روس اوریوکرین کی جنگ کے سردہونے کے امکانات معدوم ہوتے جارہے ہیں بلکہ 2جون کوبائیڈن کی طرف سے یوکرین کو لانگ رینج (یعنی طویل فاصلے تک مار کرنے والے) میزائل فراہم کرنے کوجوازپیش کرتے ہوئے کہاہے کہ ہتھیاروں کی یہ امداد یوکرین کو روس کے ساتھ مذاکرات میں بہتر پوزیشن فراہم کریں گی اور اس تنازع کاایک سفارتی حل تلاش کیاجاسکے گا۔ یادرہے کہ اس سے قبل امریکایہ ہتھیارفراہم کرنے کے بارے میں راضی نہیں تھا۔وائٹ ہاؤس حکام کاکہنا ہے کہ انہوں نے یہ راکٹ یوکرینی صدرکی اس یقین دہانی کے بعد فراہم کرنے پررضامندی ظاہرکی ہے کہ یہ ہتھیار روس کے اندرموجوداہداف کونشانہ بنانے کیلئےاستعمال نہیں ہوں گے۔
ایک سینیئرامریکی عہدیدارکے مطابق نئے ہتھیاروں کے اس پیکج میں چارایم 142ہائی موبلٹی آرٹلری راکٹ سسٹم (HIMARS) شامل ہوں گے۔ نائب سیکریٹری برائے دفاع ڈاکٹرکولن ایچ کاہل نے کہاہے کہ”یہ میزائل زیادہ فاصلے پردرست نشانہ بنانے کی مکمل صلاحیت رکھتےہیں۔انتہائی اہم اہداف کونشانہ بنانے اوراس جنگ میں صف اوّل پرلڑنے والے فوجیوں پرسے بوجھ ختم کرنے میں یہ انتہائی مفیدثابت ہوں گے۔یہ نظام 70کلومیٹرکے فاصلے پرموجود اہداف پرمتعددمیزائلوں کولانچ کرسکتاہے۔یہ بھی خیال کیاجاتاہے کہ یہ نظام روس کے ایسے مساوی نظام سے زیادہ بہترطورپراہداف کو نشانہ بناتاہے۔یہ اعلان کافی پہلے سے متوقع تھااوریہ اب تک کے سب سے اہم فوجی وعدوں میں سے ایک کی نمائندگی کرتاہے۔
ڈونباس میں جاری جنگ میں یوکرین کوروس کی جانب سے شدید فوجی قوت کاسامناہے اوراس کے مقابلے میں یوکرینی افواج کے پاس فائر پاورکی شدید کمی ہے لیکن ہائی موبلٹی آرٹلری راکٹ سسٹم اسے بدل سکتاہے۔جی پی ایس سے چلنے والے یہ راکٹ روسی نظام کے برابرہیں۔انہیں دوبارہ لوڈکرنابہت آسان ہے اورجیساکہ نام سے واضح ہے یہ تیزی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ جا سکتاہے۔امریکااوریوکرین کے حکام اس بارے میں پہلے ہی تفصیلات طےکرچکے ہیں کہ انہیں کیسے اورکب استعمال کرناہے۔ یوکرین اب اُن اہداف کونشانہ بناسکے گاجوفی الوقت اس کی پہنچ سے دورہیں،مثلاًکمانڈاینڈکنٹرول مراکز،رسدکے مراکزاوروہ روسی توپ خانے جنہوں نے ڈونباس میں یوکرینی فوجیوں کومشکل سے دوچارکررکھاہے۔
جوبائیڈن نے اپنے بیان میں اس بات کی بھی تصدیق کی کہ”ہم یوکرین کووہ راکٹ سسٹم نہیں بھیج رہے جن سے روس پرحملہ کیا جاسکتاہے۔”یوکرینی صدرزیلنسکی نے بھی امریکی نیٹ ورک”نیوزمیکس”کے ساتھ ایک انٹرویومیں اس بات کی تصدیق کی کہ “ہمیں اس میں کوئی دلچسپی نہیں کہ روس کے اندرکیاہورہاہے،ہم صرف یوکرینی علاقوں میں دلچسپی رکھتے ہیں”۔اس کے ساتھ ہی جرمن چانسلراولاف شولز نے پارلیمنٹ کوبتایاکہ جرمنی یوکرین کوسب سے جدیدفضائی دفاعی نظام آئی آرآئی ایس-ٹی(IRIS-T)سسٹم فراہم کرے گاجس کی بدولت یوکرین روسی حملوں کے خلاف اپنے ایک پورے شہرکادفاع کرسکے گا۔
ادھرکریملن کے ترجمان ڈمتری پیسکوو نےامریکاپراس جنگ کوطول دینے کاالزام عائدکرتے ہوئے اپنی تشویش کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ امریکا”جان بوجھ کر جلتی پر تیل چھڑکنے”کاکام کررہاہے۔ہتھیاروں کی ایسی فراہمی”یوکرین قیادت”کی امن مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کی خواہش کی حمایت نہیں کرتی۔روسی وزیر داخلہ سرگئی لارؤف نے امریکاپرتنقیدکرتے ہوئے کہاکہ جوبائیڈن کے اعلان سے اس تنازع میں ایک”تیسرے ملک” کو گھسیٹنے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔لانگ رینج میزائل یوکرینی فوج کوطویل فاصلے پرموجوددشمن کونشانہ بنانے میں مدد فراہم کریں گے۔روس اپنے مخالفین کے کسی بیان پریقین نہیں رکھتا،ہمیں کیئوکی جانب سے وعدوں کی پاسداری کاتلخ تجربہ ہے۔امریکی اعلان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ”ہماراماننا ہے کہ امریکابراہ راست اورجان بوجھ کرجلتی پرتیل چھڑکنے کاکام کررہاہے اورہمیں اپنے دفاع اوراہداف کی کامیابی اورتکمیل کیلئے مزیدسرعت کے ساتھ کام کرناہوگا۔
امریکاکے اس اعلان کے تین ہفتوں کے بعدبالآخرصدرپیوٹن نے اعلان کردیاہے کہ وہ جوہری صلاحیت کے حامل مختصرفاصلے تک مارکرنے والامیزائل اسکندر-ایم نظام آنے والے مہینوں میں اپنے اتحادی بیلاروس کوفراہم کرے گا۔یہ نظام”بیلسٹک اورکروز میزائل فائرکرنے کی بھرپورصلاحیت رکھتا ہے چاہے وہ روایتی ہویاجوہری۔یہ سسٹمز500کلومیٹرتک مارکرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ٹیلی ویژن پردکھائی گئی بیلاروس کے صدراورصدرپیوٹن کی میٹنگ میں روسی صدرنے اعلان کیاکہ”ہم نے فیصلہ کرلیاہے کہ اگلے کچھ ماہ میں ہم بیلاروس کواسکندر ایم ٹیکٹیکل میزائل سسٹمز فراہم کریں گے۔ اس حوالے سے تمام تفصیلات دونوں ممالک کے وزرا دفاع طے کریں گے۔اسکندرمیزائل اب تک کیلننگریڈمیں نصب کیے جاچکے ہیں جولتھوینیااور پولینڈ کے درمیان ایک روسی بالٹک گزرگاہ ہے۔یقیناًپیوٹن کے24فروری کویوکرین پرحملہ کرنے کے فیصلے کے بعدسے روس اورمغربی ممالک کے درمیان تناؤمیں اضافہ ہواہے اورامریکاکاحالیہ یوکرین کومیزائل پیشکش کاسخت ترین جواب ہے۔
صدرپیوٹن نے اس کے بعدسے متعدد مرتبہ جوہری ہتھیاروں کاحوالہ دیاہے۔کچھ تجزیہ کاروں کامانناہے کہ ایسامغربی ممالک بالخصوص جرمنی کوخبردار کرنے کیلئے کیاگیاہے کہ وہ یوکرین کی جنگ میں مداخلت نہ کریں۔سینٹ پیٹرزبرگ میں بیلاروسی صدرسے ملاقات کے دوران ان کے سوال کاجواب دیتے ہوئے صدرپیوٹن کاکہناتھاکہ روس بیلاروس کے ایس یو25جنگی طیاروں کوجدیدبنانے میں مددکرے گا تاکہ وہ بھی جوہری ہتھیاروں کواستعمال کرنے کی صلاحیت رکھیں۔
پچھلے چنددنوں سے یوکرین کے مشرقی شہرسیورودونیتسک میں جاری لڑائی میں شدت آچکی تھی اورشہری انتظامیہ کے سربراہ کا کہناتھاکہ اب شہرکا صرف 20فیصد حصہ ہی یوکرینی افواج کے کنٹرول میں ہے۔روسی افواج کی جانب سے اس شہرکی ایک کیمیکل فیکٹری میں حملے کے بعدصد زیلنسیکی نے روس پر”پاگل پن” کا الزام عائدکیاتھا۔وہاں علاقے کے گورنرسرہیو گیدائی نے میڈیاکوبتایاتھاکہ”اس وقت عام شہری میزائل سے پچنے کی کوشش کر رہے ہیں اوربم پناہ گاہوں میں عام شہریوں کی تعداد اچھی خاصی ہے لیکن یہ دوسراآزوژسٹال نہیں ہوگاکیونکہ اس پلانٹ کے زیرزمین ایک بڑاشہرہے جبکہ آزوژمیں ایسانہیں تھا۔”اب بالآخر25جون کی شام کویوکرینی صدرنے اپنے ویڈیوخطاب میں اعتراف کرلیاہے کہ”روسی فوج نے ہفتوں کی شدیدلڑائی کے بعداہم مشرقی شہر”سیوردونیتسک”پرمکمل طورپر “قبضہ”کرلیا ہے”۔یوکرینی صدرزیلینسکی نے ایک مرتبہ پھرروس کے قبضے سے تمام شہرواپس لینے کااعادہ کیا۔ تاہم ان کاکہناتھاکہ”روس کے ساتھ جنگ جذباتی طورپر مشکل مرحلے میں داخل ہوگئی ہے اوروہ نہیں جانتے کہ انہیں مزیدکتنے دھچکے اورنقصانات اٹھانے ہوں گے”۔اس شہرپر روس کے قبضے کامطلب یہ ہے کہ اب لوہانسک خطے پرمکمل طورپرروس کاکنٹرول ہے اوراس کے ہمسایہ دونیتسک کے بڑے علاقے پراس کاپہلے سےکنٹرول ہے۔یہ دوخطے مل کرصنعتی علاقہ ڈونباس کہلاتے ہیں۔ سیورودونیتسک پر قبضہ کرنا روس کے حملے کا ایک اہم مقصدہے اورمغربی حکام کاکہناہے کہ اس خطے پرقبضہ کرنے کے بعدماسکوکافی”مستحکم فوائد”حاصل کرچکاہے۔
جمعے کی رات روس نے یوکرین کے شمال اورمغربی علاقوں میں میزائلوں کے ذریعے اہداف کونشانہ بنایا۔اس دوران کئی افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے اورایک مقامی اہلکارکے مطابق کیئو کے مغرب میں موجودسارنی میں مزید کئی درجن افراد کے ملبے تلے دبے ہونے کاخدشہ ہے۔یوکرین کاکہناہے کہ کچھ راکٹ بیلاروس سے فائرکیے گئے تھے۔بیلاروس نے روس کولاجیسٹیکل مدد فراہم کی ہے لیکن اس کی فوج باضابطہ طورپراس جنگ میں شامل نہیں ہوئی۔ یوکرین کی انٹیلیجنس سروس کا کہناتھاکہ میزائل حملے کریملن کی جانب سے بیلاروس کوجنگ میں شامل کرنے کاحربہ ہیں۔
کیئوکے میئرکے مطابق شہرمیں متعدددھماکے رپورٹ ہوئے ہیں۔روس کاسیورودونیتسک پرقبضہ مغربی سفارت کاری کے ہفتے سے پہلے ہواہے۔ جوبائیڈن کےجرمنی میں ایک جی7سمٹ میں شرکت کے بعد”نیٹوٹاکس”کاآغازہوگا۔گذشہ چند ماہ کے دوران مغربی اتحادمیں تناؤکے آثارنمایاں ہوئے ہیں لیکن برطانیہ کے وزیرِاعظم بورس جانسن کاکہناتھاکہ”یوکرین کے حوالے سے ہمت ہارنے کایہ موقع نہیں ہے،یوکرین اب بھی روس سے یہ جنگ جیت سکتاہے”۔ انڈونیشیا کے صدرجوکووڈوڈوجوجی7سمٹ میں شرکت کریں گے،انہوں نےکہاکہ وہ”یوکرین اورروس کے رہنماؤں سے کہیں گے کہ وہ دوبارہ بات چیت کاآغازکریں۔جنگ کوختم ہوناہوگااورگلوبل فوڈچینزکودوبارہ فعال کرناہوگا۔”
شایدآپ کویہ بات عجیب لگے لیکن سردجنگ کے دوران،کرۂ ارض پرامریکااورروس کے بعدتیسری بڑی ایٹمی طاقت برطانیہ، فرانس یاچین نہیں بلکہ آج کا بدقسمت یوکرین تھا۔1991ءمیں سویت یونین(یوایس ایس آر)کے خاتمے کے ساتھ،نو آزادملک(یوکرین) کووراثت میں تقریباًتین ہزار جوہری ہتھیارملے تھے جوماسکونے اِس کی سرزمین پرچھوڑے تھے لیکن ایک ون ورلڈآرڈرسازش کے تحت تین دہائیوں کے اندریوکرین کوجوہری ہتھیاروں سے پاک کردیاگیا۔اگریوکرین کے پاس اپنے جوہری ہتھیارموجودہوتے تو24فروری کووہ روسی حملے سے محفوظ ہوتااورآج کی نازک صورتحال سے دوچارنہ ہوتا۔پیوٹن کی جانب سے نیٹومیں شامل ملکوں کی طرف سے کسی بھی ممکنہ مداخلت پراپنی جوہری فورسزکوچوکس رہنے کے حکم کے بعددنیاکوجوہری جنگ کے خطرے پرخدشات میں اضافہ نہ ہوتا۔
لیکن گذشتہ دہائیوں میں یوکرین کے ساتھ ایساکیاہواہے کہ وہ دنیاکی ایک بڑی ایٹمی طاقت سے ایک ایساملک بن گیاہے جس پراس کے ہمسایہ ملک نے حملہ کرنے کاخطرہ مول لیا۔یہ سوال ذہن میں پیداہونے کے علاوہ اور بھی کئی اہم سوالات جواب طلب ہیں۔کیاجوہری ہتھیاورں کی یوکرین میں موجودگی موجودہ جنگ کوروک سکتی تھی؟کیاموجودہ جنگ میں جوہری تصادم کاخطرہ ہے؟ 1991میں یوکرین نے ایک آزادملک کی حیثیت سے اپنی سلامتی اورتسلیم کیے جانے کی یقین دہانی کے بعداپنی سرزمین کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے پرکیوں اورکیسےرضامندہواتھا؟؟
سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد بڈاپیسٹ کی یاداشت کے تحت امریکا،برطانیہ،یوکرین اورروس نے تمام نکات پرمتفقہ طورپر دستخط کیے تھے۔بڈاپسٹ ہنگری میں1994میں دستخط کی گئی اس دستاویزمیں،یوکرین نے جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤکے عالمی معاہدے پردستخط کرنے اورملک میں رہ جانے والے جوہری ہتھیاروں کوماسکوکے حوالے کرنے کایقین دلایاتھا۔یوایس ایس آرکے خاتمے کے ساتھ،سویت جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے کا کچھ حصہ مشرقی یورپی ممالک میں رہ گیاتھااورمغرب میں تشویش پائی جاتی تھی کہ ان ہتھیاروں کے غلط ہاتھوں میں چلے جانے سے یورپ کوخطرہ لاحق ہوسکتاہے۔
یوکرین کوجوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کے بدلے میں روس،امریکااوربرطانیہ کی حکومتوں نے یوکرین کی آزادی،خود مختاری اورجغرافیائی سرحدو ں کااحترام کرنے اوراس کے خلاف کسی قسم کی جارحیت سے بازرہنے کایقین دلایاتھا۔اس وقت یوکرین کی حکومت کوبہت سے مسائل کاسامنا تھا۔ملک نے1991میں سوویت سےآزادی حاصل کرنے کے بعدوہ بین الاقوامی سطح پرشناخت کی تلاش کیلئےکوشاں تھا۔1996تک یوکرین نے اپنے ملک میں موجودسوویت دورکے تمام جوہری ہتھیارروس کے حوالے کرچکاتھااوراسی یادداشت پربیلاروس اورقازقستان نے بھی دستخط کیے تھے اوران کیلئےبھی وہی شرائط رکھی گئی تھیں جویوکرین کی حکومت نے تسلیم کی تھیں۔
یوکرین کاالزام ہے کہ روس نے پہلی بار2014میں اس معاہدے کی خلاف ورزی کی،جب اس نے ملک کے مشرق میں واقع کریمیا پرحملہ کرکے اس پرقبضہ کر لیا،جہاں سیواسٹوپول میں روسی بحری اڈہ اوربحیرہ اسودکابحری بیڑہ موجودہے۔یوکرین کی حکومت کے مطابق روس نے اس یاداشت کی اسی سال خلاف ورزی کرتے ہوئے ملک کے مشرقی علاقوں ڈونیتسک اورلوہانسک صوبوں میں علیحدگی پسندوں کی سرپرستی کرتے ہوئے انہیں بغاوت کرنے پرمجبورکیا۔اس خطے میں جاری تنازعات کے باعث پہلے ہی 14ہزارسے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔لیکن روس کایہ کہناہے کہ اس وقت مذاکرات میں یہ بھی طے ہواتھاکہ یہ ریاستیں کسی اورایسی طاقت کواپنے ہاں کوئی ایسی سہلوت فراہم نہیں کریں گی جوروس کی سلامتی کے خلاف ہواور یوکرین کوکئی مرتبہ آگاہ کیاگیاکہ اس کانیٹوکے ساتھ الحاق روس کی سلامتی کیلئے خطرناک ہوگاجس کوکسی بھی صورت برداشت نہیں کیاجائے گاکیونکہ نیٹومعاہدے کے مطابق کسی ایک بھی ملک پرحملے کوتمام نیٹوممالک پرحملہ تصورکرتے ہوئے اس کادفاع کرناضروری ہے۔
روسی صدرپیوٹن نے اپنے اقدامات کودرست ثابت کرنے کیلئےزیلنسکی ہی کے الفاظ کاسہارالیتے ہوئے اپنی تقریرمیں یہ واضح اشارہ کیا کہ یوکرین امریکا اورنیٹوکی مددسےجوہری ہتھیارتیارکرنے کے ارادے کے بعدمعاہدے سے نکل رہاہے اورنیٹومیں شمولیت کیلئے اندرون خانہ کام کررہاہے۔یوکرین کے ان جارحانہ عزائم کے بعدروسی شہریوں کیلئے خطرہ بڑھ گیاہے۔زیلنسکی نے 19فروری کوایک تقریر میں کہاتھاکہ یوکرین کودنیاکے تیسرے سب سے بڑے جوہری ہتھیاروں کو چھوڑنے کے بعد سکیورٹی کی ضمانتیں ملی تھیں،ہمارے پاس اب یہ ہتھیارنہیں ہیں،لیکن ہمارے پاس سکیورٹی بھی نہیں ہے ۔2014کے بعدسے یوکرین نے بڈاپسٹ یاداشت پردستخط کرنے والے ممالک کے ساتھ مشاورت کرنے کی چاربارکوشش کی لیکن کامیابی نہیں ملی۔
یوکرین کی پارلیمنٹ کیلئےمنتخب ہونے والے سابق فوجی کمانڈروولوڈیمیرتولوبکو نے1992میں مقننہ کے ایک اجلاس میں دلیل دی تھی کہ یوکرین کو سلامتی کے وعدے کے بدلے میں مکمل طورپرجوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کاخیال رومانوی اورقبل از وقت تھا۔یوکرین کوکم ازکم سوویت وار ہیڈز رکھنے چاہییں تھے،جو کسی بھی جارحیت کوروکنے کیلئےکام آسکتے کیونکہ نیوکلیئرڈیٹرنس امن کاضامن تصورکیاجاتاہے۔جوہری ہتھیاروں کی موجودگی کا مطلب صرف امن کی گارنٹی اورامن کااحساس ہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ اوربھی بہت معنی رکھتاہے جیساکہ پاکستان اوربھارت کے درمیان برسوں سے جاری تصادم کامعاملہ ہے۔