ ہفتے ہوئے ہیں اور پاکستانی روپیہ امریکی ڈالرکے مقابلے میں مزید18روپے گرگیاہے۔پاکستانی وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل اپنی ٹیم کے ساتھ دوحہ قطرمیں آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہیں کیونکہ اس وقت پاکستانی معیشت کودیوالیہ سے بچانے کیلئے فوری طورپرکم ازکم 4بلین ڈالرکی ضرورت ہے جبکہ عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سےپٹرول اوریوٹیلیٹی بلزپردی گئی سبسڈی ختم کرنے کامطالبہ سرفہرست ہوگااورپٹرول کے نئے نرخ اب قوم کیلئے ناقابل برداشت ہوسکتے ہیں جس سے ملک میں جاری سیاسی انتشارمیں مزیداضافہ ہوجائے گا۔
اسٹیٹ بینک نے بھی ڈیڑھ فیصدسودکے اضافے کااعلان کردیاہے جس پرتمام ملکی صنعتکاربھی سراپااحتجاج ہیں۔اگلے مہینے قومی بجٹ پیش کرنے کی کڑی آزمائش بھی سرپرہے۔اس تمام جاری بگڑتی صورتحال کافائدہ عمران خان کے حق میں جائے گاجنہوں نے پہلے ہی 25مئی سےلانگ مارچ کااعلان کرتے ہوئے اسلام آبادمیں پندرہ لاکھ کےمجمع کے ساتھ گھیرائوکی دہمکی دے رکھی ہے اوروہ اس سلسلے میں خودخیبرپختونخواہ سے اس لانگ مارچ کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آبادکارخ کریں گے،خیبرپختونخواہ میں ان کی پارٹی کی حکومت ہے اس لئے ان کیلئے وہاں سے مارچ کی قیادت آسان بھی ہوگی۔ دوسری طرف موجودہ حکومت نے پرتعیش پراڈکٹس،گاڑیوں،موبائل فونزسمیت کئی درآمدات پرپابندی لگادی ہے جس سے چھ بلین ڈالرسالانہ کی بچت توہوگی لیکن اسٹیٹ بینک کے اعدادوشمارکے مطابق پاکستان کی چاربلین ڈالرکی ماہانہ درآمدات ہورہی ہیں۔ مسئلہ یہ ہے بیرون ممالک کے ساتھ جودرآمدی ایل سیزاس وقت کھل چکی ہیں،ان کوتوروکانہیں جاسکتاوگرنہ کروڑوں ڈالرکے نقصان کے ساتھ ساتھ ملک کوعالمی طورپربلیک لسٹ کیاجاسکتاہے اوررہی سہی ساکھ میں تباہ ہو سکتی ہے تاہم آئندہ کیلئے ان اشیاءپرپابندی ہوگی۔ گویااس وقت صورتحال کافی کشیدہ ہے۔
اب ایک مرتبہ پھرعالمی میڈیامیں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف نہ صرف پروپیگنڈہ شروع ہوگیاہے بلکہ موجودہ سیاسی ابتری کوخاکم بدہن ملک توڑنے سے تشبیہ دی جارہی ہے۔اس سلسلے میں سوویت یونین جس نےچھ دہائیوں تک عالمی سپرپاورکی حیثیت سے نصف کرہ ارض پرنہ صرف مسلط رہابلکہ امریکاکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کراپنے حواریوں کی پشتیبانی بھی کرتارہالیکن اپنے پڑوس میں انتہائی غریب اوراپنے کاسہ لیس افغان حکومت کی کمزوریوں کافائدہ اٹھاتے ہوئے گرم پانیوں کی رسائی کیلئے اس پرچڑھ دوڑاجس کے جواب میں امریکاومغرب نے پاکستان کی وساطت سےدس سال تک اس کوجنگ میں ایسا تھکادیاکہ بالآخراس کی اکانومی اس جنگ کابوجھ نہ اٹھاسکی اورتین ہزارسے زائدخطرناک ایٹمی ہتھیاررکھنے والاجوچندمنٹوں میں دنیاکوتباہ کرنے کی صلاحیت رکھتاتھا، دھڑام سے ایساگراکہ اس کے بطن سے نصف درجن نئی ریاستیں وجودمیں آگئیں اور78سال تک کیمونزم اوردنیاسرخ کانعرہ بلندکرنے والاٹکڑے ٹکڑے ہو گیااوراس کی معاشی ابتری نے امریکاکودنیاکی واحدسپرپاوربناکردنیاکوایک نئے فرعون سے متعارف کروادیا،اوراس وقت امریکااپنے اتحادیوں کے ساتھ”ون ورلڈ آرڈر”کی پالیسیوں پرعمل کرتاہوادنیاکے تمام انسانی واخلاقی ضابطوں کو روندتاہواایک مرتبہ پھریوکرین میں روس کی ابھرتی ہوئی اکانومی کویوکرین میں غرق کرنے کیلئے جہاں برسرپیکارہے وہاں اس خطے میں نئی ابھرتی ہوئی سپرپاورچین کے گردگھیراتنگ کرنے کیلئے جہاں”کواڈ”معاہدے کے تحت تیزی سے عمل پیراہے وہاں چین پاکستان اشتراک کے ساتھ”سی پیک”کوہرصورت میں ختم کرنے کیلئے کھل کرسامنے آچکاہے۔
قصرسفیدکے فرعون نے ہمیشہ پاکستان کو اپنے مقاصدکیلئے استعمال کیا اور اس کیلئے فاسق کمانڈو پرویز مشرف جیسا ننگ انسانیت اور وطن فروش ایک ہی دہمکی میں ڈھیرہو گیا اور اپنی نیاز مندی کے اظہار میں پاکستان میں زمینی اور فضائی مداخلت کا پروانہ مہیا کر دیا، اور اس بزدلانہ عمل نےایٹمی پاکستان کی ساکھ برباد کر دی۔ نائن الیون کے بعدتواس نے پاکستان کواپنی کالونی سمجھتے ہوئے یہاں سے پہلے چندہفتوں میں52ہزارسے زائدفضائی حملوں میں نہ صرف افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی بلکہ پاکستان کی سرزمین پربھی سینکڑوں ڈرون حملے کرکے ہماری خودمختاری کوتارتارکرنااپناحق سمجھتارہا۔معاملہ صرف یہاں تک ہی محدودنہیں رہابلکہ پاکستان کی سلالہ چوکی پراچانک حملے کرکے ہمارے کئی فوجیوں کوشہیدکردیااورپاکستان کواس کی وفاؤں کایہ صلہ دیاکہ اس کے ازلی دشمن کواپنی موجودگی میں افغانستان میں اڈے قائم کرنے کی اجازت دیکرپاکستان پردہشتگردانہ حملوں کاایک طویل سلسلہ شروع کرتے ہوئے پاکستان کوکئی حصوں میں بخرے کرنے کے منصوبوں پرعملدرآمدشروع کرتے ہوئے باقاعدہ اس کے ٹوٹنے کی تاریخوں کااعلان بھی جاری کرتارہا۔
پہلے اپنی اس مذموم خواہش کی تکمیل کیلئے سوات سے دہشتگردانہ حملوں سے ساری دنیاکویہ تاثردیاکہ کہ اگلے چنددنوں میں اسلام آبادپرقبضہ ہوجائے گااوراس کی آڑمیں یہ پروپیگنڈہ شروع کردیاگیاکہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاران دہشتگردوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں ،جس کیلئے ضروری ہے کہ ان دہشتگردوں کے ہاتھوں ان ایٹمی ہتھیاروں کوبچانے کیلئے امریکااپنے اتحادیوں کی مددسے آگے بڑھ کرخودان کی حفاظت کیلئے ان تمام ایٹمی ہتھیاروں کویاتوناکارہ کردے یاانہیں اپنے قبضے میں لیکرکسی محفوظ مقام پرپہنچادے جس کیلئے پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کواپنی گودمیں بٹھاکراس کی خوب پرورش کرکے اسے سول ایٹمی شراکت داری میں بھی شامل کرلیااورایران کوکھونے کے بعداس خطے میں بھارت کواس علاقے کاتھانیداربنانے کیلئے پاکستان پردباؤبڑھاناشروع کردیا۔آپ سب جانتے ہیں کہ پاکستان نے اس ساری سازش کوناکام کرنے کیلئے بھاری قیمت اداکی اوربالآخرامریکی استعمارکوافغانستان سے انخلاء کیلئے پاکستان ہی کے سامنے جھکناپڑا۔
جس طرح افغانستان میں روسی جارحیت کے بعدامریکااپنےمقاصدکی کامیابی کے بعداپنے تمام وعدوں کوبھلاکرپاکستان سمیت اس خطے کولاوارث چھوڑکر فرارہو گیابلکہ اس کے بعدباقاعدہ طورپر”ون ورلڈآرڈر”کی دوسری قسط کوشروع کرتے ہوئے باقاعدہ طور پردوسولائزیشن کے مابین جنگ کاآغازکردیا گیااورواضح طورپربیانات سامنے آناشروع ہوگئے کہ اب کیمونزم کے خاتمے کے بعدسب سے بڑاخطرہ”اسلام”سے ہے۔دنیابھرمیں اپنے میڈیاکے زورپر اپنے بیانئے کوپھیلانے کیلئے شب وروزکام شروع کردیاگیااوراس کی آڑمیں پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کوختم کرنے کیلئے سازشوں کاآغازکردیاگیا۔چھ سال پہلے”فیٹف”کے تحت پاکستان کی مشکیں کسنے کاآغازکردیاگیااورپاکستان کوتین درجن سے زائدشرائط کے ساتھ منسلک کرکے اسے دنیامیں بلیک لسٹ کرنے کاآغازکردیاگیا اورپاکستان ابھی تک ان تمام شرائط کوپوراکرنے کے باوجودامریکی پابندیوں کے راڈارپرموجودہے اورپاکستان کےعالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے پرکاٹنے کیلئے کام جاری ہے جس کیلئے ضروری ہے کہ ملک میں معاشی ابتری کی آڑمیں ایسی انارکی پیداکی جائے جہاں ملکی امن وامان اورنظم ونسق کی ایسی تباہی لائی جائے جہاں ایک مرتبہ پھر سیاسی جماعتوں کو”نوریٹرن پوائنٹ”پرلاکر فوج کومداخلت کیلئے مجبورکیاجائے جبکہ فوج نے بارہاخودکواس تمام سیاسی تنازعات سے دوررہنے کااعلان کیاہے لیکن موجودہ سیاسی صورتحال فرسٹریشن کی آخری حدوں کوچھونے لگی ہے اوریوں لگ رہاہے کہ ہم عالمی سازش کا شکارہونے جارہے ہیں۔
جہاں تک پاکستان کے ایٹمی صلاحیت کاتعلق ہے،دنیااس بات سے واقف ہے کہ نہ صرف خطے میں بلکہ دنیامیں پاکستان کی ایٹمی میزائل ٹیکنالوجی کے بارے میں مغرب اورامریکاکئی باراپنی سخت تشویش کااظہارکرچکے ہیں۔اس سلسلے میں سابق امریکی وزیر خارجہ نے اپنے انٹرویومیں یہ اعتراف کیاتھاکہ پاکستان کاایٹمی پروگرام امریکی سلامتی کودرپیش دنیاکے پانچ بڑے خطرات میں سے ایک ہے۔مائک پومپیونے یہ انٹرویوخارجہ سیکرٹری کی ذمہ داری سنبھالنے سے قبل دیاتھاجبکہ اس سے پہلے وہ امریکی سی آئی اے کے سربراہ تھے۔مائک پومپیونےاپنی نامزدگی کے فوری بعدمنصب کاحلف اٹھانے سے بھی پہلے شمالی کوریا کاخفیہ دورہ کرکے ٹرمپ اورکم جونگ ان کی ملاقات کاراستہ ہموارکیاتھا۔دونوں ممالک کے سربراہان کے درمیان یہ ملاقات کئی دہائیوں کے بعدہوئی تھی ۔اگرآپ کویادہوتومائک پومپیو نے دنیاکویہ بتاکرورطہ حیرت میں بھی دال دیاتھاکہ ٹرمپ نیاورلڈ آرڈرلکھ رہے ہیں۔پومپیونے اپنے انٹرویومیں امریکی سلامتی کودرپیش پانچ بڑے مسائل بتاتے ہوئے کہاتھاکہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے غلط ہاتھوں میں لگ جانے کاخدشہ ان میں سے ایک ہے جبکہ وقت نے یہ ثابت کردیاہے کہ امریکاکی ایک خاص لابی دنیامیں ایک خوف پیداکرنے کیلئے ہمیشہ سے یہ غلط پروپیگنڈے میں مصروف رہتی ہے۔پومپیو نے یہ دعویٰ بھی کیاکہ پاکستان کے خلاف جوایکشن لیے ہیں وہ ہم سے پہلے کسی حکومت نے نہیں لیے کیونکہ امریکا نے گیارہ ستمبرکے حملوں سے بہت کچھ سیکھاہے اوراسی لئے امریکانے پاکستان پراس سلسلے میں کئی اہم اقدامات کرنے کیلئے کئی پابندیاں بھی عائدکی تھیں
اس سلسلے میں دلچسپ بات ہے کہ پومپیوکے اس انٹرویوکے بعدامریکی سینیٹر لنڈسے گراہم نے اپنے دورہ پاکستان میں تسلیم کیاتھا کہ”پاک فوج نے اٹھارہ ماہ میں جوکام کیا ہے وہ امریکااٹھارہ سال میں نہ کرسکا۔انہوں نے یہ اعتراف بھی کیاتھاکہ امریکاکی یہ غلطی ہے کہ پاکستان کیلئے پالیسی باربارتبدیل کرتارہا۔ پاکستان کے ساتھ “لواوردو”کے اصول کے تحت تعلقات غلط ہیں۔امریکی سینیٹرکاکہنا تھا کہ امریکی صدرٹرمپ کویہاں ہونے والی ملاقاتوں سے آگاہ کروں گا کہ پاکستان کے ساتھ مشترکہ ملٹری آپریشن گیم چینجرثابت ہو سکتاہےاورامریکاکوعبوری سے اسٹریٹجک تعلقات کی طرف جاناہوگا۔میں نے مثبت سمت میں چیزوں کودیکھا ہے۔پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے جسے مزیدبہتربناناہوگااورحالات میں استحکام ہمارے بھی مفادمیں ہے۔جس طرح ہم برطانیہ کویہ نہیں کہتے کہ ہم آپ کی مددکریں گے اورجوابی طورپرآپ ہمیں کچھ دیں،اب وقت آگیاہے کہ یہی پارٹنرشپ ہم پاکستان کے ساتھ رکھناچاہتے ہیں جس میں لین دین نہ ہو”۔لیکن مجھے یہ کہنے کی اجازت دیں کہ یہ سب بیانات صرف میڈیاہی کی زینت بنے رہے اورعملاًاس پرکبھی بھی عمل نہیں ہوسکابلکہ الٹاپاکستان کے دشمن بھارت کوخطے میں طاقتوربنانے کیلئے اقدامات کئے گئے۔
تاہم پاکستان کے جوہری اثاثوں کی حفاظت کا انتظام ہرلحاظ سے عالمی معیارکاہے اس پرکوئی دورائے نہیں ہے۔ بین الاقوامی ادارے اس پراپنی رپورٹ بھی دے چکے ہیں۔دنیابھرمیں پاکستان نےدہشتگردی کے مسئلے کوسب سے زیادہ سنجیدہ لیاہے کیونکہ پاکستان نے اس خطے میں امریکی جنگ میں بڑی بھاری قیمت چکائی ہے۔دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کسی بھی شخص یاملک سے زیادہ قربانیاں پاکستان نے دی ہیں جس کا اعتراف خودامریکی حکام سمیت عالمی رہنما کرتے آئے ہیں۔افواج پاکستان اوردیگرسیکیورٹی فورسزکے اہلکاروں سمیت78ہزارکے قریب افرادکی جانوں کانذرانہ اہل پاکستان نے دیاہے اورساتھ ہی100/ارب ڈالرسے زائدکاخسارہ بھی اٹھایاہے۔
دوسری جانب بولٹن آف اٹامک سائنٹسٹ نامی ادارے کے مطابق پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کی تعدادپڑوسی ملک بھارت کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ ایٹمی موادکولاحق خطرات کی سیکیورٹی کیلئے اقدامات کے حوالے سے انڈیکس میں پاکستان کادرجہ بھارت سے کہیں زیادہ بہترہے۔این ٹی آئی انڈیکس میں 9ایٹمی مسلح قوتوں میں سے زیادہ ترکادرجہ وہی ہے،اس میں صرف ایک پوائنٹ کی کمی بیشی ہوئی جبکہ 2012 کے مقابلے میں پاکستان کے ایٹمی موادکی سیکیورٹی کے حوالے سے3درجے بہتری آئی،جوکسی بھی ایٹمی ملک کی بہتری میں سب سے زیادہ ہے۔ادارہ کے مطابق پاکستان کاجوہری پروگرام امریکا اوربرطانیہ سے زیادہ محفوظ ہے۔
28مئی کو پاکستان میں یوم تکبیر منایا جائے گا ،28 مئی 1998کو پاکستان نے بھارتی ایٹمی دھماکوں کے جواب میں بلوچستان کے علاقے چاغی میں دھماکوں کے ذریعے بھارت کے ایٹمی دھماکوں سے اپنی جوہری طاقت اوربرتری کامظاہرہ کیاتھا۔ ان ایٹمی دھماکوں کے بعدپاکستان نے مسلم دنیا کی پہلی اوردنیا کی 7ویں ایٹمی طاقت بننے کااعزازحاصل کیاتھااوراسی دن کو”یوم تکبیر”کے نام سے یادکیاجاتاہے۔آئی ایس آئی کے سربراہ مرحوم جنرل حمید گل کئی سال پہلے کہاکرتے تھے کہ امریکہ سمیت دیگرعالمی قوتوں کیلئے ایران بہانہ، افغانستان نشانہ اورپاکستان ٹھکانہ ہے۔وہ اس ضمن میں تسلسل کے ساتھ پاکستانی اداروں ، حکام اورلوگوں کوبتاتے تھے کہ انہیں بہت ہوشیاررہنے کی ضرورت ہے کیونکہ دنیائے اسلام کی واحدایٹمی طاقت اغیارکی نگاہ میں کھٹکتی بہت ہے۔ حمیدگل اپنے اس جملے کوسیاسی پیشن گوئی سے تعبیرکرتے تھے حالانکہ اس کی وجہ سے ان پربنیاد پرستی سمیت دیگربہت سے سنگین نوعیت کے الزامات بھی عائد کیے گئے مگرانہوں نے کبھی پرواہ نہ کی اورپوری قوت سے اپنے لوگوں کو”جگانے”کی کوشش کرتے رہے۔