حزب اسلامی افغانستان کے سربراہ گلبدین حکمت یار کے بارے میں کسی نے کہا تھا کہ ان کی حیثیت کسی آگ لگی پتلون جیسی ہے جسے اتار دیں تو انسان ننگا ہو جائے گا اور نہ اتاریں تو اس سے زیادہ نقصان اٹھائے گا۔ جب وہ کابل میں4 مئی 2017ء کو صدارتی محل میں وہ بڑی عزت اور احترام کے ساتھ داخل ہوئے تو ایک ساتھی نے کہا کہ تقریبا ستر سالہ حکمت یار اب بھی کافی تازہ دم دکھائی دے رہے تھے شاید کسی اچھی جگہ روپوشی کے نو سال گزار کر آئے ہیں۔ فی الحال کابل نے بظاہریہ پتلون پہنے رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔وہ اتنا طویل عرصہ کہاں تھے کسی کو نہیں معلوم لیکن ان کی واپسی کا سلسلہ اسلام آباد سے شروع ہوا۔اس کااعلان پاکستان میں افغان سفیرڈاکٹرعمرذاخلوال نے ایک ٹویٹ میں کیا۔ ان کا حکمت یار کی کابل میں تصویر کے بارے میں کہنا تھا کہ اس عمل کا آغاز ایک برس قبل اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ پر ایک مختصر گفتگو سے ہوا تھا۔ یعنی افغان مصالحتی عمل کی ایک بڑی کامیابی کا آغاز یقینًاپاکستان سے ہوا۔ ان کے رشتہ دار اور جماعتی اراکین تو اسلام آباد میں کافی عرصہ سے مقیم ہیں تو یقینا بات ان ہی کے ذریعے شروع ہوئی ہوگی لیکن حکمت یار خود کہاں رہے یہ واضح نہیں ہوتا۔
صدارتی محل میں ان کے اعزاز میں منعقد تقریب سے خطاب کے آغاز میں گلبدین حکمت یار نے روایت سے ہٹ کر بات کی۔ انہوں نے خلاف ِ معمول اپنی تقریرکا آغاز اپنے میزبانوں افغان صدر اور دیگر اہم شخصیات کے نام لے کر نہیں کیا۔ اس کی وجہ انہوں نے نہیں بتائی لیکن افغان صدر کو مخاطب نہ کرکے انہوں نے واضح پیغام دیا کہ وہ موجودہ نظام سے مطمئن نہیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ وہ آئندہ افغان لویہ جرگہ میں افغانستان کیلئے اصل اسلامی آئین پیش کریں گے۔
روسیوں کے خلاف جدوجہد میں حکمت یار کے پاکستان اورسعودی عرب سے تعلقات کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ایک منظم گروپ ہونے کی وجہ سے حزب اسلامی کو ایک وقت میں سب سے زیادہ عسکری امداد دی جاتی تھی لیکن جب90ء کی دہائی میں اقتدار میں طاقت کے زور پر آنے کے باوجود حکمت یار کم از کم پشتونوں کے دل نہیں جیت سکے تو پاکستان نے منہ طالبان کی جانب موڑ لیا جس کی وجہ سے انہیں ایران میں چھ سال تک پناہ لینی پڑی تھی۔ لیکن2002ء میں ایران میں ان کی گرفتاری کی سازش تیارہوئی تووہ فوری طورپرایران سے کہاں منتقل ہوئے یہ واضح نہیں ہوا، بظاہر پاکستان سے تعلق کبھی بھی مکمل طور پرنہیں توڑا گیا۔
عسکری طور پر افغان جہادمیں حکمت یارکاکرداراورکامیابیاںانتہائی قابل ذکر ہیں لیکن پچھلے کئی سال افغانستان سے غیرحاضری کے باوجود سیاسی طور پر ان کی جماعت کافی منظم اور اپنی حمایت برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔ اس کی بڑی مثال کابل آمدمیں پہلے جمعے کے ایک بڑے اجتماع سے ان کے خطاب میں ہزاروں افراد کی شرکت نے کئی تجزیہ کاروں کو حیران کر دیا تھا۔ اس کی وجہ شاید پرچمی اور خلقی جماعتوں خصوصاً طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد کسی مضبوط افغان پارٹی کا سامنے نہ آنا ہے۔ کئی امریکی اعلی عہدیدار اب یہ غلطی تسلیم کرتے ہیں کہ شاید2001 ء میں طالبان کے جانے کے بعد انہوں نے شخصیتوں یا جنگی سرداروں کے بجائے اگر سیاسی جماعتوں کی سرپرستی کی ہوتی تو آج افغانستان میں ان کی حالت قدرے بہتر ہوتی لیکن حزب اسلامی بہرحال پینٹاگون کی مخالفت میں پیش پیش ہی رہی کیونکہ پینٹاگون کبھی بھی یہ واقعہ فراموش نہیں کرپایاجب روس کے خلاف افغان جہادجاری تھاتواقوام متحدہ کے اجتماع میں شرکت کے بعدگلبدین حکمت یارنے امریکی صدر کی دعوت کوٹھکراتے ہوئے ملنے سے انکار کردیاتھا۔
اب بھی افغانستان میں حزب اسلامی سیاسی طورپرکافی بالغ نظراوردوراندیش ثابت ہوئی ہے۔ جنگی میدان میں موجودگی کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ اس نے سیاسی میدان میں اپنی فعالیت بھی برقرار رکھی ہوئی ہے۔ ان کی جماعت ایک ایسی افغان جماعت ہے جو نسلی بنیادوں پر قائم نہیں بلکہ اس میں تاجک بھی ہیں اور ازبک بھی۔ مذہبی طور پر بھی اس میں بامیان کے شعیہ بھی شامل ہیں۔ تجزیہ نگاروں کے بقول ان کی جماعت کا تعلق “گراس روٹ”سے ہے۔ حکمت یار کے انٹیلیجنس سربراہ وحدی اللہ صباون نے 2002 ءسے ہی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔ خالد فاروقی اور عبدالہادی ارغندوال جیسے رہنماں نے اسے کابل میں مستحکم کیا اور بعد میں کابینہ کا حصہ بھی بنے۔
عالمی تجزیہ نگاراورخطے پرگہری نگاہ رکھنے والے سیاسی رہنما اوردانشوروں کاخیال ہے کہ افغانستان میں حکمت یار کی واپسی کواب تقریبا ایک سال ہو گیاہے اورافغانستان میں ان کی مقبولیت میں بھی دن بدن اضافہ دیکھنے میں آرہاہے جویقینًاپاکستان کیلئے مثبت ثابت ہورہاہے۔سنیئر صحافی سمیع یوسف زئی کے مطابق پاکستان کیلئے ان کا دوبارہ افق پر آنا انتہائی مثبت ثابت ہواہے۔پاکستان سے ان کااب کوئی تعلق ہے یانہیں اس سے قطع نظرحکمت یار کاانڈیا سے متعلق خصوصاً کشمیر پرماضی میں مؤقف کافی سخت ثابت ہوا ہے اوراب بھی ان کے مؤقف میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ وہ پاکستان سے جتنے بھی نالاں ہوں کم از کم انڈیا کا ساتھ قطعاًنہیں دیں گے جس کی واضح مثال حال ہی میں بھارتی سفیرکی درخواست میں اپنی ایک ملاقات میں کشمیرمیں بھارتی قابض فورسزکی طرف سے جاری مظالم پر واضح طورپراظہارناراضگی کرتے ہوئے کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیاتھا۔
اب صورتحال یہ ہے کہ افغان پارلیمانی انتخابات جورواں سال اکتوبرمیں متوقع ہیں،میں حزب اسلامی کوروکنے کیلئے امریکااوربھارتی حمائت یافتہ شمالی اتحادنے نجات ملی افغانستان کے نام پرایک سیاسی اتحادتشکیل دینے کیلئے کوششیں شروع کردی ہیں جبکہ ترکی نے دوستم کوحزبِ اسلامی مخالف اتحاد بنانے کی صورت میں ترکی چھوڑنے کی ہدائت کردی ہے۔شمالی اتحادنے حزبِ اسلامی افغانستان کے سربراہ گلبدین حکمت یارکو اقتدارسے باہررکھنے اورپارلیمانی انتخابات میں کامیابی سے روکنے کیلئے حزبِ وحدت ،جمعیت اسلامی افغانستان اورجنبش ملی افغانستان پر مشتمل ایک اتحادتشکیل دینے کی کوشش شروع کردی ہیں۔حزبِ وحدت کے استادمحقق ،جمعیت اسلامی کے استادعطاء محمدنور،جنبش ملی کے جنرل دوستم نے اس حوالے سے ملاقاتیں کی ہیں تاہم ترکی حکام نے جنرل دوستم کومتنبہ کیاہے اگرانہوں نے افغانستان کے معاملات یہاں سے چلانے کی کوشش کی توانہیں ترکی سے نکال دیاجائے گا ۔اسی روزاستادمحقق اورعطاء محمدنور نے بھی ملاقات کی اورطالبان مخالف سمیت حزب اسلامی کے کے مخالفین پرمشتمل اتحاد بنانے کی کوششیں تیزکرنے پر اتفاق کرلیاہے۔
دوسری جانب طالبان کی جانب سے مثبت اشارے ملنے کے بعدحزبِ اسلامی کی کامیابی نظرآرہی ہے اورموجودافغان صدراشرف غنی اورسابق صدر حامدکرزئی نے حزب اسلامی کی مدد کرنے کافیصلہ کرلیاہے کیونکہ حزبِ اسلامی کی سیاسی مددکی وجہ سے اشرف غنی نے شمالی اتحادکی بلیک میلنگ سے نجات حاصل کرلی ہے جبکہ طالبان کے زیرکنٹرول علاقوں میں طالبان کی جانب سے ممکنہ انتخابی عمل کی اجازت دینے سے حزبِ اسلامی کے امیدواروں کی کامیابی یقین ہوگئی ہے۔افغان صدرڈاکٹراشرف غنی کے افغان صدارتی انتخابات کیلئے ووٹرلسٹوں میں ناموں کی تصدیق اوراندارج کے عمل کاآغازکرتے ہوئے افغان طالبان سے اپیل کی ہے کہ وہ انفرادی یا اجتماعی سطح پرانتخابات میں حصہ لیکرپارلیمان کاحصہ بن جائیں تاکہ افغانستان میں قیام امن کو آگے بڑھایاجاسکے۔کابل میں افغان صدرنے انتخابات میں ووٹر لسٹوں میں ناموں کے اندراج اور تصدیق کے عمل کا افتتاح کیا۔
افغانستان میں موجودپارلیمان گزشتہ تین سال سے غیرقانونی طورپر صدارتی فرمان کے ذریعے توسیع کرکے چلائی جارہی ہے کیونکہ افغان پارلیمان کے انتخابات 2014ء کے اواخریا 2015ء کے مارچ میں ہونے چاہئیں تھے لیکن افغانستان میں صدارتی انتخابات میں دھاندلی کے الزامات اور طالبان کی اچانک طاقت پکڑنے کے بعدپارلیمان کوتوسیع دی جاتی رہی جس کے بعدافغان پارلیمان کے ارکان بھی حکومت کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے تاہم اس دوران افغانستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت حزبِ اسلامی جس پراقوام متحدہ نے پابندی عائدکی تھی، حزبِ اسلامی اورحکومت کے درمیان 2017ءمیں ایک معاہدہ طے پایااورحزبِ اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یارکے کابل آنے کے بعداشرف غنی کوبہت زیادہ سیاسی حمائت ملی اورانہوں نے شمالی اتحادپرمبنی افغان پارلیمان کومزیدتوسیع دینے سے انکارکردیاجبکہ افغانستان میں پارلیمانی انتخابات کے انعقادکے عمل کیلئے نئے سرے سے کوششیں شرع کردیں۔
حزبِ اسلامی کی سیاسی طاقت اورطالبان کے ساتھ مذاکرات کی کوششوں کے ساتھ ساتھ اشرف غنی کوملک کے اندرون عہدیداروں کاتعلق حزبِ اسلامی سے ہے،ان کوبرطرف کیاجائے لیکن افغان صدرنے یہ مطالبہ بھی ماننے سے انکارکردیا۔افغانستان میں ممکنہ طورپراکتوبرمیں ہونے والے پارلیمانی اورصوبائی انتخابات کیلئے ملک بھرمیں ووٹوں کے اندراج کاعمل شروع ہوگیاہے ۔اس حوالے سے افغانستان کے خودمختارالیکشن کمیشن کے سربراہ گلاجان نے کہاہے کہ ووٹ ڈالنے کے اہل افرادملک بھرمیں قائم لگ بھگ7300پولنگ مراکزمیں اپنے آپ کورجسٹرکرواسکتے ہیں۔
2014ء میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے بعدفراڈاوردھاندلی کے الزامات کے بعدتجویزکردہ انتخابی اصلاحات کے تحت ووٹروں کی نئی رجسٹریشن کولازمی قراردیاگیاہے اوراب اس سلسلے میں انہیں حزبِ اسلامی کی حمائت حاصل ہوگئی اورشمالی اتحادکی بلیک میٹنگ سے افغان صدر آزادہوگئے جس پرافغان صدرآزادہوگئے جس پرافغان صدرنے20 اکتوبر2018 ء میں انتخابات کرانے کیلئے الیکشن کمیشن کی تشکیل نوکی۔ شمالی اتحاداورخاص کرجمعیت اسلامی نے تشکیل نو پرتین ماہ تک احتجاج کیا کہ الیکشن کمیشن میں موجودچاراہم ووٹ ڈالنے کیلئے نیاشناختی کارڈ جاری کیاجائے گا۔
اپریل کے آغازمیں خودمختارالیکشن کمیشن نے پارلیمانی اورصوبائی کونسلوں کے انتخابات کا اعلان کرتے ہوئے کہاتھاکہ اب یہ انتخابات 20اکتوبر کو ہوں گے جبکہ قبل ازیں ان کا انعقاد رواں سال جولائی میں ہوناتھا۔افغانستان میں انتخابات سے متعلق غیرسرکاری تنطیم ”فری اینڈفیئرالیکشن فورم” کے سربراہ محمدیوسف رشیدکاکہناتھاملک میں 7ہزار300 پولنگ اسٹیشن قائم کیے جائیں گے اوران میں 1948ایسے علاقوں میں قائم کئے جائیں گے جوحکومت کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔واضح رہے کہ یہ انتخابات2015 ء میں ہوجانے چاہئے تھے لیکن بوجوہ یہ تاخیرکاشکارہوتے رہے ۔افغان صدراوریورپی یونین نے انتخابات کے انعقادکیلئے نہ صرف فنڈجاری کردیئے ہیں بلکہ حکومت کے زیرکنٹرول صوبوں میں انتخابات کے انعقاد کیلئے زیادہ مراکزبنانے کیلئے الیکشن کمیش کو وسیع اختیارات دیئے گئے ہیں۔
قندھارسمیت بعض صوبوں کے شمالی اتحادکے حامی پولیس سربراہوں جنہوں نے صدرکے احکام ماننے سے انکارکردیاہے کہ امریکاکے ذریعہ سیدھا کرنے کی کوششیں شروع کردی گئیں ۔گزشتہ دنوں امریکی فوج کے افغانستان میں سربراہ جنرل نکلسن نے قندھارپولیس چیف جنرل رازق سے ملاقاتیں کرکے انہیں واضح وارننگ دی کہ اگرانہوں نے انتخابات میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کی توامریکااس سے نمٹ لے گاکیونکہ افغانستان میں شفاف انتخابات اس وقت امریکاکی ضرورت ہے ۔امریکی فوج کے سربراہ نے بھی طالبان سے درخواست کی کہ وہ افغانستان میں سیاسی عمل کو مستحکم کرنے کیلئے انتخابات میں حصہ لیں۔انہوں نے جنرل رزاق اوران کے ساتھیوں کوانتخابات میں رکاوٹ بننے سے دوررہنے کوکہاجس پرجنرل رزاق نے کہاکہ وہ توزیادہ سے زیادہ مراکز بنانے کامطالبہ کررہے ہیں کیونکہ قندھارکی آبادی میں اضافہ ہواہے اورآبادی میں اضافہ کی وجہ سے موجودہ مراکزکی تعداد کم ہے۔امریکی جنرل نے ذرائع ابلاغ کوبتایاکہ طالبان پراب سیاسی دباؤ بھی بڑھایاجائے گاجبکہ طالبان کی حامی تنظیموں اورافرادپربھی دباؤمیں اضافہ کافیصلہ کیاگیاہے کہ وہ طالبان کو مذاکرات کیلئے آمادہ کریں۔
دوسری جانب طالبان نے جنرل نکلسن اورافغان صدرکے مطالبہ کومستردکرتے ہوئے انتخابات میں حصہ لینے سے صاف انکارکردیاہے تاہم طالبان نے پہلی مرتبہ کسی بھی سیاسی جماعت یااراکین کوانتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کی کوئی دہمکی نہیں دی اورعوام کورضاکارانہ طورپر انتخابات میں حصہ لینے کی درخواست کی۔گزشتہ صدارتی اورپارلیمانی انتخابات کے برعکس طالبان نے افغان عوام کوانتخابات میں حصہ لینے یانہ لینے کی آزادی دے رکھی ہے جس کوبڑی کامیابی کے طورپردیکھاجارہاہے کیونکہ طالبان اس سے قبل لوگوں کوانتخابات میں حصہ لینے پردہمکیاں دیتے رہے ہیں جبکہ اراکین پارلیمان کوبھی قتل کرنے کی دہمکیاں ملتی تھیں۔دوسری جانب حزبِ اسلامی سابق طالبان رہنماؤں کو انتخابات میں شامل کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہے تاکہ طالبان کے وہ رہنماء جوماضی میں طالبان کاحصہ اورطالبان کی سیاسی کوششوں کاحصہ رہے ہیں انہیں پارلیمان میں آناچاہئے تاکہ مل کرپارلیمان کے ذریعے امریکی انخلاء کاراستہ نکالیں۔ اگرحزبِ اسلامی اپنے اس مقصدمیں کامیاب ہوجاتی ہے جس کاکافی امکان بھی ہے تویقیناً اس خطے میں امن واپس آنے کی صورت میں درپردہ پاکستان کی بھی نہ صرف سیاسی فتح ہوگی بلکہ اس خطے میں امریکاکاہندوستان کو پولیس مین بنانے کاخواب بھی نیست ونابودہوجائے گااورخطے کی باگ ڈورپاکستان کے ہاتھ میں ہوگی جس کی پشت پرپاکستان،روس اورچین کا اشتراک دنیاکا معاشی اورسیاسی رخ بدل کررکھ دے گا۔
Load/Hide Comments