New Ways To connect With Allah

مالک سے تعلق کی نئی راہیں

:Share

کچھ لکھنے کوجی نہیں چاہتا۔تشویش اورفکربھی دل کوکھائے جارہی ہے۔تنہائی ہے،دکھ ہیں،اداسی ہے چارسوپھیلی ہوئی،غم ہیں بادلوں کی طرح چھائے ہوئے، بھیڑہے،اژدھام ہے اورپھربھی ہرکوئی اکیلاہے۔آسرا،کوئی چھپرنظرنہیں آتاکہ تھوڑی دیرسستالیں، ہر ایک پسینے میں ڈوباہوا،سڑک پرکھڑا بیروزگارنوجوان اور سامنے سے پولیس اسکواڈکے ساتھ سائرن بجاتی ہوئی پراڈومیں بیٹھا ہوا غریبوں کی قسمت سنوارنے کادعویدارلیڈر،بیان ہی بیان، تقریریں ہی تقریریں،بینرزہی بینرز،مباحثہ اورٹاک شو،دانش وری ہرجگہ دیگوں میں پک رہی ہے جس کی سڑاندسے جینا دوبھرہوگیا ہے۔ قیمتی لباس میں مسکراتے ہوئے تجزیہ کار،غریبوں کو بیچ کھانے والے دلال،انسانی منڈی جس میں ہرشئے برائے فروخت ہے۔ضمیر، جسم ، قول وفعل،بولوجی تم کیاکیا خریدوگے۔آوازوں کا جنگل جس میں تنہا کھڑا بے دست وپابندہ بشر!

حکمرانی کی مئے میں مدہوش زردار،یوں کرلو،نہیں جناب ایساکرو،نہیں نہیں یہ کروجومیں کہتاہوں۔کہیں میلہ ہے زندگی کااورکہیں برپاہے ماتم،ہرجگہ بھوک ناچ رہی ہے جسے خودکشی آسودہ کرتی ہے اورکہیں بتائی جارہی ہیں ترکیبیں انواع واقسام کے کھانوں کی،کہیں بچیاں منہ اندھیرے اپنے خواب دفن کرکے کام پرجانے کیلئے اسٹاپ پرکھڑی ہیں جنہیں من چلے اپنی جاگیرسمجھ بیٹھے ہیں اورکہیں ہے کیٹ واک،کہیں بدن چھپانے کیلئے ڈھنگ کے کپڑے نہیں ،اورکہیں جسم دکھانے کیلئے فیشن ڈیزائننگ،عجب گھڑی ہے،عجیب تماشہ ہے،میڈیا آزادہے اورہرخبرپرنظررکھے ہوئے،اورخبرکیاہے کوئی بتاتا نہیں ہے۔

ہم ایک سجدہ کوگراں سمجھ بیٹھے اوراب ہرجگہ ذلت ورسوائی کے ساتھ سربسجودہیں۔ایک کوچھوڑاتوجہاں کے محتاج ہوگئے،ایک کی نہیں سنی اب ہرایک کی جلی کٹی بھی سننی پڑرہی ہیں،ایک کی نہیں مانی اوراب زمانے بھرکی ماننی پڑرہی ہیں،اسی ایک در سے نہیں مانگااوراب ڈونرانٹرنیشنل کانفرنسوں میں جھولی پھیلائے کھڑے ہیں۔اس ایک شعائر کی توہین کی،اب ہرجگہ مردودہیں۔یہ سب کچھ کیادھراہمارااپناہے،اب تویہ فصل کاٹنی ہی پڑے گی،وہ ایک توہم پر ہمیشہ مہربان رہاتوقدرنہ کی لیکن ہم نے یاری لگائی عیاروں سے مکاروں سے۔بہت سناہوگاآپ نے،بے قدروں سے یاری لگاناایک نازک چوڑی کی طرح ہوتاہے جس کامقدربالآخران گنت ٹکڑوں کے سواکچھ نہیں لیکن نہیں مانے ہم۔اپنی تگڑم لڑائی،جی ہم توفلاں یونیورسٹی کے فاضل ہیں۔اب پتہ چلاوہ تو جہالت کاپروانہ تھاجسے ہم ڈگری سمجھ کرنہال ہوگئے تھے۔بس ایک درہے،وہی تھا،وہی رہے گا!بندہ کے دینے سے کبھی پیٹ نہیں بھرتااورپھر اس کے سامنے نگاہیں بھی نیچی رہتی ہیں ،لیکن وہ توبے حساب دیتاہے اورپھرطعنہ بھی کوئی نہیں لیکن اب کون سمجھائے ان کو!یہ تو پاکستان کے اعلیٰ مناصب پربیٹھ کر بھی اپنے آقاکونہیں پہچان سکے اورپھر……..وہی چال بے ڈھنگی جوپہلے تھی سواب بھی ہے۔دعاؤں کیلئے غربت کی لکیرسے نیچے کی آبادی جو موجودہ ے! نہ غربت ختم ہورہی ہے اورنہ ہی غریب،سکون قلب بھی غارت ہوگیاہے۔

سکونِ قلب اوراطمینان کیاہے؟یہ کیسے حاصل ہوتاہے؟کیایہ خواہشات کودل سے نکالنے کانام ہے یاخواہشات کے سیراب ہوجانے کا نام ہے؟اس کے حصول کیلئےکیسے اورکس طرح جدوجہدکرنی ہوگی؟پھراس جدوجہدکی کا میابی کے امکانات کس حدتک ہیں؟بھلایہ اس دنیامیں حاصل ہوتابھی ہے یامحض سراب ہی ہے؟یہ اورایسے ہی ڈھیروں سوالات دل میں پیداہوتے ہیں۔دماغ جدوجہدکرتاہے لیکن جواب کے حصول میں کامیاب نہیں ہوتا۔اگرہوجاتاہے تودل مطمئن نہیں ہوتااوراگردل ودماغ دونوں متفق ہوجاتے ہیں تواحساس کی دنیا اس کی سیرابی سے محروم رہتی ہے،کھوج،کرید،تجسس،سوال علم کی بنیادہیں ۔سوہم بھی اس سوال کولیکردربدرپھرے،سوجواب ملا:

سکون قلب کسی چیزکانام نہیں،یہ تواللہ کے فضل کوکہتے ہیں۔اللہ فضل کرے توآپ سکون ِقلب حاصل کرسکتے ہیں،محسوس کر سکتے ہیں۔اللہ کے فضل سے سیرابی اطمینان فراہم کرتی ہے لیکن اللہ کافضل توآج کل کسی اور ہی معنوں میں لیاجاتاہے وہ تومزید بے سکونی اوربے اطمینانی کاباعث بنتا ہے ۔کیاوہ؟نہیں وہ نہیں۔اللہ کے فضل اوراس کی نعمتوں کی گنتی ناممکن ہے لیکن انسان کی کوتاہ نظرجن چیزوں کواللہ کافضل سمجھتی ہے،اکٹھاکرتی ہے ان کوہی لے لیں۔ سکونِ قلب کے حصول کاسادہ ساطریقہ یہ ہے کہ اب انہیں تقسیم کرناشروع کریں مال کی صورت میں،اشیاءکی صورت میں،وقت کی صورت میں۔میٹھے بول کی صورت میں،پیاراور محبت کی صورت میں۔جس کوجس چیزکی ضرورت ہوفراہم کریں ورنہ فراہم کرنے کی کوشش کریں،تعاون کریں،اس کے مشکل وقت کو آسان بنائیں یابنانے کی کوشش پورے خلوص اوردردمندی کے ساتھ کریں اس کیلئےدعائیں کریں ۔

آپ کوسکون مل جائے گا،یہی اللہ کافضل ہے،اللہ کے فضل کی خواہش دل میں پیداہوجائے توانسان سکون حاصل کرلیتاہے،یہ وہ خواہش ہوتی ہے جودل کی باقی تمام خواہشات کواپنااسیرکرلیتی ہے،ان پرحاوی ہوجاتی ہے۔انجام کاریہ ہوتاہے کہ ساری تمنائیں اور خواہشات اسی ایک خواہش پرنثارہوجاتی ہیں۔یہ عشق کی راہ گزر ……..پھریوں بھی ہوتاہے کہ:عشق کی ایک ہی جست نے کردیا قصہ تمام۔

قصہ تمام توہوناہی ہے لیکن عشق کی یہ جست مٹی سے بنے خطاکے پتلے کوکہاں سے کہاں پہنچادیتی ہے۔دم توڑتاانسان بھی امیدپر زندہ رہتاہے،چاہے چند لمحات ہی کیوں نہ ہوں۔امیدایک روشن چراغ ہے،امید نشان راہ ہے،آس ہے،لاکھ بلائیں راہ روکے کھڑی ہوں، امیدسہارابن کرساتھ کھڑی رہتی ہے۔ آگے بڑھنے پراکساتی ہے امید،محبت،فاتح عالم ہے،دلوں کوتسخیرکرتی ہے محبت۔انسان ہارکر بھی خوش رہتاہے،ایثارسکھاتی ہے محبت۔قیام کرنا،ڈٹے رہنا سکھاتی ہے محبت۔جوامیدومحبت کاپیکرہوں،انہیں کون تسخیرکرسکتا ہے!وہ زیرہوکربھی سربلندرہتے ہیں،سرخروٹھہرتے ہیں،زندگی کاپیغام لاتے ہیں،زندگی پر اکساتے ہیں لیکن کیاوجہ ہے کہ اب امید بھی خشک ریت کی طرح مٹھی سے نکلتی محسوس ہورہی ہے جہاں اداروں کی بجائے افراداپنی پسنداور ناپسندپرفیصلے کریں،وہاں پرہرمسئلہ ایک مذاق یاایک معمہ بن کررہ جاتاہے۔

دنیاایک نئے روشن اورآزادمستقبل کی راہیں تلاش کررہی ہے مگرہم پراس قدرمظالم اورتمام ترتذلیل کے باوجودامریکاکے عشق یا مخالفت کاایسابھوت سوارہے کہ طاقت کے بل بوتے پراپنے نظریات کوپھیلانے کی راہ اختیارکرلی ہے اوربڑی بیدردی سے دن دیہاڑے بے گناہ اورمعصوم لوگوں کی جانیں لیکراپنی فتوحات کاعلم بلندکرتے ہوئے فخرمحسوس کررہے ہیں۔آخرکب تک؟تاریخ گواہ ہے کہ خون خرابہ ،جنگ وجدل سے کبھی کوئی مسئلہ حل نہیں ہوابلکہ بالآخر مسائل کاحل ہمیشہ میزپرباہمی گفتگواورروادی سے حاصل ہوا۔اب بھی وقت ہے کہ اپنے ربِ کائنات کی رضاوخوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایک دوسرے کوختم کرنے اورگلے کاٹنے کی رسم کوترک کرتے ہوئے ایک دوسرے کوگلے لگائیں سومیرے عزیزو:
اپنے مالک سے تعلق کی نئی راہیں بھی ڈھونڈ
صرف سجدوں ہی سے روشن اپنی پیشانی نہ کر

اپنا تبصرہ بھیجیں