Not Eyes But Whole Body Cries

آ نکھیں نہیں پورابدن روتاہے

:Share

لڑائی کی وجہ بہت دلچسپ تھی۔ایک صاحب ریڑھی پرکھڑے پکوڑے کھارہے تھے۔انہوں نے اچانک لفافہ نیچے رکھااور بھاگ کرپان فروش لڑکے کوگریبان سے پکڑلیا،لڑکاکمزورتھااوروہ صاحب خاصے مضبوط اورلحیم وشحیم،لہنداانہوں نے لڑکے کوزمین پرگراکرمارناشروع کردیا۔لوگوں نے بمشکل چھڑایا،تحقیق کی توپتہ چلا ،لڑکا انہیں پکوڑے کھاتادیکھ کرہنس رہاتھا،لڑکے سے پوچھاگیاتواس نے بتایاوہ توان کے پیچھے کھڑی بلی پرہنس رہاتھا،بلی ریڑھی کے پہیوں میں چھپی چڑیاکو پکڑنے کی کوشش میں باربار اس پرجھپٹتی تھی لیکن وہ اس کے قابومیں نہیں آرہی تھی،یہ چھوٹی سی غلط فہمی ایک لمبے چوڑے فسادکاباعث بن گئی۔پکوڑے کھانے والے صاحب تھانے چلے گئے اورلڑکاہسپتال۔بظاہریہ ایک معمولی واقعہ ہے لیکن اگر ہم اس کانفسیاتی تجزیہ کریں تومعلوم ہوگاپکوڑے کھانے والے صاحب میں قوتِ برداشت کم تھی۔وہ ایک بچے کامذاق تک برداشت نہیں کرسکا ، اگروہ لڑکاواقعتاًان پرہنس رہاتھاتوبھی انہیں ناراض ہونے یالڑنے کی کیا ضرورت تھی۔وہ خودبھی ہنس کرلڑکے کی حرکت سے لطف اندوزہوتے لیکن ایسانہ ہوا،انہوں نے چھوٹی سی غلط فہمی کو”جنگ”کی شکل دے دی۔

اعدادوشمارکاجائزہ لیں توہمیں معلوم ہوتاہے کہ گزشتہ 10برسوں میں قتل کے جرائم میں 850فیصد اضافہ ہواہے۔اس وقت پاکستانی جیلوں میں سزائے موت کے9410مرد،200عورتیں اور1226نوعمرقیدی ہیں۔یہ تعداددنیامیں سب سے زیادہ ہے ۔اگرآپ ان10836مجرموں کی کیس ہسٹری کامطالعہ کریں توآپ یہ جان کرحیران ہوجائیں گے کہ 95٪کیسوں کی وجوہات”تم مجھے دیکھ کرہنس رہے تھے”سے ملتی جلتی ہیں۔ پنجاب میں توگزشتہ برس دونوعمرلڑکے مرغی کاانڈہ چوری کرنے پر قتل ہوگئے اورچارمعصوم بچے آٹاچوری کرنے کے مقدمے میں دھرلئے گئے۔ یہ کیاچیزہے،یہ کس بگاڑ،کس تبدیلی کی علامتیں ہیں۔یہ علامتیں ثابت کرتی ہیں کہ ہم اعصابی طورپرایک کمزورمعاشرے میں زندگی گزاررہے ہیں ۔ہم ایک ایسے ملک میں زندہ ہیں جس کے شہریوں کی قوتِ برداشت جواب دے چکی ہے۔آپ قتلوں کے اعدادوشمارایک طرف رکھ دیں،آپ ویسے غورکریں،آپ کے اردگردآج جن اختلافات پربڑے فسادات ہورہے ہیں، جن پردرجنوں لوگوں کے سرپھٹ جاتے ہیں، ٹانگیں ٹوٹ جاتی ہیں،کیاچندبرس قبل اختلافات پریہی ردِعمل ہوتاتھا؟آپ کاجواب یقیناًنفی میں ہوگا،پھرسول پیداہوتاہے اتنی بڑی”ڈی جنریشن”اتنی بڑی مہلک تبدیلی کیسے آگئی۔

وہ کون سی وجوہات ہیں جن کے باعث پورے ملک کی سائیکی تبدیل ہوگئی،لوگ کیوں صرف دیکھنے”کھنگورہ”مارنے اور ہنسنے ہرایک دوسرے سے دست و گریبان ہوجاتے ہیں۔ملک میں بے قابومہنگائی نے بھی غریب وپسے ہوئے نوجوانوں کو جرائم کی طرف راغب کردیاہے۔نچلے اورمتوسط طبقے کے پاس اب گزربسرکاسامان نہیں رہاہے،یہ سب مہنگائی میں روزانہ کی بنیادپرہونے والے اضافے کے باعث مشکلات کاشکارہیں جبکہ دوسری جانب وفاقی کابینہ نے آئی ایم ایف کی شرائط کوپوراکرنے کیلئے140/ ارب روپے کے نئے ٹیکسوں کی منظوری دیدی ہے جواس سال جولائی سے نافذ العمل ہوں گے۔سوچنے کی بات ہے کہ جن اداروں پرٹیکس لاگوکیاجائے گا،وہ عوام ہی کی جیبوں سے وصول کرکے حکومت کوادا کیاجائے گا۔

وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے سماجی واقتصادی اثرات کے بارے میں جاری کردہ رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ کورونا وائرس کے دوران لاک ڈاؤن سے2 کروڑ73لاکھ افرادکے روزگارمتاثرہوئے اور2کروڑ6لاکھ افراد بیروزگارہوئے،66لاکھ افرادکی آمدن میں کمی ہوئی،اس کےعلاوہ مینو فیکچرنگ،زراعت،ہول سیل، ٹرانسپورٹ،تعمیرات ودیگرشعبے کوروناسے بری طرح متاثرہوئے جبکہ تعمیرات سے منسلک 80 فیصد افرادکورونا وائرس سے متاثرہوئے۔مینوفیکچرنگ سے70 فیصد،ٹرانسپورٹیشن سے منسلک67فیصدافرادکوروناسے متاثرہوئے جبکہ دیہی علاقوں کی 49 فیصد آبادی کی آمدنی میں کمی ہوئی ہے،اس کےعلاوہ ملک بھر
سے 57فیصدشہری آبادی کی آمدنی میں کمی ریکارڈکی گئی ہے۔سارے عوامل کے یکجا ہونے اور آئے روزعوام کوریلیف دینے کی بجائےعوام پرمزیدبوجھ ڈالنے سے عوام کاجینادوبھرہوگیاہے۔

ہوسکتاہے ہمارے ملک کے اعلیٰ دماغ معاشی بدحالی اورکم علمی ہی کواس کی وجہ قراردیں لیکن یہاں ایک سوال اورپیدا ہوتاہے امریکامیں توکسی قسم کا معاشی مسئلہ نہیں،دنیامیں سب سے زیادہ فی کس آمدنی امریکاکی ہے،تعلیم بھی عام ہے، 99فیصدامریکی تعلیم یافتہ ہیں لہنداوہاں تواس قسم کے مسائل پیدانہیں ہونے چاہئیں!لیکن حقائق یہ ثابت کرتے ہیں دنیامیں اس وقت سب سے زیادہ جرائم امریکامیں ہوتے ہیں۔امریکامیں ہونے والے جرائم کا88فیصد تشدد پرمبنی ہوتاہے۔سینٹ کی ایک اسٹینڈنگ کمیٹی کے مطابق دوسال میں13لاکھ امریکی خواتین کی آبروریزی ہوئی، کمیٹی کے چیئرمین کاکہناہے کہ امریکا میں ہرہفتے3ہزارخواتین سے جنسی زیادتی ہوتی ہے جس میں93فیصدعورتیں قتل ہوجاتیں ہیں،ابھی چند روزپہلے امریکی ادارے نے انکشاف کیاہے کہ امریکاکے 35لاکھ نوجوان خودکشی کرناچاہتے ہیں۔

امریکاکادفاعی بجٹ778بلین ڈالرہے،یہ دنیاکے168ممالک کے مجموعی بجٹ کے برابرہے لیکن اتنے بھاری بجٹ اور بھاری مراعات کے باوجود امریکی فوجیوں میں خودکشی کاخوفناک رحجان پایاجاتاہے،جبکہ بلندآوازمیں بولنے اوربرتن توڑنے میں توامریکیوں کی نظیرنہیں ملتی۔امریکاکے برعکس اسکینڈے نیوین ممالک میں قابلِ تعریف برداشت پائی جاتی ہے۔

ناروے،سویڈن اورڈنمارک میں توقتل توبہت دورکی بات ہے،عام لڑائی جھگڑوں کے واقعات بھی خال خال ہی وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ان ممالک میں جرائم کی یہ صورتحال ہے کہ وہاں کے اخبارات میں کرائم رپورٹرکی آسامی ہی نہیں ہوتی۔چین اور جاپان میں جرائم نہ ہونے کے برابرہیں۔ جاپان میں لوگوں کی قوتِ برداشت کایہ عالم ہے کہ ایک شاہراہ پربرفباری میں تین گھنٹے ٹریفک بلاک رہی اورمصروف ترین ملک کے مصروف ترین شہری بڑے صبرسے گاڑیوں میں بیٹھے رہے۔وجہ معلوم کی گئی توپتہ چلاسڑک پرکسی جانورکی لاش پڑی تھی۔ایک کاراس کے قریب رکی تواس کے پیچھے گاڑیاں کھڑی ہو گئیں۔ کسی نے ہارن تک نہیں بجایا،اپنے سے اگلے کارڈرائیورکوبرابھلاتک نہیں کہا۔

چین میں پچھلے12برسوں میں قتل کے صرف2واقعات رپورٹ ہوئے۔یہ فرق کیوں ہے؟یہ فرق صرف سوشل جسٹس،صرف سماجی انصاف کی وجہ سے ہے ۔جن معاشروں میں لوگوں کے حقوق،لوگوں کی عزتِ نفس محفوظ ہو،ان کے شہریوں کی قوتِ برداشت بھی قائم ہوتی ہے۔ان معاشروں،ان ملکوں میں لوگ ہنسنے کے جرم میں دوسروں کوگریبان سے نہیں پکڑتے، معمولی معمولی باتوں پرپستول نہیں نکالتے،لیکن جن ملکوں میں،جن معاشروں میں انصاف نہ ہو، حکومتیں کروڑوں لوگوں کے حقوق روند ڈالتی ہوں،لوگوں کاحکومتوں،عدالتوں اورسیاستدانوں سے اعتماد اٹھ گیاہو،ان ملکوں میں،ان معاشروں کے شہریوں کی قوتِ برداشت جواب دے جاتی ہے۔وہ نفسیاتی کینسرکاشکارہوجاتے ہیں۔کہاجاتاہے جب آنکھیں نہیں روتیں توپھر پورابدن روتاہے۔جب لوگ حکومتوں سے نہیں لڑسکتے،زیادتی پرچیخ نہیں سکتے تووہ پھرہردوسرے شخص سے لڑتے ہیں ،اپنے سے کمزورہرشخص پرچیختے ہیں۔رہے نام میرے رب کاجوصبرکرنے والوں کے ساتھ ہے!
اے ایمان والووہ بات کیوں کہتے ہوجس پرتم خودعمل نہیں کرتے!

اپنا تبصرہ بھیجیں