Now the people of God will rule

”اب راج کرے گی خلق خدا”

:Share

بہت دکھ جھیلے ہم نے،بہت دردسہے ہم نے خون ہی خون اورآگ کاکھیل،بارودکی بو،شعلہ اگلتی،انسانی خون چاٹتی بے حس بندوقیںآٹادستیاب نہ خوردنی تیل پٹرول ….چلئے رہنے یجئے بھوک کے ستائے ہوئے معصوم انسانوں کی خودکشیاں، بیروز گارنوجوانوں کے مدقوق چہرے،گھروں میں جہیزنہ ہونے کی وجہ سے بوڑھی ہوجانے والی لڑکیاں،سرمایہ داروں کی چکی میں پستاہوامزدور،سڑکوں پرکھلے عام لوٹ مار،اغوابرائے تاوان کی وارداتیں ،معصوم بچیوں کی اجتماعی آبروریزی، پھول جیسے معصوم بچوں کواپنی بھوک کی بھینٹ چڑھانے والے درندے،آئین کاقتل،قانون وانصاف کاقتل،انسانیت کاقتل۔

بھتہ خوروں،قاتلوں،دہشتگردوں کاراج پورے سماج کویرغمال بنانے والے سفاکوں کاٹولہ ،خاک ہی خاک،خون ہی خون زباں بندی کافرمان،بے آسرا بندگان خدا اوران کا خون چوسنے والی جونکیں،جودن بدن فربہ ہوتی جارہی ہیں۔گولیوں کی تڑتڑاہٹ میں زندگی وموت کارقص بسمل، سسکیاں،ہچکیاں،چیخیں،ماتم،گریہ اورشام غریباں۔ہرآنے والا نئے سازپرنیاراگ الاپتاہے۔ہم دیوانوں کی طرح اس کے پیچھے بھاگنے لگتے ہیں اورپھروہی دھتکار،مایوسی اورشکستگی،ابلیس کھڑامسکراتاہے۔ایسے حالات میں کوئی چھوٹی سی بھی خبرخوشی کی خبر،مسرت کالمحہ سامنے آئے توجی بے اختیارکھل اٹھتاہے۔ہاتھ فضامیں بلندہوتے ہیں اوربے خودی میں رقص کرنے لگتاہے۔ بندہ بشر۔

اشتہارات کی دنیابھی کیاخوب ہے۔پرفریب اورسہانی۔کچھ دیرتک ہم بے خودسے ہوجاتے ہیں۔ایساہوتابھی ہے؟میراگریہ،ماتم تو جاری رہتاہے ۔ چلئے کچھ دیر ہم خوش ہو جاتے ہیں۔بہت پرامیداورخوش کن الفاظ سے مزین ہے یہ اشتہار۔”اب راج کرے گی خلق خد”ااور”جوکچھ ہوگا،آپ کے مطابق،میرے مطابق اورخلق خداکے مطابق”اچھا! توآگیاہے وہ سہاناوقت ،اب دل کی ویرانی شگفتگی میں بدلے گی،خواب تعبیرپائیں گے،دل مردہ پھرسے جی اٹھے گا۔مسرت رقص کناں ہوگی،نسیم صبح مژوہ جاں فزاہوگی،قہقہے گونجیں گے،خوشحالی کے پھول کھلیں گے،کلیاں چٹکیں گی،دکھ ختم ہو جائیں گے،درددورہوجائے گا،ہربشرامان پائے گا،دل کی مرادبرآئے گی،نغمہ دلرباسماعتوں میں رس گھولے گا ، چین وآرام،سکون ہی سکون۔ہاں ایسا ہوگا؟واقعی خلق خداراج کرے گی؟اگریہ لفظوں کی حدتک ہے توپھرہم عادی ہیں۔سنتے رہتے ہیں اورلگتایونہی ہے کہ بس کچھ دیرکیلئے بھولنے کی کوشش ایام تلخ کوجیسے تھیٹرمیں ڈراما،سینمامیں فلم،ہم کچھ دیرکیلئے کھو جاتے ہیں،اس میں حقیقت کہاں بدلتی ہے۔سینماکے یخ بستہ ہال سے باہر نکلتے ہی لوکے تھپیڑے حقیقت منہ چڑاتی ہے۔

اشتہارسچ بولتے ہیں؟ہوسکتاہے آپ کومجھ سے اختلاف ہو،ضرورکیجئے یہ آپ کاحق ہے لیکن میراتجربہ ہے اشتہارصرف راغب کرنے کانام ہے۔ دعویٰ لاکھ سہی، حقائق کچھ اور ہیں ۔”جیسے چاہوجیو،جی نہیں سکتے،زندگی ہے مست”کون سی زندگی”ناچوگا جھومو”کیسے”ہم آپ کیلئے چشم براہ ہیں” کیاواقعی!بس اسی طرح کا فریب ہرسرمایہ دارمجسم عاجزی بن کر کہتاہے”ہم نے اپنی مصنوعات میں عوام کاخیال رکھاہے”کبھی ہواہے بھلاایسا؟

اب ایک مرتبہ پھرملک کی معیشت کی بحالی کے ترانے گائے جارہے ہیں۔ممکنہ انتخابات کی تیاری کیلئے لنگوٹ کسے جارہے ہیں۔”اکانومی چارٹر”کے خوشنما دعوے سننے میں آرہے ہیں،دوست ممالک کی سرمایہ کاری محفوظ بنانے کیلئے سرجوڑکرمتفقہ فیصلے سامنے آرہے ہیں۔سی پیک کی بندش کے بعد اس کی تعمیر میں ازسرنونئی زندگی ڈالنے کی خبریں مل رہی ہیں۔ روس سے پٹرول کے بھرے جہازارض وطن میں لنگراندازہوگئے،گیس سے لدے ٹینکرز ملک میں پہنچناشروع ہوگئے لیکن کیاواقعی پٹرول اورگیس کی قیمتوں میں کوئی کمی دیکھنے میں ملی ؟بجٹ کابھوت جوکئی مہینوں سے بوتل میں بندتھا، اسے خوشنماوخیالی وعدوں کے ساتھ اس طرح پیش کیاگیاہے کہ معاشی ماہرین سرپکڑکربیٹھ گئے ہیں کہ اس صدی میں قوم سے اس سے زیادہ بھونڈا مذاق اورکیاہوسکتاہے کہ حکومتی آمدنی کے ذرائع ان اداروں کے وصول کئے جائیں گے جوپچھلی کئی دہائیوں سے قوم کاخون چوسنے یانچوڑنے کی ماہرانہ کوششوں میں اپنے محلات توکھڑے کرلیتے ہیں لیکن عوام کے تن بدن کی رہی سہی جان نکالنے کواپنی ماہرانہ معاشی پالیسیوں سے تشبیہ دیکر ملک میں دودھ اورشہدکی نہریں بہانے کے سہانے خواب دکھائے جاتے ہیں۔

آصف زرداری جن کاچارٹرطیارہ آئے دن سیدھادبئی سے لاہوربلاول ہاس کی رونقیں دوبالاکرنے کیلئے پہنچ جاتاہے،جہاں ان کے ارشادات گرامی ملکی تقدیرکو سنوارنے کیلئے قوم کی سماعت کویہ کہہ کرٹکراتے ہیں کہ”پہلے آپ امیرہوں توپھرملک امیر ہوگا”۔کوئی ان سے یہ سوال کرنے کی جرات نہیں کرتاکہ آپ کی معیشت سینماکی ٹکٹوں کی بلیک میلنگ سے شروع ہوئی تھی اورآج خودآپ کواپنی دولت کاعلم نہیں،کیااس فارمولے نے ملک کوامیر کیا ہے یاپھرکنگال کردیاہے؟گزشتہ کئی برسوں سے سندھ کے ان داتاہیں،کیاسندھ کے کسی شہرمیں کوئی خوشحالی لاسکے ہیں؟آپ کااپنالخت جگرجس کواس ملک کاوزیراعظم دیکھنے کیلئے آپ سردھڑکی بازی لگارہے ہیں،وہ توواویلاکررہاہے کہ میں خودکراچی میں ٹینکر کے پانی کامحتاج ہوں۔کیاآپ کے کانوں کوکراچی، لاڑکانہ،نواب شاہ کی حسن کارکردگی کے نوحے سنائی نہیں دیتے؟

بس اشتہارات کی دنیا۔راغب کرنے کادھندا،اوراسپانسرکویہ کہہ کرزیادہ پیسے بٹورنے کاکاروبار”سب سے زیادہ دیکھاجاتاہے ہمارایہ پروگرام”۔بس یہی ہے،یہ جو ہمارے گھر میں ایک ڈبے نے جسے ہم ٹی وی کہتے ہیں،ہمیں غلام بنارکھاہے۔جی جناب!آگہی کیلئے سب سے مؤثرذریعہ۔ بجاارشادفرمایا۔ لیکن بس بحث، تسلی،دلاسہ ایک آسرابس اور کچھ نہیں۔کیافلاحی ریاست پربحث کرنے سے بنتی ہے؟کیاصرف یہ کہہ دینے سے کہ”اب راج کرے گی خلق خدا”واقعی راج کرنے لگتی ہے خلق خدا؟یہ توہم گزشتہ 76 برسوں سے سن رہے ہیں۔ اقبال بانونے بہت خوبصورت گایاہے۔کب بدلی تقدیر، ایک آیا،دوسراآیا،سب کے سب دعوے داراور پھروہی ٹائیں ٹائیں فش۔یہ بحث مباحثے کسی بھوکے کاپیٹ بھرتے ہیں؟کسی برہنہ کاتن ڈھانپتے ہیں؟ بتائیے ناں آپ؟بس سرمایہ داروں کی تجوریاں بھرتی رہتی ہیں۔بھوکے خودکشیاں کرتے رہتے ہیں اور ٹی وی کاپیٹ مرتے مرتے بھی بھرجاتے ہیں ایک نئی خبر،پھرایک نئی بحث۔

معاشی پالیسیاں وہی رہیں گی،خارجہ پالیسی وہی رہے گی، تویاروپھرکیابدلا؟کچھ دیرکی فلم ہے،مزے اڑائیے۔چلئے اچھاہے،کچھ لوگوں کاتوپیٹ بھرتاہے ناں،ان کے اثرورسوخ میں تواضافہ ہوتاہے ناں۔وہ توہیروبنتے ہیں ناں۔چلئے کسی کاتوبھلاہو۔کربھلاتوہو بھلا۔”اب راج کرے گی خلق خدا”کب ہوش میں آئیں گے ہم،آخرکب۔چلئے بہت ……..کرلی میں نے۔لگے رہوبھائی کچھ بھی تونہیں رہے گا،بس نام رہے گا اللہ کا۔
یہ دیکھئے آدھی رات گزرگئی ہے۔اس وقت ہم سب کے برادربزرگ خواجہ رضی حیدرکہاں سے آگئے۔
سوال کرتے ہیں شاخوں سے کشتگانِ خزاں
کبھی بہاربھی آتی ہے درمیان خزاں
بس ایک ہجرسےآمیزہوگیاہے وصال
یہاں توموسم گل بھی ہے داستانِ خزاں
یہ کیاکہ آنکھ بہاروں کی آرزوسےنہال
یہ کیاکہ روح میں آبادہی مکانِ خزاں

اپنا تبصرہ بھیجیں