دنیاکی سب سے بڑی سیکولراورجمہوریت کادعوی کرنے والی مودی حکومت کے بدنماچہرے پربلاشبہ پہلے ہی بہت سے انمٹ داغ موجودہیں لیکن انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ 25مارچ2022کوبی جے پی کے یوگی آدتیہ ناتھ کے بھارت کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کے وزیر اعلی کی حیثیت سے حلف اٹھاتے وقت ریاست کے تمام مندروں میں مسلسل دوگھنٹے تک گھنٹیاں بجانے کے عمل سے یہ پیغام دیاگیاکہ بھارت اب سیکولرنہیں بلکہ مکمل ہندو ریاست بننے جارہی ہے جس کیلئے مودی سرکارکی مکمل آشیرآبادبھی انہیں حاصل ہے۔یہ سارااہتمام بھارت میں بسنے والی تمام اقلیتوں کوخوفزدہ اوردھاک بٹھانے کیلئے یوگی آدتیہ ناتھ کے متعصب ہندو امیج کے اظہارکے طورپرکیاگیا۔
یوگی آدتیہ ناتھ کی کامیابی غیرمعمولی ہے۔وہ30 سال میں دوسرے وزیر اعلیِ ہے جس نےدوسری دفعہ یہ منصب سنبھالاہے۔کورونا وباس ے نمٹنے میں واضح مکمل ناکامی کے باوجود عوام نے اسے دوبارہ منتخب کیاہے۔عالمی ریکارڈکے مطابق کوروناسے مرنے والوں کی سب سے زیادہ تعداداترپردیش میں واقع ہوئی اور بعض مصدقہ اطلاعات کے مطابق بیشتراموات کی تورپورٹنگ ہی نہیں ہوئی کیونکہ دوردرازکے دیہاتوں میں میڈیاکے کسی بھی فردکومارے خوف کے کسی کو جانے کی ہمت بھی نہیں ہوئی تاہم دریائے گنگا میں بہتی لاشوں نے سارا بھانڈہ پھوڑ دیا۔ کورونا وباکے دوران ہسپتالوں میں مریض آکسیجن کیلئے ترستے ہوئے جان کی بازی ہار گئے اورظلم کی انتہاتو یہ تھی کہ بیشتر مرنے والوں کے عزیزوں نے ہسپتال سے اپنے پیاروں کی لاشیں وصول کرنے سے بھی انکار کر دیا جن کو بعد ازاں ٹھکانےلگانے کیلئے بیشترمسلمانوں نے آگے بڑھ کر رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کرکے ان متعصب ہندوں کو آئینہ دکھایا جس کے باوجود ان متعصب ہندووں کی ذہنیت نہیں بدل سکے۔
اترپردیش بھارت کی سب سے بڑی ریاست ہے جس کی آبادی20کروڑسے زائدہے۔بھارتی پارلیمان کی543نشستوں میں اترپردیش کا 80فیصدحصہ ہے۔ 2017میں اترپردیش کے انتخابات میں بی جے پی کی شاندارکامیابی کے بعدیوگی آدتیہ ناتھ کووزیراعلی کی حیثیت سے منتخب کیاگیاتھا،تب بھی سیاسی مبصرین کوبڑی حیرت ہوئی تھی کیونکہ یوگی آدتیہ ناتھ ایک مذہبی ہندوتنظیم کے نہ صرف سربراہ بلکہ ان پرمسلمانوں کومسلسل ہراساں کرنے کے درجن سے زیادہ الزامات بھی تھے۔متعصب اوربدزبان یوگی آدتیہ ناتھ ہمیشہ اپنی تقاریرمیں مسلمانوں کودوٹانگوں والاجانورکہہ کرمخاطب کرتااورمسلمانوں کی آبادی کوروکنے کیلئے جبری قانون اورہتھکنڈوں کا برملامطالبے کرتاتھاجبکہ یہ بات اس کی پارٹی بی جے پی کی پالیسی سے ہٹ کرتھی جواس وقت معاشی ترقی کی بات کررہی تھی لیکن بعدمیں معلوم ہواکہ یوگی آدتیہ ناتھ مکارچانکیہ کیسیاسی اصولوں پرعمل کرتے ہوئے اپنی ہی پارٹی کے مرکزی حکومت کے ایجنڈے اور مودی کی عین سوچ کے مطابق کررہے تھے۔
2019میں بی جے پی کی مرکزی حکومت نے شہریت کاایساقانون منظورکیاتھاجس کے تحت مسلمانوں اورمسیحیوں کوبھارتی مذاہب(ہندو،سکھ اوربدھ ازم) کے پیروں سے الگ رکھ کردیکھاگیا۔اس قانون کے تحت لاکھوں افرادکوبھارتی شہریت کے قانون سے محروم کرنے کی تیاری کی گئی جس کے خلاف ملک گیر احتجاج کیاگیا۔اترپردیش حکومت نے اس حوالے سے کئے جاانیوالے احتجاج کا سفاکانہ جواب دیتے ہوئے مظاہرین کی املاک ضبط کرنے کی وسیع کاروائیاں شروع کردیں جس کوبعدازاں بھارتی سپریم کورٹ نے ایساکرنے پرپابندی عائدکردی۔
جب سے مودی نے اقتدارسنبھالاہے،بھارت بھرمیں مسلمانوں کی جان وآبروپرسفاکانہ حملے بڑھ گئے ہیں۔حال ہی میں ایک ہندوتہوار کے موقع پرتصادم کے نتیجے میں صورتحال مزیدنازک ہوگئی ہے اوراترپردیش میں توصورتحال خطرناک حدتک بگڑچکی ہے کیونکہ وہاں شرپسندوں کویوگی آدتیہ ناتھ کی کھلی آشیربادحاصل ہے اوراس مکارشخص نے امن کے نام پرایک ایسی مہم شروع کر رکھی ہے جس کابنیادی مقصدہی مسلمانوں کوقتل کرناہے تاکہ انہیں خوفزدہ کرکے مذہب تبدیل کرنے پرمجبور کیا جا سکے یا ملک چھوڑنے پر مجبور کیا جا سکے۔یہ کمبخت متعصب یوگی اپنی ریاست میں برما کی طرز پرمسلم کش کاروائیوں پریقین رکھتاہے
خودبہت سے ہندوتجزیہ نگاروں کے مطابق کوروناوباکے دوران غریبوں میں خوراک اورنقدامدادتقسیم کرنے کی پالیسی نے یوگی کودوبارہ وزیراعلی بنانے میں کلیدی کرداراداکیاہے۔یہ تجزیہ ایسانہیں کہ آسانی سے ہضم ہوجائے۔اترپردیش کے بہت سے اور بالخصوص دورافتادہ علاقوں میں کورونالاک ڈان کے دوران صورتحال بہت خراب رہی۔اترپردیش میں بی جے پی کی فتح دراصل بہت سے دوسرے عوامل کانتیجہ ہے۔مودی کوپہلی باراقتدار2014میں ملا۔بی جے پی نے بعض ایسی ریاستوں میں کامیابی حاصل کی جہاں اس کی کامیابی کاامکان نہیں تھا۔پھر2019 کے عام انتخابات میں بھی بی جے پی پھرابھرکر سامنے آئی۔اس کے نتیجے میں ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات میں بھی بی جے پی کی فتح کی راہ مزید ہموار ہو گئی۔فروری اور مارچ2022 میں 6ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے جن میں5 میں بی جے پی کامیاب رہی۔
بی جے پی کی کامیابی کارازمعیشت سے کہیں ہٹ کروسیع تراورتاریک ترہے۔برسوں تک ہندوانتہا پسندوں نے ملک کے مختلف حصوں میں ایک منظم اور مربوط سیاسی ایجنڈے کے تحت کام کیاہے تاکہ بھرپور اجتماعی نتائج یقینی بنائے جا سکیں۔اعلی ذات کے ہندو سیاسی حفظِ مراتب میں سب سے اوپرہیں اور بی جے پی انہیں خوش کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔بی جے پی نے اسلامو فوبیا کو بخوبی استعمال کرتے ہوئے بھارت کے 96کروڑ ہندووں کومسلمانوں سے مزید متنفر کرنے اور انہیں خوف کی نظرسے دیکھنے پر مائل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔دوسری طرف ملک کے20کروڑ مسلمانوں پرعرصہ حیات تنگ کرنے میں کوئی کسراٹھا نہیں رکھی گئی۔
اس صورتحال نے بھارتی معاشرے کو مزید تقسیم کی طرف دھکیل دیاہے۔جن ریاستوں میں ہندو فیصلہ کن تعداد میں نہیں، وہاں بے چینی بڑھی ہے۔ کشمیر اوردیگرسرحدی ریاستوں میں مسلمانوں کے جذبات زیادہ مجروح ہوئے ہیں۔بی جے پی کی سیاسی قیادت میں اضافے سے ایک طرف مسلمانوں کو دبوچنے کے عمل میں شدت آئے گی اورجن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت نہیں بنائی جاسکی وہاں معاملات زیادہ سختی سے نمٹاجائے گا۔1925میں شمالی بھارت کے ڈاکٹرکیشوبلی رام ہیگیوڑنے انتہائی دائیں بازوکی عسکریت پسندرحجانات کی حامل،تنظیم راشٹریہ سویم سنگھ(آرایس ایس)کی بنیادرکھی۔اس تنظیم کے قیام کا بنیادی مقصدملک بھرمیں ہندوازم کوایک منظم مذہب کی شکل دیناتھا۔آرایس ایس کی بنیادرکھنے والوں نے یورپ کے فاشسٹ حکمرانوں سے تحریک پائی تھی ۔اس تنظیم نے ابتداہی سے مسلمانوں اورمسیحیوں کو شک اورنفرت کی نگاہ سے دیکھاہے۔1940 سے1973 تک آرایس ایس کو چلانے والے مادھوسدا شیو گولکرنے مسلمانوں سے نمٹنے کے معاملے میں جرمن ڈکٹیٹراڈولف ہٹلرکا”آخری حل”کاطریقہ استعمال کرنے کی ترغیب دی،یعنی جس طرح ہٹلرنے یہودیوں کاقتلِ عام کیاتھا،اسی طرح مسلمانوں کوبھی تہہ تیغ کیاجائے۔
1948ءمیں جب آرایس ایس کے سرگرم کارکن نتھورام گوڈسے نے بھارت کے سب سے قدآورباپوکرم موہن داس کرم چندگاندھی کوقتل کردیا، تو حکومت نے اس تنظیم پرکچھ مدت کیلئے پابندی عائدکی۔بعدزاں جب اس تنظیم کے قائدین نے مسلمانوں کوہراساں کرنے کے محتاط طریقے اپنائے تب اس تنظیم کی مقبولیت میں غیرمعمولی طورپراضافہ ہوا۔1980میں آرایس ایس نے سیاسی عزائم کی تکمیل میں بی جے پی کی بنیادرکھی۔1983میں ایودھیا (اترپردیش)میں واقع بابری مسجدکوختم کرنے کی تحریک شروع کی گئی۔بابری مسجدکوختم کرکے وہاں رام جنم بھومی مندرکی تعمیرکے نام پربی جے پی نے غیر معمولی سیاسی کامیابی حاصل کی اوراقتدارتک پہنچنے میں کامیاب رہی۔بی جے پی نے پہلی بار1991 میں اترپردیش اسمبلی کاالیکشن جیتا۔صرف ایک سال بعد پارٹی کی قیادت اورپولیس نے ساتھ ساتھ کھڑے ہوکربابری مسجدکے انہدام کانقشہ دیکھا۔ہندوانتہا کوروکنے کیبرائے نام بھی کوشش نہ کی گویامقامی پولیس بی جے پی کے تمام غنڈوں کوبابری مسجدکوغیرقانونی طورپرمنہدم کرنے کاتماشہ دیکھتی رہی جس کی قیادت بی جے پی کی متعصب قائدین نے کی۔
بھارت میں(مذہبی قائدین)،شتریہ(جنگجو)اورویشیہ(تاجر)تینوں اعلی ذاتیں کہلاتی ہیں۔ان تینوں زاتوں سے تعلق رکھنے والے ہندوں کی مجموعی تعدادکا محض 15فیصدہے مگرپھربھی یہ تمام معاملات پرمتصرف ہیں۔بی جے پی نے ان تینوں اعلی ذاتوں کی حمائت حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔مسلمانوں اور دیگراقلیتوں کے خلاف غیرمعمولی مخاصمانہ رویہ رکھے جانے پربھی بی جے پی کی مقبولیت ان تینوں ذاتوں سے تعلق رکھنے والوں میں کم نہیں ہوئی۔بی جے پی کاایجنڈہ تینوں اعلی ذات والوں کیلئے انتہائی پرکشش تھا کیونکہ یہ تینوں بھی ہندوازم کی برتری ہی کوبنیادی ایجنڈہ بنایاتھا۔ملک بھرکے مالیاتی اورعلمی مآخذپر تینوں اعلی ذاتوں کاتصرف ہے۔بی جے پی کے ساتھ مل کرکام کرناان تینوں کیلئیبالکل فائدے کاسودہ تھا۔تینوں اعلی ذاتوں کوبی جے پی اس لئے بھی پسند آئی کہ نچلی ذات کے ہندوں کی بھرپوحمائت کی مددسے بڑھ چڑھ کرکام کرنے والی متعددسیاسی جماعتوں کیلئیبی جے پی ایک بڑی رکاوٹبں کرنمودارہوئی تھی۔
آرایس ایس نے نچلی ذات کے ہندوں میں مقبولیت بڑھانے میں توجہ دی۔وہ اس بڑے ووٹ بینک کوکسی بھی حال میں نظراندازنہیں کرسکتی تھی۔ بہت سے جماعتیں اورگروپ نچلی ذات کے ہندوں”دلتوں”کواپنے ساتھ رکھنے میں کامیاب رہے تھے۔یہ بات آرایس ایس سے ہضم نہ ہوپائی،بی جے پی کسی نہ کسی طورنچلی ذات کے ہندووں میں بھی جگہ بنانے میں کامیاب رہی ہے۔بھارت میں جولوگ براہمنی ہندوازم سے باہرہیں،وہ بھی بی جے پی کے دائرے میں رہناپسندکرتے ہیں۔بھارت بھرمیں”آدی واسی”(قدیم،قبائلی باشندے) 75کروڑہیں۔ یہ لوگ بنیادی طورپرہندوازم کے دائریسے باہرہیں مگربی جے پی ان میں جڑیں گہری کرنے میں کامیاب رہی ہے۔اس کاسہرا آر ایس ایس کے سرہ ے جس نے ملک بھر کے”آدی واسی”علاقوں میں اسکول کھولے ہیں اورجہاں تک ہندوازم کی بات نہیں گئی تھی وہاں تک پہنچائی۔”آدی واسیوں”کے دیوی دیوتابالکل الگ ہیں مگرآرایس ایس نیان دیوی اوردیوتاوں کو ہندوازم کے دائرے میں لانے اورہندودیومالاکاحصہ بنانےمیں گہری دلچسپی لی ہے۔آرایس ایس”ادی واسیوں” کواس نام سے پکارنے سے گریزکرتاہے اورانہیں “ون واسی” (جنگل کے باشندے)کہنے کے ساتھ ساتھ پورے زورشورسے یہ دعوی بھی کرتاہے کہ بھارت کے اولین باشندے ہندوتھے۔
آج آرایس ایس کے ارکان کی تعدادلاکھوں میں ہے اوریہ دنیاکی سب سے بڑی غیر سرکاری تنظیم ہے اوراس کی طاقت سے انکارنہیں کیاجاسکا۔ مزدور انجمنوں سمیت بہت سی تنظیموں،تحریکوں اورمہمات میں آرایس ایس گھسی اورگندھی ہوئی ہے۔آرایس ایس کے طلبا اساتذہ،خواتین اوروکلاونگ بھی ہیں ۔ آج بی جے پی کی سالانہ آمدن اس کی سب سے بڑی حریف جماعت کی سالانہ آمدن سے پانچ گنا ہے اورمیڈیامیں بھی اس کی جڑیں بڑی گہری ہیں۔یہ بات حیرت انگیزنہیں کیونکہ پریس والوں پراعلی ذات والوں کا تصرف ہے اوربی جے پی کاایجنڈہ اعلی ذات کے ہندوں کیلئے زیادہ موزوں ہے۔
اتنی مدت گزرجانے پربھی آرایس ایس کانظریہ نہیں بدلا۔وہ اب بھی اس نکتے پرزوردیتی ہے کہ بھارتی سرزمین پربسنے والوں کوماننا چاہئے کہ یہ محض مادرِ وطن نہیں بلکہ مقدس ترین سرزمین ہے اوریہ کہ مسلمان اورمسیحی مختلف لوگ ہیں جن کی مقدس سرزمین کہیں اورہے۔آرایس ایس پرملک کے مختلف حصوں میں مسلمانوں اورمسیحیوں پرحملوں کاالزام لگایا جاتا رہاہے ۔2002میں آرایس ایس نے گجرات میں مسلمانوں کاقتل عام کیا،تب مودی گجرات کے وزیراعلی تھے۔المیہ یہ ہے کہ تشدداورقتلِ عام نےآرایس ایس اوربی جے پی دونوں ہی کومزیدمضبوط بنایاہے۔گجرات کے مسلم کش فسادات کی لہرپرسوارہوکرمودی نے بھرپورانتخابی کامیابی حاصل کی۔بے شرمی وربے غیرتی کی حدیہ ہے کہ گجرات کے مسلم کش فسادات میں متاثرہونے والے مسلمانوں کیلئے لگائے گئے ریلیف کیمپوں کومودی نے بچے پیداکرنے والے فیکٹریاں قراردیا!بعدمیں انہوں نے مرکزمیں دوبارہ انتخابات بنگلہ دیش سے مسلمانوں کی دراندازی کاہوا کھڑا کرکے جیتے۔
مودی نے اترپردیش میں دوبارہ الیکشن جیتنے کیلئے یوگی آدتیہ ناتھ ہی کو چنا جس نے80فیصد (ہندو) بمقابلہ 20فیصد(مسلمان) کانعرہ لگایا ۔ یہی نعرہ مرکز میں بھی کام آسکتاہے۔ملک بھرمیں کم و بیش یہی توصورتحال ہے یعنی ہندو 80فیصد ہیں۔یوں معاشرے کو مذہب کی بنیاد پر مزیدتقسیم کرکے انتخابی فتح یقینی بنانا انتخابی فتح یقینی بنانا کچھ دشوار نہیں۔بات سیدھی سی ہے،بی جے پی کیلئے یہ بتانابڑا مشکل ہے کہ مودی اورآدتیہ ناتھ اب تک اقتدارمیں کیوں ہیں ۔ان کے پاس مسلم دشمنی کے سواکوئی آپشن ہے ہی نہیں۔اس حقیقت سے بھی کوئی انکارنہیں کرسکتاکہ جب سے مودی کواقتدارملاہے،بھارتی معیشت کے فروغ پانے کی رفتارسست ہوئی ہے اورعالمی برادری میں بھارت کونظریات اورتہذیب کے محاذپربھی خسارے کاسامنارہاہے۔
ادھرچین نے بھارت کوسرحدوں پردبوچنے کاعمل جاری رکھاہواہے۔بھارت کامداراب تک روس کے ایسے اسلحے پرہے جوازکاررفتہ ہے۔مودی دعوی ٰ تو بہت کرتے ہیں کہ بھارت کوخودانحصاری والاملک ہوناچاہئے مگریہ بات کہنے کی حدتک توبہت پرکشش ہے۔ یوکرین کے معاملے میں بھارت کی دوغلی پالیسی بری طرح کمزورہی نہیں بلکہ ناکام ہوچکی ہے۔مودی عالمی برادری کویہ یقین دلانے میں بری طرح پِٹ گئے ہیں کہ وہ یوکرین کے ساتھ روس کے مقابل ہے۔ مودی کی طرح آدتیہ بھی اپنے حصے کاکام کرنے میں ناکام رہاہے۔اس نے کوروناوباکے دوران معاملات کوبھونڈے طریقے سے چلایااورمعیشتی نموکے حوالے سے بھی وہ کمزوررہے ہیں۔
خیرمودی اور آدتیہ ناتھ کے دیوانوں کیلئے یہ تمام ایشوبے معنی ہیں۔آرایس ایس جو کچھ چاہتی تھی وہ تو حقیقت کا روپ دھار چکاہ ے۔تین سال بعدوہ اپنے قیام کی سوویں سالگرہ منائیں گے اور بھارت کو ہندو ریاست بنانے ک خواب بڑی حدتک شرمندہ تعبیرہوچکاہے۔مودی نے کشمیرکو دبوچنے کاعمل نہ صرف ترک نہیں کیا بلکہ وہاں مسلم آبادی کے تناسب کوتبدیل کرنے کیلئے تمام وسائل بروئے کارلارہا ہے۔شہریت کے متنازع قانون کے ذریعے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں غیر ہندوؤں کو بھارتی شہریت سے محروم کرنے کی تیاری کر چکاہے اوراترپردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ مسلمانوں کے قتل کی راہ پرگامزن ہے۔اب سوال یہ ہے کہ کیاآرایس ایس اوربی جے پی کواس فاشسٹ عمل کوروکاجاسکتاہے؟اس میں کوئی شک نہیں کہ بی جے پی نے ریاستی اسمبلیوں کے حالیہ انتخابات میں پانچ ریاستوںمیں بھرپورکامیابی حاصل کی مگریہ نکتہ بھی ذہن نشیں رہے کہ پنجاب میں اسے بھرپورناکامی کا منہ دیکھناپڑاہے۔وہاں وہ117میں بڑی مشکل سے صرف2نشستیں لینے میں کامیاب ہوئی۔
پنجاب میں60فیصدسے زائد بادی سکھوں کی ہے جن کیلے خالص ہندوریاست کسی بھی صورت نہ تو پرکشش ہے اورنہ ہی انہیں قبول ہوگا۔انتہائی جنوبی ریاست کیرالامیں بھی آر ایس ایس اوربی جے پی کوناکامی کامنہ دیکھناپڑاہے،وہاں مسلمان، عیسائی اور ہندومساوی تعداد میں ہیں۔اس ریاست میں ہندواپنے آپ کو واضح طور پر ایک الگ ثقافتی شناخت کے آئینے میں دیکھتے ہیں اورمذہبی طورپروہاں کے ہندوؤں کے جودیوتاہیں،وہ آرایس ایس اوربی جے پی کے دیوتاؤں کے شیاطین گنے جاتے ہیں اورکیرالہ کے ہندوؤں کے نزدیک آرایس ایس کے دیوتاشیاطین مانے جاتے ہیں۔یقیناً یہ دونوں بت پرست ہندوؤں میں یہ ایک بہت بڑی خلیج ہے جوخودآرایس ایس،بی جے پی،مودی اورآدتیہ ناتھ کے بھارت کومکمل پندوریاست بنانے کے خواب چکناچورکردیں گے اوراس معاملے پرخودہندوؤں کے ان گروہوں میں خونی مڈبھیڑہوسکتی ہے،ہمارے لئے یہ بالکل حیرت کی بات نہیں کیونکہ ایسے اختلافات پرہندوؤں کے مابین جنگوں کی تاریخ بڑی ہولناک ہے۔
یہی معاملہ تامل ناڈوکابھی ہے۔وہاں ہندوواضح طورپراکثریت میں ہیں مگران کی اپنی ثقافتی شناخت ہے اوروہ بھی آرایس ایس اوربی جے پی کی پیش کردہ شناخت سے یکسرمختلف ہے۔تامل ناڈومیں بھی بی جے پی اپنے قدم جمانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے اوروہاں مسیحی آبادی کی اکثریت کی جڑیں نہ صرف بڑی گہری بلکہ بڑی مضبوط ہیں اوربیرون ملک عیسائی اکثریت ممالک کے ساتھ ان کے گہرے روابط ہیں جویقیناًایسے مشکل حالات میں اپنے ہم مذہب آبادی کومکمل ہندو ریاست میں ضم کرنے کے کسی بھی عمل کی بھرپومزاحمت کریں گے اوریہ بھی عین ممکن ہے کہ یہ خطہ ایسی نہ ختم ہونے والی خانہ جنگی میں مبتلاہوجائے جس کیلئے خودبھارت نے تامل آبادی کوکئی سال تک سری لنکاکے ساتھ جنگ میں الجھائے رکھا۔اس جنگ میں ان متعصب ہندوؤں کی یہی خواہش تھی کہ چانکیہ سیاست پرعمل کرتے ہوئے ان دونوں گروہوں کے مابین جاری جنگ پرتیل چھڑکنے کاکام کرتے ہوئے جہاں سری لنکاکواپنی طفیلی ریاست بنانے کیلئے دباؤجاری رکھاجائے اوردوسری طرف اپنے دشمن چین کااس خطے میں داخلہ ناممکن بنادیاجائے جبکہ مودی جنتاکایہ ساراپلان بری طرح نہ صرف فلاپ ہوابلکہ سری لنکاکی خواہش پرپاک فوج کے بہادردستوں نے اس تامل جنگ کامکمل طورپرصفایاکردیااورسری لنکانے چین کے ساتھ اپنے تجارتی وعسکری تعلقات کوبڑھاتے ہوئے اپنی بندرگاہوں کوایک لمبی لیزپرچین کے حوالے بھی کردیاجہاں سے چین کی تجارتی تعلقات نیپال،مالدیپ اوربرماتک اس قدر مضبوط ہوگئے ہیں کہ کسی زمانے میں بھارت کی یہ طفیلی ریاستیں اب آزادانہ طورپراپنے اپنے ملکوں کے امورچلا رہے ہیں جس نے آرایس ایس اوربی جے پی کے مکمل بحر ہند پر حکمرانی اوراکھنڈبھارت کے خواب کے پرخچے اڑادیئے ہیں۔
خیرکیرالااورتامل ناڈوسرحدی یاکنارے کی ریاستیں ہیں۔باقی پورے ملک میںبی جے پی واضح طورپراقتدارمیں ہیں یاپھراقتدارسے بہت نزدیک۔مارچ 2021ء میں بی جے پی نے مغربی بنگال کی اسمبلی کے انتخابات میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔یہ ریاست مجموعی طورپرسیکولررہی ہے اوریہاں مسلمانوں کی تعداد30 فیصدہے۔اس سے قبل بی جے پی مغربی بنگال کی294رکنی اسمبلی میںصرف تین نشستیں حاصل کرسکی تھی۔اسے4ئ11فیصدسے زائدووٹ نہیں مل سکے۔2021ء میں بی جے پی نے77نشستیں جیتیں اوراس کے حاصل کردہ ووٹ38فیصدتھے۔اس حقیقت سے کوئی انکارنہیں کیاجاسکتاکہ اس وقت بی جے پی کی سیاسی قوت بہت زیادہ ہے اورمودی نے کمال مکاری کے ساتھ بھارتی میڈیاکواپنازرخریدغلام بنانے کیلئے اربوں روپے ان میں تقسیم کرکے دن رات اپنی تعریف اورپروپیگنڈے کیلئے استعمال کرناشروع کردیاہے جس سے اصل حقیقت قوم کی آنکھوں سے اوجھل رکھنے میں فی الحال تو کامیاب دکھائی دیتے ہیں لیکن یہ کاٹھ کی ہنڈیاجلدبیچ چوراہے میں پھوٹنے جارہی ہے تاہم اس وقت کوئی دوسری سیاسی جماعت اسے چیلنج کرنے کی طاقت نہیں رکھتی۔
سیکولراورجمہوریت کے چیمپئن کادعویٰ کرنے والے بھارت میں اس وقت کوئی بھی سیاسی جماعت ہندوقوم پرستی کی بات کئے بغیرووٹ حاصل کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی ۔آرایس ایس ابھی تک اپنے ہندوقوم پرستی کے نظریے پرکاربندہوتے ہوئے بھارت کوخالص ہندوریاست بنانے پرتلی ہوئی ہے لیکن اس وقت بھارت میں40کروڑافرادایسے ہیں جو آر ایس ایس اوربی جے پی کاہندوبرانڈقبول نہیں کرتے،ان کی طرف سے شدیدمزاحمت کاسامناہوسکتاہے جس کے جواب میں آرایس ایس مسلمانوں اورعیسائیوں کوہرصورت دیوارسے لگانے کیلئے اپنے خونی ہتھکنڈے استعمال کرنے سے گریزنہیں کرے گی اورایسا ہونے میں خانہ جنگی کاقوی امکان ہے۔بی جے پی ملک میں اسلامی انتہا پسندی کاڈھول پیٹ کراپنے عوام کوخوفزدہ کرکے ووٹ حاصل کرتی ہے اوریہ عمل فی الحال رکتادکھائی نہیں دیتا۔یقینی طورپریہ کہاجاسکتا ہے کہ جس طرح انہوں نے دلتوں کی بڑی تعدادکوہندوازم میں داخل کرنے میں کافی کامیابی حاصل کرلی ہے،یہی حربہ مسلمانوں پراستعمال کیاجائے گاجس کیلئے انہوں نے ابھی سے”نئے اچھوت”پیداکردیئے ہیں جومسلمان ہیں۔جب مسلمانوں کے خلاف تعصب انتہاء کوپہنچے گاتویقینًاسوویت یونین کی طرح بھارت کے بطن سے بھی کئی دیگرریاستیں جنم لیں گی۔ان شاءاللہ